Chitral Times

سی پیک اور دوراہ پاس ۔ محمد آمین

دراہ دوراہ (Dorah Pass) کی تاریخی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا،کیونکہ یہ دراہ زمانہ قدیم سے ہندوستان،افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی لین دین اور فوجی نقل و حمل کے لحاظ سے ایک منفرد اہمیت کا حامل رہا ہے۔پرانے زمانے میں اسی راستے سے مختلف اشیاء تجارتی قافلوں کی صورت میں سر حد پار ان ریاستوں میں پہنچاتے تھے اور وہاں سے تجارتی ساماں ہندوستان کی تجارتی منڈیوں میں پہنچ جاتے تھے۔اگر اس وقت کی تجارتی سامان کا تذکرہ کیا جائے تو ان میں مصالحہ جات،جڑی بوٹیان،قالیں،پرانے دگچے،کپڑے،خشک میوہ جات،قیمتی پھتریں،سلاجیت وغیرہ قابل ذکر ہیں جو دونوں اطراف سے درامدات اور برآمدات کی شکل میں واقع ہوتے تھے۔اسکے ساتھ ہی انہی ممالک سے مختلف حملہ آور بھی چترال سے ہوکر اگے تک گئے ہو نگے اور اسی طرح یہان سے بھی حملہ اور یہی راستہ اپنائے ہوئے ہوں گے۔چونکہ چترال کے حوالے سے مختلف تواریخ سے یہ عندیا ملتا ہے کہ چترال پر پرانے زمانے میں ایرانیوں کا تسلط بھی رہا ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہو سکتی ہے کہ ایران کا بھی اسی راستے سے داخل ہونا کوئی قیاس نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ ایران (پرانے فارس) کا افغانستان پر تسلط رہا ہے اور دوسری یہ کہ صوبہ ہرات ایران کے ساتھ واقع ہے۔مذید پرانے زرتشت مذہب کے کچھ اثرات چترال میں پائے جاتے ہیں۔


جب 1979؁ء میں سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس راستے کی اہمیت پہلے سے بھی زیادہ ہوا،لاکھوں کی تعداد میں شمالی افغانستان سے افغان مہاجرین اسی راستے سے پاکستان میں داخل ہوئے اور یہاں ان کے لیئے کیمپ بنائے گئے۔اس کے ساتھ یہ راستہ شمالی اتحاد کے نقل و حمل(mobilization)کے لیئے بھی اہم کردار ادا کیا۔یہ تھی اس کی جیو اسٹریٹیجیک اہمیت۔اور جہاں تک تجارت کا تعلق رہا میں یہاں صرف دو چیزوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا،ایک تخمینہ کے مطابق 1979؁ء سے لیکر 2007؁ء تک اسی راستے سے لگ بھگ 23ارب کے مالیت کے قیمتی پھتر لاجورد (lapis lazuli)پاکستان اوردوسرے بین الاقوامی منڈیوں میں فروخت ہوئے اور ساتھ ہی 28لاکھ کے قریب مال مویشی پاکستان کے منڈیوں میں لائے گئے۔
اب ہم اتے ہیں اس حقیقت کی طرف کہ دوراہ سے وسطی اشیائی ریاستوں کا فاصلہ کتنی ہے؟یہ جان کر قارئیں کو حیرات ہوگی کہ چترال سے دریا آمو (Oxus River)تک کم وبیش دو سو کلو میٹر کا فاصلہ بنتا ہے۔دریا آمو وہ ایک تاریخی دریا ہے جو افغانستان کے صوبہ بدخشان کو تاجکستان کے بدخشان سے ملاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وسطی ایشیاء تک رسائی کے لیئے دراہ دراہ سب سے مختصرترین روٹ مہیا کر سکتی ہے۔


چترال چیو پل سے شاہ سلیم (چترال کا اخری گاوں جو دوراہ کے قریب ہے)تک کا کل فاصلہ 82.5کلو میٹر ہے۔یہاں سے اگے راستہ کافی عرصے سے ناقابل استعمال اور خراب ہے۔شاہ سلیم سے لیڈی ڈیفرین جھیل تک تین گھنٹے کا راستہ ہے اس جھیل کو ہوز ہ دوراہ بھی کہا جاتا ہے اور چترالی زبان میں یہ چھات کے نام سے مشہور ہے۔فارسی زبان میں دوراہ کا معنی دو راستے ہیں اور یہاں سے ایک راستہ بائیں جانب سے منجان ہوتے ہوئے پنجشیر کو جاتی ہے،جبکہ دائین والا راستہ آشکومن کی طرف جاتی ہے جو کہ دریا آمو کے ساتھ واقع ہے۔ہوزہ دوراہ سے ہوتے ہوئے آشکومن تک کئی چھوٹے گاوں درمیان میں اتے ہیں جن میں سنگلچ،اسکوتل،پورو،کیدا اور زیباک شامل ہیں اور کچے خراب راستے میں آشکومن تک پہنچنے میں تقریا اٹھ گھنٹہ لگ سکتا ہے۔اس طرح چیو پل چترال سے دریا آمو کا فاصلہ 200

کلو میٹر ہے۔اگر چترال سے آشکومن تک پکا روڈ بنایا جائے تو اٹھ گھنٹے میں بندہ اسانی سے تاجکستان پہنچ سکتا ہے۔
وسطی ایشیاء قدرتی دولت سے مالا مال ہے اور ان کی دریافت کا کام شروع ہے ان قدرتی وسائل میں معدنی تیل اور گیس بڑی اہمیت کا حامل ہیں اور پاکستان جیسے ملک کو ان کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان سے ہماری اقتصادی گاڑی کا پہیہ چال سکے۔اس کے علاوہ ورلڈ میپ میں بھی تبدیلی نظر اتے ہیں اور نئے بلاک بن رہے ہیں جن کا مقصد علاقائی روابط میں اضافہ اور بیرونی ہتھکنڈون سے نجات ہے۔پہلے ہی سے ایران،چین اور روس پر مبنی بلاک نظر اتی تھی اور بعد میں ترکی بھی اس بلاک میں شامل ہوا اور موجودہ پاکستان تحریک انصاف کی زیرک قیادت بھی ملک کی بہتری کے خاطر اس بلا ک میں دیکھائی دیتا ہے۔جہان چین کی ون بلٹ ون روٹ کا تعلق ہے اس میں افغانستان، وسطی ایشائی ریاستیں اور روس بھی شامل ہیں اور اس کی فلیگ شیپ سی پیک کامیابی سے اپنے منزل کی طرف روان دواں ہے۔حال ہی میں افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت نے بھی سی پیک میں شمولیت کا عندیہ دیئے ہیں اور افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں ایک انکلوسیو (inclusive)اور استحکام والی حکومت بنائی جائے۔افغانستان کی آمن سے سی پیک کی connectivity جھڑی ہوئی ہے،افغانستان سے انڈیا اور دوسرے شرپسند عناصر کے نیٹ ورک تقریبا ختم ہوچکی ہے اور پاکستان،ایران،چین اور روس دوسرے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ان کوششون میں لگے

ہوئے ہیں کہ افغانستان میں ایک پرامن اور پائیدار حکومت تشکیل پائے تاکہ سب کو معاشی فوائد حاصل ہو سکیں۔
مرکزی حکومت نے پچھلے سال ایک باقاعدہ اعلان کے تحت دوراہ کو سر حد پار تجارت کے لیئے کھول دیا تھا اور ساتھ ہی کسٹم،نیشنل بنک برانچ،انٹی نرکاٹیکس اور اینٹی امیگرشین کے دفاتر کے لیئے زمینات کی نشاندہی بھی ہو چکی تھی۔حال ہی میں حکومت نے چترال دوراہ روڈ کی منظوری باقاعدہ طور پر کیا ہے اور ا س ضامن مین اٹھ آرب سے زیادہ فنڈ بھی مختص کی گئی ہے اور سب سے خوش ائیند بات یہ ہے کہ لینڈ کی خرید (land acquaisition)کے لیئے کلیکٹر کا نو ٹیفیکش بھی ہو چکی ہے۔اور انشاء اللہ بہت جلد اس روڈ پر کام شروع ہونے والا ہے۔اور اس میں چترال کے بیٹے وزیر زادہ کی کوشش بھی قابل تحسین ہے،جو وزیر اعظم عمران خان صاحب کے وژن کے مطابق کام کرہا ہے۔


اگر سی پیک اسی راستے سے گزر جائیں تو چترال کی تقدیر بدل جائے گی۔شاہ سلیم سوست کی طرح ایک ڈرائی پورٹ بن جائے گا جس کا علاقے کے لیئے بہت زیادہ اقتصادی فائدے ہو نگے۔چترال اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیاں موجود ثقافتی روابط کو مذید مستحکم بنایا جائے گا۔ضلعی حکومت کی امدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔چترال کے لوگوں کی معاشی و اقتصادی ترقی اس سے ضامن ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52684