Chitral Times

گرم چشمہ روڈ اور دھرنے کی دھمکیاں – محمدآمین


گرم چشمہ اور چترال ٹاون کے درمیاں واقع گرم چشمہ روڈ اپنی جیو اسٹریٹیجیک اور اقتصادی افادیت کے لحاظ سے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ایک طرف یہ پاکستان کو درہ دوراہ (Dorah Pass) کے زریعے مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک تک رسائی کے لیئے مختصرترین زمینی راستہ مہیا کرتی ہے کیونکہ چترال ٹاون سے تاجکستان کے درمیان ٹوٹل فاصلہ تقریبا 180کلومیٹر ہے۔اور دوسری طرف درہ شوئی کے زریعے یہ پاکستان کو افغانستان کے نورستان صوبے سے ملاتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق 1979؁ء سے لیکر 2007؁ء تک افغانستان سے تقریبا 33ارب کے لاگت کے قیمتی پھتر لاجورد(Lapiz laluzi) اور کم و بیش اٹھائیس لاکھ مال مویشی دوراہ کے راستے پاکستان کے مختلف مارکیٹوں میں داخل ہوئے۔اور دوسرے اشیاء کے مد دونوں ممالک کے درمیان درامدت اور برامدت کی لاگت بھی کروڑوں میں تھی۔پچھلی سال یہ درہ دوبارہ کراس بارڈر ٹریڈ کے لیئے کھولنے کا باقاعدہ اعلاں ہو چکا ہے اور مختلف افس کے لیئے زمین بھی تعین کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ گرم چشمہ کے روڈ سے ہر سال کروڑوں مالیت کے آلو،مٹر اور ٹماٹر اور میوے بھی ملک کے مختلف منڈیوں میں منتقل ہوتے ہیں اگر جیو اسٹریجیک اور اقتصادی طور سے دیکھا جائے تو اس پاس کوملک میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔


گرم چشمہ اور چترال کے درمیان45کلومیٹر پر محیط گرم چشمہ روڈ کی تعمیر کا اغاز 1960؁ء کے عشرے میں ہوا تھا۔اور اس کے بعد وقتا فوقتا مختلف حکومتوں کے ادوار میں اس پر کام ہوتا رہا۔تاہم پکاگی (matteled road)کے حوالے سے مرحوم ظفر احمد نے نمایان کا م کیا لیکن اگر یہ ہماری بدقسمتی سمجھی جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اس کی حکومت کو مقررہ وقت سے پہلے تحلیل کیا گیا۔اس کے علاہ لٹکوہ کے چمپین شہزادہ محی الدین نے بھی تھوڑے سے اپنے حصے سے اس روڈ میں ڈالا لیکن جو احساں لٹکوہ کے عوام نے اس کے ساتھ کئی عشروں سے کیئے تھا وہ اس کا دس فیصد بدلہ بھی نہیں تھا۔بات یہان تک نہیں رک سکتی ہے پھر وہ دن بھی دیکھنے کو ملا کہ گرم چشمہ کا اپنا بیٹا سلیم خاں کی ایک طویل المدت اقتدار کا اغاز ہوا۔

سیاست کا پہلا سیڑھی بحثیت اسپیکر ضلعی اسمبلی سے ہوا پھر اس کے بعد روکنے کا نام ہی نہیں لیا کیونکہ لٹکوہ کے عوام بڑے مخلص اور سیاسی طور پرعلاقائی پسند ہوتے ہیں بیٹا صوبائی وزیر بھی رہا پھر بڑی مشکل سے اس سے دوبارہ صوبائی اسمبلی کے نشست کے لیئے منتخب کئے گئے اور بات یہاں تک نہیں رکتی موجودہ الیکشن میں بھی اپنے اکثریتی ووٹ ا سکے جھولی میں ڈال دیئے۔امیدیں اور خواہشات بہت زیادہ تھے لیکن کریم اباد،ارکاری اور گرمچشمہ تک سب کا ایک ہی خواہش تھی اور ایک ہی مطالبہ تھا کہ کچھ بھی نہ کریں صرف اس روڈ کو صحیح معنوں میں ہمارے لئے بنائے تاکہ ہم موسم گرما میں سیلاب اور سرما میں برف کے تودے گرنے سے بچ جائیں وعدے ہوئے جلوس جلسوں میں اعلانات ہوئے کہ آن قریب اس روڈ میں کام شروع ہونے والے ہیں لیکن خدا جائے وہ دن کبھی بھی نہ ایااور اس دن کا سورج کبھی بھی طلوع نہیں ہوا،اور ہمارا یہ سپوت خود کہتا تھا کہ گرم چشمہ کے اچھے دن شروع ہونے والے ہیں لیکن گرم چشمہ کے اچھے دن کبھی نہیں ائے البتہ بھائی صاحب کے اچھے دن ضرور ائے ہیں اور اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ ہمیں اپنون نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔


جب میں اس اہم راستے کے لیئے بے یارومدگار کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو کئی دوست اعتراض کرتے ہیں کہ فلان صاحب نے اس روڈ پر یہ کام کیا تھا فلاں وقت میں ابھی سلیم خان نے تو سوشل میڈیا پر یہاں تک دعوی کیا ہے کہ چترال سے پھاچیلی تک روڈ کو پکا اسی نے کیا ہے اور اس کے دور اقتدار میں چترال سے گبور تک روڈ کی منظوری بھی ہوئی تھی جو حقائق سے مکمل طور پر ہٹ کر اور مضحیکہ خیز بیاں ہے اور حقیقت سے دور تک اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اگر جیکا چترال سے پھاچیلی تک اس کو پکا کیا تو کیا ہم اس کی کریڈیٹ کسی سیاسی لیڈر کے کھاتے میں ڈالیں تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی۔ہاں البتہ گرم چشمہ روڈ کی لاچاری ختم ہوتے نظر اتی ہے کیونکہ ابھی پاکستان کے اہم ادارے این ایچ اے اس سے سنبھال رہی ہے اور ہمیں کام ہوتا نظر ارہے ہیں شاہ سلیم تک مشنری ہر وقت موجود ہیں اور اس سال برف باری میں بھی گبور روڈ بند نہیں ہوا جو ایک معجزہ سے کم نہیں ہے،انصاف کا تقاضہ بنتا ہے کہ جس کے دور حکومت میں این ایچ اے نے کام شروع کیا ہے کریڈیٹ بھی اس کو جاننا چاہئے کیونکہ یہ ادارہ اوپر اسمان سے نہیں ایا بلکہ حکومت کے ماتحت ادارہ ہے اور یہ حکومت کے اجازت کے بغیر کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرسکتا۔

جب سے یہ ادارہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں گرم چشمہ روڈ پر کام شروع کیا ہے دوسرے جماعتوں کے اکابریں کریڈیٹ لینے کی کوشش میں ہیں کہ اس کو یہاں لانے میں میں نے فلان وقت میں فلان کام کئے تھے،انشاء اللہ بہت جلد پی ٹی آئی کی حکومت میں شاہ سلیم تک روڈ پر کام بھی شروع ہوگا۔


چند روز قبل گرم چشمہ میں پاکستان پپلز پارٹی کا ایک جلسہ منعقد ہوا تھا جس میں فخر انجیگان سابقہ صوبائی وزیر اور دو دفعہ سابقہ ایم پی اے سلیم خان نے پی ٹی آئی کے حکومت کو ورننگ دیا ہے اور ایک سوشل میڈیا پر پیغام بھی اس کی طرف سے وائرل ہوا ہے کہ اگر حکومت نے ایک مہینے کے اندر گرم چشمہ روڈ پر کام شروع نہیں کیا تو ہم اسلام اباد میں دھرنا دیں گے۔ہم جناب سلیم خان کی جرات کو سلام پیش کرتے ہیں کہ وہ عوام لٹکوہ کے لیئے اتنا بڑا کام کرنے جارہا ہے۔لیکن مجھے ہنسی اتی ہے کیا یہ واقع ہو جائے گا؟ہم بس سلیم خان سے صرف یہ مطالبہ کرین گے کہ 100بندوں کو لیکر اسلام اباد میں صرف 26 دن کا دھرنا دیں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ اپنے ساتھ سی ڈی ایم اور دوسرے پریشرگروپس کے لوگ بھی لے جائیں۔

اگر اپ نے چھبیس دن کا دھرنا اسلام میں کامیابی سے دیا تو واپسی پر لٹکوہ کے سارے لوگ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر اپ کا چترال میں شاندار استقبال کریں گے اور اپ کو اکیس توپوں کی سلامی دی جائے گی اور اس کام میں سارے علاقے کے لوگ اپ کے ہمت کو داد دینگے۔لیکن جہاں تک میرا خیال ہے یہ اپ کے بس کا کام نہیں ہے اب صرف حکومت پر دباوٗ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو اپکے خلاف بولتے ہیں ان کے اواز کوبھی دبانے کے لئے مختلف بلیک میلنگ کے حربے استعمال کرتے ہیں اور یہاں تک کہ بعض وقت جھوٹ کا سہارا بھی لیتے ہو کہ فلان کو پروجیکٹ میں اتنے ر وپے دیا تھا اور کبھی مخالفیں پر جب شیڈول لگتا ہے تو مسیج سینڈ کرتے ہو کہ ابھی مزا چھکو۔

یہ بڑے cheapکام ہوتے ہیں اور اپ جیسے سیاسی لیڈر سے یہ توقع نہیں کیجا سکتی ہے حتی کہ گاوں کے سطح پر بھی سیاسی ورکر ز یہ کام نہیں کر سکتے ہیں۔بحرحال ہم اپکی اسلام دھرنے کا منتظیر ہیں کہ کب چھبیس دن کا کامیاب دھرنا دیکر ہمارے بھائی واپس چترال پہنچے گا۔تاکہ یہ چترال کی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہوگا جس کا کریڈیٹ یقینا عمران خان صاحب کو جائے گا کیونکہ اس نے تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دیا تھا جس کادورانیہ 126دن تھے اور ابھی اپوزیشن والے بھی دھرنے کو ایک مثبت پہلو کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52014