Chitral Times

صدا بصحرا……….. تحریک اعتماد ………. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوسرے دن چینی حکومت نے اپنے ثقا فتی وفد کے دورہ پا کستان کا پرو گرام منسوخ کردیا یہ وفد گلگت میں منعقدہونے والے بڑ ا ثقافتی میلے میں شر کت کے لئے آنے وا لا تھا جب پو چھا گیا کہ کیوں؟ تو جواب یہ ملا کہ اعتما د نہیں رہا وطن عزیز پا کستان میں سر ما یہ لگا نے والی ایک بین لاقوامی کمپنی نے اپنا سر ما یہ نکا ل لیا ہے کیوں؟ اعتما د نہیں رہا دو بئی میں 30سا لوں تک کا روبار کرنے والے پا کستانی سر ما یہ کار نے 2016ء میں اپنا سر ما یہ پا کستان لا یا تھا جو لائی 2019میں اُس نے اپنا پورا سر ما یہ وا پس دو بئی لے جانے کا فیصلہ کیا ہے کیوں؟ اعتماد نہیں رہا ایسے 250واقعات کے بعد ایک بڑے سر مایہ کار نے اپنا سر مایہ پا کستان سے نکا لتے ہوئے انٹر ویو دیا ہے کہ پا کستان کو تحریک انصاف سے زیا دہ تحریک اعتماد کی ضرورت ہے پا کستان کے جو شہر ی بیرون ملک نو کریاں کرکے ڈا لر، یورو اور دیگر کرنسیوں میں تنخواہ لیکر پا کستانی بینکوں کے ذریعے اپنے گھر والوں کو بھیجتے ہیں پا کستان میں جا ئدادیں خرید تے ہیں یا کاروبار کھولتے ہیں ان پر 10بڑی پا بندیاں لگائی گئی ہیں پہلی پا بندی یہ ہے کہ پا کستانی بینکوں میں اُن کے پرانے اکا ونٹ منجمد (Block) کر دیئے گئے ہیں دوسری پا بندی یہ ہے کہ وہ پا کستانی بینک میں اپنے نا م سے نیا اکا ونٹ نہیں کھول سکتے ان کی تنخوا کا سر ٹیفکیٹ قابل قبول نہیں ہے تیسری پا بندی یہ ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کو پاکستانی بینکوں کے ذریعے رقوم نہیں بھیج سکینگے پا کستان کا بینکینگ سسٹم کئی آز ما ئشوں سے دو چار ہے تر قیا تی کام بند ہیں کال ڈیپا زٹ، سکیورٹی اور بلوں کے چیک آنا بند ہو گئے ہیں 60سال سے اوپر کی عمر کے شہریوں پر بایو میٹرک کی غیر قانونی، ناروا، نا جائز اور غیر اخلا قی پا بندی عائد کر کے اُن کے پنشن اور بچت اکا ونٹ منجمد کر دیئے گئے ہیں حا لانکہ اس عمر میں با یو میٹرک کی پا بندی میڈیکل سائنس کی روسے غلط ہے بزرگ شہریوں کے احترام کو بھی اچھی حکومتیں مد نظر رکھتی ہیں مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے لو گ گھروں، حجروں اور بازاروں، گلیوں میں ایک دوسرے کو بتا تے ہیں کہ اپنا پیسہ بینک میں رکھ کر ذلیل و خوار ہونے سے گھر میں رکھنا بہتر ہے تنخوا اور پنشن والوں کی مجبوری یہ ہے کہ بینک جا نا لا زمی ہے اور خوار ہونا حکمرا نوں کا حکم ہے یہ سب کچھ اس لئے ہو تا ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کو مشکوک سمجھتی ہے اور شہری حکومت پر اعتماد نہیں کرتے انگریزی میں اس کے لئے ”ٹرسٹ ڈیفی سیٹ“ کی اصطلاح استعمال ہو تی ہے سویت یونین اسی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر مو ت کی آغوش میں چلا گیاتھا مشرقی پا کستان اسی وجہ سے ٹوٹا تھامسلما ن فو ج نے ہندو کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے کیونکہ کسی کو کسی پر اعتما د نہیں تھا آج کل بلو چستان میں اس وجہ سے انتشار ہے علامہ اقبال نے اس کیفیت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے ؎
کوئی کارواں سے ٹو ٹا کوئی بد گماں حرم سے
کہ امیر کا رواں میں نہیں خوئے دل نوا زی
اگلے چار سا لوں کا زائچہ نکا لیں تو تین باتیں ہمیں صا ف نظر آرہی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ حکمرا ن مستقبل کی بات نہیں کرینگے، اپنی کسی خد مت یا اپنے کسی منصو بہ بندی کی بات نہیں کرینگے، اپنے کسی منصو بے کا نام نہیں لینگے بلکہ ما ضی کے جھوٹے قصے دہرائینگے، کہا نیاں سنا ئینگے گڑے مر دے اکھاڑ ینگے اور دوسروں پر کیچڑ اچھا لنے کا شغل جاری رکھینگے دماغ فارغ ہو تو شیطان اس کو ورکشاپ بنا لیتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں چین کے ساتھ تر قی اور تجا رت کے اشتراک سے شروع ہونے والے تمام منصوبے بند رہینگے اور امریکی امدادہمارا واحد سہا را ہو گا جس پر ہمارا گزارا ہوگا تجربے اور مشا ہدے کی بات یہ ہے کہ امریکی امداد بڑے افیسروں اور بر سراقتدار سیا ستدا نوں کو ملتی ہے چین کی امداد میں عوام کا حصہ ہو تاہے ٹیکنا لو جی منتقل ہو تی ہے بنیا د ی ڈھا نچہ تعمیر ہو تا ہے توا نائی، زراعت اور صنعتی تر قی کے منصو بے آتے ہیں جن کا فائدہ عام آدمی، مزدور، کاریگر، کسان اور غریب شہری کو ہو تاہے اس لئے مو جودہ کا بینہ کے ایک وزیر نے حکومت سنبھا لتے ہی کہا تھا کہ ہم چین کے ساتھ اشتراک کے منصو بوں میں اپنا حصہ مانگینگے ان دو باتوں سے تر قی کا پہیہ جا م ہو جائے گا، مہنگائی مزید بڑھے گی غر بت اور بے روز گاری میں مزید اضا فہ ہو گا زائچے کی تیسری بات پہلی دو باتوں سے زیا دہ اہم ہے تیسری بات یہ ہے کہ گزشتہ دو سا لوں سے ملکی اداروں کی بے تو قیری اور ہتک کا جو سلسلہ شروع ہو اتھا اس میں مزید اضا فہ ہوگا ملکی اداروں کو سیا سی مقا صد کے لئے بے دردی کیساتھ استعمال کیا جائے گا ڈپٹی کمشنر کو حکمران پارٹی اپنا کار کن بنائے گی عد لیہ پر مزید دباؤ ڈا لے گی، میڈیا پر مزید پا بند یاں لگائے گی جو حکومت عوام کی خد مت نہیں کر سکتی وہ میڈیا پر پا بندیاں لگا تی ہے سویت یو نین کے ٹو ٹنے سے پہلے یہی طرز عمل اختیار کیا گیا تھا نا زی پارٹی نے جر منی کی تباہی سے پہلے ایسا ہی کیا تھا کوئی ادارہ چاہے فوج ہو، پو لیس ہویا بیورو کریسی ہو وہ حکمران جماعت کے لئے کام کرے گا تو متنا زعہ ہو گا کیونکہ سیا سی پارٹیوں میں ہمیشہ کھینچا تانی رہتی ہے تجزیہ نگا روں کی رائے یہ ہے کہ ملکی اداروں کا زوال اگلے 4سالوں میں گر اوٹ کی پا تال کو چھو لے گا ملکی ادارے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائینگے اور یہ ملک اورقوم کی سب سے بڑی بد قسمتی ہو گی ان اہم امور کو سامنے رکھ کر پا کستان سے رخصت ہونے والی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو افیسر نے مشورہ دیا ہے کہ پا کستان کو ایک بار پھر تر قی کی راہ پر ڈالنے اور کا روباری طبقے کو مطمئن کرنے کے لئے ”تحریک اعتماد“ کی ضرورت ہے پتہ نہیں کاروباری دنیا کی اہم شخصیت نے ”تحریک اعتماد“ کی تر کیب کیوں استعمال کی وہ صرف اعتماد اور بھروسہ بھی کہہ سکتے تھے تحریک اعتماد کا نا م لیتے ہی تبصر ہ نگاروں کا خیال تحریک انصاف کی طرف جا نکلتا ہے 1980ء کی دہا ئی میں مہا جر قو می مو منٹ کا مخفف ایم کیو ایم تھا 10سال بعد مہا جر کی جگہ ”متحدہ“ لا یا گیا مخفف وہی رہا ایم کیو ایم پا کستان تحریک انصاف کی بہت سی خو بیاں ایم کیو ایم سے ملتی جلتی ہیں اگر اس کانا م پا کستان تحریک اعتماد رکھ دیا جائے تب بھی اس کا مخفف پی ٹی آئی ہی رہے گا اگر حکومت پر اور حکمر انوں پر کارو باری طبقے کا، عوام کا اور سب سے بڑھ کر سر ما یہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا ہے تو پارٹی کے نا م میں انصاف کو اعتماد سے بدلنا ہو گا، اعتماد ہماری پہلی تر جیح ہو نی چا ہئیے ٹر مپ کو خو ش کرنے کے لئے چین کا اعتما د کھو دیا تو ہمارے دا من میں کچھ بھی نہیں بچے گا .

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
24651

دادبیداد………… بات تو سچ ہے ………… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

میجر جنرل (ر) اسددرانی نے دو بھارتی مصنفوں کیساتھ ملکر مشترکہ کتاب چھپوائی کتاب کا انگریزی نام ’’ سپائی کرونیکل اینڈ دی الوژن آف پیس ‘‘ ( Spy chonicle and the illusion of peace) ہے اس نام کا سلیس اردو ترجمہ کیا جائے تو اس کا ترجمہ ہوگا ’’رودادِ جاسوسی اور فریبِ امن ‘‘ کتاب کی رونمائی نئی دہلی میں ہوئی لیفٹنٹ جنرل (ر) اسد درانی کو بھارت کا ویزا نہیں ملا اس لئے انہوں نے سکائپ کے ذریعے تقریب سے خطاب کیا کتاب کے پرنسپل آتھر اے ایس دلت نے تقریب میں تجویز دی کہ پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ کو بھارت بلا کر سرخ قالین والا پروٹوکول دو اور امن کی داغ بیل ڈال دو اگر شمالی اورجنوبی کوریا میں شاخ زیتون کا تبادلہ ہوسکتا ہے تو پاکستان اور انڈیامیں کیوں نہیں ؟ پاکستانی فوج کے ترجمان نے تجویز کا خیر مقدم کیا مگر پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں غلغلہ بلند کیا گیا ہے کہ جنرل اسد درانی نے بھارتی مصنفین کیساتھ مل کر کتاب کیوں لکھی اور کتاب میں اہم راز افشا کیوں کئے ؟ اس ہاؤہو اور توتکار کی وجہ یہ ہے کہ کتاب کے دیگر شریک مصنفین کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالی سس ونگ ( RAW) سے رہا ہے اے ایس دلت ’ ’ را‘‘ کے سربراہ رہ چکے ہیں سنہا کا بھی اس حوالے بڑا نام ہے جنرل (ر) اسد درانی 1990ء سے1992 تک پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سر براہ رہے ہیں کتاب کے مندرجات میں کھرا سچ ہے جو کبھی نہیں بولا گیا پروین شاکر کا شعر دوسرے حوالوں سے سب کی زبان پر ہے اس حوالے سے بھی بر محل لگتا ہے ؂
میں کیسے کہہ دوں اس نے چھوڑ دیا ہے مجھے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اگر اسد درانی نے لکھا ہے کہ ایبٹ آباد کمپاؤنڈ میں اسامہ بن لاد ن کو گرفتار کروانے کے لئے امریکہ کے ساتھ سودے بازی ہوئی تو یہ بات جھوٹ نہیں ہوسکتی اگر وہ لکھتا ہے کہ اس گیم میں دولت ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ آئی یہ بھی جھوٹ نہیں ہوسکتی اس طرح کی باتیں بھارتی مصنفین نے بھی اپنے بارے میں لکھی ہیں مگر بھارت میں کسی نے شور نہیں مچایا پاکستان میں اس پر شور مچانے کی کیا ضرورت ہے؟ ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ پروفیسر شمس النظر فاطمی کہتے ہیں کہ یہ ہماری تہذیب کا حصہ ہے ہم نا بالغ قوم ہیں نا خواندہ قوم ہیں ہماری تہذیب یہ ہے کہ گھر میں بچے کو بولنے یا سوال کرنیکی اجازت نہیں دی جاتی سکول ، کالج اور یونیورسٹی میں بات کرنے والے اور سوال پوچھنے والے طالب علم کو شریر قرار دیا جاتا ہے ڈانٹ پلائی جاتی ہے اگر بات کہنے اور سوال کرنے اصرار کرے تو مشال خان کی طرح موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے یہ تہذیب آگے جاکر یوں گل کھلاتی ہے کہ سیاستدان ، وزیر اعظم ، آرمی چیف ، انٹیلی جنس چیف ، حاضر سروس اور ریٹائرڈ افیسرسے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ سچ نہیں بولے گا اگر سچ بولا تو زمین پھٹ جائے گی آسمان گر پڑے گا قیامت برپا ہوگی اس لئے سب کو یہی حکم دیا جاتا ہے کہ سچ سے دور رہو شتر مرغ بنواور جھوٹ کے ریت میں سر چھپاؤاسی میں عافیت ہے ذرا غو ر کیجئے26نومبر2008ء سے لیکر 26مئی 2018تک کچھ کم 10سال تک بیت گئے غیرریاستی عناصر پر اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک کے بیانات ریکارڈ پر ہیں 10سالوں میں انکوائری رپورٹ مکمل نہیں ہوئی نواز شریف کا تازہ بیان زیر بحث تھا کہ اسد درانی کی کتاب آگئی اور خبروں پر چھاگئی نان سٹیٹ ایکٹرز کا ترجمہ ’’ غیر ریاستی عناصر ‘‘ کیا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نجی ادارے یا پرائیوٹ لشکر جو حکومت کے قابو اور کنڑول میں نہیں یہ ادارے بھار ت میں بھی ہیں دیگر ملکوں میں بھی ہیں انیسویں صدی کی جاسوسی سرگرمیوں پر کئی کتابیں شائع کی گئی ہیں دی گریٹ گیم بہت مشہور کتا ب ہے روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی گئی ہیں جارج فریڈ مین نے امریکہ کی جاسوسی سرگرمیوں پرAmerica’s Secret War (امریکہ کی خفیہ جنگ) سے عنوان سے کتاب لکھی ہے اور اس میں صراحت کیساتھ بتایا ہے کہ نائن الیون سے تین دن پہلے احمد شاہ مسعود کو کس طر ح قتل کیا گیا ؟ نائن الیون پر امریکہ میں فلم بنی مائیکل مور کی فلم فارن ہائیٹ نائن الیون آج بھی یوٹیوب پر موجو دہے امریکہ میں اس پر کوئی شور بپا نہیں ہوا سیاسی بلوغت اور قومی مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی اپنے ہاں بحث مباحثے ،مکالمے ، گفتگو اور سوال و جواب کی تہذیب کو جگہ دیدیں سچ بولنے ، سچ سننے، سچ لکھنے اور سچ پڑھنے کا حوصلہ پیدا کریں ورنہ پروین شاکر کا مصرعہ ہمارا منہ چڑا تا رہے گا’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ‘‘

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
10534