Chitral Times

سرکاری افسران کے ایگزیکٹیو الاؤنس میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ

Posted on

سرکاری افسران کے ایگزیکٹیو الاؤنس میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ

اسلام آباد(سی ایم لنکس)وفاقی کابینہ نے گریڈ 17 سے 22 کے سرکاری افسران کے ایگزیکٹیو الاؤنس میں ڈیڑھ سو فیصد اضافے کی اصولی منظوری دیدی۔صوبوں کی طرز پر وفاق میں بھی افسران کو بنیادی تنخواہ کے ڈیڑھ سو فیصد کے برابر ایگزیکٹو الاؤنس دینے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔ پنجاب،کے پی کے،سندھ میں ایگزیکٹو الاؤنس پہلے سے ہی لاگو ہے۔بجٹ میں گریڈ 22 کے افسران کو ڈسپیرٹی الاؤنس دینے اور گریڈ 20 تا 22 کے افسران کو ملنے والا اردلی الاؤنس 14 ہزار روپے سے بڑھاکر 25 ہزار روپے تک کرنے کی تجویز ہے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کے اطلاق سے متعلق دو تجاویز ہیں۔ پہلی تجویز کے مطابق تمام ایڈہاک الاؤنسز ضم کرکے بنیادی تنخواہ پر پندرہ فیصد اضافہ دیا جائے لیکن اس صورت میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ بہت زیادہ ہوگا۔دوسری تجویز ہے کہ موجودہ بنیادی تنخواہ پر ہی پندرہ فیصد اضافہ دیا جائے جس کے بعد ایڈہاک الاؤنسز ضم کئے جائیں۔ اس کے نتیجے میں یکم جولائی سے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو پنشن کی صورت میں فائدہ پہنچے گا۔

chitraltimes minister finance miftah and info press confrence

 

بجٹ میں صاحب ثروت افرادپرٹیکسوں کاکچھ بوجھ،کم آمدنی والے افرادکوریلیف فراہم کر نے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں،وزیر خزانہ کی وفاقی وزراء کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس

اسلام آباد(چترال ٹایمز رپورٹ)وفاقی وزیر خزانہ و محصولات مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ بین الاقوامی اور ملکی حالات کے تناظر میں مشکل حالات میں نئے مالی سال کے لئے متوازن بجٹ پیش کیا گیا ہے جس میں عام آدمی کو ریلیف دینے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، پہلا ہدف مالیاتی استحکام اور دوسرا غریب عوام کو ریلیف دینا ہے، پاکستان باوقار ملک ہے اور ہمیں اپنی معیشت کو سنبھالنا ہو گا،ایسی سیاست کا کوئی فائدہ نہیں جس کا ملک کو نقصان ہو، ہم ملکی مفاد میں مشکل فیصلے کر رہے ہیں اور کریں گے، ایک لاکھ سے لے کر دو لاکھ روپے ماہانہ آمدنی رکھنے والے شہریوں پر ٹیکس کی شرح کم رکھی گئی، زیادہ آمدنی رکھنے والے گروپوں کیلئے ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے، 25 لاکھ کے قریب دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کیلئے فکسڈ ٹیکس کی شرح مقرر کی گئی ہے، یوٹیلیٹی سٹورز پر سارا سال آٹا، گھی اور چینی رعایتی نرخوں پر دستیاب ہو گی،زرعی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، بجٹ اقدامات کے ذریعے پاکستان کو پائیدار نمو کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہفتہ کو یہاں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب، وزیر مملکت ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری خزانہ کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پاکستان اس وقت مشکل گھڑی میں کھڑا ہے،اتنا گھمبیر اور مشکل وقت کبھی نہیں دیکھا، بجلی اور گیس کے شعبہ جات میں 2400 اور 1500 ارب روپے کے گردشی قرضوں کا سامنا ہے، بجلی کی مد میں 1100ارب روپیسے زائد کی سبسڈی دی گئی ہے، ہمیں ان مسائل کو حل کرنا ہوگا اور بد انتظامی کا خاتمہ کر کے بجلی او رگیس کے شعبے کے نقصانات کو کم سے کم کرنا پڑے گا، اگر ان مسائل کو حل نہ کیا تو معیشت اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گی، وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان ایک باوقار ملک ہے،

ہمیں اپنی معیشت کو سنبھالنا ہو گا،بجلی کی ٹرانسمیشن لائنز میں خرابیاں اور بل وصولی میں مسائل کا سامنا ہے، وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں سال گیس پر 400ارب روپے سبسڈی دی گئی ہے، صرف ایس این جی پی ایل کا 200 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، سابق حکومت نے بجلی اور گیس کے شعبے کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی، ایل این جی وقت پر نہ خریدنے کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ ہوا، وزیر خزانہ نے کہا کہ مسائل کے باوجود گیس کی کمی کی وجہ سے کسی فیکٹری کو بند نہیں ہونے دیں گے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی اور گیس میں زرتلافی دینے کا مطلب اپنے آپ کو سبسڈی دینا ہے، حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جب اضافہ کیا تو کوشش کی گئی کہ40ہزار سے کم آمدنی والوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے سبسڈی دی جائے۔ہمیں انتظامی طور پر ملک کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ ہماری معیشت نہیں چلے گی، پاکستان ایک جوہری ملک ہے اور ہمیں اس ملک کو سدھارنا ہے، ایسے خرچے نہیں کر سکتے جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے، ایسی سیاست کا کوئی فائدہ نہیں جس کا ملک کو نقصان ہو،

ہم ملکی مفاد میں مشکل فیصلے کر رہے ہیں اور کریں گے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں صاحب ثروت افراد پر ٹیکسوں کا کچھ بوجھ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کے برعکس عام پاکستانیوں اور کم آمدنی والے افراد کو محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے ریلیف فراہم کرنے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال بجٹ میں 4900 ارب روپے کا خسارہ ہے، عمران خان نے ملکی تاریخ کے 4 بڑے خسارے کئے ہیں۔لیاقت علی خان سے لے کر ناصر الملک تک جتنے وزرائے اعظم گزرے ہیں انہوں نے مل کر جتنا قرضہ لیا اس کا 80 فیصد عمران خان نے چار سالوں میں لیا۔ ہمیں جاری مالی سال میں 3950 ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ 2018ء میں ہم حکومت چھوڑ رہے تھے تو اس سال بیرون قرضے کی مد میں 1499 ارب روپے کی ادائیگی کی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاق کے پاس وسائل محدود ہیں، رواں سال ٹیکسوں کا ہدف 7004 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جس میں سے 4 ہزار ارب روپے کے قریب صوبوں کے پاس چلے جائیں گے، وفاقی حکومت سبسڈیز کے علاوہ گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور ملک کے کم ترقی یافتہ علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں اور عوامی فلاح وبہبود کیلئے بھی فنڈز فراہم کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے زیادہ تر مسائل بد انتظامی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں جس کا ہمیں خاتمہ کرنا ہے، رواں سال نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 2000 ارب روپے کے قریب ہے، انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اخراجات میں تین فیصد کمی ہے،

اس کے علاوہ سبسڈیز میں بھی کمی کی گئی ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ ہدف پر مبنی سبسڈیز دی جائیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 100 ارب روپے بڑھا دیا گیا ہے۔اس وقت دنیا میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے جس کے اثرات ملک پر بھی مرتب ہو رہے ہیں، اسی تناظر میں کوشش کی گئی ہے کہ امیروں پر زیادہ بوجھ ڈالا جائے، اس وقت بین الاقوامی منڈی میں پام آئل کی قیمت 1700 ڈالر فی ٹن کے لگ بھگ ہے، وزیراعظم نے کل انڈونیشیا کے صدر سے بات کی ہے، وزیر صنعت وپیداوار انڈونیشیا کا دورہ کر رہے ہیں تاکہ خوردنی تیل کی رسد کو ہموار رکھا جائے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں تیل دار بیجوں پر کئی مراعات دی ہیں۔ اس مقصد کیلئے 20 ارب روپے کا پیکج دیا گیا ہے، حکومت تیل دار بیجوں کی ملکی پیداوار میں اضافے کیلئے اقدامات کر رہی ہے اور توقع ہے کہ ہم ایک ارب ڈالر تک کے آئل سیڈز خود پیدا کریں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں پرسنل انکم ٹیکس کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ایک لاکھ سے لے کر دو لاکھ روپے ماہانہ آمدنی رکھنے والے شہریوں پر ٹیکس کی شرح کم رکھی گئی ہے جبکہ اس سے زیادہ آمدنی رکھنے والے گروپوں کیلئے ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔

حکومت نے 25 لاکھ کے قریب دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کیلئے فیکسڈ ٹیکس کی شرح مقرر کی گئی ہے، بجٹ پر بحث کے دوران اراکین کی رائے سے بعض اقدامات میں معمولی رد وبدل ہو سکتا ہے اور جو کمی ہے اسے پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس چوری روکنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، 30 ارب کے قریب ٹیکس لیکجز پر قابو پانے کی کوشش کریں گے۔چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے اس موقع پر کہا کہ ٹیکس چوری کے تدارک کیلئے ایف بی آر ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے جس کے دائرہ کار میں توسیع لائی جا رہی ہے۔ ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے دائرہ کا ر میں بھی توسیع لائی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت بچت اور کفایت شعاری کے لئے اقدامات کر رہی ہے، نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں وفاقی حکومت کے اخراجات میں کمی لائی گئی ہے، اسی طرح مختلف وزارتوں اور ڈویڑنوں کے اخراجات بھی کم ہوئے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سے 200 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا جس کیلئے وسائل فراہم کئے جائیں گے۔ اس موقع پر سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کا اطلاق 2017 ء کی بنیادی تنخواہوں کے سکیل پر ہوگا۔ بجٹ کی دستاویزات حقیقی ہیں اور اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ وزیر خزانہ نے ایک سوال پر کہا کہ نئے ٹیکس اقدامات کا حجم 440 ارب روپے ہے، افرا ط زر کے حوالے سے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، جو بینک اور مالیاتی ادارے کسانوں، چھوٹے تاجروں،کاروباریورں، خواتین اور نوجوانوں کو قرضے دیں گے تو ان بینکوں پر ٹیکسوں کی شرح کم ہوگی۔ نجکاری سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ 10 سے لے کر 12 بڑے سرکاری کاروباری ادارے ہیں جس میں 2 گیس اور 8 بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ہیں

ان اداروں کو نجکاری کی طرف لے کر جا رہے ہیں، اس حوالے سے بہتر منصوبہ بندی ہونا چاہئے اور حکومت اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ای او بی آئی کے مسائل حل کئے جائیں گے، سابق ضم شدہ اضلاع پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، گزشتہ حکومت نے 2018ء میں سابقہ فاٹا پر ٹیکس لگایا تھا لیکن شوکت ترین نے 2021ء میں اسے ختم کر دیا تھا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ان کی یہ ترجیح نہیں ہے کہ وہ سابق حکومت کے خلاف مقدمات قائم کریں، عمران خان اور ان کی ٹیم نا اہل تھی اور ان کے بہت سارے لوگ خوردبرد میں ملوث ہیں، رنگ روڈ، گندم اور چینی کی کم قیمت پر برآمد اور مہنگے داموں درآمد، توشہ خانے کے تحائف بیچنے سمیت کئی کیسز ہیں لیکن اگر میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے کام چھوڑ کر اس کے پیچھے لگ جاؤں تو میرا کام کون کرے گا۔اس سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ نواز شریف نو دس سال وزیراعظم رہے ہیں، نواز شریف نے اس مدت میں جتنا قرضہ لیا عمران خان نے اس سے کئی گنا زیادہ قرضہ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اور ملکی حالات کے تناظر میں مشکل صورتحال کا سامنا ہے لیکن ہمارا پہلا ہدف مالیاتی استحکام اور دوسرا غریب عوام کو ریلیف دینا ہے، سستا پٹرول اور ڈیزل سکیم کے تحت کم آمدنی والے گھرانوں کو ماہانہ 2000 روپے کی معاونت فراہم کی جارہی ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے استفادہ کرنے والوں کو یہ رقم مل رہی ہے اس کے علاوہ سروے میں جتنے لوگوں کے نام شامل ہیں وہ 786 پر شناختی کارڈ کا نمبر ارسال کر کے اسی ماہ سے اس معاونت سے مستفید ہو سکے ہیں۔ اس کے علاوہ یوٹیلیٹی سٹورز پر سارا سال سستا آٹا اور چینی فراہم کی جائے گی۔

 

ایک سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ ایف بی آر نے مقدمات اور تنازعات کو حل کرنے کیلئے اے ڈی آر سی کا نظام وضع کیا ہے، یہ ایک اچھا طریقہ کار ہے جن صنعتکاروں نے ایف بی آر کے خلاف کیسز کئے ہیں وہ واپس لیں، حکومت بھی اپنے کیسز واپس لے گی اور اے ڈی آر سی کے پلیٹ فارم کے ذریعے متوازن فیصلے کئے جائیں گے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم نے این ایف سی اجلاس کی ہدایت کی ہے، یہ حقیقت ہے کہ ضم شدہ اضلاع کے باعث خیبر پختونخوا کی آبادی بڑھی ہے لیکن یہ بات قابل افسوس ہے کہ قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں وزیراعلیٰ محمود خان تشریف نہیں لائے، انہیں اس اجلاس میں آنا چاہئے تھا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک کی 37 فیصد لوگوں کی آمدنی 35 سے 40 ہزار روپے تک ہے، وزیراعظم کو عوام کی مشکلات کا علم ہے، وہ سچ مچ غریب عوام کیلئے سوچتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے بجلی کے تین پیداواری پلانٹس پر کوئی پیش رفت نہیں کی اور نہ ہی انہیں کوئی پیسے دیئے گئے اگر یہ پلانٹس چلتے تو آج یہ لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی۔انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں حکومت نے زراعت اور زرعی پیداوار کو ترقی دینے پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔

 

اس کے علاوہ برآمدات کو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ بجٹ میں ملک بھر میں تعمیر وترقی کے منصوبوں کو بھی شامل کیا گیا ہے کیونکہ اس سے روزگار کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قومیں ہسپتالوں، سکولوں، شاہراہوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے بنتی ہیں۔وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے اس موقع پر کہا کہ حکومت نے مشکل حالات میں متوازن بجٹ دیا ہے، بجٹ میں مختلف شعبوں میں اصلاحات کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں جس کا بنیادی مقصد پاکستان کو پائیدار نمو کی راہ پر گامزن کرنا ہے، حکومت نے کوشش کی ہے کہ مشکل حالات میں عام آدمی پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے اور عام آدمی کو مہنگائی کے اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔ اس مقصد کیلئے آٹا، گھی اور چینی رعایتی نرخوں پر فراہم کرنے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں۔پٹرول اور ڈیزل کی سبسڈی کی مد میں 8 کروڑ لوگوں کو 2000 روپے ماہانہ کی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ زرعی شعبے کو ریلیف دیا گیا ہے تاکہ ملکی پیداوار میں اضافہ کر کے اشیائے خوراک کی درآمد کو کم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں کوئی اضافی یا بالواسطہ ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے جو نئے ٹیکس عائد کئے گئے ہیں وہ امرا اور صاحب ثروت افراد کیلئے ہیں۔پراپرٹیز اور غیر پیداواری اثاثہ جات کو ٹیکس کے نیٹ میں لایا گیا ہے۔ دنیا اس وقت سپر سائیکل سے گزر رہی ہے، ہم عالمی حالات تبدیل نہیں کر سکتے لیکن ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ افراط زر کو کم سے کم کیا جائے۔ پی ایس ڈی پی بڑھانے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم ہوں۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی کھپت اور درآمد کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جب پٹرول کی قیمت کم کی گئی تھی تو اس وقت کی طلب بہت بڑھ گئی تھی۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے طلب میں کمی آئے گی۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
62216