Chitral Times

حضرت زینب بنت علیؓ – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on

سم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت زینب بنت علیؓ

(15رجب، یوم وفات کے حوالے سے خصوصی تحریر)

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

شیر خداحضر ت علی کرم کی پہلی زوجہ محترمہ بنت رسولﷺ حضرت فاطمہ الزہراتھیں۔ان کے بطن سے چاراولادیں ہوئیں،حضرت امام حسن،حضرت امام حسین،حضرت زینب بنت علی اور حضرت ام کلثوم بنت علی۔ حضرت زینب ؓ5جمادی الاول 6ھ،مدینہ منورہ میں پیداہوئیں۔ولادت مبارکہ کے وقت آپﷺ شہرسے باہر حالت سفرمیں تھے چنانچہ حضرت علی نے بذات خود اس رحمت خداوندی کے ایک کان میں آذان اوردوسرے کان میں اقامت کہی اوربہت دیرتک سینے سے لگائے ٹہلتے رہے۔حضرت فاطمہ الزہراؓ نے نام تجویزکرنے کی بابت جب شیرخداسے کہاتوجواب میں آپﷺکے انتظارکاحکم ملا۔آپﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ سفرپرجاتے ہوئے سب سے آخرمیں بی بی پاک فاطمہ الزہراؓ کے گھرتشریف لاتے تھے اورواپسی پرسب سے پہلے یہیں تشریف لاتے۔اب کی بارجب حجرہ مبارکہ میں واردہوئے تو نومولودکودیکھ کر باغ باغ ہوگئے کیونکہ آپ ﷺکوانتظاربھی تھا،نواسی کواپنی گودمیں بھرلیا،اپنےسینے سے لگایااور رخسارمبارک معصوم گالوں سے مس کیااورفرط جذبات سے آبدیدہ ہوگئے،نواسی سے پیار،محبت،الفت اور شفقت کاکیاخوبصورت اظہارتھا،سبحان اللہ۔گزشتہ بچوں کی طرح اس بچی کانام بھی آپﷺنے تجویزفرمایااوراطلاع دی کہ اللہ تعالی رب العزت کی طرف سے اس نام کی منظوری کی اطلاع حضرت جبریل علیہ السلام نے دی ہے۔لفظ ”زینب“کامطلب ”اپنے والد کی زینت“ہے۔ایک روایت کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہ کی کل اٹھائس اولادوں میں سے تین بیٹیوں کے نام ”زینب“تھے۔چنانچہ ان ”زینب بنت علی کو ”زینب کبری“بھی کہاجاتاہے،ان کے علاوہ آپ کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر کم و بیش ساٹھ القابات سے آپ ؓ کویادکیاجاتاہے،ثانی زہرا،نائبۃ الزہرا،عقیلہ بنی ہاشم،صدیقہ صغری اورراضیۃ القدران میں سے چندمشہور ہیں۔حضرت زینب بنت علی ؓ کی عمر مبارک سات برس کی تھی جب محسن انسانیتﷺکاوصال ہوا۔اس سانحہ کے چھ ماہ بعد بی بی پاک فاطمہؓبھی اس دنیاسے پردہ فرماگئیں۔

حضرت زینب بنت علی کم و بیش سات سالوں تک صحبت نبویﷺ سے فیضیاب ہوئیں۔عمرکے ابتدائی ایام اس لحاظ سے بہت اہم ہوتے ہیں کہ بچے کاذہن خالی تختی کی مانندہوتاہے اوراس پر جوکچھ بھی نقش کردیاجائے وہ ان مٹ ہوتاہے۔بی بی پاک صاحبہ نے مدنی زندگی کاآخری دوربنظرخود مشاہدہ کیااورغیرمحسوس طورپراسے اپنی عادات کاحصہ بنالیا۔یہ بچپن کی تربیت تھی کہ جس نے آپ رضی اللہ تعالی عنھاکی آخری زندگی میں صبرورضاکے دامن کوبہرصورت تھامے رکھنے پرمجبورکیے رکھا۔آپ رضی اللہ تعالی عنھاکی زندگی سے یہ سبق ملتاہے کہ اپنی بیٹیوں کو بچپن سے ہی بہترینتربیت سے آراستہ کرناچاہیے، اورقرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ان کی ابتدائی عادات کو حسن سیرۃ میں میں ڈھالناچاہیے تاکہ وہ بقیہ عمرمیں للھیت اور خوف خداکے زیورسے اپنی شخصیت میں نکھارپیداکریں۔آپ رضی اللہ تعالی عنھااپنے ناناکوہمہ وقت اقامت دین اوراعلائے کلمۃ الحق کے لیے مصروف عمل دیکھتی تھیں چنانچہ یہ سبق واقعہ کربلامیں آپ کے لیے بہترین نمونہ عمل بنااوراس مشکل ترین وقت میں بھی اسوۃ حسنہ کے مطابق اپنے بھائی کے شانہ بشانہ  ثابت قدم رہیں۔اسی طرح آپ نے اپنے باباجان کے چارسالہ پرآشوب دورخلافت کوبھی سن شعورمیں ملاحظہ کیااوریہ سبق واقعہ کربلاکے بعدکی زندگی میں آپ رضی اللہ تعالی عنھاکے لیے مشعل راہ بنا۔آپ رضی اللہ تعالی عنھانے اپنے گھرمیں کبھی نازنخرے،عیش و عشرت اورفارغ البالی نہیں دیکھی تھی۔اس کی وجہ مال و دولت کی کمی قطعاََ بھی نہیں تھی،بلکہ عادت سخاوت کے باعث گھرکاسب کچھ راہ خدالٹادیاجاتااور اہل بیت کے لیے صرف اللہ تعالی کانام باقی بچتاتھا۔گھریلو تربیت کییہ جہت اس وقت بی بی صاحبہ کے کام آئی جب وقت اسیرییزیدیوں کے ہاں سے بہت ہی قلیل مقدارمیں کھانامیسرآتاتو تواپنے حصے کاتناول بھی دیگراسیران میں تقسیم فرمادیتیں۔ایک بارجب حضرت علی زین العابدین نے پوچھاکہ پھوپھی جان آپ بیٹھ کرنمازکیوں پڑتی ہیں توفرمایاکہ بہت کم کھاناملنے کے باعث کمزوری اورنقاہت نے مجبورکیاہے۔کیاخوبصورت تعلیمات ہیں کہ حقوق اللہ میں کمی کی وجہ حقوق العبادکی ادائگی تھی۔ایک لڑکی کی تربیت کے نتائج کااندازہ بیبی پاک صاحبہ کی حیات طیبہ و طاہرہ سے بخوبی لگایاجاسکتاہے۔زرق برق ملبوسات،چمک دمک سے بھرے ہوئے زیورات،ماکولات و مشروبات لبالب ظروف اورحسن وزیبائش کی عادات یقینی طورپر خواتین کے لیے اعلی ترمقصدحیات سے بعدکاباعث بنتی ہیں۔

حضرت زینب ؓکانکاح حضرت عبداللہ بن جعفرطیارؓسے 17ھ میں ہوا،یہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بھتیجے تھے اورحبشہ میں پیداہوئے تھے۔جنگ موتہ میں حضرت جعفرطیارؓکی شہادت کے بعدآپﷺ نے حجام کوبلاکرحضرت عبداللہ کے بال ترشوائے اور ان کی کفالت اپنے ذمے لے لی۔آپﷺ نے اس موقع پر حضرت عبداللہ بن جعفرطیارکاہاتھ پکڑکر فرمایا”اے اللہ تعالی حضرت جعفرکے گھروالوں کی نگہبانی فرمااورحضرت عبداللہ کے ہاتھ میں برکت عطافرما“،آپﷺ نے یہ دعاتین بارفرمائی۔بعداز وصال نبویﷺیہ حضرت علیؓ کے زیرکفالت آگئے۔نکاح کے بعدحضرت عبداللہ بن جعفرطیارؓ بہت خوشحال ہوگئے تھے چنانچہ انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق تمام سہولیات وآسائشیں حضرت زینب ؓ کے لیے فراہم کررکھی تھیں،یہی وجہ تھی کہ بی بی صاحبہ زیادہ ترزہددنیااوردرس و تدریس میں مشغول رہتیں اورخواتین کی تربیت کرتی رہتی تھیں۔حضرت زینب کے بطن سے پانچ اولادیں ہوئیں،حضرت عونؓ،حضرت محمدؓ،حضرت عبداللہؓ،حضرت عباس ؓ اورحضرت ام کلثومؓ۔ان میں سے حضرت عونؓ اورحضرت محمدکاذکر واقعہ کربلامیں بہت کثرت سے ملتاہے جہاں ان دونوں نوجوانوں نے جام شہادت نوش جان فرمایا۔

واقعہ کربلا میں حضرت زینبؓ بذات خودموجودتھیں اورانہوں نے وہ تمام واقعات اپنی نظرمبارکہ سے بچشم خودمشاہدہ کیے تھے،ایسے جاں گسل واقعات کے دوران بھی صبرکادامن مضبوطی سے تھامے رکھنااوراستقامت کاپہاڑبن جاناصرف آپ جیسی باہمت خاتون کاہی خاصہ ہوسکتاتھا۔اس واقعہ کے بعدآپ رضی اللہ تعالی عنھاسمیت کل پسماندگان کو درباریزیدمیں پیش کیاگیاجہاں پرآپ رضی اللہ تعالی عنھاکاخطبہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھاگیاگیاہے،یہ خطبہ اس حدیث نبویﷺ کے عین مطابق ہے کہ سب سے بڑاجہادظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہناہے۔آپ رضی اللہ تعالی عنھانے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا”سب تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے ہیں اوردرودوسلام ہو نبی آخرالزماں پر،اے یزید؛اگرچہ حالات زمانہ نے ہمیں اس موڑ پرلاکھڑاکیاہے اور ہمیں قیدی بنادیاگیاہے لیکن جان لے کہ میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں،خداکی قسم صرف ایک خداکے سواکسی سے نہیں ڈرتی اوراللہ تعالی کے سواکسی سے کوئی گلہ یاشکوہ بھی نہیں کرتی،اےیزید؛مکروفریب اورحیلوں بہانوں سے توہم لوگوں سے جتنی دشمنی کرسکتاہے کرلے اورہمارے خلاف جتنی سازشیں کرسکتاہے کرلے لیکن خداکی قسم توہمارے نام لوگوں کے دلوں سے اورتاریخ سے نہیں مٹاسکتا،تیرے لیے ممکن نہیں کہ توتعلیمات وحی الہیہ کواس دنیاسے نابودکردے اورہمارے امتیازات کوختم کرسکے،پس لعنت ہوظالموں پر“۔ اس خطبے نے تاریخ کے دھارے موڑ کررکھ دیے تھے اوریزیدی استبدادکی حقیقت کھل کرسامنے آگئی تھی۔بی بی پاک ؓکے خطبے نے انبیاء علیھم السلام کی ہمت اورجرات کییادتازہ کردی کہ جس طرح وہ وقت کے فراعین کے سامنے ڈٹ جاتے تھے اسی طرح آپ رضی اللہ تعالی عنھا بھی اپنے عہدکے طاغوت کے سامنے آہنی دیوار بنیں۔

عزم و ہمت اور حوصلہ کییہ کوہ گراں 15رجب62ھ کو اس دارفانی سے پردہ فرماگئیں۔آپ کی مرقد انور دمشق میں واقع ہے جہاں زائرین جوق درجوق حاضری دیتے ہیں۔خواتین اسلام کااصل جوہر ان کی شرم وحیااورعفت و پاکدامنی ہے چنانچہ حضرت علی کوفہ میں جس مکان میں رہائش پزیرتھےاس کے پڑوس میں رہنے والے یحی مازنی نے بتایاکہ میں پانچ سال تک امیرالمومنین کاپڑوسی رہالیکن آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھرسے کبھی کوئی نسوانی آوازبلندنہیں ہوئی اورنہ کسی بی بی پاک کو گھرسے باہرکبھی دیکھا۔بچپن میں جب عمرمبارک صرف چارسال کی تھی توحضرت علی نے ایک مہمان کے لیے کھانے کاتقاضاکیا،جواب میں بی بی پاک فاطمہ الزہراؓ نے عرض کی کہ کھانے کوکچھ نہیں ہے،فقط معمولی ساکھاجا ننھی زینب کے لیے دھراہے،یہ سنتے ہی حضرت زینب بنت علی ؓدوڑتی آئیں اور بے ساختہ کہاکہ اماں جان میراکھاجا مہمان کوپیش کردیں،میں بعدمیں کھالوں گی،صاحبزادی کی اس سخاوت پر بی بی صاحبہ نے خوش ہوکرانہیں گلے لگالیا۔کوفہ میں قیام کے دوران بی بی صاحبہ نے ایک مدرسہ قائم کیاتھاجس میں خواتین کی بہت بڑی تعدادصباح و مساء آپ رضی اللہ تعالی عنھاکی خدمت میں حاضررہتی تھی اورقرآن و سنت کے علوم سے بہرہ مندہوتی تھی اوراحکامات شریعت کی تفہیم کے لیے آپ رضی اللہ تعالی عنھاسے ہی رجوع کیاجاتاتھا۔واقعہ کربلاکے بعد امام علی بن حسین زین العابدین ؓقدم بہ قدم آپ رضی اللہ تعالی عنھاکے ہمرکاب تھے،ایک موقع پرانہوں نے فرمایا مصائب و آلام کے انبوہ کثیراوراسیری و گرفتاری اورسفرمسلسل کے باوجود پھوپھی جان کی کوئی نمازکبھی قضانہیں ہوئی تھی۔واقعہ کربلامیں برادرعزیزحضرت امام حسین ؓ بھی جواپنی خواہرعزیزہ کے معمولات سے ازحد واقف تھے دم آخریںیہ درخواست کی تھی اپنی دعائے نیم شبی میں مجھے ہمیشہیادرکھنا۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
71218

حضرت زینبؑ خواتین کے لیئے ایک رول ماڈل ۔ محمدآمین

حضرت زینبؑ خواتین کے لیئے ایک رول ماڈل ۔ محمدآمین

ڈاکٹر علی شریعتی فرماتا ہے حسینؑ اور زینب ؑ ایسے مثالی بہن بھائی ہیں جو تاریخ میں ایک مثالی انقلاب کی علامت ہیں اور ایک ایسا انقلاب جس نے ظلم واستبداداورمکرو فریب کورسوا اور ذلیل کرکے انسانیت کی حرمت اور آزادی کا پرچم سر بلند کیا،،۔حضرت زینب ع نبی اقدس ﷺ کی پیاری نواسی اور امام حسن اور امام حسین کی سگی بہن ہے آپ جناب علی کرم اللہ وجہہ کریم اور خاتون جنت جناب فاطمہ سلام علیہ کی صاحبزادی ہے۔آپ کی پیدائیش مدینہ منورہ میں 626ء میں ہوئی ا اور آپ کی قبر مبارک شام کے مقام ذینبیہ میں واقع ہے۔آپ کا تعلق خاندان اہلبیت اطہار سے ہے جس کی طہارت کی ضمانت اور گواہی اللہ پاک نے خود قرآن مجید میں دی ہے۔


حضرت زینب کا نام اپ کے ناناجان جناب محمد ﷺ نے خود ذ ینب ر کھا جس کا مطلب اپنے باپ کا جمال یا زینت ہے،اپ کی شکل و صورت اپنے ناناجان اور پدر گرامی سے ملتی تھی۔آپ گوشہ بتول تھی اور وہ تمام خصوصیات اپنی مدر گرامی سے حاصل کی تھی جس کے بارے میں نبی اخرلزمان کا ارشاد ہے کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس سے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور فاطمہ جنت کی خواتین کی سردار (Lady of Heavens)ہے۔چونکہ اپ کی تربیت ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو فضلیتوں اور برکتوں سے بھرا ہوا تھا،شجاعت و بلاغت اپ کو وراثت میں ملی تھی۔آپ کی والدہ محترمہ کی وفات 632؁ء میں ہوئی اور اس وقت اپ کی عمر چھ برس کی تھی،اپنی والدہ محترمہ کی خواہش اور نصیحت پر اپ اپنے دونوں بھائیوں کے لیئے مان کا کردار اپنایا اور یہی وجہ تھی کہ بہن بھائیوں کے درمیان ایک مثالی قربت قائم تھی۔


جب یزیدی افواج میدان کربلا میں خانوادہ رسالت ماب ص پر اپنے مظالم کا انتہا کرہے تھے کیونکہ یزید بدبخت یہ چاہتا تھا کہ امام اعلی مقام اس کے ناپاک ہاتھوں پے بیعت کرلے،جو کہ نواسہ رسول ص کے لیئے ناممکن تھا کیونکہ مواریخین اس بات پر متفق ہیں کہ یزید اسلام کے اصولوں سے منحرف ہوا تھا۔اپ اپنی انکھوں سے سارے مظالم دیکھ رہی تھی کہ کس طرح اپ کے بیٹے جناب عون اور محمد شہید کر دیئے گئے اور یک بعد دیگر اہلبیت اور اسکے رفقاء بے دردی سے جان قربان کر رہے تھے پھر اپ نے وہ سمان بھی دیکھا کہ کس طرح جنت کے جوانوں کے سردار کا سر مبارک کاٹ دیا گیا اور بد بختوں نے اپکے جسم مبارک پر گھوڑا دوڑائے۔اپنے کربلا میں پیاسے کے شدت بھی محسو س کیئے۔جب کربلا میں 72 آہل بیت کے گھرانے اور ان کے اصحاب شہید ہوئے اور روایت میں اتا ہے کہ اس وقت مردوں میں امام ذین العابدین جو بری طرح بیمار تھی فاسق فوج میں سے کسی نے اس سے قتل کرنے کے لیئے اپہنچا لیکن بی بی زینب سلام علیہ ڈھال بنی اور یہ فرمائی کہ پہلے مجھے قتل کرو پھر اس بیمار کو،اس طرح منشاء الہی سے اپنے بیمار امام کو پچائی کیونکہ آل محمد کا سلسلہ دنیا میں قائم ہونا تھا۔


واقعہ کربلاکے بعد جب خاندان رسالت کے عورتوں،بچون اور بچیوں کو قیدی بناکر اور زنجیروں میں جھکڑ کر دمشق روانہ کردیے تویہ منظر قیامت صغرا سے کم نہ تھا،اس بابرکت خاندان جہان قرآن پاک نازل ہوا تھا اور جس گھر سے اسلام پھیلا تھا،کے خواتیں بغیر چادر اور دوپٹے کے بازاروں اور مارکیٹوں سے گزر رہے تھے،جب یہ قافلہ دمشق پہنچے۔دمشق میں قید کی حالت میں جناب زینب نے یزید کی محل میں اپنے پیارے بھائی کی شہادت میں پہلامجلس یا ماتم کا اغازکیا،جب قیدیوں کو یزید کی دربار میں لائے گئے تو اپنے یزید کی دربار میں بہادری اور شجاعت کا وہ مظاہرہ کیا جس سے تاریخ رہتی دنیا تک ذندہ رکھے گی،کیونکہ انسانی فطرت ہوتی ہے کہ جب قیدی کو بادشاہ کے دربار میں پیش کی جاتی ہے تو بولنا کجا وہ تو بادشاہ کے قدموں میں گر کر جان کی سلامتی چاہتی ہے اور جس کے سارے خاندان لٹ جاتے ہیں ان کی حال کیا ہوتے ہیں وہ تو صرف اللہ پاک ہی جانتا ہے،لیکن اس بار ظالم کے دربار میں بی بی زینب ہے۔آپ نے اللہ پاک کی حمد و ثنا کی اور اپنی خاندان کی تعارف کی کہ میں پیغمبر اسلام جناب محمد ص کی نواسی اور فاطمہ زہرہ کی بیٹی ہوں یہ سن کر دربار میں موجود لوگ حیرت سے اپ کی متوجہ ہوئے اپ نے یزید کو للکار کے بولی کہ تو اپنی عورتوں کو بغیر پردے کے باہر جانے نہیں دیتے ہیں لیکن خاندان نبوت کے خواتین کو بغیر دوپٹے کے اپنے دربار میں کھڑے کیئے ہیں او ر یہ تمہارا نصاف ہے۔جب یزید بد بخت نے غرور سے یہ کہا کہ تمہارے بھائی نا فرمانی کر رہا تھا جس کی وجہ اس کی موت ہوئی اور اللہ نے ہمیں سروخرو کیا یعنی ہم نے انہیں شکست دی اور اللہ جسے چاہئے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے، تو اپنے فرمایا،اے یزید تمہیں کیا معلوم کہ قرآن کے اس ایت کا مفہوم کیا ہے یہ تو وقت بتائے کہ اللہ کسے عزت دیتا ہے اور کسے ذلت دیتا ہے اور ہمارے لئے یہ ایک خوبصورت شہادت ہے۔اج تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جناب زینب نے کیا خوب فرمائی تھی اور کوئی انسان چاہتے بھی اپنے عزیز کا نام یزید نہیں رکھ سکتا ہے۔


جب یزید کے دربار میں ایک شامی فوجی نے قیدی خواتیں میں سے ایک لڑکی کو اس کے حوالے کرنے کا بولا تو دختر بتول نے اس سے یہ کہتے ہوئے منع کی تو اس کے قابل نہیں اور تیرا اس پر اختیار نہیں ہے اس پر یزید نے کہا کہ دو نوں صورتوں میں میرا اختیار چلے گا اس پر بی بی نے فرمائی کہ یہ فیصلہ نا انصافی اور ظلم پر مبنی ہوگی اس طرح اپنے دختر خاندان رسالت کو ایک جابر غیر محرم کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہونے سے بچائی۔


جناب زینب ص کا انسانیت پر ایک احسان یہ ہے کہ اپنے واقعہ کربلاکے بعد تمام حالات و واقعات کو مدینہ پہنچنے کے بعد لوگوں کو بتائی ورنہ یزید اور اس کے درباری تاریخ دان اور مفاسریں ان حقائق کے بالکل غلط پیش کرسکتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا یزیدیت اور حسنیت میں فرق کرسکتا ہے کیونکہ حق حسنیت کا نعرہ اور یزیدیت طاغوت اور ظلم کا نشان بن چکی ہے اور رہتے دنیا تک رہے گی۔مذید یہ اپنے امام سجاد کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور ہمیشہ اس سے ہمت دی۔اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو جناب زینب کی دربار یزید میں حاضری اور خطبہ (women empowerment)کے سلسلے میں ایک سنگ میل کی حثیت رکھتی ہے کہ ایک عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیئے ظالم سے ظالم تر حکمران اور بااثر لوگوں کا سامنے کر سکتی ہے بشرطیکہ اس میں جرات و بہادری کا عنصر ہو۔دراصل میں حسینیت حق گوئی،سچ گوئی اور ظلم کے خلاف ڈٹھ کھڑے ہونے کا نام ہے اور تا قیامت یہ دو نوں افکار یعنی حسنیت اور یزیدیت دو الگ نہروں کی طرف روان دوان رہیں گے اور حسینی افکار مذاہب، رنگ ونسل اور جعرافیائی حدود سے بالاتر ہوکر تما م بنی نوع انسان کے لئے حق کا راستہ تعین کرے گی۔اور شاعر نے کیا خوب کہا ہے
انسان کو بیدار تو ہونے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
51603