Chitral Times

زمانہ جاہلیت کی قبیح رسومات ………..میرسیما آمان

Posted on

کتابوں میں جب کبھی زمانہ جاہلیت کا ذکر پڑھا تو بہت ساری توہمات کے علاوہ جس چیز کا سب سے ذیادہ ذکر ہوا وہ ہیں اُس دور کی قبیح رسومات۔اور جہاں تک میرا خیال ہے زمانہ جاہلیت کا لفظ اُس دور کے لیے استعمال ہوا۔جب قُرآن پاک کا نزول نہیں ہوا تھا یعنی ۱۴ سو سال سے بھی پہلے کا دور۔۔اب مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہم آج اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔جہاں بنی ادم چاند پر قدم رکھنے کا شرف حاصل کر چکا ہے۔جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا کر رکھ دیا ہے۔ ” علم ” کا اس قدر بہتات ہو چکا ہے کہ فی بندہ بیک وقت کہیں علوم پر دسترس رکھتا ہے۔اور ” ڈگری ” یعنی تعلیمی اسناد اس قدر اہمیت حاصل کر چکے ہیں کہ لوگ زمین بیچ کر بیٹیوں کو بھی تعلیم دینے لگے ہیں۔مختصرا یہ کہ ” دُنیا ترقی کر چکی ہے “‘لیکن تعجب کی بات یہ نہیں کہ دُنیا نے کتنی ترقی کر لی ہے تعجب تو اس بات پر ہے کہ انسان ” آج ” بھی حق کو اپنانے پر شرمندہ ہے ہچکچاہٹ میں مبتلا ہے آج کا انسان بھی باطل پر یقین رکھتا ہے۔

حیرت اس بات پر ہے کہ آج بھی خود کو” اکیسویں صدی کا آدمی ” کہلوانے کے لیے ” اُنھی رسومات کی پیروی ” کرنی ہے جو زمانہ جاہلیت کی ” علامت” ہو اکرتے تھے۔ یہ کیسا منافقانہ دور ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہم شائد محض وضع قطع میں تبدیلی کو ترقی سمجھ بیٹھے ہیں۔۔آپ پنجاب یا سندھ کے کسی بھی علاقے میں جائیں بہت کم افراد ایسے ملیں گے جو ذاتی مکان میں رہتے ہوں پاکستان کی ۸۰ فیصد ابادی کرائے کے مکانوں پہ دھکے کھانےپر مجبور ہے ذاتی مکان میسر نہیں۔۔۔ وجہ ” غربت ” نہیں بلکہ وہ رسم و رواج ہیں جن کے بھینٹ ہم نے اپنا سکوں چڑھایا ہوا ہے۔

نجانے کب ہم اس معاشرے سے نکلیں گے جہاں بیٹی کی پیدائش سے ہی اسکے لئے جہیز بنانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے،،چند سال پہلے تک ہم چترالی عوام اس بات پر شکر ادا کرتے تھے کہ ہم ایسے علاقوں میں پیدا نہیں ہوئے۔ جہاں سینکڑوں غلط رسومات نے زندگی کے اصل حسن کو گہنا کے رکھ دیا ہے۔مگر آج افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ چترال کی جس سادگی اور انفرادیت پر ہمیں فخر تھا اب وہ ختم ہوتا جا رہا ہےجہیز جیسی لعنت اور دھوم دھام سے شادی بیاہ کے فضول رسومات کا تو یہاں ابتدا ہو ہی چکا ہے،،

چند ماہ پہلے چترال ٹاون کے ہی ایک علاقے میں نواسے کی پیدائش پر ننھیال سے ڈھیروں تحائف کیساتھ ساتھ اس چند دن کے بچے کے لیے ” سونے کی انگوٹھی ” لانے کی رسم دیکھ کر سچ کہوں تو دل حیرت اور دکھ کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا۔۔یہ وہ رسم ہے جو برسوں سے سوات تیمر گیرہ پشاور ہزارہ ہری پور اہیبٹ اباد سائڈز پر برسوں سے رائج ہے۔چترال میں اس رسم کو ترویج دینے اور ایک تعلیم یافتہ خاندان کو ایسا کرتے دیکھنا میرے لیے بڑے افسوس کا لمحہ تھا بحر حال اس ” جہالت ” پر لکھنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔۔

اسکے علاوہ آج کل چترال میں ایک اور چیز بڑی عروج پر ہے وہ ہے ”’ رسم ختم قُرآن ” مدرسے کی کوئی بھی بچی جب قُرآن ختم کرتی ہے تو مدرسے کے تمام اسٹاف اور طالبات سمیت پورے علاقے کواور خاندان والوں کو دعوت دی جاتی ہے گھروں پر شامیانے لگتے ہیں دیگیں پکتی ہیں،،اور کوئی ” ون ڈش ” نہیں تین چار اقسام کے کھانے پکائے جاتے ہیں غرض اتنا ہی خرچہ کیا جاتا ہے جتنا کہ کسی بیٹی کی رخصتی پر کیا جا سکتا ہے۔۔جب ان لوگوں پر اعتراض کرو تو انکا جواب یہ ہوتا ہے کہ مدرسے کے ” اُستاد یا معلمہ ” کا یہ کہنا ہے کہ دوسرے کہیں معاملات پر اگر خرچے کیے جاسکتے ہیں تو ختم قُرآن پر کیوں نہیں؟ختم قُرآن پر خرچہ کرنا تو ثواب ہے۔۔۔۔۔

یہ دین کا علم سکھانے والے اُستاد کے وہ الفاز ہیں جن سے ڈر کے ہر گھرانہ ختم قُرآن کو دھوم دھام سے منانے پر مجبور ہیں،مجھے حیرت ہے ان الفاز پر، نجانے یہ کونسے استاد ہیں جو دین کے عار میں نہ صرف نمود و نمائش کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ کم حیثیت افراد کے لیے ختم قُرآن جیسے اہم فریضے کو بھی مشکل بناتے جا رہے ہیں۔۔

اسکے علاوہ شادی بیاہ پر نمود نمائش دن بدن عروج پکڑتا جا رہا ہے۔۔ جہیز کے نام پر جنریٹر سے لیکر گاڑی تک دینے کا افتتاح ہوچکا ہے اور ایسا کرنے والے اپنی اس جاہلانہ حرکت پر بڑی شان محسوس کرتے ہیں۔۔دوسری طرف لڑکے والوں سے سنت نبوی کے مطابق گھریلو ساما ن کے لیے جو تھوڑے پیسے لیے جاتے تھے اب اس رقم کی مقدار ۸۰،۰۰۰ سے لیکر دو سے ۳ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔۔۔

ذرا سوچیے ۱۵ سے ۲۰۰۰۰ کی تنخواہ لینے والا شخص اگر شادی کرنا چاہے تو معاشرہ اسکو کس پوائنٹ پہ لے آتا ہے ۔۔یہی نہیں بہانے بہانے سے مختلف تقریبات کا اہتمام کرنا ، دعوتیں رکھنا معمول کا حصہ بن چکا ہے۔۔ایک اور چیز جو چترال ٹاون میں ہی دیکھنے میں آئی وہ ہے میکے سے بیٹی کے لیے ناشتہ بھیجنا،،جسمیں کم از کم تیس سے چالیس ہزار اور ذیادہ سے ذیادہ ۶۰ ہزار تک بھی خرچہ آسکتا ہے اور یہ رسم بھی ڈاون ڈسٹر کٹ میں برسوں سے رائج ہے آج چترال میں بھی اسکا آغاذ ہو گیا۔۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ہم جا کس طرف رہے ہیں ؟؟/ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بیروز گاری بے شمار مسائل اور غربت دوسری طرف دن بدن نت نئے واہیات رسومات زور پکڑتے جا رہے ہیں جو کہ حقیقتا لمحہ فکریہ ہے۔۔

عوام کو ایمانداری سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس طرف جارہے ہیں اگر ہمیں پیٹ پر پتھر باندھ کر معاشرے میں ناک اونچی کرنے کے لیے ” اُنھی رسومات ” کو جاری رکھنا ہے جو زمانہ جاہلیت کی علامت ہوا کرتے تھے تو ہمیں اپنےچہروں پر اسلام کے نام پر سجائے گئے دھاری اور بُرقعے بھی ہٹانے ہونگے،ہمیں اپنی الماریوں میں سجائے گئے قرآن پاک لے جا کر مساجد میں رکھنی ہونگی کیونکہ قرآن پاک عمل کے لیے نازل ہوا ہے محض ” مُطالعے ” کے لیے نہیں۔۔

یہی قُرآن پاک تھا جب رسول پاک ؐ پر نازل ہوا تو نبی پاک ؐ نے مسلمانوں کو انھی قبیح رسومات سے ازاد کراوایا تھا آج ہم واپس اُسی اندھیرے کی طرف گامزن ہیں۔۔ اب سوال یہ ہے کہ ان رسومات کا خاتمہ کرے گا کون ؟؟؟ اگر کوئی غریب ادمی ان رسومات کا بائکاٹ کرے گا تو معا شرہ اس ” بائکاٹ ” کو تسلیم ہی نہیں کرےگا،،یہ المیہ ہے اسلِے ان جاہلانہ رسومات کا بائکات کرنے کی ذمہ داری ان افراد پر عائد ہوتی ہے جو صاحب حیثیت ہیں جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ معمولی تقریب پر لاکھوں خرچہ کرسکتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اس معاملے میں پیش رفت کرکے دوسروں کے لیے مثال قائم کر سکتے ہیں۔

مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت جو جتنا ذیادہ تعلیم یافتہ ہے جو جتنا ذیادہ مالدار ہے وہ نمود نمائش اور ستائش کا اتنا ہی بھوکہ ہے۔اسلیے مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اللہ کی لعنت ہو ایسی ” ناک ” پر جو ہمیشہ باطل کو فروغ دینے پر اُونچی ہوتی ہو،،کیا کبھی یہ ناک سچ بولنے پر بھی اونچا ہو سکتا ہے؟؟ کبھی سنت نبوی پر عمل کرنے سادگی اختیار کرنے اور سنت کو فروغ دینے پر بھی اونچا ہوگا؟؟؟

سچ تو یہ ہے کہ نمود و نمائش در حقیقت ایک بیماری ہے جسکا سادہ نام ”’ ا حساس کمتری ہے ”” جو جتنا ذیادہ احساس کمتری میں مبتلا ہو وہ اتنا ہی نمود نمائش کا اشتہار بنا رہتا ہے،اب وقت اگیا ہے کہ اس بیماری پر قابو پایا جائے۔ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے اپنے اندر کی احساس کمتری کو ختم کرے پھر اپنے ساتھ رہنے والوں کا علاج کرے۔جب تک یہ بیماری ختم نہیں ہوگی. معاشرہ انتشار کا شکار رہے گا حلال روزگار کا تصور ختم ہوگا ڈپریشن بڑھے گی تو معاشرہ خود کشیوں اور جرائم کا آماجگاہ بن جائے گا۔۔

اور جہاں تک بات ہمارے علاقے کا ہے تو یاد رکھیں پوری دنیا میں چترال ایک منفرد شناخت رکھتا ہے چترال کے کسی بھی گھرانے کو یہ ذیب نہیں دیتا کہ وہ چترال کے روایات کے خلاف نت نئے واہیات رسومات کا یہاں پر آغاز کرکے نہ صرف چترال کی اصل شناخت کو مسخ کرے معاشرے میں نت نئے مسائل پیدا کرے۔ بلکہ اپنی اس انفرادیت کو برقرار رکھنے اور مزید بہتر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے تمام نا سور رسومات کا اجتماعی طور پر بائکات کیا جائے۔۔اور چترال کو مثالی معاشرہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں،،

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , ,
24345