Chitral Times

بزمِ درویش ۔ محبت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

بزمِ درویش ۔ محبت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میں میاں وحید کا ہاتھ پکڑا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھانکا اور تصدیق طلب ٹھوس لہجے میں کہا یار میاں تم ابھی تک اپنے دعوے وعدے پر قائم ہو تو میاں نے میرے ہاتھ کو گرم جوشی سے دبایا مسکراتی آنکھوں سے آ ہنی ٹھوس لہجے میں کہا جی پروفیسر صاحب میں پچیس سال پہلے والے وعدے دعوے پر آج بھی قائم ہوں وہ جذبہ ہر گزرتی ساعت کے ساتھ زیادہ مظبوط ہو تا جارہا ہے اور میں آج پھر اُس وعدے اور دعوے کو بھر پور طریقے سے دہراتا ہوں کہ جب تک میری آنکھوں میں نور اور دل کی دھڑکن چلتی ہے میں اُس بات پر قائم ہوں اور مرتے دم تک رہوں گا میں بے یقینی سے بولا یار میاں سوچ تو‘ تو وہ بو لا یہی سوال آپ نے پچیس سال پہلے بھی کیا تھا اور اُس وقت بھی میرایہی جواب تھا اور آج پچیس سال گزرنے کے بعد بھی میں اپنی بات پر اُسی دن کی طرح قائم ہو ں ہر گزرتے ماہ و سال گردش ایام بدلتے موسم میرے ارادے وعدے کو کمزور کرنے کی بجائے مزید مضبوط کرتے گئے ہیں اب میں خوشگوار تعریف بھری نظروں سے میاں وحید کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا وہ واقعی مجھے حیران کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا وقت کی رفتار اور غبار اُس کے ارادے کو دھندلانے کی بجائے مزید چمکا گیا تھا اب میں نے ماضی کی چلمن میں جھانکا تو پچیس سال پہلے کا جوان میری نظروں کے سامنے آگیا

 

جب میں ہمیشہ کی طرح سردیوں کی چھٹیاں منانے اپنے گاؤں آتا جہاں پر میری روحانیت کی خوشبو پھیل چکی تھی پتہ نہیں میرے والدین کی کو نسی دعا تھی یا راتوں کا جاگنا اللہ کو ان کی دعا پسند آگئی اور مجھ سیاہ کار گناہ گار پر حق تعالی نے شہرت کی دیوی مہربان کر دیا او رپھر ایسی کی کہ پچیس سال گزرنے کے باوجود اُس مہربان رب نے گناہوں عیبوں کو چھپایا ہوا ہے میں پتلہ خاکی شہرت کے آسمان پر بلاوجہ کوئی بڑی نیکی کئے بغیر چمکتا چلا گیا اِس کی وجہ یقینا والدین کی دعاؤں کے ساتھ اجدا د کا تقوی پرہیز گاری ہو گی جو اللہ تعالی نے مجھ سیاہ کا ر کو خدمت خلق اور فقیری کے لیے چن لیااور پھر میری کسی بھی کو شش کے بنا مجھے مرجع خلائق بنا دیا کروڑوں لوگ مجھ گناہ گار سے زیادہ متوکل پرہیز گارعبادت گار ہیں لیکن اُس مہربان رب نے شہرت عطا کی تو جب میں گاؤں جاتا تو سینکڑوں لوگ دامن مراد پھیلا ئے مُجھ سے ملنے آتے میں حیرت میں گم آنے والوں کو دیکھتا اور اپنے گناہوں کی لمبی قطار نظر آتی پھر ندامت اور شکرانے کے آنسو بارگاہ ِالٰہی میں پیش کر تا کہ اللہ میاں یہ لوگ مُجھ گناہ گار کو نیک بزرگ سمجھ کر میرے پاس آتے ہیں جب کہ حقیقت سے تو اچھی طرح باخبر ہے کہ میں کتنا گناہ گار ہوں یہ تیری مہربانی ہے کہ عیبوں کے باوجود مجھے لوگوں کی نظر میں جھوٹا موٹا بزرگ بنا دیا ہے ہر آستانے بزرگ کی طرح میرے پاس آنے والے مہربانوں میں سب سے زیاد ہ تعداد پیار کے کبوتروں کی تھی

 

قدرت نے افزائش نسل کے لیے جنس مخالف میں ایسی بھرپور کشش رکھی ہے کہ مردو زن ایک دوسرے کا طواف اور کوچہ یار کی مٹی کو آنکھوں کا سرمہ بناتے نظر آتے ہیں یہ عاشقوں کا ٹولہ کرہ ارضی کے ہر گوشے میں محبوب کے نام کی مالا جپتے نظر آتے ہیں یہ چودہ سال سے ستر سال تک ہر عمر کے نظر آتے ہیں اِسی طرح میرے پاس بھی ہر دن کوئی نہ کوئی عاشق اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے شادی کرنے اُسے رام کرنے کے لیے آتا ہے لہذا میر اواسطہ بھی اِن پیار کے کبوتروں سے پڑتا رہتا ہے جو مرنے مارنے فریادکی طرح پہاڑ کاٹنے زندگی قربان کر تے نظر آتے ہیں لیکن شروع میں ہی ایک حیران کن حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ یہ جس شدت سے ایک دوسرے کی طرف بڑھتے ہیں حاصل کرتے ہی ملنے کے بعد شادی کر نے کے بعد دوگنی شدت سے مارکٹائی گالی گلوچ کرتے نظر آتے ہیں برسوں میرے پاس چکر لگانے وظیفے کرتے راتوں کو ایک ٹانگ پر کھڑا ہوکر دعائیں مانگنے والے جب ایک دوسرے کو پالیتے ہیں تو چند مہینوں دنوں بعد ہی ایک دوسرے کو گولیاں مارتے عدالتوں میں طلاق خلاح حاصل کرتے نظر آتے ہیں کہ میں غلط تھا اب میری جان کیسے چھوٹے گی

 

اِن عاشقوں کو شادی سے پہلے جتنا مرضی سمجھا لو کہ یہ بندی یا بندہ تمہارے لیے ٹھیک نہیں یہ ایک نہیں سنتے بلکہ یہ کہتے ہیں کوئی وظیفہ بتائیں کہ وہ ٹھیک ہو جائے بہت سارے ایسے لوگ جن سے میرا برسوں پرانا تعلق ہے ان کو بھی جب سمجھایا کہ تمہارا کلچر ماحول مزاج اُس لڑکی یا لڑکے کے مطابق نہیں تو اُس نے بات ماننے کی بجائے وظیفہ مانگ لیا پھر مجھے چھوڑ کر کسی اگلے بزرگ کی صحبت میں بیٹھا نظر آیا چند مہینوں یا سالوں کے بعد جب محبوب نے جوتے مارے تو پھر میرے پاس اقرار جرم کرنے آگئے اسی طرح میاں وحید کسی کے عشق میں مبتلا میرے پاس آیا چند مہینوں میں ہی لڑکی والے مان گئے اور میاں وحید کی شادی محبوبہ سے ہو گئی تو مجھ سے تعلق مضبوط ہو گیا اب ریگولر میرے پاس آنا شروع ہو گیا ایک سال گزر گیا بچہ نہ ہوا تو ڈاکٹروں کے پاس گیا تو ڈاکٹروں نے ٹیسٹوں کے بعد بتایا کہ تمہاری بیوی پیدائشی بانجھ ہے بچہ پیدا کر نے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو پریشان میرے پاس آیا تو میں نے اِس سے پو چھا اب تمہاری محبت کا امتحان ہے تمہاری محبوبہ بانجھ ہے کیا تم اُس کے ساتھ محبت بھری زندگی گزارو گے چھوڑ تو نہیں دو گے تو میاں وحید نے چٹانی لہجے میں کہا کہ میں ثابت کروں گا کہ میں اپنی بیگم سے سچی محبت کر تا ہوں تو میں نے اِس سے کہا تمہاری بیگم پر الزام آئے گا بانجھ ہے تو تمہارا خاندان تمہاری دوسری شادی کر ے گا تو وحید بو لا میں خود پر الزام لے لوں گا کہ میرے اندر نقص ہے میں بانجھ ہوں میری بیوی نہیں پھر سالوں پر سال گزرتے گئے میں میاں وحید کو واچ کر تا رہا آج پچیس سال بعد بھی میاں اِسی محبت کے دعوے پر قائم اپنی بانجھ بیوی کے ساتھ کامیاب زندگی گزار رہا ہے اور اپنی محبت اور وعدے پر پوری طرح قائم ہے آج میں بھی اقرار کر تا ہو ں کہ ہزاروں لاکھوں میں کوئی میاں وحید جیسا نگینہ آتا ہے جو محبت کی لاج رکھتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
80036

محبت میں ناکامی سے جسم فروشی تک- تحریر: افضال احمد


یو ٹیوب پر جسم فروش خواتین کی زندگی کے حوالے سے حقیقی ڈاکومنٹری پر مبنی ویڈیوز دیکھنے کے بعد قلم اٹھانے پر مجبور ہوا۔ ویڈیوز بناوٹی نہیں تھیں حقیقی جسم فروش خواتین پر مبنی تھیں، جسم فروش خواتین سے انٹرویوز لیے گئے تو اُن کا کہنا تھا کہ ہم جتنی بھی احتیاط کر لیں ہمارے دھندے میں عورت کی موت کسی بڑی بیماری ایڈز، کینسر، ٹی بی، ہیپاٹائٹس سے واقع ہوتی ہے کوئی جلدی ان بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے اور کوئی دیر سے لیکن ہوتا ضرور ہے، دوسری طرف جب اولادوں کو پتہ چلتا ہے کہ ہماری ماں اس دھندے میں ملوث ہے تو اولادیں نفرت کرنے لگتی ہیں، یوٹیوب پر ایک چینل پر تقریباً 50 جسم فروش عورتوں کے انٹرویوز دیکھے 50 کی پچاس لڑکیاں انٹرویوز کے دوران رونے لگ گئیں کہ ہم اس دھندے سے بہت تنگ ہیں کوئی ہمیں اس دھندے سے نہیں نکالنا چاہتا، انٹرویوز میں خواتین نے بتایا کہ ہمیں مختلف جگہوں پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، پیسے بھی نہیں دیئے جاتے اور ایک انسان سے برائی کا کہہ کر بیس انسانوں کے آگے پھینک دیا جاتا ہے اور ہم وہاں کچھ بھی نہیں کر پاتیں۔ دل چیر دینے والی ویڈیوز تھی، پتہ نہیں مجھے اس پر لکھنا چاہئے تھا کہ نہیں، لیکن اصلاح کے نظریے سے لکھ رہا ہوں۔


جسم فروشی معاشرے کا خطرناک المیہ بن چکا ہے۔ جسم فروشی کے دھندے میں سب سے زیادہ وہ خواتین پائی جاتی ہیں جو گھروں سے اپنے عاشقوں کے چکروں میں بھاگ نکلتی ہیں اور آگے اُن کے عاشق انہیں دھوکہ دے دیتے ہیں، دوسری کیٹگری اُن خواتین کی ہوتی ہے جو عیاشی اور اپنی عیاشیوں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اس راستے کو چنتی ہیں، تیسری کیٹگری اُن خواتین کی ہوتی ہے جو اپنا اور اپنے ساتھ جڑے پیٹوں کو پالنے کی خاطر اس راستے پر چلتی ہے، میں ان تینوں مجبوریوں کو سرے سے مانتا ہی نہیں، پہلی دو کیٹگری میں تو عورت خود کیساتھ خود دشمنی کرتی ہے اور خود سمیت اپنے پورے خاندان کی عزت خاک میں ملا دیتی ہے، تیسری کیٹگری کہ اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے جسم فروشی کی جاتی ہے، یہ بھی میں نہیں مانتا، میرا ماننا ہے کہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے مانگو اللہ تعالیٰ آپ کو غلط راستے سے بچائیں گے اور آپ کیلئے زمین پر ایسے ذرائع پیدا کر دیں گے کہ آپ کو غلط راستے پر نہیں چلنا پڑے گا بشرطیکہ کہ آپ ذریعہ بننے والے انسان کا احترام کریں، جب آپ کی سوچ کا محور ہی یہ ہو گا کہ جسم فروشی کروں گی تو پیسہ ملے گا تو آپ ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں، آپ پیدا کرنے والے رب سے مایوس ہیں اور مایوسی پہلا گناہ ہے، اس گناہ کے بعد انسان دوسرے گناہوں کی جانب بھاگتا ہے۔


گھر سے بھاگنے والی لڑکی عاشقوں کے دھوکہ کے بعد یا تو موت کے منہ میں چلی جاتی ہے یا پھر کسی کوٹھے کی زینت بن کر عمر بھر وحشی درندوں کی درندگی کا شکار ہو کر روز مرتی ہے، گھر سے بھاگنے والی لڑکیاں ناجانے یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ جس کی خاطر آپ سب کو چھوڑ کر گھر سے بھاگ رہی ہو وہ آپ کیساتھ کیا سلوک کرے گا؟ کامن سی بات لڑکیوں کو سمجھ نہیں آتی کے ایک بے سہارا، لاوارث لڑکی کے ساتھ ہمارا معاشرہ کیا سلوک کرتا ہے؟ آپ اچھے بھلے وارثوں کے ہوتے ہوئے بھی ایک دو ٹکے کے عاشق کی خاطر گھروں سے بھاگ نکلتی ہو، اتنی تو عقل کرو کہ جو لڑکا آپ کو گھر سے بھاگنے کو کہہ رہا ہے کیا وہ عزت دار ہو گا؟ وہ آپ کی عزت کرے گا؟ تم لڑکیوں کو کیوں بھول جاتا ہے کہ جن والدین نے تمہیں اتنے ناز نخرے سے پال پوس کر بڑا کیا، تم انہیں دھوکہ دے کر دو ٹکے کے عاشق کیساتھ خوش رہ لو گی؟ کوئی ایک لڑکی مجھے دکھا دو جو گھر سے بھاگ کر سکھی ہو؟ جو عاشق ہوتا ہے وہ کبھی اپنی محبت کر رسواء نہیں کرتا، جو پہلا قدم ہی غلط اٹھانے ”گھر سے بھاگنے“ کو کہہ رہا ہو وہ عاشق نہیں دو ٹکے کا عاشق ہوتا ہے اور یاد رکھنا جس عاشق کا پہلا قدم ہی دو ٹکے کا ہو گا وہ آپ کیساتھ آگے چار ٹکے کا سلوک کرے گا اور جو لڑکیاں عاشق کو خود مجبور کریں بھاگنے کیلئے تو یاد رکھو لڑکیوں ایسی لڑکی کیساتھ نہ دو نہ چار بلکہ 8 ٹکے کا سلوک ہوتا ہے۔


ہمیں دو وقت کی روٹی کے حصول کی خاطر جسم فروشی کرنیوالی خواتین کا سہارا بننا چاہئے۔ ہمیں اس برائی کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ میرے نزدیک اس سے بڑا کوئی کام نہیں کہ ایک مجبور عورت کے اخراجات برداشت کرکے یا اسے کوئی عزت دار روزگار فراہم کرکے برائی سے روکا جا سکے۔ جسم فروشی بیماریوں کا سبب بن رہی ہے، جس کا احساس نہ جسم فروش عورت کو ہے نہ جسم خرید کرنے والے مرد کو ہے۔ دنیا بھی خراب آخرت بھی خراب، دونوں کا انجام عبرتناک موت ہوتا ہے۔ دو وقت کی روٹی کی خاطر برائی کرنیوالی خواتین کی مدد کرنا ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھنا چاہئے اور ہر پل اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اے میرے رب مجھے اتنی طاقت اور وسائل دے کہ میں اس برائی کے کام میں ملوث مجبور خواتین کو برائی سے بچا کر سکھی زندگی کی طرف لا سکوں۔ کہتے ہیں کہ کسی کو نصیحت کرنے سے پہلے خود اس پر عمل کرنا چاہئے، الحمد للہ! اللہ تعالیٰ کی دی توفیق اور وسائل کے ذریعے اس عمل کو روکنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں۔ اس دھندے میں ملوث خواتین سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ ایک بار صرف ایک بار سچے دل سے توبہ کرکے اپنے پیدا کرنے والے رب سے مانگ کر دیکھو انشاء اللہ تمہارا رب تمہارے لیے کسی نہ کسی انسان کو ذریعہ بنا دے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54426