Chitral Times

چند قطرے ہی کافی تھے پشیمانی میں………..زبیر

Posted on

چند قطرے ہی کافی تھے پشیمانی میں

تو تو سیلاب اٹھا لایا ہے نادانی میں

ہر اک دریا کو معلوم ہے انجام ہے کیا

سرکشی کتنی بھلا کیوں نہ ہو روانی میں

زنا حلال ہوا ہے بھری عدالت میں

جبر حرام کہاں تھا قانون دانی میں

لویہ عدل بھی ہم جنسیت پہ قربان ہوا

عقل کا فتور ہے اعضائے جسمانی میں

بخل برتاؤ کا لہجے میں اتر آتا ہے

تنگدلی چھپتی نہیں ہے خوش بیانی میں

ہر اک کردار ہدایت کار کو پہچانتا ہے

موڑ کیسے ہی بھلا کیوں نہ ہو کہانی میں

چمن میں رنگ و بو کا امتزاج فطری ہے

قطع برید بھی لازم ہے باغ بانی میں

رب تو رزاق و رازق ہے، دلدار بھی ہے

شکوہ سنج تو ہی ہو بیٹھا ہے تن آسانی میں

زندگی کے لئے مر مر کے جیے جاتا ہے

کچھ بتا تو سہی کیا ہے اس دیوانی میں

Posted in شعر و شاعریTagged
14288