Chitral Times

ہندو کُش کے دامن سے چرواہے کی صدا ۔ تجربہ کاروں کی حکومت ۔ عبدالباقی چترالی

Posted on

ہندو کُش کے دامن سے چرواہے کی صدا ۔ تجربہ کاروں کی حکومت ۔ عبدالباقی چترالی

اس وقت ملک میں با صلاحیت اور تجربہ کارسیاسی لوگوں کی حکومت ہے۔ نا اہل نا تجربہ کار لوگ اقتدار سے رخصت ہوچکے ہیں۔ اس وقت حکومت دو وزرائے آعظم چلا رہے ہیں۔ اصل وزیر آعظم لندن میں بیٹھ کر شاہی فرمان جاری کررہا ہے اور خادم پاکستان اسلام آباد میں بیٹھ کر قوم کی خدمت انجام دے رہا ہے۔پاکستانی قوم کی خوش قسمتی ہے کہ اس وقت دو ماہریں معاشیات وزارت خزانہ کو چلارہے ہیں۔ ان دونوں تجربہ کار ماہریں معاشیات نے اپنی بے پناہ قابلیت اور صلاحیتوں سے دن رات محنت کرکے قلیل مدت میں تیل کی قیمتوں میں تیس روپے فی لیٹر اضافہ کرکے قوم کو خوش خبری سنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پوری پاکستانی قوم کو ان تجربہ کار ماہرین معاشیات کی بے پناہ قابلیت اور صلاحیتوں کی داد دینی چاہییے اور امید رکھنی چاہیے کہ یہ عالمی شہرت یافتہ ماہرین مستقبل میں بھی قوم کو ایسی ہی خوش خبریاں سناتے رہیں گے۔ پاکستانی قوم خوش نصیب ہے کہ ان کو ایسے عالمی شہرت یافتہ اور تجربہ کار وزرائے خزانہ ملے ہیں۔ان ماہرین معاشیات کی ٹیم نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ وہ قلیل مدت میں تیل، گیس اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کرنے میں کامیات ہوجائیں گے۔سابق وزیر آعظم اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ان عالمی شہرت یافتہ ماہرین معاشیات کی خدمات حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اگر سابق وزیر آعظم صاحب بروقت ان ماہرین معاشیات کی خدمات حاصل کرتے تو اس وقت پاکستان میں تیل کی قیمت دو سو پچاس روپے فی لیٹر تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے۔

جو کام سابقہ حکومت ساڑھے تین سالوں میں انجام نہیں دے سکی، تجربہ کاروں کی ٹیم نے قلیل مدت میں تیل کی قیمتوں میں تیس روپے فی لیٹر اضافہ کرکے کارہائے نمایان انجام دیے۔ قلیل مدت میں اتنے شاندار کارنامے انجام دینے پر وزیر خزانہ کو قومی ایوارڈ ملنا چاہیے۔ ان دونوں تجربہ کار ماہرین معاشیات کی مہارت کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔اس وجہ سے ہمارے ملک کے سابق مفرور وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب کو برطانیہ کی حکومت نے وہاں روک رکھا ہے تاکہ ان کی ماضی کے تجربے اور مہارت سے استفادہ کرکے برطانیہ کی معیشت کو مزید ترقی دے سکے۔تجربہ کاروں کی ٹیم پاکستانی عوام سے مہنگائی میں کمی لانے کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئی تھی اور اقتدار میں آنے کے بعد جلد ہی عوام سے کیے گئے اپنے سارے وعدے بھول گئے اور مہنگائی میں کمی لانے کی بجائے قلیل مدت میں ہی تیل اور دوسری اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ کرکے مزید مہنگائی کا دروازہ کھول دیاہے۔ تیل مہنگا ہونے کی وجہ سے اب ملک میں مہنگائی کا طوفان آئے گا۔اس وقت خادم پاکستان مہنگائی میں کمی لانے کی بجائے نیب قوانین میں ترامیم کرکے اپنے اور اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے خلاف کیسز کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آرہے ہیں۔خادم پاکستان کو ملک کے غریب عوام کی مشکلات کا کوئی فکر نہیں ہے۔ بدترین مہنگائی کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت ایک کلو گھی کی پرچون قیمت پانچ سو روپے سے اوپر ہوگیا ہے۔دوسری اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔تجربہ کاروں کی حکومت بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ اگر ملک کی موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے تو دوسری اشیائے ضرورت میں عوام کو فوری طور پر سبسڈی دینی چاہیے تاکہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔ موجودہ حکومت مہنگائی میں کمی لانے کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئی ہے۔ اگر مہنگائی میں کمی نہیں لاسکتی ہے تو اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہتا۔

موجودہ حکومت کے لوگ جب اپوزیشن میں تھے تو مہنگائی کو سابقہ حکمرانوں کی نااہلی اور ناقص معاشی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دے رہے تھے۔ اب جبکہ تجربہ کار، اہل اور باصلاحیت لوگ اقتدار میں آئے ہیں تو مہنگائی کنٹرول کیوں نہیں ہورہی ہے؟

تجربہ کاروں کی حکومت میں عوام کے مسائل میں کمی آنے کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اتحادی حکومت بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ اگر مہنگائی کا سیلاب اسی طرح جاری رہا تو مستقبل میں اتحادی جماعتوں کے لیے عوام کا سامنا کرنا مشکل ہوجائے گا۔حکومت اپنے شاہانہ اخراجات کم کرنے کی بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال رہی ہے۔ حکمران عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حکمرانوں کے کتے بھی جراثیم سے پاک پانی پیتے ہیں اور ڈبل روٹی سے ناشتے کرتے ہیں جبکہ ملک کی غریب عوام کو دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ سابقہ حکومت میں جب بھی تیل کی قیمتیں بڑھائی گئیں تو اس وقت کے حزب اختلاف اور آج کے حزب اقتدار اسے عوام پر ظلم قرار دیا کرتے تھے اور اسے عمران خان کی نا اہلی اور ناتجربہ کاری کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ موجودہ وزیر خزانہ سمیت حکومت کے تمام اتحادی رہنما یہ دعوے کرتے تھے کہ ہمیں اقتدار ملا تو ہم ہر صورت عوام کو ریلیف دیں گے مگر اقتدار میں آتے ہی نئے حکمرانوں نے غریب عوام پر پٹرول بم گرا دیا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
61699

ہندو کُش کے دامن سے چرواہے کی صدا-موروثی سیا ست اورالیکشن کمیشن-عبدالباقی چترالی

ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ الیکشن کمیشن ایک خودمختار اور بااختیار ادارہ ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ کوئی بھی پارٹی الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہوئے بغیر انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی ہے۔ ملک میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں وہ سب الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہوئے ہیں۔ الیکشن میں کامیاب ہونے والی پارٹی الیکشن کو صاف شفاف اور منصفانہ قرار دیتی ہے جبکہ ہارنے والوں کی رائے ہمشہ یہی ہوتی ہے کہ اس سے زیادہ دھاندلی زدہ الیکشن ملک میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔


ہارنے والی پارٹیاں الیکشن کمیشن پر ہمیشہ اس طرح کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں موروثی سیاست جاری ہے۔ موروثی سیاست کو روکنے میں الیکشن کمیشن ابھی تک کامیاب نہیں ہوا۔ اس کی بری وجہ سیاسی پارٹیوں میں بروقت پارٹی انتخابات نہ ہونا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق برائے نام اور خود ساختہ پارٹی انتخابات کراتی ہے۔

اس برائے نام پارٹی انتخابات کے نتیجے میں دوبارہ وہی لوگ پارٹی سربراہ بن جاتے ہیں یا ان کے خاندان کا کوئی فرد پارٹی کا عہدہ حاصل کرتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں یہ لُولی لنگڑی جمہوری تماشہ جاری ہے۔اس جمہوری نظام سے نہ عوام کو کوئی فائدہ پہنچا اور نہ ملک میں جہوریت مستحکم ہوئی۔ عوام موجودہ جمہوری نظام سے متنفر ہو رہے ہیں۔ ملک کے عوام کا اعتماد اور اعتبار اس نظام سے اٹھ رہا ہے۔

اس بابرکت جمہوری نظام کی وجہ سے ملک قرضوں میں ڈوپ چکا ہے اور عوام مہنگائی کے ہاتھوں بدحال ہوچکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ موروثی سیاست ہے۔ الیکشن کمیشن کی کمزوریوں کی وجہ سے ملک میں موروثی سیاست کو فروغ مل رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اپنے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے جمہوری طریقہ کار کے مطابق اپنی نگرانی میں ہر پارٹی کے اندر مقررہ مدت میں الیکشن کرانا چاہیے تاکہ موجودہ موروثی سیاست سے عوام کو نجات مل سکے۔ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ملک کے تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا پابند کرے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک مقررہ مدت کے اندر الیکشن کمیشن کے زیر نگرانی میں تحصیل سے لیکر صوبہ لیول تک صاف شفاف اور جمہوری طریقہ کار کے مطابق انتخابات منعقد کریں۔

جمہوری طریقہ کار کے مطابق کسی بھی سیاسی پارٹی کا سربراہ کارکنوں کے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے جبکہ اس وقت ہر سیاسی پارٹی اپنی مرضی کے مطابق برائے نام پارٹی انتخابات کراتا ہے اور خود ہی پارٹی سربراہ بن جاتا ہے۔اس وقت ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور جمیعت علمائے اسلام (ف) ملک میں جاری موروثی سیاست کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ گزشتہ کئی برسوں سے اپنی پارٹیوں کی سربراہی خود کررہے ہیں۔ اس کے باوجود اپنی پارٹیوں کو جمہوری پارٹی قرار دے رہے ہیں جبکہ ان کی پارٹیوں میں ان سے بہتر، قابل اور اہل لوگ موجود ہیں۔

مگر موروثی سیاست کی وجہ سے قابل اور اہل لوگوں کو پارٹی سربراہ بننے کا موقع نہیں ملتا۔ کسی بھی پارٹی میں سیاسی تجربہ کار، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دیانت دار لوگوں کی کمی نہیں ہے لیکن جمہوری اصولوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ان حقدار لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ قابل اور اہل لوگ رہ جاتے ہیں۔ نااہل اور نالائق لوگ اپنے اثر و رسوخ اور دولت کی وجہ سے پارٹی عہدیدار بن جاتے ہیں۔


ملک کی بعض سیاسی جماعتیں جمہوریت کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ دولت کی طرح پارٹی قیادت بھی ان لوگوں کی میراث بن چکی ہے جوکہ مسلسل ایک ہی خاندان میں نسل درنسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن کو اپنے اختارات بروئے کار لاتے ہوئے موروثی سیاست کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں موروثی سیاست کو تقویت مل رہی ہے۔موجودہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کو پابند کرے کہ وہ پہلے اپنی پارٹی کے اندر جمہوریت نافذ کریں اور اس پر عمل درآمد کرائیں۔ اگر کوئی سیاسی پارٹی جمہوری طریقہ کار کے مطابق پارٹی انتخابات نہ کرائے تو ان پارٹیوں کو الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا جائے اور ان پر پابندی لگائی جائے۔

الیکشن کمیشن اور دوسری جمہوری قوتوں کو مل کر ملک میں موروثی سیاست کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانا چاہیے تاکہ ملک میں موروثی سیاست کو روکا جاسکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56415