Chitral Times

مہنگائی کی ساتویں لہر ۔ محمد شریف شکیب

Posted on

سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کی جانب سے جولائی کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت میں ایک روپے 47پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست دائر کردی گئی۔ نیپرا یکم ستمبر کو سماعت کرے گا۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ جولائی میں مجموعی طور پر 15 ارب 21کروڑ یونٹس بجلی پیدا کی گئی، ہائیڈل سے 29.94فیصد، کوئلے سے 15.29 فیصد، مہنگے فرنس آئل سے 10.28 فیصد، مقامی گیس سے 8.68، درآمدی ایل این جی سے 20.01 فیصد اور ایٹمی پلانٹ سے 10.59 فیصد بجلی پیدا کی گئی.

جولائی کے لئے ریفرنس فیول لاگت 5 روپے 27 پیسے فی یونٹ مقرر تھی اور جولائی میں بجلی کی پیداواری لاگت 6 روپے 74 پیسے فی یونٹ رہی۔ نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے اگر پرچیزنگ ایجنسی کی درخواست منظور کرلی تو یہ رواں سال بجلی کی قیمت میں ساتویں بار اضافہ ہوگا۔ اور گھریلو صارفین کے لئے بجلی کی قیمت سولہ روپے یونٹ پڑنے کا امکان ہے۔ موجودہ حکومت کے تین سالوں میں بجلی کی قیمت میں اٹھارہ مرتبہ اضافہ ہوا ہے۔

اس کے باوجود حکومت بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی ذمہ داری تین سال پہلے سبکدوش ہونے والی حکومت پر ڈال رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے بجائے تیل سے بجلی پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دی گئی۔ کیونکہ اس سودے میں کمیشن کی صورت میں حکمرانوں کو کروڑوں ڈالر کا فائدہ پہنچ رہا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مفلوج نظام کوواپس ٹریک پر لانے کے لئے وقت اور وسائل درکارہوتے ہیں۔موجودہ حکومت تین سالوں تک سابقہ حکومتوں کو کوستی رہی ہے اور عوام نے بھی ان کے موقف کی تائید کی اور اصلاح احوال کے لئے حکومت کو مہلت دیتے رہے۔ مگراب سابق حکمرانوں کو موردالزام ٹھہراکر راہ فرار اختیار کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

تیل،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اثر ہر چیز پر پڑتا ہے۔ گذشتہ تین سالوں میں تیل، گیس اور بجلی کی قیمتیں تقریباً دوگنی ہوگئی ہیں اور تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں دو سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو مہنگائی بڑھنے کا ادراک ضرور ہے،وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ اس کا اظہار بھی بار ہا کرتے رہے ہیں مگر اس کا تدارک کرنے اور عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے کچھ نہیں کیا جارہا۔چند شہروں میں لنگر خانے کھولنا مہنگائی کا توڑ نہیں۔ نہ ہی منتخب عوامی نمائندوں اورسرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات میں اضافے سے عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔

سرکاری ملازمین ہڑتال، جلسے اور دھرنے دے کر اپنی تنخواہیں بڑھا دیتے ہیں عوام کیا کریں۔وہ اگر احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلیں گے تو ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں گے اور فاقوں کی نوبت آئے گی۔ حکومت کو سب سے پہلے اپنی انتظامی مشینری کو لگنے والی زنگ نکالنی ہوگی۔تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کے لئے دھرنے دینے والوں کو ڈیوٹی سرانجام دینے پر مجبور کرنا ہوگا۔ مارکیٹ اکانومی کو کنٹرول کرنے کے لئے مجسٹریسی نظام کی بحالی ناگزیر ہے۔ پرائس ریویو کمیٹیاں اپنی افادیت کب کی کھوچکی ہیں۔ ائرکنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کر اشیائے ضروریہ کے نرخ مقرر کرنے والوں کے پاس اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے کا کوئی مکینزم نہیں ہوتا۔

پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے ہر مہینے جاری کئے جاتے ہیں سرکاری کرایہ نامہ اور مسافروں سے وصول کئے جانے والے کرائے میں آسمان زمین کا فرق ہوتا ہے۔ دس پندرہ سال پہلے کسی کلرک نے کمپیوٹر پر کرایہ نامہ کا شیڈول بنایا ہوتا ہے۔ اوپر تاریخ تبدیل کرکے وہی کرایہ نامہ آج بھی جاری کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دس سال پہلے پٹرول کی قیمت 35روپے اور پشاور سے مردان کا کرایہ آٹھ روپے تھا۔ آج پٹرول 120کا اورکرایہ 80روپے ہوگیا ہے۔مگر بابو لوگوں کو خبر ہی نہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ تو حکومت نے کیا تھا۔ یہاں لاکھوں افراد اپنے لگے بندھے روزگار سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔دو وقت کا کھانا کھانے والے اب ایک ہی وقت کھانے پر اکتفا کر رہے ہیں حکومت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یہ حق غریبوں سے نہ چھینے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
51726