Chitral Times

او آئی سی وزارتی کونسل کا اجلاس ۔ محمد شریف شکیب

افغانستان کی مخدوش صورتحال پر غور اور وہاں ممکنہ انسانی بحران کا خطرہ ٹالنے کے لئے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس 19دسمبر کو اسلام آباد میں ہورہا ہے۔افغانستان او آئی سی کے بانی ممبر ممالک میں شامل ہے۔ رواں سال اگست میں غیر ملکی افواج کے انخلا اور طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکہ اور یورپ نے افغانستان کی مالی امداد روک دی ہے۔اور امریکی بینکوں میں افغانستان کے دس ارب ڈالر کے اثاثے بھی منجمد کئے گئے ہیں۔ عالمی برادری کی طرف سے امداد بند ہونے کی وجہ سے افغانستان میں اشیائے خوردونوش اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یواین ایچ سی آر کی حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 32لاکھ بچوں کی زندگی خوراک کی کمی کے باعث خطرے کی زد میں ہے۔ 3کروڑ 80لاکھ کی آبادی کے اس ملک میں 60فیصد افراد غذائی قلت کے مسئلے سے دوچار ہیں عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری سے ستمبر تک چھ لاکھ 65ہزار افغانی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ 29لاکھ افغانی گذشتہ چالیس سالوں سے پاکستان سمیت دوسرے ملکوں میں پناہ گزین کے طور پر زندگی گذار رہے ہیں۔آنے والے دنوں میں برفباری کے باعث راستے بند ہونے سے امدادی سامان کی ترسیل میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔29نومبر کو سعودی عرب نے افغانستان کی گھمبیر صورتحال پر غور کے لئے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی۔

پاکستان نے سعودی تجویز کی نہ صرف بھرپور حمایت کی بلکہ وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کی میزبانی کرنے کی بھی پیش کش کی۔ 19دسمبر کو اسلام آباد میں ہونے والے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں اقوام متحدہ کے نمائندوں، آئی ایف آئیز، بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ او آئی سی کے وزارتی اجلاس میں افغانستان کی صورتحال کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر غور کیا جائے گا۔افغانستان کا مسئلہ اب سیاسی نہیں رہا۔ یہ انسانی بقاء کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے اسلامی ممالک کی تنظیم نے اپنا مذہبی فرض گردانتے ہوئے افغان عوام، خواتین اور بچوں کی زندگی بچانے کے لئے قدم اٹھایا ہے۔ توقع ہے کہ او آئی سی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اقوام متحدہ اور انسانی بقاء کے لئے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے بھی افغان عوام کی مدد کے لئے آگے آئیں گے۔

پاکستان انتہائی قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے اپنے افغان بھائیوں کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔ جب ساری دنیا نے افغانستان سے سفارتی تعلقات منقطع کئے تب بھی کابل میں پاکستان کا سفارتخانہ کام کرتا رہا۔ اب مختلف ممالک اپنے سفارت خانے اور قونصل خانے وہاں کھولنے لگے ہیں۔ پاکستان کی کوششوں سے افغانستان کا انسانی مسئلہ اب بین الاقوامی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔پاکستان نے افغان عوام کے مفاد کی خاطر بھارت سے آنے والے امدادی سامان کو بھی کابل پہنچانے کے انتظامات کئے ہیں۔اور پاکستان کے مختلف امدادی ادارے غذائی اجناس، ادویات، گرم کپڑے اور دیگر سامان افغانستان پہنچا رہے ہیں۔ او آئی سی کے وزارتی اجلاس میں افغان عوام کی غذائی اور مالی امداد کا طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔جب انسانی المیے کا خطرہ ٹل جائے اس کے بعد سیاسی اور سفارتی تعلقات کی راہ خود بخود ہموار ہوجائے گی۔

او آئی سی کے اہم وزارتی اجلاس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے افغانوں کے منجمد اثاثے افغان عوام کے حوالے کرانے سے متعلق بھی پیش رفت متوقع ہے۔ پاکستان اور طالبان حکومت کی کوششوں سے عالمی سطح پر افغان عوام کے ساتھ ہمدردی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب یورپ سے بھی افغانستان کے منجمد اثاثے وا گذار کرنے کی آوازیں بلند ہورہی ہیں وائٹ ہاؤس کو عالمی دباؤ کے پیش نظر وضاحت کرنی پڑی کہ افغان اثاثے غیر منجمد کرنے میں بعض فنی مشکلات حائل ہیں نائن الیون کے متاثرہ خاندان ان اثاثوں کو لواحقین میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نائن الیون کے واقعے میں کوئی ایک افغان شہری بھی ملوث نہیں تھا۔ افغان عوام کی امانت نائن الیون کے متاثرین کو دینے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں بنتا۔ توقع ہے کہ او آئی سی وزارتی اجلاس میں اس اہم ایشو پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو قائل کرنے کا کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56285