
آرزوئے سحر…… RSS occupied state of India…. تحریر: انشال راؤ
کسی بھی خطہ میں بیک وقت بہت سے مذاہب ممکن ہیں مگر نظام دو نہیں ہوسکتے اس ضمن میں ایک امکانی صورت ہوسکتی ہے کہ ایک نظام غالب ہو اسی کا سکّہ چلیگا اور دوسرا نظام سکڑ کر اس کے تابع زندگی گزارنے پہ آمادہ ہوجائے لیکن اگر دوسرا نظام اس کے تابع آسانی سے نہ آئے تو شدید تصادم و تباہی کی راہیں کھلتی ہیں بالکل ایسا ہی نقشہ بھارت کی ابتک کی تاریخ کا بنتا ہے، برطانیہ سے آزادی کے بعد گاندھی و نہرو نے بھارت کو سیکیولر ریاست ہونے کا اعلان کیا تو RSS کے ہندوتوا پیرووں نے اسے تسلیم نہ کیا انہوں نے گاندھی پر الزام لگایا کہ وہ بھارت ماتا کی تقسیم کے ذمیدار ہیں اور ایک ہندوتوا رکن ناتھو رام گاڈسے نے گاندھی کو قتل کردیا اس کے علاوہ ہندوتوا دہشتگردوں کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوے نہرو نے کہا کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ بھارت کو خطرہ مارکسی کمیونسٹوں سے ہے لیکن اصل خطرہ جنونی ہندو یعنی ہندوتوا کے پیروکاروں سے ہے انہوں نے مزید کہا کہ انہیں کنٹرول کرنا ہوگا ورنہ یہ بھارت کو لے ڈوبیں گے، ہندوتوا درحقیقت نہ کسی جمہوریت کو مانتے ہیں نہ ہی کسی آئین کو، حتیٰ کہ ترنگے تک کو تسلیم نہیں کرتے آزادی کے بعد جب بھارت نے قومی جھنڈے کا اعلان کیا تو گولولکر نے ایک مضمون “پتن ہی پتن” (زوال ہی زوال) میں بھارتی ترنگے کو اپنانے سے انکار کرتے ہوے لکھا “کسیریا (جوگیہ) جھنڈا ہی ہماری تہذیب کی علامت ہے اور بھگوان کی طرح ہے جو پوجنے لائق ہے ہمیں کامل یقین ہے ایک وقت پہ سارا ملک کسیریا جھنڈے کے سامنے جھکے گا اور یہ نیا جھنڈا تباہی کی طرف بہنے اور نقلچی پن کی علامت ہے”، پابندی کے بعد بھی آر ایس ایس نے اپنا کام جاری رکھا اور بھارتی نظام کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال میں لانا شروع کرتے ہوے بھارت پر قابض ہونے کے لیے بھارتیہ جن سنگھ کی بنیاد رکھی جو 1980 میں کچھ دیگر سنگھ پریوار تنظیموں کے مجموعے کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے سامنے آئی، ہندوتوا کے ماننے والوں نے کبھی بھارتی آئین کو تسلیم نہیں کیا جس کا ثبوت انکے عہد (پرتکیا) اور دعا (پرارتھنا) ہیں، واجپائی سے ایڈوانی، مودی سے امیت شاہ اور ایک ایک ہندوتوا ورکر بجائے بھارتی آئین کو محفوظ بنانے کے اس عہد کا حلف لیتے ہیں “قادر کل خدا اور اپنے آباءاجداد کی یادآوری کرکے میں عہد کرتا ہوں کہ اپنے پاک ہندو مذہب، ہندو تہذیب اور ہندو معاشرے کی حفاظت کرکے ہندو راشٹر کی ہمہ گیر ترقی کے لیے ہی RSS کا جُز بنا ہوں، تنظیم کا کام میں معتبر ہوکر بےغرضی اور عقل کے ساتھ تن من دھن سے کرونگا اور اس عہد کی ہی تاحیات تعمیل کرونگا، بھارت ماتا کی جے”، ہندوستانی آئین کے بارے میں گولولکر کے خیالات یہ تھے “ہمارا ملکی آئین مغربی دفعات اور بےمیل عناصر کا مجموعہ ہے اس میں ایسا کچھ نہیں جسے ہم اپنا کہہ سکیں، اس کے رہنما اصولوں میں ایک بھی لفظ ایسا نہیں جو ہمارے ملکی نصب العین اور زندگی کے مقصد کا تعین کرے” ایسے میں تمام RSS ورکرز بشمول نریندر مودی، امیت شاہ و دیگر BJP رہنما یہ وضاحت کرینگے کہ آیا وہ ہندوستانی آئین سے وفادار ہیں یا ہندو راشٹر بنانے والی سوچ لیکر بھارت کو نیست و نابود کرنے میں محو ہیں ویسے مودی و امیت شاہ کے بیانات اور موجودہ حکومت کے کردار سے تو واضح ہے کہ وہ RSS ہی کے نظریہ کے تحت سیکیولر بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کی راہ پہ ہیں، بھارتی وزیر برائے مذہبی امور و دیگر اس بات کا اعلانیہ اظہار کرچکے ہیں کہ دسمبر 2021 تک وہ بھارت سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ختم کرکے رہینگے چاہے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے، اگر موجودہ بھارت کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ اظہر من الشّمس ہے کہ موجودہ بھارت مکمل طور پر RSS کے ہاتھوں مقبوضہ ہے خواہ تعلیم ہو یا تجارت، حکومت میں ہوں یا باہر، میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا تک، سیکیورٹی فورسز سے لیکر عدلیہ تک ہر جگہ ہندوتوا ہندوتوا ہے اور اگر کوئی اس سے ایک انچ بھی ہٹے تو اس کا انجام سابق وزیرداخلہ چدم برم جیسا ہوگا یا پھر بہار کے ان پچاس دانشوروں جیسا جنہوں نے مودی کو خط لکھ کر Mob Lynching اور بے لگام ہندوتوا جنونیت پر تشویش کا اظہار کیا تھا ان کے خلاف بھارتی سرکار نے غداری کا مقدمہ درج کردیا، بھارت میں RSS کی شاخ BJP حکومت ہندوتوا دہشتگردی کی نہ صرف پشت پناہی کررہی ہے بلکہ فروغ بھی دے رہی ہے اس ضمن میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما برنداکرات کا کہنا ہے کہ BJP ہندوتوا دہشتگردوں کی سرپرستی کررہی ہے جسکی بنا پر پولیس و عدلیہ بجائے انکے خلاف کاروائی کرنے کے الٹا متاثرین کیخلاف کاروائی کرتی ہے، سابق ڈی جی پولیس سکسینہ اپنی کتاب میں اس کی تائید کرچکے ہیں کہ “دہشتگردی کافی حد تک سرکاری شعبے کا کام کررہی ہے” یعنی کہ موجودہ ہندوتوا دہشتگردی کو ریاستی پالیسی کے ساتھ ساتھ ریاست کے شعبے کا درجہ حاصل ہے، دہشتگرد تنظیم RSS کی BJP سے نسبت سابق وزیراعظم واجپائی اور ایل کے ایڈوانی کے اس موقف سے لگایا جاسکتا ہے کہ “BJP کے لیے RSS کی حیثیت وہی ہے جو نہرو کے لیے گاندھی کی تھی” اس کے علاوہ مودی کی وزراء کو یہ ہدایت کے وہ اپنی کارکردگی موہن بھاگوت کے سامنے پیش کریں اور اسی کو جوابدہ ہیں، اس کے علاوہ بھارتی یوم آزادی پر مودی کی تقریر جس میں ایک قوم ایک ترنگا ایک رہنما اور ایک ووٹنگ کے عزم کا اعلان بھی RSS ہی کا سب سے اہم مقصد ہے الغرض کہ اس وقت بھارت مکمل طور پر مقبوضہ بھارت بن چکا ہے، آر ایس ایس سرپرست موہن بھاگوت نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ “ہندوستان ایک ہندو راشٹر ہے، ہمیں زندگی کی یہ حقیقت وراثت میں ملی ہے جسے ہم تبدیل نہیں ہونے دینگے” ان کا اشارہ واضح طور پر سیکیولر بھارت کو ختم کردینے کی طرف تھا اور BJP رہنما RSS کو ناف نلی قرار دیتے ہیں جیسے بچے کو ماں کے پیٹ میں ان زریعوں سے غذا ملتی ہے ویسے ہی RSS سے ہی BJP کا وجود قائم ہے، RSS کے عزائم و نظریات سے دنیا واقف ہے BJP کی 1984 میں لوک سبھا میں 2 سیٹ تھیں جو 1991 میں 117 ہوگئیں بابری مسجد کو بنیاد بناکر BJP نے فسادات کروائے جس سے ہندوتوا جنونیت کے لیے راہ ہموار ہوئی، 1998 میں BJP سرکار بنی تو بھارت میں فسادات کو سرکاری سرپرستی میں جگہ ملی نریندر مودی کی سرپرستی میں 2002 کے گجرات مسلم کُش فسادات کے بعد بھارتی نامور صحافی و سابق پارلیمینٹیرین خوش ونت سنگھ نے کہا کہ بھارت میں سیکیولرزم دم توڑ رہا ہے اور ہندوتوا پرچارک گروہوں کو سیکیولرزم و بھارتی وجود اور معاشرے کے لیے خطرہ قرار دیا جو BJP کی حکومت آنے کے بعد حقیقت بن کر سامنے آگیا ہے، جیسا کہ RSS جمہوریت و جمہوری طریقوں سے نفرت کرتی ہے اور نازی ازم و فاشسٹ نظریات پہ یقین رکھتی ہے جسکا اعلان مودی یوم آزادی پہ بھی کرچکے جسکا زکر اوپر آچکا ہے لہٰذا اب بھارت نہ تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے نہ ہی سیکیولر ریاست بلکہ اب RSS Occupied State Of India آر ایس ایس مقبوضہ بھارت میں تبدیل ہوگیا ہے جہاں انسانیت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔