Chitral Times

اسلام اور سائنس میں تصادم نہیں – تحریر :شہباز علی

اسلام اور سائنس میں تصادم نہیں – تحریر :شہباز علی

یہ ایک واضح اور کھلی حقیقت ہے کہ وقت اپنے ساتھ حیرت انگیز مشاہدوں اور تجربات کی صورت میں جدیدیت اور منفرد ایجادات لے کر بدلتا رہتا ہے ۔صدی جب کروٹ بدلتی ہے تو ایک ’ممکن‘ کو ’حقیقت‘ کا روپ مل چکا ہوتا ہے۔پچھلی نسل جس ترقی کی خواہش کرتی تھی موجودہ نسل اسے کئی منزلیں پیچھے چھوڑ چکی ہے۔


طبیعیات، نباتات،فلکیات ،حیاتیات،سرجری، آلات خواہ کوئی بھی سائنسی شاخ ہو، وہ چیزیں جن کے متعلق 50 یا 100 سال پہلے سوچنا بھی محال تھا وہ سب ممکن ہوچکا ہے اور ساتھ ہی ہمیں غور کی دعوت دے رہا ہے ۔ متعدد سائنسی حقیقتیں جو آج منظرِ عام پر آئی ہیں قرآن نے 1433 سال پہلے ان کا اعلان کردیا تھا۔ارشاد ہوتا ہے:

وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ

”ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحتہََ یا کنایۃ بیان نہ کردیا ہو)“

گویا اس کائنات کے ظہور پذیر ہونے اور اس کے بعد رونما ہونے والے ہر اسرارِ کائنات اور مظہرِ خداوندی سے متعلق تمام باریکیوں کا ذکر شریعت ِاسلامیہ نے قرآن و حدیث میں کسی نہ کسی زاویے سے کرڈالا ہے ۔ تمام معاملاتِ زندگی اس کے ارد گرد گھومتے نظر آتے ہیں ۔ مذہب نے قدرت کے رازوں پر غور و فکر کی دعوت دی ہے اور تما م سائنسی ایجادات و انقلابات اس کی عملی شکل ہیں۔مذہب اور سائنس میں عدم تضاد کی اہم وجہ یہ ہے کہ دونوں کی بنیادیں ہی جدا جدا ہیں۔ درحقیقت سائنس کا موضوع ’علم‘ ہے جبکہ مذہب کا موضوع’ایمان‘ہے۔ علم ایک ظنی شے ہے،اسی بنا پر اس میں غلطی کا امکان پایا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایمان کی بنیاد ظن کی بجائے یقین پر ہے ، اس لیے اس میں خطا کا کوئی امکان موجود نہیں۔

اس بات کا بالکل انکار نہیں کہ آج کا دور سائنسی عروج کا دور ہے ۔جس کا ماضی، حال اورمستقبل سائنسی انقلابات سے بھرا پڑا ہے۔ ترقی کی یہ منازل طے کرتا ہوا انسان کامیابی و ناکامی کے نشیب و فراز سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے ۔مسلمان مفکرین اورمحققین آج بھی اسی تلاش میں سرگرداں ہیں کہ یہ ترقی وتبدیلی اسلامی شرعی قوانین کے خلاف نہ ہو اور ہر ترقی اور جدت کو اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تاکہ دینوی و دنیاوی دونوں فائدےحاصل ہوسکیں۔اسلامی شریعت ایک Universal Codeہے اور اس میں ایک خاصیت اور لچک موجود ہے جو انسان کو جدت طرازی کے ساتھ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کو حدود وقیود اور ضابطوں کی پابندی بھی سکھاتاہے ۔ دور جدید میں زیب و آرائش کے حوالے سے جو ترقی ہوئی ہے وہ اپنے اندر حلت و حرمت سے متعلق سے کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے اسلامی شریعت کی روشنی میں اس حوالے سے مزید تحقیق اورتجربوں کی ضرورت ہے ۔ تاکہ رب کی عطا کردہ نعمتوں سے شرعی حدود میں رہ کر استفادہ کیا جاسکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَا ۚ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ

”اور جو چیز تم کو دی گئی ہے وہ دنیا کی زندگی کا فائدہ اور اس کی زینت ہے۔ اور جو اﷲکے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟“

یہاں انسان کو دنیا کی زندگی پر آخرت کی زندگی کو ترجیح دینے کی بات کی گئی ہے۔ یعنی اللہ رب العزت نے جو نعمتیں اور فائدے دنیا میں ہم کو عطا کیے ہیں وہ فانی ہیں ایک دن ختم ہو جائیں گے اور جو زندگی ہمارے لیے آخرت میں رکھی ہے اس کے فائدےبے شمار اور کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اس دنیا کو برتنا چھوڑ دیں ،دنیا میں رہتے ہوئے اس کی تمام نعمتوں کو بروئے کار لائیں اور اللہ کے آفاقی پیغام کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوں ۔ اپنے ایمان کو عقل اور فکر سے شناسا کرواکے اس عظیم علمی متاع کو محفوظ کرسکیں۔ ہمار ے گردو پیش کا ماحول اور وہ کائنات جس میں ہم رہتے ہیں نشاناتِ تخلیق سے بھری پڑی ہے مچھر کی اندرونی ساخت میں کارفرما نظام ، مور کے پروں پر فنکارانہ نقش ونگار،آنکھوں جیسی پیچیدہ ساخت اور ان کا حسنِ کارکردگی اور زندگی کی کروڑوں دیگر اشکال ، وجودِ خداوندی کے واضح اور روشن ترین نشانات ہیں ۔غرض یہ کہ ہرشے انسان کو ایک نئے تجربے اور نئے مشاہدے کی دعوت دیتی نظر آتی ہے۔تاکہ انسان ان پر غور و فکر کرکے کائنات کو مسخر کرے اور اوج ثریا تک جا پہنچے۔

یہ قرآن کا اعجازہے کہ قرآن مجید اور جدید سائنس کی ثابت شدہ حقیقتوں میں زبردست مطابقت پائی جاتی ہے ۔ساتھ ہی جدید سائنسی ترقی نے بالخصوص سرجری، جنس کی تبدیلی ،لیزر اور نقوش کی تبدیلی کی فیلڈ میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کی ہیں جو اسلامی قوانین اور اصول و ضوابط کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیتی ہیں۔لہٰذا جدیدعصری تقاضوں کے پیشِ نظر بننے سنورنے کی خواہشات کو اس طرح پورا کرنا کہ جاذبِ نظر دکھنے کی تمنا بھی پوری ہوجائے اور دین کے بتائے ہوئے اصول وضوابط سے بھی تجاوزنہ ہو۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب جدید سائنسی ایجادات اور علاج کا درست علم ہو اور پھر اس علم کی افادیت کو شریعت کی روشنی میں پرکھا جائے تاکہ اس کے فوائد اور نقصانات سے آگاہی ہو سکے۔لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے اس لیے کہ عام انسان کی پہنچ اور شعور اتنا بلند نہیں ہوتا کہ وہ تما م باریکیوں کو بخوبی سمجھ سکے اور یہ جان سکے کہ اس کے حق میں کیا اچھا ہے اور کیا برا۔یہ محققین اور مفکرین کا کام ہوتا ہے کہ نئے نئے مفروضات،تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں ان تمام نئی سائنسی ترقی اور ایجادات کا جائزہ لیں اور پھران مشاہدات سے حاصل ہونے والے معانی و مفاہم کو دینی امور کی روشنی میں پرکھیں ۔تجربات اور مشاہدات کا سلسلہ جاری ہے.


دورِ جدید میں جہاں دنیا انسان کی خواہشات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن چکی ہے وہیں یہ عجیب و نت نئی ایجادات اور طریقہ علاج گہری تحقیق اور فکر کا تقاضا کررہے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں اپنی خواہشات کو بے لگام نہ چھوڑ بیٹھیں۔ہر جدت اپنے ساتھ نفع اور نقصان لاتی ہے ہماری حدود و قیود شریعت نے ہمیں عطا کردی ہیں یہ ہمارے رب کا ہم پر کرم ہے کہ ہمیں قرآن و سنت کا وہ پیمانہ عطا کیا ہے کہ جس میں ہم اپنے تمام نفع و نقصان کو ناپ کر اپنے اچھے برے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50853

مذہبی اختلاف کے خاتمہ کا نسخہ کیمیاء – تحریر :شہباز علی

آج کے اِس دَور کو کون سا دَور کہیں گے؟ فتنوں کادَور! گناہوں کا دَور! بے حیائی اور بے لگامی کا دَور! خودسری اور خودغرضی کا دَور! شیطانی دَور! یاجوجی ماجوجی دَور! سمجھ میں نہیں آتا کہ عصرِ حاضر کو کیا نام دیا جائے؟ دَورِ حاضر دَورِ جاہلیت کی طرف تیزی سے رَواں دَواں ہے؛ بلکہ بعض لحاظ سے اِس سے بھی آگے جاچکا ہے۔ اِن جملہ خرابیوں کو دُور کرنے اور اِن پر قابو یافتہ ہونے کی سارے عالم میں کوششیں کی جارہی ہیں؛ لیکن کوئی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ نئی نئی تجاویز روبہ عمل آکر فیل ہورہی ہیں؛ تعمیر کے بجائے تخریب کا باعث بن رہی ہیں، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ، ہونا بھی یہی چاہئے؛ اِس لیے کہ اِن جملہ خرافات، بے اطمینانی اور بے چینی پر قابو پانے کے لیے محض انسانی تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں۔ اور انسانی تدبیریں پورے طور پر کامیاب ہی کب ہوتی ہیں؟

آج ضرورت ہے اُن تدبیروں کی اورنسخہٴ کیمیا کی جو نبیٴ اُمی  صلی اللہ علیہ وسلم نے بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہ خالقِ کائنات کا عطا کردہ نسخہ تھا، جس نے گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں پھنسی ہوئی انسانیت کو روشن شاہ راہ پر لاکھڑا کردیا۔ جس نے بدترین خلائق کو بہترین خلائق بنادیا اورجس نے مردوں کو مسیحا کردیا۔
لہٰذا عصر حاضر کے مذہبی اختلاف میں سیرتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی.


عالمی پیمانے پر اتحاد واتفاق قائم کرنے کی ضرورت آج سب سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ آج کوئی ایسا اقتدار نہیں جس کو سب لوگ تسلیم کریں، جس کی سب اطاعت کریں، کسی متفقہ اقتدار کا نہ ہونا،آج کی سب سے بڑی کمی ہے، ایک قوم دوسری قوم کو دیکھنا نہیں چاہتی،مختلف قسم کے معاہدے ہوتے ہیں اور ٹوٹ جاتے ہیں، اِن کے حل کے لیے اگریہ سوچا جائے کہ کسی ایک انسان کی حاکمیت پر سارے لوگ متفق ہوجائیں، ہر ایک اِس کی اتباع کریں، تو ایسا فطری طور پر ناممکن ہے؛ اس لیے کہ آج ہر قوم دوسری قوم کی مخالف ہے، توجس انسان کا بھی انتخاب ہوگا وہ کسی ایک قوم کافرد ہوگا،اس ایک پر اگراتفاق سے اپنی قوم متفق ہوگئی تو دوسری اقوام کو متفق کرنا آسان نہیں ، پھریہ کہ انسان نفسانی اغراض اور ذاتی خواہشات سے پاک نہیں ہوتا اگر کسی پر اتفاق کرلینے کی پوری دُنیا کوشش بھی کرے تو وہ آدمی وقت کا ”فرعون“ اور دَورِ حاضر کا ”بُش“ ثابت ہوگا، وہ سارے فوائد اپنے لیے، اپنے خاندان، اپنے فرقے اور اپنی قوم کے لیے سمیٹ لے گا، دوسرے لوگ محروم اور منہ تکتے رہ جائیں گے۔ اِس طرح انصاف کی جگہ ظلم اور مساوات کی جگہ بے اعتدالیوں کی حکومت ہوگی۔ کسی آدمی کا علم اتنا وسیع نہیں ہوسکتا کہ ہر انسان کی ضروریات معلوم کرسکے۔ اصلاح و فلاح کی صورتوں سے واقف ہو، ہر ایک کی فطرت کو جانتا ہو؛ اِس لیے وسیع ترین علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ جگہ جگہ ٹھوکریں کھائے گا،اور پوری انسانی آبادی کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردے گا؛ اس لیے کسی انسان پر پوری نوعِ انسانیت کا متفق ہونا ناممکن اور لاحاصل ہے۔

اِس اختلاف کے ختم کرنے کی ایک دوسری شکل بھی ممکن نہیں کہ ساری انسانیت مل کر کسی ایک اِدارہ کی حاکمیت کو تسلیم کرلے، دُنیامیں جتنے اِدارے عالمی پیمانے پر قائم ہوئے اُن سب کا حال یہی ہوا، آج اِس کی واضح مثال عالمی تنظیم ”اقوامِ متحدہ“ ہے۔
لہٰذا آج اختلاف حل کرنے کے لیے وہی کرنا ہوگا، جو اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، آپ نے اختلاف وانتشار سے تباہ دُنیا کو متحد کرکے عملی مثال پیش کردی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا کو بتادیا کہ اے انسانو! کسی انسان یا کسی اِدارے کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے بجائے ایک ایسی ذات کی حاکمیت کو تسلیم کرلو جس نے سارے انسانوں اور اِداروں کو جنم دیا ہے۔اُسی کی حاکمیت کو تسلیم کرنے میں بھلائی ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ”دعوتِ توحید“ کو جوق در جوق افرادِ انسانی نے قبول کیا، مذہبی اختلافات کے ختم کرنے کا یہ سب سے بڑا مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔


رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عالم گیر ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پوری دُنیا کے لیے چراغِ راہ بن کر تشریف لائے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سیرت و سنت کو سامنے رکھ کر دُنیا راہ یاب ہوسکتی ہے، ہر طرح کے مسائل کا حل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اتباع میں مضمر ہے، جملہ خرافات و مصائب سے نجات کا ”نسخہٴ کیمیاء“ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مل سکتا ہے،  اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو جب کفار نے صرف ایمان باللہ اورایمان بالرسول کی وجہ سے اپنے محبوب وطن مکہ مکرمہ میں ستانا شروع کیا اور ناقابلِ برداشت اذیتیں پہنچائیں، جان کے درپے ہوگئے؛ تو ایسی صورت میں دین کی حفاظت کے لیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی، اِس کے بعد مدینہ کی؛ اخیر میں اپنے رفیقِ غار صدیق و غمگسار کے ساتھ بہ نفس نفیس ہجرت کی، دین اور ایمان کی حفاظت کے لیے مال و دولت، عزیز واقارب اور گھر بار ہر ایک کو قربان کردیا،

آج بھی دُنیا کے کسی کونے میں مسلمانوں کی یہ حالت ہوجائے تواُس کیلیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ عمل کے لیے موجود ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ جانے کے بعد وہاں بسنے والے قبائل اَوس اور خزرج اور یہود و نصاریٰ سے معاہدات کیے، آپسی تعاون وتناصر اور رواداری کے دستاویزات مرتب کیے، پھر اپنی تحریک دعوت و تبلیغ کو تیز تر کیا، آہستہ آہستہ لوگ اِسلام میں داخل ہوتے گئے، پھر کیاتھا کہ چند برسوں میں سارا عرب کلمہ ”لآ الٰہ الی اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ“ کاقائل ہوگیا۔ ہر جگہ امن و امان پھیل گیا، وہ جنگجو قومیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری تھا، جنگ سے کبھی تنگ نہ آئی تھیں، آپسی چپقلش کا نہ ٹوٹنے والا سلسلہ رکھتی تھیں، سب شیروشکر کی طرح مل گئیں، سب ایک دوسرے کے دوست ہوگئے۔ع
جو نہ تھے خود راہ پر
اَوروں کے ہادی بن گئے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50789