Chitral Times

نوائے سُرود – تقدیر – شہزادی کوثر

نوائے سُرود – تقدیر – شہزادیکوثر

لغت کے اعتبار سے تقدیر کا مطلب بخت ،بھاگ، قسمت،قدر ،فیصلہ ،مقدر،مشیت اور نصیب کے ہیں،جبکہ شرعی اصطلاح میں یہ اللہ پاک کا وہ علم ہے جو اس کائنات اور مخلوقات کے بارے میں اس کے وجود میں آنے سے پہلے طے کیا جا چکا ہوتا ہے۔وہ اندازہ قدرت و فطرت جو اللہ نے ہر چیز کے مادے میں رکھ دیا ہے۔ تقدیر کے محور میں ہر چیز محو گردش ہے ۔اسی چکر میں ہی عمر بیت جاتی ہے ۔حضرت علی مرتضیٰ کا قول ہے کہ تقدیر وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کی کوئی انتہا نہں ۔۔ انسان کا ہر عمل اسی محور میں گھومتے ہوئے انجام پاتا ہے،لیکن انسان اس معاملے میں لا چار ہرگز نہیں اس کی تقدیر کا آدھا حصہ اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔( یہاں میری مراد تقدیر معلق سے ہے۔) وہ ذرائع،وسائل، مواقع اور حالات کا موافق استعمال کر کے تقدیر بدل سکتا ہے۔ ہر فرد کواللہ پاک کامیابی کا موقع دیتا ہے ۔کچھ لوگ اپنی عقل وشعور سے کام لے کر بلندیوں تک پہنچتے ہیں جبکہ بعض لوگ موقع سرمایہ/ وسائل دونوں کو ضائع کرکے اپنی تیرہ بختی کا رونا روتے ہیں ۔ایسے میں دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ                         تقدیر بدلتی ہے دعاوں کے اثر سے       

مطلب یہ کہ انسان کے پاس تقدیر بدلنے کے دو ذرائع ہیں  ۔۔  دعا اور دوا/ تدبیر ،یعنی اللہ سے مضبوط ربط اور عظم ویقین کے ساتھ بھرپور کوشش۔۔ ان سے ہی قسمت  بدلی جا سکتی ہے۔ بدلنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ موت و زندگی پر قدرت حاصل ہوبلکہ اپنی کوشش سے بہت سی مشکلات کا حل نکالنے میں کامیابی مل سکتی  ہے ۔ کچھ لوگ یہ کہہ کے بیٹھ جاتے ہیں کہ جو قسمت میں ہو گا وہ ہوکرہی رہے گا اور ہاتھ پرہاتھ دھرے پوری عمر گزار دیتے ہیں ۔ نہ خود کی زندگی میں کوئی بہتری لاتے ہیں اورنہ دوسروں کے لئے ہی کچھ کر جاتے ہیں ۔بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ساتھ انسانیت کے دکھوں کا مداوا بھی کر جاتے ہیں۔  انسان جتنی کوشش کرتا ہے اس کے بدلے میں بلندیوں کی طرف جاتا ہے ۔اس سے مراد اقتدار حاصل کرکے دوسروں کے حق پہ ڈاکہ ڈالنا نہیں نہ اپنی جہالت چھپانے کے لئے دولت کی نمائش ہے۔ نہ دوسروں کو حقیر تصور کر کے برہنہ گفتاری کا مظاہرہ کیا جائے نہ اپنی علمیت پر مغرور ہو کر ایسا رویہ اپنایا جائے کہ دوسرے ہیچ نظر ائیں ۔کچھ لوگ تقدیر کے دھنی ہوتے ہیں جس کام میں ہاتھ ڈالیں اس میں ناکامی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،ایسے لوگوں کے ہاتھ میں مٹی بھی سونا بن جاتی ہے ۔ایسوں کو حالات کا مقابلہ کرنے کی بھی نوبت نہیں آتی لیکن اکثریت کو اپنی قسمت بنانے کے لئے جتن کرنا پڑتا ہے جو کہ دعا اور دوا / تدبیر سے ہی ممکن ہے۔ کسی دانا کا قول ہے کہ  خود کوشش اور محنت نہ کر کے اللہ سے مانگنا بے وقوفی اور صرف اپنی محنت پر یقین کر کے اللہ سے نہ مانگنا غرور ہے۔۔۔ 

  گویا تقدیر کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کے لئے پہلے بھرپورمحنت کی جائےاور اللہ کی رحمت پر کامل یقین ہو اس یقین کے ساتھ اس سے مانگا جائے تب ہی کامیابی ممکن ہے۔ اگر انسان کو مقدر کے سامنے بے بس بنانا ہوتا تو اسے عقل وشعور کبھی نہ دیا جاتا۔ عقل کی بدولت دنیاوی افعال انجام پاتے ہیں  ۔ان افعال کے لئے ارادہ الہی یعنی مشیت ہو گی تو فعل وجود میں آئے گا اس فعل کو وجود میں لانے کے لئے انسان کا کام کرنا بھی ضروری ہے یہ کام وہ اپنے اس اختیار کی وجہ سے کر پاتا ہے جو عقل اور شعور کی صورت میں اچھے برے کی تمیز میں معاون ہوتا ہے ۔ شعور کے ساتھ ضابطہ حیات کلام پاک کی صورت میں نازل ہوا تا کہ انسان اس سے رہنمائی حاصل کرے اور اپنی عقل کا درست استعمال کر کے اپنی اور دوسروں کی زندگی سدھارنے کا سبب بنے ۔اگر انسان کو عقل کی دولت سے سرفراز نہ کیا جاتا تو وہ روز حشر بھی جواب دہ نہ ہوتا۔ قرآن کے احکامات کو عملی طور پر اپنانے کا بڑا ذریعہ ہی عقل ہے اس سے تخلیق آدم اورتخلیق کون ومکاں کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے ۔انسان نہ اتنا بے بس اور مجبور پے کہ اپنی مرضی سے حرکت بھی نہیں کر سکتا اور نہ اتنا خود مختار ہے کہ اسے کسی برتر ہستی کو ماننے کی ضرورت نہیں رہتی ،انسانی فعل اور مشیت الہی سے ہی تقدیر بنتی ہے ۔انسان کو اتنا اختیار ملا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں زمین سے ایک ہی پیر اٹھا سکتا ہے دوسرا پیر نہ اٹھا پانے کا احساس ہی اس کے انسان ہونے اور احکام الہی کا پابند ہونے کا ثبوت ہے ۔ایمان یہ نہیں کہ ایک ہستی کے “ہونے ” کو مانا جائے بلکہ ایمان یہ ہے کہ انسان کے افعال اور کوششوں کے باوجود کسی کام کی انجام دہی ممکن نہ ہو تو اسے تقدیر کا فیصلہ اور مشیت الہی سمجھ کر صدق دل سے قبول کر لیا جائے۔۔۔۔                                  

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
58451