Chitral Times

لاوارث ۔ گل عدن چترال

لاوارث ۔ گل عدن چترال

 ہماری ڈکشنری میں لفظ “لاوارث” کے معنی یتیم یعنی بے سہارا کے ہیں.مگر نجانے یہ وقت کی خوبصورتی ہے یا بدصورتی کہ یہ مٹھی سے پھسلتے ریت کی مانند گزرتا ہوا وقت میری زاتی ڈکشنری اور ہماری نصابی ڈکشنری کے مابین اختلافات بڑھائے جا رہا ہے.نجانے کیوں مجھے والدین سے محرومی میں اولاد کی بدبختی نظر نیہں آرہی لیکن وہ لوگ مجھے انتہائی بدبخت اور قابل رحم محسوس ہورہے ہیں جن کے اردگرد بظاہر سرپرستوں کا ہجوم ہےمگر وہ حقیقی راہنمائی سے نابلد  یعنی محروم لاوارثوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں..

والدین کا وجود ہر فرد کے لئے تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاوں کی مانند ہے.اور بحثیت ایک سرپرست کے ہر باپ ہا ماں اپنی اولاد کو روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ بہترین تربیت دینے کی بھی بھرپور کوشش کرتا ہے.لیکن اس سب کے باوجود اگر کوئی گمراہ کن راستے کا انتخاب کرلے تو آپ کے والدین اساتذہ یا دیگر سرپرت آپکو ہاتھ سے پکڑ کر زبردستی گمراہی سے ‘برائی سے یا ظلم سے روک نہیں سکتے .یہ روکنے والا سر پرست تو ہمارے اندر ہوتا ہے .ہمارے اندر کی وہ آواز جو ظلم ڈھانے سے پہلے ہمیں روکتا ہے اور ظلم کرنے کے بعد ہماری سرزنش کرتا ہے.چاہے یہ ظلم ہم اپنے نفس پر کریں یا دوسروں پر.ہمارے اندر کی یہ آواز دراصل “ضمیر” کہلاتی ہے.

سو میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ انسان کا اصل سرپرست اسکا روحانی سرپرست ہوتا ہے یعنی” اسکا ضمیر”  . سو میری نظر میں اگر آپکا ضمیر زندہ ہے لیکن باپ مر جائے تو بھی یقین مانیں اس اندھیر نگری میں آپ بے یار و مدد گار اور تنہا  ہوتے ہوئے بھی “لاوارث” نیہں ہیں.لیکن اگر بد قسمتی سے آپکا ضمیر مردہ ہے تو مان لیجئے ماں باپ بہن بھائی دوست احباب اور رشتوں کے ہجوم میں گھر کر بھی آپ مکمل طور پر لاوارث ہیں.اسلئے خدارا اپنی ضمیر کو آواز دیں اسے جگائیں اسے زندہ رکھیں اور خود کو “لاوارث” یعنی” قابل رحم” ہونے سے بچائیں.


Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57643