Chitral Times

انسانیت ۔ مختار احمد

میں درمیان میں کھڑا ہوں، درمیانی ویرانے پر ____ ایک طرف سے پھولوں کی خوشبو آتی ہے اور دوسری طرف سے جلے ہوئے ماس کی باس اٹھتی ہے۔ ایک طرف ہوشربا قہقہے ہیں تو دوسری سمت دلدوز چیخیں۔ میں مہک سے لطف اندوز ہو جاؤں کہ باس سے دامن بچاؤں، قہقہوں کا سامع بنوں یا پھر چیخوں کی طرف کان دھروں____ اور پھر مری پہچان بھی تو ویرانے سے ہے________ درمیانی ویرانے سے”.


اسد عجیب شخص تھا۔ اس کی پوری زندگی بادلوں کی اوٹ میں گزی تھی جسکی دھندلاہٹ اسے باہر کی دنیا کے لیے غیر واضح رکھتی ہے۔ وہ بلا کا باتونی تھا مگر حیرت انگیز طور پر پراسرار۔ علاقے کے ہر فرد سے اچھی واقفیت اور اٹھنا بیٹھنا تھا۔ ہر ذات کو خود سے مقدم گرداننا اس کی بہت ساری پوشیدہ خوبیوں میں سے ایک تھی۔ بچوں سے جس قدر محبت تھی شور سے اس قدر نفرت۔چوبیس سال کی عمر میں بال ایسے سفید ہو گئے جیسے چونے کے پانی میں بھگوئی ہوئی کھاس۔ شادی کے متعلق سوچ سے آگے نہیں بڑھ پایا۔ گھر والوں کی بڑی عزت و تکریم کرتا، اتنی عزت کہ ان سے ہمیشہ دور رہتا ۔ ” قربت رنجشوں کو جنم دیتی ہے” یہ کہتے کہتے نہیں تھکتا۔اٹھائیس سال کی عمر میں وفات ہوا تو اس کی ڈائری کے صفحات نے ساری خاموشی توڑ ڈالی اور حقیقت اور اصلیت نے اپنے عدم کا وہ ماتم منایا کہ فرشتوں کی سلطنت لرز کر رہ گئی۔ ڈائری کے صفحات میں سے ایک بہ عنوان ” انسانیت” تھا۔


“بڑے بھائی کے بھیجے ہوئے پیسے آ گئے تھے۔ رات کو گھر میں گوشت کے ساتھ شوربہ کا دور تھا۔ سالوں سے اپاہچ پڑے ہوئے صلاح الدین بھائی کے یہاں سے بچوں کے رونے کی وہ آوازیں آئیں کہ پورا محلہ گونج اٹھا۔ سب نے پیٹ بھر کر کھایا اور دعا کی کہ اللہ کسی کو محتاجی کے دن نہ دکھائے۔ پڑوس کے مولوی صاحب کی بابلند قرات نے لوری کا کام کر دکھایا۔ کچھ وقت بعد خاموشی طاری ہوگئی۔ شاید بھوکے بچے سو گئے تھے۔ مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی انسانیت گوشت اور شوربہ کے ہاتھوں بک گئی۔اگلی صبح مولوی صاحب نے جمعہ کی نماز سے پہلے لاؤڈ سپیکر پر پڑوسیوں کے حقوق کے متعلق بڑی پرجوش تقریر کی اور بھوکوں کو کھلانے پر خصوصی ثواب کا ذکر کیا۔ ماں نے پچھلے سال قربانی کے بھیجے ہوئے گوشت سے اپنی دلیل پوری کی۔ کچھ دن بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پر بڑے بھائی کا کام چھوٹ گیا۔ گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی۔ جھوٹا بھائی بھی کام تو کرتا تھا مگر کم پیسے بھیجنے کی وجہہ سے نافرمان کہلاتا تھا۔ اب دن پھر گئے تھے، چھوٹے بھائی نے بڑے کی جگہہ لے لی۔ چھوٹے کی بلائیں لی جانے لگیں۔ میرے گھر چھوڑنے تک چھوٹے بھائی کے پیسے آتے رہے، گوشت پکتا رہا، مولوی صاحب کی بابلند قرات ہوتی رہی اور بچوں کا شور بھی برابر مچتا رہا۔میں ہمیشہ سے سوچتا تھا کہ انسان کیونکر پیدا ہوئے اب سوچتا ہوں کہ انسان پیدا کیوں کر نہ ہوئے”.

مختار احمد سائر چترال سنوغر

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57885