Chitral Times

پس و پیش-دُھند کی بُو- اے.ایم.خان


دسمبر کا مہینہ تھا  روزانہ کی طرح  کام سے فارغ ہوکر ہوٹل کے کونے اُس چھوٹے کمرے میں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے کہ دُھند اور اندھیرا  سا چھانے لگا۔  دن کے وقت اسطرح تاریکی تو ہو نہیں جاتا، آخر وجہ کیا ہے،  یہ کہہ کر سعد  چائے کی پیالی  میز پر رکھی۔  خادم اُس سے پہلے اپنے حصے کا چائے پی چُکا تھا اور یہ  دیکھ کر حیرت میں طاری ہو چُکا تھا۔ سعد نے جب اُسے آواز دی تو خادم کو پتا ہی نہیں چلا گوکہ دونوں ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ دوسری مرتبہ اُسے ہلاکر باہر جانے کی بات کی،  دونوں اُٹھ گئے اور باہر چلے گئے، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ  ایسی دُھند اور اندھیرا چھا رہی ہے۔

پاس والے پارک کے ساتھ ایک بڑا بلڈنگ جس کے اُوپر چمنی میں اکثر دھواں نکلتا تھا چھُٹی کے علاوہ روزانہ کا معمول تھا  لیکن آج جو دُھند چھا رہی تھی وہ غیر معمولی  اس لئے تھی کہ اس دُھند سے دن کے وقت اندھیرا ہوا تھا، اور لوگوں میں کھانسی اور سانس لینے میں دشواری پیدا ہو رہی تھی۔

ہوٹل کے سامنے راستے پر کھڑے دونوں نےیہ دیکھا  کہ دوڑ کر ایک شخص روڈ پار کرکے اُن کی طرف آرہا تھا۔ اُنہیں صاف دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جب قریب پہنچا تو یہ ہوٹل کا بیرہ تھا جو روازانہ اُن کو چائے لاتا تھا۔  سعد اُس کی طرف مخاطب ہوکر پوچھا۔ کہاں سے اور کیوں دوڑ کر آرہے ہیں؟ خیر تو ہے۔

بیرہ  جواب دینے کی کوشش کی لیکن بات نہ کرسکا کیونکہ اُس کا سانس پُھول رہا تھا۔ ساتھ والے میز پر سے پانی کا گلاس اُٹھایا اور ایک گُھونٹ پی کر چند سیکنڈ بعد اُس نےجواب دی، خیر ہے جہاں سے میں آرہا ہوں اس سے آگے معلوم نہیں۔

لوگوں کا رش ادھر اُدھر پھیل چُکا تھا اور وہ اُس پارک کے پیچھے بلڈنگ کی طرف جارہے تھے۔ ہر کوئی کھانس رہا تھا اور سینے پر ہاتھ رکھے جارہا تھا۔

سعد، حیرت بھری نظروں سے خادم کی طرف دیکھ کر کہا ، یار یہ کیا ہو رہا ہے مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ ایسی صورتحال اور کیفیت میری زندگی میں ایک بار بٹوارہ کے دوراں تھا وہ بھی ایسی ایک کیفیت تھی۔ حالانکہ اُس وقت میں ایک بچہ تھا لیکن افراتفری، دھواں، فسادات، کشت و خون وہ بھی مذہب کی بنیاد پر، اور نفرت انگیز نعرے ہوتے تھے ، آج ابھی تک یہ حالات نہیں لیکن مجھے نہیں معلوم ایسی کیفیت کیوں لگ رہی ہے۔

  آج کے دُھند میں ایک چیز نمایاں ہے وہ یہ کہ میں اسے نہ خوشبو کہہ سکتا ہوں اور نہ بدبو  جو میں نے اسے اپنے زندگی میں کبھی محسوس  نہیں کی ہے۔ اور یہ شاید “دُھند کی بُو” ہے۔

میری زندگی میں یہ دوسرا واقعہ ہے۔ ہر وہ حرکات بٹوارہ کے دوران ہو چُکے تھے  ، مجھے وہ حالات آج کی طرح یاد ہیں، آج وہی کیفیت ہے۔ وہی افراتفری، دُھند، دھواں اور نفرت انگیز نغرے ایک طرف سب سمجھ آجاتی ہیں، لیکن یہ کالی دُھند اب رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہے۔

سعد یہ بات سُن کر کہا کہ  آج سے تقریباً چالیس سال پہلے جب  یہاں فیکٹری بننا شروع ہوئے کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اُس سے اتنی دُھند بڑھے گی اور یہ صورتحال پیدا ہوجائےگی۔ یہ کہتے ہوئے اُس کے آنکھوں پر آنسو بھر آئے تو اُس نے ہاتھ پھیرا لی کر پُونچھ لی۔

خادم نےکہا، یار کام سے ابھی باہر آگئے ہیں اتنی تھکاوٹ اور آپ نے بٹوارہ یاد دلاکر پرُانی زخم ہری کر دی۔ چھوڑو یہ سب چلو چلتے ہیں۔ یہ کہہ کر جب اُس کی طرف دیکھا تو اُس کے آنکھوں کے اُوپر نیچے اور اردگرد کالے رنگ لگے تھے۔  کیا کیا آپ نے؟ سعد نے کہا ، کچھ نہیں ۔ یہ لو میرا رومال اپنے آنکھوں کو صاف کرلو۔ وہ کیا چیز ہے جس پر آپ نے ہاتھ رکھی تھی اور آنکھوں کی یہ حالت کر دی؟

سعد ، اپنے دونوں ہاتھ خادم کی طرف کرتے ہوئے کہا، ہم چائے پی لی اور یہاں آگئے ہیں۔  وبائ کے دن ہیں  لوگوں کی طرح ہم بھی ہاتھ ملانے سے کتراتے ہیں اور ہاتھ زیادہ دھوتے ہیں لیکن یہ کیا ہوا ہے، میں بھی حیران ہوں۔ یہ کہتے ہوئے اُس نے آنکھ  صاف کرنے کے بعد رومال دوبارہ سعد کو دے دی، اور کہا،  چلو چلتے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ کیا ہوا ہے سارے لوگ اُسطرف جارہے ہیں، پھر وہاں سے بس اسٹینڈ میں جاکر کمرہ  واپس ہو جائیں گے۔

دونوں یہ کہہ کر روانہ ہوئے اور ساتھ لوگ بھی ہجوم کی طرح جارہے تھے۔ دُھند سے اندھیرا زیادہ ہو رہا تھا۔ لوگوں کی طرح سعد کو بھی کھانسی آئی تو خادم کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ کھانسی کی کیفیت مجھے بھی آگئی۔روڈ پر گاڑیوں کا رش بھی زیادہ بڑھ چُکا تھا۔

سعد اور خادم چند منٹ چلنے کے بعد اُن کو نغرے کا گونج آہستہ آہستہ سُنائی دینے لگا ۔ لوگوں کی طرح وہ بھی چلنے کا رفتار تیز کر دی۔ لوگوں کی طرح اُنہیں بھی سانس لینے میں دشواری محسوس ہورہی تھی اور  ہاتھ سینے پر رکھتے اور ہٹاتے چلنے لگے۔

 سامنے سے چند لوگ گزر گئے یہ کہتے ہوئے کہ جلدی کرو ہمارا ساتھ دو ۔ سامنے چلنے والا شخص پاس والے ایک شخص کو مخاطب کرکے کہا  کہ آپ کسطرح لوگ ہیں کہ ایک نغرہ تو لگا سکتے ہیں۔ لگاو نغرہ اور آگے چلو۔

جیسے ہی سعد اور خادم  ہجوم کے ساتھ ملے غیر ارادی طور پر  جب ایک بار وہ نغرہ لگا دی ۔۔۔ کی ایک ہی سزا، پھر وہ بند نہ کرسکے۔ دونوں زور اور جذبات سے نغرے لگاتے گئے اور بڑے ہجوم کے ساتھ مل گئے۔

اس ہجوم کے تقریباً مرکز سے دُھند اُٹھ رہی تھی اور لوگ اس کے اردگرد کھڑے ہوکر نغرہ لگا رہے تھے۔سعد اور خادم آگے چلے گئے لیکن کچھ نظر نہیں آیا۔ لوگ جذبات سے سینے پر ہاتھ رکھ کر کپکپا دینے والی آواز میں نغرہ لگا رہے تھے۔ اور سامنے لوگ یکے بعد دیگرے بیہوش ہوکر گرر ہے تھے۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور  چند منٹ بعد دوسرے لوگوں کی طرح سعد اور خادم بھی اس ‘دُھند کی بُو’ کو برداشت نہ کرسکے اور بیہوش ہوگئے۔ ایک وقت گزرا اُن کو کچھ پتا نہیں چلا۔

کافی وقت گزرنے کے بعد سعد جوکہ خادم سے پہلے بیہوش ہو چُکا تھا اُسے ہوش آگئی، تو دیکھا سامنے وہ مجمع کہیں جا چُکا تھا اور چند لوگ وہاں موجود ہیں۔ چند اب بھی بیہوش ہیں، اُن میں سے چند کو ہوش آچُکا ہے۔ چند لوگ کھڑے ہوکر اپنے آپ کو دیکھ رہے ہیں ، اور چند ابھی اُٹھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ ایک عجیب کیفیت تھی جو سعد اپنے اردگرد دیکھ رہا تھا ۔ اتنے میں اُسے اپنی حالت اور بدن یاد آئی تو چُھو کر ٹٹول لی، اور کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔

وہاں موجود سارے لوگ اس دُھند کی گرد سے کالے ہوگئے تھے ۔سورج تو پہلے غروب ہوچُکی تھی اسی لئے مزید اندھیرا لگ رہا تھا۔ یہ ایک عجیب مخلوق نظر آرہے تھے۔ ہر دوسرا شخص اپنے پاس ہوش یا بے ہوش شخص سے خوف محسوس کررہا تھا۔ سعد اپنے دوست خادم، جو اب تک ہوش میں نہیں تھا،  کو دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا اور اُس سے کچھ دور  کھسک کر بیٹھ گیا۔

سعد کے سامنے اور ادھر اُدھر لوگ نظر آرہے تھے ،دماغ میں وہ کیفیت ، اور ‘دُھند کی بُو’  آہستہ آہستہ کم ہو رہی تھی۔  اُوپر جاکر یہ دُھند چاند کی روشنی کو بھی مدہم کر چُکی تھی۔ سعد نے اپنے دوست خادم کا چہرہ دوبارہ دیکھا تو وہ کالے اور زرد رنگ کی امیزش سی بنی ایک خوفناک شکل کی عکس تھی۔ سعد نے اپنے سائیڈ پوکٹ سے رومال نکالی اور اپنے چہرے کو صاف کرکے دیکھ لیا تو رومال زنگ آلود کپڑے کی طرح ہوگیا۔

اتنے میں خادم کو ہوش آئی۔ جلدی سے اُٹھ بیٹھا اور پریشان ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ تذبذب کے الم میں ایک نغرہ لگا دی اور پھر خاموش ہوگیا۔ سینے پر ہاتھ رکھ دی۔ ایک ہاتھ سے اپنے بدن کو ٹٹول لی اور ایک ہاتھ زمین پر تھی۔ ہاتھ چہرے سے گزار کر آنکھوں کو صاف کر دی اور فوراً اُٹھ گیا۔ اتنے میں اُس نے سعد کو دیکھا تو پہلے ڈر گیا، اور پھر کہا، آپ بھی یہاں ہیں۔ سعد نے جواب دی ، ہاں ۔ خادم نے تعجب سے سوال کیا ، یہاں وہ ہجوم اور وہ دُھند کی بُو ۔ سعد آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ، دُھند تو فی الحال اُوپر اُٹھ چُکا ہے اگر ہوا آجائے تو واپس ہمیں سمیٹ سکتی ہے۔

اتنے میں ہلکی ہوا چلی تو سامنے ایک چنگاری چمک کر اُوپر اُٹھی تو دونوں حیرت بھری آنکھوں سے دیکھنے ساتھ وہاں چلے گئے اُس خیال سے کہ شاید وہ بوُ ،جسے وہ نہ خوشبو اور نہ بدبُو کہہ سکتے تھے، ادھر جل کر خاکستر ہوگیا ہے۔ جب قدم آگے جاکر وہاں اُنہوں نے دیکھا تو اس میں نہ دُھند تھا نہ دھواں ، اور نہ چنگاری، وہاں کوئی چیز تھی جل کر راک ہو چُکی تھی۔

اتنے میں ہوا کی دوسری لہر چلی وہ راکھ کو بھی لے اُڑی۔ سامنے ایک ضعیف العمر شخص سعد اور خادم کی حیرت زدہ زندگی کو دیکھ کر اُنکی طرف متوجہ ہوکر کہا۔ کچھ سمجھ آیا ۔ جب دونوں نے حیرانگی سے سرہلائے تو اُس نے جواب دی “یہ عجیب کیفیت اور دُھند کی بُو جو آن سیال کُوٹ تھی” اور یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔  

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56025

پس و پیش ۔ آج کا دن ۔ اے.ایم.خان


گزشتہ دو دن سے  فاطمہ اپنے ماں کو نہیں دیکھی ہے۔ اُس کو یہ نہیں معلوم کہ کیا ماجرا ہے۔ اور وہ یہ سمجھ بھی نہیں سکتی اگر اُس کو بتایا بھی جائے۔ اُس کو یہ معلوم تھی کہ گھر کے ایک کمرے میں اُس کی ماں ہے جہاں سے اُس کی درد بھری آواز  کبھی کبھار آجاتی ہے لیکن وہ اُسے دیکھ نہیں سکتی تھی۔

 فاطمہ کی یہ تیسری سال  چل رہی ہے اس لئے اب تک وہ اپنے ماں کے بہت قریب اور اُس کے ساتھ زندگی گزار چُکی ہے۔ یہ پہلا موقع تھی کہ وہ دو دن سے ماں سے دور تھی۔  

گھر میں سارے بچے حیران تھے کہ یہ پہلی دفعہ اُنہیں اُس چھوٹے کمرے میں جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ، اور پوچھتے ہیں تو بھی اُن کو کہا جاتا ہے کہ فاطمہ کی ماں بیمار ہے۔

فاطمہ سے بڑے تین  اور بہن  ہیں ۔ گھر میں دوسرے بچوں کو بھی معلوم ہے کہ گھر میں بیماری ہے لیکن فاطمہ کی تین سالہ زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھی کہ وہ دو دن سے اپنے ماں کو نہیں دیکھی تھی ۔ بس کبھی وہ زیادہ روتی تو اُسے باہر لے جایا جاتا تو ساتھ والے کمرے میں کبھی ماں کی درد بھری آواز آجاتی تھی  تو ایسا لگتا تھا کہ فاطمہ بھی پریشان ، خوف زدہ اور تجسس میں ہے کہ کچھ تو ہے  شاید اسی لئے  وہاں جانے کی ضد بھی نہیں کررہی تھی۔

دو دن سے فاطمہ اپنے باپ کے پاس ہے اور اُسے اپنی بات بتانے کی کوشش کرتی ہے کہ اُس کی ماں کو لایا جائے۔ ہر چند منٹ بعد  ماں کے پاس جانے کیلئے کہتی ہے۔ والد اُسے دلاسہ دے کر کہتا ہے کہ آپ کی ماں آجائے گی، اور کبھی کہتا ہے ٹھیک ہے میں آپ کو لے جاتا ہوں، اور اسے باہر لے کر ماں کے پاس لے جانے کے بغیر واپس گھر لے آتا ہے۔

یہاں نومبر کے مہینے میں اکثر برفباری ہوتی ہے۔گزشتہ رات  بارش ہوئی تھی لیکن برف نہ پڑی مگر ٹھند مزید زیادہ ہوچُکی ہے۔

 گزشتہ دو دن سے گھر میں کھانے کا بھی کوئی خاص بندوبست بھی نہیں۔  شام کے وقت چاول بنایا گیا تو بچے وہ کھائے جوکہ اُن کا پسندیدہ خوراک ہے ۔ رات دیر تک جب اُن کو بھوک لگی تو  اُنہیں خشک میوہ جات دیا گیا  تو اُنہیں کھاکر وہ سوگئے۔

 صبح سارے بچے سویرے اُٹھ گئے۔ شام کا چاول گرم کرکے اُس کے ساتھ چند انڈے تیل میں پکاکر اُن کو دیا گیا تو وہ  شوق سے کھاکر گھر ہی میں کھیل میں مشغول رہے۔  چند گھنٹے بعد پھر کھانے کی فرمائش آئی تو اُنہیں مکئ کے دانے پکا کرکے  الگ الگ برتن میں ڈال دئیے تو وہ خوشی سے کھائے  اور پھر کھیل رہے ہیں۔

فاطمہ کی پوری توجہ اگر چند منٹ کیلئے کہیں جاتی بھی ہے تو فوراً اُسے ماں کی یاد آجاتی ہے،  اور ماں کے پاس لے جانے کیلئے رونا شروع کر دیتی ہے۔

فاطمہ سے بڑے تین اور بچیاں ہیں، اور اس خاندان میں ابھی تک بیٹا نہیں ہوا ہے۔ اُن میں ایک بچی جس کی شادی ہوئی ہے، جب  اُس کی عمر  پندرہ سال تھی۔ گزشہ چند دن سے وہ بھی اپنے والد کے گھر میں ہیں لیکن گزشتہ دو دن سے یہ اپنے والدہ کے ساتھ اُس چھوٹے کمرے میں ہیں۔ دوپہر کا وقت ہوا تھا  کہ اتنے میں یہ بیٹی دوڑ  کر گھر کے دروازے پہ آکر  اپنے والد کی طرف متوجہ ہوکر  بولی۔۔ مبارک ہو ۔ والد خوشی سے امین کہہ دی ۔جیسے ہی والد نے امین کہنے کے بعد مزید پوچھنے والا تھا کہ بیٹا یا بیٹی ہوئی ہے اتنے میں وہ واپس چلی گئِ۔

فاطمہ والد کے چہرے میں خوشی کی عکس دیکھ لی اور جب دوسرے بچے بھی خوشی کا اظہار کئے تو اُس کو ایسا لگا کہ خوشی کا معاملہ ہے اور اُس کی ماں شاید اب آجائے گی۔  والد کو  اتنا معلوم ہوا تھا کہ  بچہ ہوا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ  بیٹا ہوا ہے یا بیٹی۔  دل ہی دل میں یہ بات تھی کہ بیٹا ہوتا تو اچھا ہوتا۔

جب بیٹی واپس ماں کے پاس چلی گئی تو اُس نے مشکل سے پوچھی۔ اپنے والد کو بتا دی ۔  جواب  دیا ، ہاں بتائی۔ ماں نے سر ہلا دی۔ چند لمحے بعد اُس نے دوبارہ درد بھری آواز میں پوچھی ، آپ کا والد خوش ہوا؟  بیٹی نے جواب دی، ہاں، وہ خوش ہوگئی۔

گھر میں یہ بات عام تھی اور اُسے بھی احساس تھی کہ اُس کا شوہر بھی چاہتا ہے کہ بیٹا ہو ۔ اب تو گھر والے اور اُس کا شوہر سب خوش ہونگے ، یہ سوچ کر وہ سکھ کی سانس لی، اور آنکھیں بند کی تاکہ کچھ  آرام کرسکیں۔

گھر میں بچوں کا شور زیادہ ہونے لگا  اور  والد  تذبذب میں  تھا کیونکہ اُس کو یہ نہیں معلوم کہ اُس کا بیٹا ہوا ہے یا بیٹی۔ دس منٹ بعد بیٹی واپس گھر آئی تو والد نے پوچھا کہ آپ کے ماں کی طبیعت کیسی ہے ؟ بیٹی نے جواب دیا اب کچھ بہتر ہے۔ والد نے دوبارہ پوچھا ، وہ ٹھیک ہے؟ بیٹی نے جواب دی وہ کون؟ والد نے کہا  کہ آپ نے صرف مبارک باد دے کر چلا گئی، یہ نہیں بتایا کہ بیٹا ہوا ہے یا بیٹی۔

 بیٹی کو بھی اس بات کا احساس ہو چُکی تھی کہ اُس کا والد پہلے بیٹے کا نام لیتا ہے اور بیٹے کا کتنا آرزومند ہے۔ بیٹی نے مسکرا کر کہا ، والد جڑواں بچے ہیں۔ ایک بیٹا اور  ایک بیٹی،  اور دونوں صحت مند ہیں۔ جیسے ہی بیٹی نے یہ بات کہہ دی ، والد کے آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ فاطمہ اُس کے گود میں تھی وہ پریشان ہوگئی تو اُس نے جلدی سے آنسو پوچھ کر فاطمہ کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ آپ کے بھائی اور بہن کی پیدائش ہوئی ہے۔

 خیر فاطمہ کو  یہ سمجھ نہیں آئی لیکن اُس کے لئے ایک خوشی اور تسلی کا اظہار تھی  کہ شاید اب اُس کی ماں آجائے گی۔

اسی اثنا میں والد نے بیٹی سے کہا کہ اگر آپ مصروف نہیں ہیں تو فاطمہ کو چند منٹ سنبھال لیں میں گاوں والوں کو خوشخبری دے کر آجاتا ہوں۔  بیٹی نے کہا کیسے وہ تو زیادہ وقت لگے گا ۔ والد نے کہا ، بس چند منٹ میں آجاتا ہوں۔  ٹھیک ہے جلدی آجائیں، بیٹی نے جواب دی۔

والد نے فاطمہ بڑے بیٹی کو تھما دی اور باہر ساتھ والے کمرے میں چلا گیا۔  صندوق کھولا اور وہاں سے صرف چار کرتوس تھے وہ  نکالے اور اُوپر لٹکے بندوق کو اُتار کر اپنے گھر کے چھت پر چلا گیا اور بے دھڑک یکے بعد دیگرے  چار دفعہ فائر کردی۔ پاس پڑا چھڑی اُٹھایا جس کے ایک سرے پر کپڑے کا ایک ٹکڑا ایک سوراخ سے لگی تھی اُس سے بندوق کے بیرل کے اندر سے وہ ضرور سے گزار کر نکال دی۔ اور بندوق دوبارہ سمیٹھ کر واپس گھر کی طرف آیا۔

فائر سے گاوں میں بھی یہ خبر پھیل گئی اور معلوم ہوا تھا  کہ اُس کا بیٹا ہوا ہے اور یہ فائر بیٹا  کا اعلان ہے۔

 جیسے ہی وہ واپس گھر میں داخل ہوئی تو اُس کی ایک بیٹی سکول سے واپس پہنچ چکُی تھی اور ساتھ والے کمرے میں اپنا بیگ رکھ کر جوتے آتا رہی تھی۔ جیسے ہی والد کے ہاتھ میں بندوق دیکھی تو وہ حیران اور پریشان  ہوگئی کیونکہ اُس کو معلوم تھی کہ اُس کی والدہ دو دن سے بیمار ہے۔ اُس نے فوراً  پریشانی میں اپنے والد سے پوچھا، کیا ہوا آپ بندوق لے کر آرہے ہیں۔ اُس نے مسکرا کر اپنے بیٹی کی طرف متوجہ ہوکر بولا، آپ کو نہیں معلوم ؟ بیٹی کو تسلی تو ہوگئی کہ معاملہ خوشی کا ہے ، اُس نے جواب دیا ، نہیں۔ آپ کو بھی مبارک ہو ، آپ کا ایک بھائی و بہن کی پیدائش ہوئی ہے۔ بیٹی خوشی سے پھولا نہیں سمائی، اور اپنے والد کے ساتھ لپٹ گئی۔ چند سیکنڈ بعد بیٹی نے کہا ، آپ کو بھی مبارک ہو۔ والد نے امین کہہ دی۔

پھر ، بیٹی نے والد سے پوچھا ،کیا آپ کو معلوم ہے  کہ آج کون سا دن ہے ؟ والد نے کہا آج تو میرے دو بچوں کی پیدائش کا دن ہے۔ بیٹی نے کہا اور کیا دن ہے؟ والد نے جواب دی سکول سے تو آپ آرہی ہیں  تعلیم یافتہ آپ ہیں مجھے بھی بتائیں آج اور کیا دن ہے، اس کی کیا تاریخی اہمیت ہے؟ بیٹی  گہری سانس لی اور جواب دی کہ آج بچوں کا عالمی دن ہے۔ والد نے بے ساختہ کہہ دی واہ ،واہ۔ بیٹی نے مزید بتا دی کے ہر سال 20 نومبر کو  دُنیا میں بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس دفعہ ہمارے سکول میں بھی  یہ عالمی دن منائی گئی۔۔۔

اپنے والد کی طرف دیکھتے ہوئےبیٹی نے کہہ دی کہ آج آپ منع  نہیں کریں گے نا۔ والد نے جواب دی، بالکل نہیں  تو۔۔۔

آج ہم گھر میں بھی آج کی مناسبت سے بچوں کا عالمی دن مناتے ہیں،  والد نے کہا، ٹھیک ہے  ، اور یہ  آج آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ کسطرح آج کا دن مناتے ہیں  باقی انتظامات  جو آپ بتا دیتے ہیں وہ میں کر دیتا ہوں۔

 دوسری بیٹی وہاں پہنچ کر یہ بات سُن رہی تھی، اتنے میں اُس نے بھی بات بڑھا دی  اور کہا کہ آج آپ لوگوں کا یعنی بچوں کا  پسندیدہ کھانا شام کو میں پکاتا ہوں۔ ویسے تو گھر میں ہر دن بچوں کا ہوتا ہے آج کا دن ہم بچوں کے نام کر دیتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
55150

پس و پیش … محتاط سفارت… اے۔ایم۔خان


جنوری 2018ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ ٹوئٹ  اُس وقت ایک سیاسی ہلچل مچا دی جسمیں اُس نے پاکستان کے کردار کے حوالے سے سوال اُٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ پندرہ سال سے امریکہ نے پاکستان کو 33بلین سے زیادہ ڈالر مہیا کی ہے لیکن اس نے ہمیں دھوکہ اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں دیا ، یہ سوچتے ہوئے کہ ہمارے رہنما بیوقوف ہیں۔

 گلوبل پالٹکس کے مطابق ریاستی اہلکار  قومی مفادات کے تحفظ پر مامور ہوتے ہیں۔ حکومت کی پالیسی اور سفارت کاری کا حاصل اس کی بین الاقوامی کردار اور حصول  ہوتی ہیں۔ حکومت آتے اور جاتے ہیں اور حالات کے مطابق حکومتی پالیسی وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی صدر بننے کے بعد افعانستان سے انخلاء کے حوالے سے حتمی فیصلہ لینا اور ساتھ پاکستان اور اس کے کردار کے حوالے سے پاکستانی حکومت کو ہمیشہ اڑے وقت اور حالات سے گزارنا اس کی حکومتی پالیسی رہی ۔  

اس سال اگست کے مہینے افعانستان میں طالبان کا حکومت  میں  آنے کے بعد دوبارہ امریکی کانگریس میں  پاکستان کا کردار دوبارہ زیربحث آگئی ہے۔ طالبان کا حکومت میں آنے سے پہلے اور آنے کے بعد جسمیں کئی ایک ممالک کے حوالے سے سوالات اُٹھا ئے جاتے ہیں جسمیں خصوصاً پاکستان کے کردار کے حوالے سے حکومت سے وضاحت طلب کی گئی ہے۔ اس سے پہلے امریکی سیکرٹری خارجہ ایوان نمائندگان میں افعانستان میں پاکستان کے مختلف مفادات ، جسمیں بعض امریکی مفادات کے تضاد میں ہیں،  کا حوالہ دیتے ہوئے خارجہ امور کے کمیٹی  سے ایک ممبر کو جواب دیتے ہو ئے یہ کہا کہ واشنگٹن  پاکستان کے ساتھ تعلقات پر غور کررہا ہے اور اسے اب کیا کردار افعانستان میں ادا کرنا ہوگا؟

بدھ کے روز امریکی کانگریس کے ایوان بالا میں ایک بل  “افعانستان کاونٹر ٹریریزم ، اورسائٹ ، اینڈ  اکاونٹبیلٹی ایکٹ” ان خدشات میں مزید اضافہ کر دی جسمیں نہ صرف بائیڈن حکومت کا افعانستان سے جلد بازی میں واپسی کے فیصلے اور تباہی پر سینٹ میں ایک  وسیع رپورٹ کا مطالبہ ہوا ہےبلکہ گزشتہ 20 سال سے کس نے طالبان کی مدد اُس وقت کی جب وہ افعانستان پر قابض ہوئے اور پنجشیر کی وادی کو اپنے گھیرے میں لے آئے؟   اس کے علاوہ  یہ بھی اس بل کے مطابق وضاحت طلب ہے کہ کونسے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر  ،جسمیں پاکستان بھی شامل ہے ،  سن 2001سے 2020ء تک طالبان کی مدد کیں؟

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جو حالات افعانستان میں رونما ہوجاتے ہیں اُن کا خمیازہ پاکستان کو دوسرے ہمسایہ ممالک سے زیادہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر بگھتنا پڑتا  ہے۔ افعانستان میں طالبان حکومت کو  اگر مدد مل نہیں جاتا تو بحران ناگزیر خیال کیا جاتا ہے جو ورلڈ ہیلتھ ارگنائزیشن کا صحت کا انتظام درہم برہم ہونے،  اور اقوام متحدہ کا انسانی اور معاشی بحران کا عندیہ پہلے سے دے چُکا ہے۔

 پاکستان کی طرف سے طالبان کی کامیابی اور حکومت بنانے پر  اسے تسلیم کرنے کے حوالے سے سیاسی اور سفارتی بیانیہ گلےپڑ چُکی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک اس بیانیے کو دوسرے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔  گزشتہ 20  سال تک افعانستان پر قابض رہ کر افعانستان کو اس طرح تباہی کے دہانے پر پہنچانے ، بدعنوانی اور اپنی سفارتی ناکامی پر غور کرنے کے بجائے امریکی حکومت دوسرے ممالک اور عناصر پر سارا ملبہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔

پاکستان میں موجودہ حکومت کیلئے نہ صرف  معاشی حالات کے تناظر میں مشکلات درپیش ہیں جسمیں آئی۔ایم۔ ایف اور ایف۔اے۔ٹی۔ایف کے شرائط کو پورا کرنا ہے بلکہ افراط زر پر قابو کرنے کے ساتھ عوام کو ریلیف کی ضرورت اہمیت لے چُکی ہے۔ سفارت کاری ایک ہنر ہے ۔سفارتی لحاظ سے پاکستان کیلئے سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر جو امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں پاکستان کے حوالے سے حالات بننے جارہے ہیں اس پر محتاط سفارتی کردار اہمیت کا حامل ہے تاکہ جو حالات بنتے دیکھائی دے رہے ہیں جس سے ملک میں معاشی مشکلات زیادہ ہونے ،  سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر  تعلقات ناگفتہ بہ ہوسکتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53055

پس و پیش – انگریزی زبان چترال میں کیسے پہنچی؟-اے۔ایم۔خان


چترال اپنی تنوع کی وجہ سے نمایاں رہی ہے۔ اس میں موجود  تمدن، زبانین، مسلکی اور مذہبی گونا گونی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ چترال کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ ایک پُر امن علاقہ ہونے سے مشہور ہے۔اگرچہ ریاستی دور میں ایک ‘لہر’ آئی تھی اسکی نوعیت مسلکی تفرقہ کے حوالے سے اختلافات اور نقصانات جو سن80 کی دہائی میں  رونما ہوئے اُن سے مختلف تھیں لیکن عمومی طور پر چترال کی تاریخ میں منافرت کی لہر ، اختلافات اور شدت پسندی نہایت محدود رہ چُکی ہے۔

یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکار جب ہندوستان (1611-15) پہنچے تو اُن کے ساتھ انگریزی زبان ہندوستان پہنچی۔کمپنی کے اہلکار تو انگریزی بولتے تھے لیکن  جب ہندوستان میں1858 کے بعد ہندوستان کی بھاگ دوڑ براہ راست برطانوی حکومت نے لے لی تو انگریزی زبان بھی سکہ رائج الوقت ہوگئی۔ جیسے ہی سلطنت برطانیہ کی بساط ہندوستان کے شہر در شہر  سے ہوکر باہر سرحدات یا سرحدی علاقوں میں برسر پیکار رہی تو اُن کے ساتھ انگریزی زبان بھی وہاں سرایت کر گئی۔

 بین الاقوامی جریدےکے ایک آرٹیکل میں ڈاکٹر طارق رحمان لکھتے ہیں  کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کا آغاز اور جدیدیت نے زبان کو شناخت کی ایک اہم علامت بنا دی… جوکہ )انڈیا میں (مذہب کے بعد تشخص متعین کی. نوآبادیاتی نظام میں انگریزی زبان تشخص کے علاوہ  سرکاری زبان اور طاقت کی علامت بھی رہی ۔ 

19ون صدی کے آخری عشرے میں گریٹ گیم کے پیش نظر جب برطانوی حکومت کیلئے ریاست چترال نے اہمیت لے لی تو ویلیم لوکھرٹ مشن سن 1877ء کو اُسوقت کے ریاستی حکمران کے ساتھ معاہدہ کر لی تو اس کے بعد برطانوی اہلکار چترال آئے اور قیام کرتے رہے ۔  اور یہ وہ دور تھی جب رسمی طور پر انگریزی زبان انگریز کے ساتھ چترال آئی۔ فرنگی اہلکار اپنے روداد سفر جس میں چترال آنے ، وہاں قیام کرنے ،اور چترال سے واپس جانے کے حوالے سے اپنے کتابوں میں لکھے ہیں۔

فرنسس ایڈورڈ ینگھسبنڈ  اپنے کتاب(1884-94) میں کئی ایک موضوعات پر لکھنے کے علاوہ  چترال آنے  اور وہاں تعلیم کے حوالے سے تحریر کرتےہیں کہ اس پورے [ملک] میں یقیناً ایک درجن سے زیادہ لوگ لکھ اور پڑھ نہیں سکتے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ مستوج کے گورنر کے پاس اُس وقت کوئی نہیں تھا کہ وہ لکھ سکے اور چند مواقع پر انہیں خط ملے تو وہ اُنہیں میرے کلرک کے پاس پڑھنے کے لئے لے آئے۔

اُس وقت کے تناظر میں چترال میں تعلیم کی شرح کے حوالے سے شاید کوئی دوسری رائے ہوسکتی ہے کیونکہ چترال میں پہلے سکول کی بنیاد 1920میں رکھی گئی ۔ غیر رسمی تعلیم کے علاوہ،  گوکہ وہ بھی نہایت محدود تھی، اس سکول سے چترال میں رسمی تعلیم کا آغاز ہوا تھا۔ ینگھسبنڈ کے کتاب کے اس اقتباس سے یہ بات واضح نہیں کہ وہ کس زبان میں لکھنے اور پڑھنے کی بات کرتا ہے۔ اُس وقت فارسی یا اُردو زبان میں کچھ لکھنا اور پڑھنا خواندگی کے ذمرے میں آتا تھا یا نہیں یہ معلوم نہیں؟ہاں یہ معلوم ہے کہ اس سے پہلے ہندوستان میں لارڈ میکالے کا وہ قول تو سب کو یاد ہوگا جسمیں اُس نے یورپ کے ایک اچھے لائبریری کا ایک شلف ہندوستان اور عرب کی مقامی ادب سے قدرے بہتر ہونے کی بات اپنے  “منٹ” میں درج کی تھی۔

ہندوستان سے باہر پہاڑی سرحدات  یعنی پامیر سے ہوتے ہوئے جب انگریز  چترا ل پہنچا تو اُن کی زبان ، چال ڈھال، طور طریقے، کلچر، رہن سہن اور لباس توجہ کا مرکز بنے۔ مقامی لوگوں کیلئے یہ وہ زبان تھی  جسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ اور جو کوئی  غیر مقامی ہندوستانی انگریزی جانتا تھا دربار میں اُسکی بھی بہت قدرو منزلت تھی۔

پہاڑی لوگوں میں اُسوقت انگریزی بولنے اورسمجھنے  کا شوق پیدا  ہونے کی ایک بڑی وجہ اانگریزی زبان اور کلچر سے منسلک امتیاز، طاقت اور مراغات تھیں۔ چترال میں اُس وقت انگریزی  زبان میں لکھی کتابوں میں موجود علم توجہ کا مرکز بننے کی گنجائش کم تھی۔ اُس وقت جو انگریزی بول اور لکھ سکتا تھا وہ تعلیم یافتہ ، اور وہ ایک اچھے عہدے پر فائز ہوسکتا تھا ۔ اور ساتھ وہ انگریز کے قریب اور رابطے کا ایک ذریعہ بن سکتا تھا۔

برنرڈ کہن کے مطابق 17 ون صدی عیسوی میں برطانیہ کو ہندوستان میں یہ محسوس ہوگیا کہ فارسی نہایت اہم زبان ہے جسے سیکھنا چاہیے۔ آٹھارون صدی میں پھر برطانوی افسران فارسی سیکھے، اس میں دستاویزات تیار کئے، اور یہ بھی اُنہیں محسوس ہوا  کہ اسے انڈیا میں جو اشرافیہ ہے اسےبھی سیکھایا جائے۔ ایک دوسرے جریدے کے آرٹیکل میں ڈاکٹر طارق رحمان لکھتے ہیں کہ فارسی زبان سیکھنے کا اصل مقصد اس سے پہلے نظام حکومت کو سمجھنا اور اُس مربوط نظام کے مطابق حکومت چلانا تھا تاکہ ہندوستان کے لوگوں کے پاس کم سے کم حکومت کے خلاف ہونے یا بغاوت کرنے کی گنجائش باقی رہے۔

اُس زمانے میں انگلینڈ میں بھی فارسی سیکھنے کا ڈیمانڈ بڑھ گیا، اور بنگال کی فتح کے بعد یہ مزید زیادہ ہوگئی تھی۔ اور تو اور ، فورٹ ویلیم کالج(1800) میں برطانوی افسران کو فارسی کی تعلیم  دی جانے لگی۔

جو انگریز اہلکار اُس وقت چترال آیا اُسکی تعلیم، سمجھ اور دُنیا بینی مقامی لوگوں کیلئے فکر انگیز تھی ۔ گوکہ مقامی لوگ سودیشی علم و سمجھ کے مالک تھے لیکن ہم عصری، بین الاقوامی ،  نظریاتی اور دوسرے دقیق موضوعات سے  اگر عاری نہیں تو اُن پر دسترس بھی نہیں رکھتے تھے۔ اور جو علم اُس وقت لوگوں تک پہنچتی تھی جوکہ ملک میں رائج اور ریاست چترال میں فارسی زبان سے مل رہی تھی۔

انگریز کی آمد کے بعد فارسی زبان، ادب اور علم پر توجہ جس مقصد کیلئے شروع ہوا اُس مقصد کے حصول کے بعد اس پر توجہ کم ہوئی ۔ اب فارسی سے انگریزی میں موجود علم کو ‘خالص’ قرار دینے پر کام شروع ہوا تاکہ فارسی کی جگہ انگریزی زبان لے سکے۔  یہ صورت حال  تقسیم سے پہلے ہندوستان میں رہی، اور پاکستان بننے کے بعد جب اُردو قومی زبان قرار دی گئی اور سرکاری یا دفتری زبان انگریزی جاری رہی تو فارسی کی حالت ہوئی۔

چترال میں فارسی زبان کا استعمال پاکستان بننے کے بعد بھی ہوتا رہا اور اس کی اہمیت طویل وقت تک رہی جسکی ایک وجہ اُسوقت کے تعلیم یافتہ  لوگ فارسی داں تھے، اور دوسرے زبان اور مضامین میں تعلیم اسے ریپلیس نہ کر چُکے تھے۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کے مطابق ‘چترال میں 1030ء سے فارسی کی آمد آمد تھی’ اور یہ ایک وقت تک جاری رہی جبکہ گل مراد خان حسرت  تاریخ رشیدی کا حوالہ دے کر بتاتے ہیں کہ 1540ء کے بعد یہ علاقہ فتح ہوا تو فارسی زبان چترال پہنچی۔   چترال ریاست میں )چترال کے زبانوں کے حوالے سے 1992 کے ایک سروے کے مطابق( فارسی زبان 1952 ء تک سرکاری زبان رہی۔ انگریزی کی افادیت ، ضرورت  اور طاقت پہلے سے محسوس کی جارہی تھی اور جب فارسی ریاستی زبان سے بھی نکل گئی تو چترال میں بھی فارسی زبان کی جگہ اُردو اور انگریزی نے لے لی، اور پاکستان کے ساتھ باقاعدہ ضم ہونے کے بعد سکول وکالج میں جو بھی سیلیبس تیار ہوئی  وہی پڑھایا گیا۔تقسیم سے پہلے کی طرح پاکستان اور چترال میں بھی انگریزی ، اُردو اور مقامی زبانین سماجی اور معاشی تقسیم کی پیمائش کے طور پر  بھی لئے جانے لگے۔

چترال میں انگریزی تعلیم سے متاثر ہوئے، اور فائدہ سب سے پہلے وہ لوگ لئے جو انگریز کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہے اور تھے ۔  انگریزوں کے ساتھ کام کرنے والے لوگ اور اُن کے رشتہ دار انگریزی زبان اور اس سےمتعلق چیزیں اُسی طرح اختیار کیں۔ مقامی لوگ بعد  میں اُن غیر مقامی لوگوں کے ساتھ رشتہ ازواج میں بھی منسلک ہوئے جو اسوقت انگریز کے ساتھ چترال آئے تھے ۔ اسطرح چترال کے لوگوں کا چترال سے باہر رشتہ داری بھی ہوگئے ۔جس کا ایک اثر یہ ہوا کہ عام لوگ اسوقت تعلیم اور انگریزی تعلیم کی ضرورت ، افادیت اور اہمیت کا ادراک رکھتے تھے وہ اپنے بچوں کے تعلیم اور خصوصاً انگریزی تعلیم و تمدن کو ہر چیز پر فوقیت دی۔ اور انگریز اب بھی نسل اور زبان سے فائدہ بٹور رہی ہے۔  

 1980ء کے بعد چترال میں انگریزی تعلیم پر کام مزید شدت سے شروع اُسوقت ہوئی جب چترال میں بھی پرائیوٹ سکول بنے ۔ اُسوقت )اور اب( ہر پرائیوٹ سکول کا مطلب انگلش میڈیم سکول ہے۔ سرکاری سکولوں میں چند سال پہلے تک وہی نظام تھا جو چلی آرہی تھی، اور  چند سال پہلے سے سرکاری سکول بھی انگریزی تعلیم شروع کئے۔ )اب سنگل نیشنل کریکلم کے بعد کیا منظرنامہ ہوگا وہ دیکھنے کی بات ہے(

برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارندے  آئے تو ساتھ انگریزی زبان کی بھی یہاں پہنچی۔ ہندوستان میں نطام حکومت اور قواعد وضوابط کو سمجھنے کیلئے انگریز نے وقت کی مناسبت سے فارسی زبان پر توجہ دی، اور مقصد کے حصول کے بعد اپنی زبان پر کام شروع کی۔  نو آبادیاتی نظام کے دوران انگریزی ایک علامتی زبان رہی، اور سولائزنگ مشن میں انگریزی زبان اور کلچر کا کردار اہم رہا۔ گریٹ گیم کے دوران جب انگریز چترال آئی تو انگریز کے ساتھ اُس کی زبان بھی چترال پہنچی۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52383

پس و پیش – پہاڑی لوگوں کا ایک منفرد میلہ – اے۔ایم۔خان

گزشتہ کئی سالوں سے ہر سال شندور کے مقام پر بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر ایک روایتی کھیل کھیلا جاتا ہے جسمیں لاسپور اور غذر ، اور بعد میں  چترال اور گلگت سے پولو ٹیمز حصہ لیتے آرہے ہیں۔ اس سطح مرتفع میں ہونے والی کھیل  جسے بعد میں ‘بادشاہوں کا کھیل اور کھیلوں کا بادشاہ’  نام دی گئی۔  یہ روایت نہایت قدیم ہے جو بعد میں اس نام سے مشہور ہوگئی ہے۔ اس روایت کی تاریخ اس سے بڑھ کر ہے، یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے لاسپور اور غذر کے لوگ اپنے اپنے علاقے کے گرمائی سے ہوکر شندور گراونڈ میں  ایک خاص سیزن میں اپنے پالتو جانور چرانے کے ساتھ ایک  تماشہ یا کھیل کے طور پر پہاڑی پولو کی بنیاد  رکھ دی۔ 

گوکہ اب یہ وثوق سے کہا نہیں جاسکتا کہ شندور کے مقام پر یہ کھیل کب اور کسطرح شروع ہوا لیکن عین ممکن ہے کہ شندور میں روایتی پولو لاسپور اور غذر کے اُن باسیون نے  شروع کئے ہونگے  اور اسے ایک نام دی جوکہ اب فری اسٹائل پولو کے نام سے مشہور ہے۔  شندور سطح مرتفع میں گرمیوں کے مہینے میں [ پہلے جون اور اب جولائی ] یہ کھیل اب بھی ایک تہوار  کے طور پر منایا جاتا ہے۔ معلوم تاریخ کے مطابق چھ صدی قبل مسیح کو پولو کا کھیل  ایران میں جنم لی جوکہ اب مختلف شکل میں دُنیا میں موجود ہے۔ اس بات میں قوی امکان ہے کہ ایران سے ہوتے ہوئے یہ کھیل  وسطی ایشیاء اور افعانستان سے اس ریجن میں پہنچ چُکی ہے۔چترال کی تاریخ میں انیسویں صدی کے آخری پندرہ سال اہم رہے ہیں جسمیں برطانوی سامراج “گریٹ گیم” کے دوران  روس اور افعانستان سے خطرات  کے پیش نظر گلگت اور چترال میں دلچسپی لینا شروع کی۔

جس کا  ایک یہ نتیجہ یہ ہوا کہ برطانوی حکومت کے فوجی اہلکار بالاخر لوکھرٹ مشن میں چترال کے اسوقت کے حکمران سے ایک معاہدے میں شامل ہوگئے جس سے دفاعی اور خارجی امور اُن کے ہاتھ میں چلی گئی ۔ برطانوی اخبار ‘گارڈین’ اپنے ایک فیچرڈ رپورٹ میں  لکھی ہے کہ  جنرل کوب نے پولو  کو رسمی شکل دی ، اور ایک دوسری روایت کے مطابق  یہ برطانوی اہلکار  “مس جُنالی” میں رات کے وقت چاند کی روشنی میں پولو کھیلنے کی روایت رکھ دی؟  مس جُنالی  میں پولو سے شعف رکھنے والے یہ پہلے  انگریز ہو سکتا ہے جسے پہاڑی پولو کھیلنے کا موقع ملا ہوا ہوگا لیکن یہ انہی رپورٹس سے واضح ہوجاتی ہے کہ 1930 سے پہلے  اس گراونڈ میں مقامی لوگ چاند کی روشنی میں پولو کھیلا کرتے تھے اور اسی مناسبت سے یہ گراونڈ مس جُنالی نام سے پہلے ہی سے جانا جاتا تھا۔ چترالی چترال میں بولی جانے والی زبان کھوار میں ‘مس’ کے معنی چاند اور ‘جُنالی’ کے معنی کھیل کا میدان ہے۔ 

لاسپور اور غذر کے لوگوں سے ہوتا ہوا یہ تہوار ایک قومی میلہ کی شکل اُسوقت اختیار کی جب یہ ایک کیلینڈرڈ تہوار قرار دی گئی۔  ہر سال ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں اس کا انعقاد ہونے  لگا۔ شندور میں روایتی پولو  ایک باقاعدہ تہوار کی حیثیت لینے کے بعد  کھیل کا مرکز  چترال اور گلگت کے پولو ٹیمون  کے درمیان مقابلے سے مقبول ہونے لگا، جوکہ اب بھی ہے۔ گزشتہ دو سال پہلے اس تہوار کے انعقاد میں تعطل شندور گراونڈ اور اس سے متصل زمیں کے حوالے سے صوبائی حکومتوں میں تنازغہ  ،اور چترال میں مسائل ضلعی انتظامیہ اور چترال پولو اسوسیشن کے درمیان کھیل کا انتظام اور کھلاڑیوں کے سلیکشن کے حوالے سے سامنے آئے، اور بعد میں، باوجود اسکے گزشتہ سال کی طرح  اس سال بھی شندور کا میلہ نہ ہونے کا بنیادی وجہ کورونا کی وباء تھی۔دُنیا میں فری پولو کیلئے مشہور اور بلند ترین پولو گراونڈ ہونے کی شہرت کو مزید تقویت اُسوقت  ملی جب باہر ملکوں سے میڈیا  اور سیاح اس تہوار میں شرکت کرنے کیلئے آئے، اور  اس ایونٹ کو قومی اور بین الاقوامی میڈیا نے  کوریج دی۔ چترال کے مقامی زبان  کھوار  میں پولو کو  “استورغاڑ” کہا جاتا ہے، اسکا مطلب ‘گھوڑے کا کھیل’ ہے ۔

چترال کے تناظر میں پولو شروع سے اب تک “گھوڑے کا کھیل اور کھلاڑی کا کھیل” سے مستغر تھا اور یہ بعد میں، ایک دور میں، ‘بادشاہوں کا کھیل اور کھیلوں کا بادشاہ’  کہا جانے لگا ۔ لاسپور اور چترال کے پولو ٹیمون کے کھلاڑیوں کو دیکھا جائے اس میں چترال  کے مختلف وادیوں، اعتقاد اور قوم یا قبیلے  کے لوگ ہیں جسمیں ایک عام کھلاڑی کے علاوہ چترال سکاوٹس اور پولیس کے کھلاڑی بھی شامل ہوتے ہیں۔  اور یہ صورتحال گلگت میں بھی ہے۔ زبان زد عام کھیل جسے اب فری اسٹائل پولو کہا جاتا ہے اسمیں لوگ گھوڑے اور کھلاڑی دونوں کو دیکھنے ہر سال شندور چلے جاتے ہیں کہ وہ سطح سمندر سے بارہ ہزار فٹ کی بلندی میں ہواوں کے دوش اور اکسیجن کی کمی میں  کسطرح کھیل کھیلتے ہیں۔ چترال میں شندور کے علاوہ بالائی چترال میں مستوج، سنوغر، خاندان لشٹ [ جو اب موجود نہیں]، بونی، کوشٹ ، ریشن اور زیرین چترال میں چترال پولو گراونڈ کے علاوہ دروش اور ایون کے گراونڈ میں پولو مشہورہیں ۔ نہ صرف گلگت بلکہ چترال میں بہت سے کھلاڑی اپنے زمانے میں اپنے کھیل اور گھڑ سواری کی وجہ سے جاننے جاتے ہیں۔ 

چترال میں اب پولو کھیلنے والے کھلاڑی پروفیشنل ہوگئے ہیں یعنی اُن کے کھیل میں ذور اور طاقت کے علاوہ  پھرتی ، اور کھیل کی ٹیکنیکی نوعیت پر  زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اب کھلاڑی اپنے گھوڑے کو اس طرح ٹرین کرتی ہے  جس سے وہ تیز دوڑ کے ساتھ پھرتی سے کھیلے۔ پولو میچ کے دوران کھلاڑی اور گھوڑے کے درمیان ایک دوسرے کو سمجھنے، کھیل کو بھانپنے ،  ربط اور ہم اہنگی کلیدی حیثیت کا حامل ہے، اور پھر ٹیم کے ساتھ کھیل کھیلنا  پولو میں ناگزیر ہے۔شندور پولو فیسٹول کو مقامی سے قومی ، اور قومی سے بین الاقوامی سطح پر اُجاگر کرنے اور اسے اسطرح جاری رکھنے کا تعلق بھی کھیل ، کھلاڑی، انتظامیہ ، تماشائی، میڈیا، حکومت،  چترال اور گلگت کے لوگوں میں اس تہوار سے شعف پر منحصر رہ چُکی ہے جس میں بعض لوگوں کو کھیل پر ، بعض کو کھلاڑی ہونے پر، کسی کو انتظامیہ ، کسی کو حکومت اور انتطامیہ کا سربراہ اور نمائندہ ہونے کی بنیاد پر اس کھیل کی سرپرستی اور پروموشن پر اپنے اپنے کام اور کردار کی بنیاد پر داد تحسین کے مستحق ہیں۔ 

شندور میں کاروبار اور سیاحت کی سیاست حالیہ سالوں کی پیداوار اور مظہر ہے۔ خوف صرف یہ ہے کہ جس سے اس  تاریخی کھیل اور مقام کو زد نہ پہنچے ۔دُنیا میں چترال کے پہاڑی لوگوں کا یہ منفرد کھیل ، پولو،  اب پوری دُنیا میں مشہور ہے اور  ملک میں سیاحت کے فروغ میں یہ میلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔  یہاں کے لوگ اب بھی اُس شدت اور شوق کے ساتھ سے یہ کھیل کھیلتے ہیں ، دیکھتے اور پسند کرتے ہیں۔ صوبائی سطح پر شندور میلہ منعقد کروانے میں  وہ عوامل اور عناصر جو خلل ڈالنے کا سبب بنے اور بن سکتے ہیں، اور وہ مسائل جو اس میلے میں تعطل کا باعث بنے اور بن سکتے ہیں اُنہیں صوبائی سطح پر حل کرکے اس تہوار کو جاری رکھنے کیلئے اقدامات حکومت، سیاحت کے فروغ اور علاقائی ترقی کے وسیع تر مفاد میں ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50326