Chitral Times

میں تو شرمندہ ہوں اس دور کا انسان ہوکر ۔۔۔۔ میر سیماآمان

Posted on

۸ برس پہلے قصور کے ایک گھرانے میں جب ایک ننھی پری کی پیدا ئش ہوئی تو یہ دن اس گھرانے کے لئے نہا یت سنہرا دن تھا۔ بیٹی کی پیدایش پر ماں باپ کے کیا جذ بات و احساسات ہو تے ہو نگے یہ تو بیٹی والے تمام وا لدین ہی بہتر جا نتے ہیں لیکن میں صرف ا تنا سو چتی ہوں کہ وہ کو نسے جذ بات ہو نگے جن کے تحت ایک معصوم باپ نے اپنی بیٹی کا نام ’’ ذینب ‘‘‘ ر کھا ہو گا۔ شا ید یہ سو چ کر کہ ہمارے محبوب رسول ا کرم ﷺ کی بیٹی کا نام بھی ذینب تھا یا یہ کہ خا تونِ جنت بی بی فا طمہ کی بھی ایک بیٹی تھی جسکا نام بھی ذینب تھا ۔۔ہا ں وہی ذینب کر بلا کے میدان میں جسکے سر سے چادر اُ تاری گئی تو آسماں بھی رو پڑا تھا ۔ اس سر ذمین کا ذرہ ذرہ رو پڑا تھا ۔ سنا ہے اس دن درخت رو پڑے تھے۔اس ظلم پر پر ندے بھی اﷲ سے شکوہ کناں ہوئے تھے ۔۔ کہ اسلام کی بیٹیو ں کے سا تھ کیا ظلم ڈ ھا یا گیا ہے ۔۔آج قصور میں جو ہوا یہ اس خاندان کے لئے با لخصوص اور پوری قوم کے لئے با لعموم کسی ’کر بلا ‘ سے کم نہیں۔۔ذینب کی پید ا ئش کے روز اسکے ما ں باپ کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ محض ۸سال بعد اسکی موت پوری د نیا کو ا شک بار کرے گی۔کسے پتہ تھا کہ اسکی موت جہاں پوری قوم کو ہلا کر رکھ دے گی وہی پورے عالم میں مو جود ’’ گھٹیا اور ہوس ذدہ‘‘ مردوں کے منہ پر بھی طمانچہ ثابت ہوگی۔۔یہ واقعہ ایسا ہے کہ اس پر بات کرنے کے لئے بندہ speechlessہو جا تا ہے اور واقعی میں اس وا قعے پر بات کر نے کے لئے اس کی مذمت کے لئے اس پر ا حتجاج کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں۔۴ اگست 1947 کو یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا تا کہ مسلمان ا پنی ذندگیاں ا سلامی اُ صولوں کے مطابق گُزاریں ۔جہاں مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہوں۔اور سب سے بڑی بات ’’’’جہاں مسلمانوں کی عزتیں محفوظ ہوں ‘‘‘ آج یہ کیسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں دہشت گردی، د ھو کہ ، لوٹ مار ایک طرف یہاں تو مسلمان بیٹیوں کی عزت تک محفوظ نہیں۔اور بیٹی بھی وہ جو محض ۸ سال کی ہو۔۔اس وا قعے سے عالمی میڈ یا میں پاکستان کی جو بے عزتی ہوئی وہ ایک طرف۔۔۔اس وقت پوری دنیا کی نظر یں پنجاب پو لیس اور پاکستان کی عدلیہ پر ہے اور پنجاب پولیس کے ساتھ خود حکومت کے لئے یہ نہایت شرم کا مقام ہے کہ آج ۸ دن گزرنے کے با وجود ’’قاتل‘‘ گرفتار نہیں ہو پا رہاہے ۔اول تو یہ واقعہ ازخود دوم ۸ روز گزرنے کے با وجود ’’ایک گھٹیا کردار ‘‘کی گر فتاری عمل میں نہ آنا اس واقعے کو اس ملک کے حکمرانوں یہاں کے تمام اداروں ،سیاسی جماعتوں ،انسانیت کے علمبردار تنظیموں کے منہ پر ایک طمانچہ ثابت کرتا ہے ۔کوئی ان سے پو چھنے والا نہیں کہ کیا وجہ ہے کہ اتنے دن گزرنے کے با وجود یہ ایک قاتل کو پکڑنے میں ناکام ہے؟؟؟۲ قسم کے سوالات اس وقت تمام لوگوں کے ذہنوں میں ہیں کہ کیا قا تل پکڑا جائے گا؟؟؟دوم اگر پکڑا بھی گیا تو کیا اُسے سزا ہوگی یا پو لیس کی وہی روایتی کہانی دہرائی جا ئے گی؟؟یہاں پر میں صرف ا تنا کہونگی کہ justice for zainab کوئی نعرہ نہیں ہے نہ کسی برانڈ کا نیا لیبل نہ ٹی وی پہ چلنے والا کوئی ا شتہار جو چند دن چلے گا اور بند ہو جائے گا ۔۔بلکہ یہ اس پوری قوم کی د لی التجا ہے۔یہ اس قوم کی تمام بیٹیوں،ما وٗں اور اس قوم کے ہر باپ کی در خواست ہے،اِ سے کھو کھلا نعرہ نہ سمجھا جائے۔اِسے محض ڈپی نہ سمجھی جائے۔اس آواز کو تب تک بند نہیں ہونا چا ہیئے جب تک ذینب کے قاتل گر فتار نہیں ہو جاتے ۔اور جب تک اسے عبرت ناک سزا نہیں دی جا تی۔۔عوام کو ذینب کا کیس تب تک لڑنا پڑے گا۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ نہ تو یہ کیس اس ملک کا پہلا کیس ہے نہ آ خری ۔۔لیکن ہم حکمرانوں سے اس بات کی ا لتجا کر تے ہیں کہ اس مظلوم خاندان کے دکھ کو سیاسی رنگ نہ دیا جا ئے۔معصوم زینب جیسی cases کو سیڑھی بنا کر صوبائی حکمران ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے بہت بہتر ہوگا کہ ہمارے قا ئدین ہوش میں آجا ئیں۔ان واقعات کے اسباب کیا ہیں اور انکا سد باب کیسے کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔ان پر توجہ کی اشد ضرورت ہے۔۔ حکومت کو چاہیے کہ اس انتہائی سنجیدہ کیس کو محض دعوں کے نذر کرنے کے بجائے سنجیدگی سے اس پر کام کر یں۔ہم عوام کو ہر حال میں زینب کے سفاک قاتل کی سر عام پھانسی چا ہیے۔۔۔لیکن اگر حکو مت ہر بار کی طرح اس کیس پر بھی فیل ہے تو ۲۲کڑوڑ کی عوام کی آنکھیں کم از کم اب کھل جا نی چا ہیے۔۔ہا ں جس ملک میں اعلی تعلیم یافتہ حکمران بہترین ڈگری ہولڈرز سیاسی جماعتیں ،اعلی قا بلیت کے انتہائی معزز ججز ،قا نون کے بلند و با نگ د عوے کر نے والے رکھوالے اگر ہماری ’’’۸ سا ل کی معصوم بچیوں ‘‘‘ کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں دے سکتے تو اس ملک کو کسی حکومت کسی قانون کسی عدلیہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس ملک کو صرف اور صرف شریعت کے نفاز کی ضرورت ہے۔۔۔!!!!

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
4677

داد بیداد ………… اسلامیہ کالج یونیورسٹی کا اعزاز………….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا ہے کہ اس نوزائیدہ یونیورسٹی نے گندھارا سٹڈی سنٹر کے نام سے علاقہ کی تاریخ و ثقافت پر تحقیق و تدریس کا نیا شعبہ قائم کیا ہے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سنٹر کا افتتاح کرنے کے موقع پر سنٹر کی تحقیقی اور تدریسی سرگرمیوں کے لئے 5کروڑ روپے کا خصوصی گرانٹ دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سنٹر میں ہونے والا کام دوسری یونیورسٹیوں کیلئے ایک مثال بنے گا ’’خبر‘‘کے لحاظ سے کسی یونیورسٹی میں نئے شعبے کا افتتاح بڑی خبر نہیں بنتی تاہم اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں جس شعبے کا افتتاح ہواہے یہ بڑی خبر ہے جس خطے میں ہم رہتے ہیں یہ خطہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کا سنگم کہلاتا ہے اس خطے میں تاشقند کی یونیورسٹی کو عالمی شہرت حاصل ہے تاجکستان کے شہر خوروگ میں یونیورسٹی آف سنٹرل ایشیا بھی عالمی سطح کی یونیورسٹی ہے اگر انقلابِ ثور کامیاب ہوجاتا تو اب تک کابل کی یونیورسٹی بھی عالمی سطح کی جامعات میں نام پیدا کرنے کے قابل ہوتی پشاور یونیورسٹی کا ایریا سٹڈی سنٹر برائے سنٹرل ایشیا اور قائد اعظم یونیورسٹی کا انسٹٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز عالمی شہرت کے حامل ادارے ہیں پشاور اور خیبر پختونخوا کے علمی،ادبی اور ثقافتی حلقوں کی طرف سے پشاور کی کسی پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں گندھارا چئیر یا گندھارا سٹڈی سنٹر کی تجاویز بار بار آرہی تھیں 2005میں گندھارا بندکو بورڈ کے زیراہتمام پہلی عالمی بند کو کانفرنس کی قراردادوں میں اہم قرارداد یہ تھی کہ پشاور کی کسی پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں گندھارا چئیر قائم کیا جائے اس کے بعد 6عالمی کانفرنسیں منعقد ہوئیں ہر کانفرنس میں یہ قرارداد دہرائی گئی اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں مروجہ مضامین مثلاََ انگریزی ،اردو، فزکس ،کیمسٹری، اسلامیات ،عربی وغیرہ کے تمام شعبے قائم ہیں گندھارا سٹڈی سنٹر کے نام سے نیا شعبہ قائم کرکے یونیورسٹی انتظامیہ،سینیٹ،سینڈی کیٹ،بورڈ آف ریسرچ اینڈ ایڈوانس سٹڈیز،فیکلٹی اور وائس چانسلر نے انقلابی قدم اٹھایا ہے اس نئے ادارے کا بنیادی کام تحقیق ہے اور گندھارا کے حوالے سے تحقیق کا میدان بیحد وسیع ہے اس کا دائرہ خیبر پختونخوا سے گلگت کشمیر اور پنجاب تک پھیلا ہوا ہے گندھارا تہذیب کے نمونے اور آثار کا جائزہ لیا جائے تو پشاور،چارسدہ،تخت بھائی،چلاس،اٹک اور ٹیکسلاتک اس کا دامن پھیلا ہوا ہے پاکستان سے باہر جاپان،سری لنکا،نیپال،بھوٹان،چین ،کوریا،جاپان اور میانمر تک گندھارا تہذیب کے نقوش پائے جاتے ہیں جاپان اور چین کی یونیورسٹیوں میں اس پر بہت کام ہوا ہے یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اس حوالے سے بے پناہ دلچسپی پائی جاتی ہے اب تک ہماری طرف سے اس تہذیب پر تحقیقی اور تدریسی کام نہیں ہوا ہم نے بہت زور لگایا تو کسی عجائب گھر سے دوچار نوادرات اور عجائبات کو چوری کرکے امریکہ،برطانیہ،فرانس یا جرمنی میں فروخت کیا اس سے زیادہ حصہ ہم نے کبھی نہیں ڈالا ہمارے ہاں ایسے علمی ادارے ہی نہیں تھے جہاں گندھارا تہذیب پر علمی اور تحقیقی کام کی بنیاد رکھ دی جاتی اس حوالے سے ڈاکٹر احمد حسن دانی کا کام بیحد اہمیت کا حامل ہے مگر اس کام کی بنیاد پر کسی یونیورسٹی میں مستقل شعبہ قائم نہیں ہوا موجودہ دور کے محققین میں ڈاکٹر احسان علی کے کام کو عالمی سطح پر شہرت ملی ہے گندھارا تہذیب کے حوالے سے ان کے جو تحقیقی مقالات شائع ہوئے وہ بیحد اہمیت کے حامل ہیں ان کے زیرسایہ کام کرنے والے محققین کا کام جاری ہے اگر اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے گندھارا سٹڈی سنٹر نے ماضی اور حال کے تمام کاموں کو یکجا کرکے تحقیق و تدریس کا سلسلہ آگے بڑھایا تو یہ علم کے متلاشیوں کے لئے بہت بڑی خدمت ہوگی مجھے آج قائد اعظم کی تقریرکا ایک جملہ یاد آرہا ہے اپریل 1948 میں گورنر جنرل کی حیثیت سے پشاور کا دورہ کرکے بابائے قوم نے خیبر یونین ہال میں اسلامیہ کالج کے اساتذہ اور طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا’’اس ادارے میں علم کی جو شمع روشن ہوگی اس کی کرنیں پورے وسطی ایشیا کو منور کرینگی‘‘اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حبیب احمد اور ان کے رفقائے کار بلاشبہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک بڑے کام کا بیڑا اٹھایا چینیوں کا مقولہ ہے کہ ہزار میل کاسفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے یہ سنٹر قائد اعظم کے فرمودات کا عکس اور ہزار میل کے سفر کا پہلا قدم ہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
4663