اپر چترال کو الگ ضلع کا درجہ دینے سے عوام کے مسائل میں کمی کی بجائے مشکلات اور تکالیف میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔عوامی حلقے
اپر چترال کو الگ ضلع کا درجہ دینے سے عوام کے مسائل میں کمی کی بجائے مشکلات اور تکالیف میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔عوامی حلقے
چترال (نور افضل خان) اپر چترال میں اشیائے خوردونوش کی قلت شدت اختیار کرگئے جہاں آٹا اور دوسرے اشیاء کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہیں جس سے غذائی قلت کی سنگین بحران پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ عوامی حلقوں نے اس بات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپر چترال کو الگ ضلع کا درجہ دینے سے عوام کے مسائل میں کمی کی بجائے مشکلات اور تکالیف میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جوکسی بھی وقت بحرانی کیفیت اختیار کرسکتی ہے۔ جبکہ سردی اور برفباری کے بعد لوگوں کی مشکلات میں مذید اضافہ ہوگیا ہے۔ وادی تریچ، کھوت، ریچ، مڑپ، یارخون، بروغل اور سور لاسپور جیسے دوردراز وادیوں میں محکمہ خوراک کے گوداموں میں گندم کی قلت کی شکایات موصول ہورہی ہیں جوکہ قابل تشویش ہے اور 40کلوگرام کی آٹے کا ایک بیگ انہیں کرایہ سمیت 5500سے 6000روپے تک پڑرہا ہے جوکہ ایک عام آدمی کی قوت خرید سے کہیں ذیادہ باہر ہے۔
اسی طرح دوسرے روزمرہ کی ضروری اشیائے صرف بشمول چاول، چائے، چینی، دال اورگھی کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں اور علاقے میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے نتیجے میں بے روزگاری سے ہزاروں خاندانوں کے لئے زندگی غذاب بن کررہ گئی ہے ۔ اپر چترال کے باشندوں نے ٹرانسپورٹ کے کرایو ں میں بھی ہوش ربا اور غیر منطقی اضافے کو اپنے ساتھ ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ منگائی وگرانی نے عوام کا کچومر پہلے ہی نکال کررکھ دیا ہے تو ٹرانسپورٹ کے ناروا کرایہ جات نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ اپر چترال کے عوام نے نئی ضلعے کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت سے سوال کیا ہے کہ نئی ضلعے کا قیام مسائل حل کرنے اور عوام کے مسائل میں کمی کے بجائے بدانتظامی کو نقطہ عروج کی طرف لے جانے اور پیچیدہ صورت حال پیدا کردی ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر صورت حال میں بہتری نہ آئی تو وہ کفن سروں پر باندھ کر اپر چترال کے ضلعے کی ڈی نوٹیفیکیشن کے لئے سڑکوں میں اترنے پر مجبور ہوں گے۔ ان کا کہنا تھاکہ چترال کے عوام کو پی ٹی آئی حکومت نے ترقیاتی فنڈز ذیادہ سے ذیادہ دینے کی بجائے اسے نئی ضلع کی لولی پاپ دے دی کیونکہ نئی اضلاع کی افادیت ہوتی تو اب تک وزیر اعلیٰ محمود خان اپنے آبائی ضلع سوات کو کم از کم آٹھ اضلاع میں تقسیم کرچکے ہوتے.