Chitral Times

قومی ہیرو کی یاد میں : سر آغاخان سوئم کی تعلیم کیلئے تحریک – سجاول احمد

2نومبر کو سر سلطان محمد شاہ آغا خان (1877-1957) کی پیدائش کے دن کے طور پر یاد کیا جاتاہے
جنھوں نے مسلمانوں کی سماجی،ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اورتعلیمی ترقی کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔
-سجاول احمد


ایک سماجی مصلح کے طور پر، سر سلطان محمد شاہ آغا خان،برصغیرمیں، مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے ایک سرگرم حمایتی تھے۔اپنے ابتدائی وقت سے ہی اْنھوں نے اس بات کا احساس کر لیا تھا کہ مسلمانوں کا مستقبل اْن کے مذہب کے بنیادی پیغام میں موجو د ہے یعنی تعلیم کا حصول۔ سرآغا خان کے لیے یہ تصورات، اسلام کے سنہری دور میں اْس کی شان و شوکت کی بنیاد تھے اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے یہ بات لازمی تھی کہ وہ خود کو،پورے جوش و جذبے کے ساتھ جدید تعلیم کے لیے وقف کر دیں تاکہ اپنی عظمت و وقاردوبارہ حاصل کر سکیں۔

سر آغا خان نے اپنی پوری زندگی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اگر تعلیم میں اْن کی دلچسپی اْن کا جنون تھا تومسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے اْن کی کوششیں حقیقی جدوجہد تھیں۔قومی اسٹیج پر، جب وہ صرف 25برس کے تھے،سنہ 1902ء میں آل- انڈیا محمدن ایجوکیشنل کانفرنس میں سامنے آئے۔اْسی برس، وائس رائے لارڈکرزن نے اْنھیں، مسلمانوں کی تعلیم کے لیے لگن کے اعتراف میں،امپیرئیل لیجسلیٹو کونسل کی رُکنیت کے لیے نامزد کیا اور اس طرح وہ کونسل کے سب سے کم عمر رْکن بن گئے۔کونسل میں اْن کی تقریروں نے انھیں ایک ہونہار لیڈرکے طور پر شناخت دی جس کے بعد اْنھوں نے متعدد تعلیمی اقدامات کی راہنمائی کی اور آنے والے کئی برسوں میں مسلمانوں کے لیے ایک چیمپئن کے طور پر سامنے آئے۔ اْس وقت، اْنھوں نے برصغیر میں ایک یونیورسٹی کا خواب دیکھناشروع کیا جہاں مسلم نوجوانوں کو تیار کیا جا سکے۔ مسلمانوں کی عقلی ترقی کا بہترین طریقہ اینگلو اورینٹل کالج – ’مسلم آ کسفرڈ‘ – کا قیام تھا جو”اپنے لوگوں کے اْس وقار کو بحال کرنا تھا جواْس وقت پھیکا پڑ چکا تھا۔“

Sultan Mahomed Shah Aga Khan III

علی گڑھ کی عظیم تحریک جسے سر سید احمد خان اور سر سلطان محمد شاہ آغا خان نے شروع کیا تھا یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے نجات کی چابی اسی میں ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اس غیر معمولی خدمت کے ساتھ، ان کا اہم کردار علی گڑھ یونیورسٹی کا قیام تھا۔ اْنھوں نے تعلیم اورمہارت کے اس عظیم مرکز کے قیام کے لیے فنڈز اکھٹا کرنے جیسے کئی کام انجام دئیے۔اْن کا کہنا تھا:”مسلم انڈیا کے بچوں کے لیے میں ایک بھکاری کے طور پر گھر گھر، گلی گلی مانگنے جا رہا ہوں۔“خود بھی سر آغا خان نے فراخدلی سے ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ اپنی اس گرمجوشی اور مخلصانہ کوششوں کے ذریعے یونیورسٹی کے لیے تین ملین روپے سے زیادہ اکھٹا کرنے اور سنہ 1920ء میں مستقبل کی علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسلام کے لیے ایک زبردست خدمت تصور کی جانے والی یہ یونیورسٹی سر آغا خان کے بزرگوں کی مصر اور دیگر مقامات پر، جن میں، دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی،جامعہ الازہر کی بنیاد رکھنے تعلیمی روایات میں پیش رو کی حیثیت سے تاریخی تسلسل کی یاددلاتی ہے۔
مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے، سر سلطان محمد شاہ آغا خان نے پاکستان کے موجودہ تعلیم نظام کے لیے بنیادی خاکہ تیارکیا اور 20ویں صدی میں 200 اسکول قائم کیے جن میں سے پہلا اسکول، سنہ 1905ء میں گوادر(بلوچستان) میں قائم کیا۔لڑکیوں کے لیے ڈائمنڈ جوبلی اسکول یا ڈی جے اسکول پاکستان کے دوردراز شمالی علاقہ جات سمیت پورے پاکستان میں قائم کیے گئے۔آج، آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک (AKDN)نے، جس کی قیادت اْن کے پوتے ہز ہائنس پرنس کریم آغا خان IVکر رہے ہیں، نے پاکستان کے تعلیمی میدان میں ترقی لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک نے دنیا بھر میں ایجنسیوں اور ادارو ں کے سب سے بڑے سلسلے کے ذریعہ بین الاقوامی فریم ورک تیار کیا ہے جس میں، مسلمان خواہ اکثریت میں رہتے ہوں یا اقلیت میں، غربت کے خاتمے اور معیار زندگی بہتر بنانے میں حکومتی اسٹرکچرز کی مدد کرتے ہیں۔

Aga Khan III

مزید برآں، سر آغا خان کے لیے خواتین کی شمولیت کے بغیر معاشرے کی لازمی اور محفوظ اقدار کو برقرار رکھنا اور سماجی تبدیلی نا ممکن تھا۔خواتین کی آزادی اور انھیں تعلیم کے میدان میں مساوی مقام دینے کے خوش بیان حمایتی کے طور پر، سر آغاخان سلطان محمد شاہ نے اس حد تک فرمایا کہ ”میرے اگر دو بچے ہوتے اور ان میں سے ایک لڑکا اور دوسری لڑکی ہوتا اور میں اْن میں سے صرف ایک کو تعلیم دلا سکتا تومجھے اس بات میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوتی کہ میں لڑکی کو اعلیٰ تعلیم دلاتا۔“وہ انتہائی اعلی ٰمعیار کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر بھی پختہ یقین رکھتے تھے۔اس قسم کی ہدایت دیتے ہوئے، ایک مرتبہ، اْنھوں نے کہااسے”ہماری توانائی اور خواہشات کے بنیادی اور عملی مقاصد“ہونا چاہیے۔

سر آغاخان کی نظر میں،تعلیم کا ہرمرحلہ یا سطح اہمیت میں برابر ہے۔سنہ1911ء میں، آل-انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس سے اپنے افتتاحی خطاب میں اْنھوں نے زور دے کر کہا کہ معاشرے کی بنیادمضبوط ابتدائی تعلیم ہے کیوں کہ ”کوئی بھی ٹھوس سپر اسٹرکچرنرم زمین پربحفاظت قائم نہیں رہ سکتا۔“عوام ایسے راہنما پیدا نہیں کر سکے جو قوم کو طاقت کے جائز مقام تک اٹھا سکتے ہوں، اثر انداز ہو سکتے ہوں، کارآمد ثابت ہو سکتے ہو ں اگر ان کے پاس بنیادی تعلیم نہیں ہے۔“

سر سلطان محمد شاہ آغا خان کو،تحریک آزادی کی سنہری تاریخ میں،پاکستان کے انتہائی قابل احترام اور مشہور راہنما اور سفارت کارکی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔


٭٭٭

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
54355