Chitral Times

انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ – قادر خان یوسف زئی

 گذشتہ کئی ہفتوں سے ایک ایسی فضا بنی  ہوئی ہے جس کے مضر نتائج کی جسے کسی کو پرواہ ہی نہ ہو، منفی و مثبت نتائج سے لاتعلق ایک ایسی وحشت و انتشار کا عالم طاری ہونا جس کی مثال ماضی میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے، ان حالات کی ذمے داری کس پر عائد کی جائے تو اس کا حتمی نتیجہ عقل و ضمیر کی عدالت میں ہیکیا جاسکتا ہے کہ، کیا یہ سب کچھ کسی منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے یا پھر جذبات سے مغلوب کرکے انسان کو ایک ایسے راستے پر چلنے پر مجبور کیا گیا جس کا نتیجہ بند گلی میں مقید ہوجانا ہے۔ یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب جذبات کے تابع ہوجانے کا نتیجہ سامنے آتا ہے کہ انسان علم وعقل اور فکر وشعور ہونے کے باوجود ان سے کام لینے کے قابل نہیں رہتا، اس کے جذبات اس کی فکری صلاحیتوں کو سلب کرلیتے ہیں، وہ اس کی عقل و خرد پر پردے ڈال دیتے ہیں، اس کی فکر ہمیشہ خام رہتی ہے۔

اللہ تعالی اپنے بندے کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ اس کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق اپنی عقل کو استعمال میں لائے اور اپنی فکر کو بامقصد بنائے۔غوروفکر وہ عمل ہے جس میں زمین کو بڑی محنت اور مشقت کرنا پڑتی ہے، پھر غور و فکر سے نئی زندگی کی نئی نئی راہیں سامنے آتی ہیں جنہیں حرکت و عمل سے ہی طے کیا جاسکتا ہے، بے عمل قوم اس سے بھی گھبرا جاتی ہے، چنانچہ خام فکری کے جمود میں گرفتار رہ کر افراد قوم انسانیت کی ارفع و اعلیٰ سطح پر نہیں پہنچ پاتے۔


اس صداقت پر ایمان لانے کی ضرورت ہے کہ پختگی افکار ناممکن ہے جب تک انسانی فکر کی ہر افتاد اس علم ویقین سے ہم آہنگ نہ ہوجائے جس میں شکوک وضطراب کاکوئی دخل نہ ہو۔ہم جانتے ہیں کہ قوموں کا مستقبل ان کی ابھرنے والی نسلوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اگر قوم کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت صحیح خطوط پر ہوجائے تو قوم خود بخود صحیح قالب میں ڈھل جائے گی، ہمیں اس دور میں اپنے نوجوان طبقہ سے ان کے شتر بے مہار ہوجانے کی شکایت ہے، ہمیں ا ن کے بے لگام خیالات سے گلہ ہے، ان کی فکر و نظر سے اختلاف ہے، ہمیں ان کی کج روی اور سرکشی کا ملال ہے، یہ سب بجا اور درست!، مگر ہمیں ایک لمحے کے لئے یہ سوچنا گوارا نہیں کہ اس میں قصور کس کا ہے، اس ساری تخریب کا ذمہ دار کون ہے؟۔ بات تو صاف ہے کہ ہم نے انہیں فلاحی معاشرہ ہی نہیں دیا جو نئی نسل کی آبیاری کے لئے ناگزیر تھا۔ اگر آج بھی ہم اپنے نوجوانوں کے دل و دماغ میں اس حقیقت کو راسخ کردیں کہ انسان کا انفرادی اور اجتماعی زندگی کو،فلاح انسانیت کے لئے مختص کرنا اور مستقل اقدار کے تابع رکھنا ہے تو پھر ہی شرف ِ انسانیت اور پختگی فکر کا ضامن ہوسکتا ہے، جس کے بعد یقین کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہمارے معاشرے کی راہ درست سمت پر ہوگی تو کل ہم اپنی نوجوان نسل کو ایسا معاشرہ فراہم کرسکتے ہیں جس کے افراد سیرت و کردار اور افکار و اطوار میں پختگی و پاکیزگی کے جیتے جاگتے پیکر ہوں، ہمیں رب کائنات نے جو زندگی بخشی ہے، تو اس کی مقصدیت کو سمجھ کر ہی ہم حیوانیت سے محفوظ رہتے ہوئے انسانیت کی سطح پر زندگی بسر کرسکتے ہیں۔


فکر کے ؒلغوی معنی ہیں،عام سوچ بچار، دھیان، تدبر، غور وغیرہ اور خام سے مراد کچا، کمزور۔ خام فکر سے مراد جھوٹی سوچ، دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خام فکر وہ فکر ہے جو انسان کو تخریب کا راستہ دکھائے، یہ فکر تعمیری اصولوں کے مطابق نہیں ہوتی، خام فکر کے مقابل پختہ فکر کا نام لیا جاتا ہے، جسے ہم فکر ِ رسا بھی کہتے ہیں، اس قسم کی فکر اعلیٰ عقل کے معنوں میں بھی مستعمل ہے اور ہمیشہ عقل کے تابع رہتی ہے۔ تاریخ عالم شاہد ہے کہ سادی عقل نے مختلف قوموں کو انتہائی عروج تک پہنچایا لیکن وہ قومیں انسانیت کے اصل مقام سے واقف نہ ہوسکیں، پرانے ماضی میں بابل، مصر، یونان اور مصر کی سلطنتیں مادی بلندیوں تک پہنچیں لیکن عقل کے مکر و فن نے ہر جگہ انہیں دوسری اقوام پر مسلط ہونے کی شبہہ دکھائی جس کی وجہ سے ان کی تہذیب اس مقام تک نہ پہنچ سکی جو انسانیت کے لئے وجہئ امتیاز ہے۔ عقل کی ہدایت کے لئے جب تک خاص اصول مقرر نہ ہوں، وہ راستہ کے کسی مقام کو ہی منزل قرار دے سکتی ہے، یہ وہ مقام بن جاتا ہے کہ انسان، انسانیت کی سطح سے گرکر حیوانیت کی سطح پر آجاتا ہے، جس قوم کے افراد کی عقل و فکر ناپختہ ہو اس قوم کی فکری آزادی اس کے لئے سوہان ِ روح بن جاتی ہے، اس قوم کی آزادی، بے راہ روی میں تبدیل ہوکر رہ جاتی ہے اور اس قوم کے افراد بے سلیقہ ہوجاتے ہیں۔


جب ہم ملک گیر سطح پر مخصوص فکر و نظریئے کے حامل گروہ پر نظر دوڑاتے ہیں تو سارا معاملہ بالکل برعکس نظر آتا ہے، ہم اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور جارہے ہیں، اسلام ہمیں عقل و فکر کی دعوت دیتا ہے لیکن ہمارے یہاں معاملہ کچھ اور ہی رنگ میں ڈھلتے نظر آتے ہیں، ہم اسلامی تعلیمات کا پرچار تو کرتے ہیں لیکن اس پر عمل بہت کم لوگ ہی کرپاتے ہیں، اس کے نتیجے میں جب مصائب کا انبار ہمارے سرسے اونچا ہوتا چلا جاتا ہے تو ہم ان اصولوں پر عمل سے گھبراتے ہیں۔ قرآن کریم پر اکثریت غور فکر کئے بڑھ جاتی ہے، نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کے اسوہ حسنہ و سنت کے مطابق اکثریت نے خود کو ڈھالنے کی کوشش بھی نہیں کی،لیکن اس کے بڑے بڑے دعوے ظاہر کرتے ہیں کہ قول و فعل کے اس تضاد نے آج کے مسلمان کو اپنی اصل منزل سے کتنا دور بھٹک جانے پر مجبور کردیا ہے۔ یہی انسان جسے قدر ت نے تمام مخلوقات میں اشرف پیدا کیا وہ آج خود ہی اپنی عظمت کی دھجیاں اڑا کر حیوانی سطح کی زندگی سے بھی بدتر زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔اگر ہم نے اپنی عقل و فکر کو خام ہی رہنے دیا تو یاد کھیئے اس حقیقت کو کوئی نہ جھٹلا سکے گا کہ


ہو فکر اگر خام تو آزادیئ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
پھر جب ہم قانونِ مکافات کی زد میں آئے تو۔۔
جاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54376

انسان اورخواندگی:جنم جنم کاساتھ (8ستمبر:عالمی یوم خواندگی کے موقع پر خصوصی تحریر)-ڈاکٹر ساجد خاکوانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسان اورخواندگی:جنم جنم کاساتھ

International Literacy Day

(8ستمبر:عالمی یوم خواندگی کے موقع پر خصوصی تحریر(

ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

                خواندگی یاکتاب بینی و کتابت کتاب اتنی ہی قدیم ہے جتناکہ خود حضرت انسان قدیم ہے،کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ہی کچھ صحائف نازل ہوئے تھے۔ان صحائف سمیت ایک حدیث نبوی ﷺ کے مطابق اللہ تعالی نے آسمان سے تین سوتیرہ یاتین سو پندرہ کتابیں نازل کی ہیں۔یہ کتابیں انسان کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی تھیں۔پس کہاجاسکتاہے کہ انسان اورخواندگی کتاب اس زمین پر ساتھ ساتھ ہی اترے ہیں۔جس طرح کوئی بھی نئی مشین خریدکر لائیں تواس مشین کے بنانے والے ایک کتابچہ ساتھ دیتے ہیں جس میں اس مشین کے استعمال کی ہدایات درج ہوتی ہیں اسی طرح اللہ تعالی نے بھی انسان کو بناکر اسکے استعمال کی ہدایات کے طور پر آسمانی کتابیں نازل کی ہیں۔جس طرح ہر مشین خریدنے والے کی مشین اسی صورت میں میں صحیح،درست اور مطلوبہ نتائج فراہم کر سکتی ہے اگروہ اسے کتاب میں درج ہدایات کے مطابق استعمال کرے،اسی طرح انسان کے بنانے والے کی ہدایات کے مطابق اگر انسان کی صلاحیتوں اور قوتوں کو استعمال کیاجائے تو اس تخلیق سے بھی مطلوبہ نتائج برآمدہوسکتے ہیں۔اور اگر انسان کا استعمال اس کے بنانے والے کی طرف سے بھیجی گئی کتاب کے مطابق نہ ہو اور انسان اپنی عقل،روایات،خواہشات  یااندازوں،تخمینوں اور ظن و گمان اور وہم و خیال  کے مطابق کوئی نظام بناکر انسانی معاشرے کو چلانا چاہے تو اسکا وہی انجام ہو گا جو ایشی مشین کاجس کو کتاب میں لکھی گئی ہدایات کے الٹ اپنی مرضی سے چلانا چاہے۔

                اس سے بڑھ کرخواندگی کتاب کی کیااہمیت ہوگی کہ خالق کائنات نے بھی کتاب کے اس وجود کواپنی ہداہت کے سامان کاسبب بنانامنظور کیاہے اور قیامت کے دن بھی انسان سے کہاجائے گاکہ ”وَ کُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓءِرَہ‘ فِیْ عُنُقِہٖ وَ نُخَْرِجُ لَہ‘ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا(۷۱:۳۱) اِقْرَاْ کِتٰبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا(۷۱:۴۱)“ترجمہ:”ہرانسان کاشگون ہم نے اس کے  اپنے گلے میں لٹکارکھاہے،اورقیامت کے دن ہم ایک نوشتہ اس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا،(کہاجائے گا) اپنی کتاب پڑھ لے،توآج اپنے حساب کے لیت خود ہی کافی ہے“۔حضرت ادریس علیہ السلام اللہ ٰتعالی کے وہ برگزیدہ نبی تھے جن سے فن تحریریعنی خوانگی و کتابت کاآغاز ہوااورقبیلہ بنی نوع انسان میں سب سے پہلے اس نبی نے قلم سے لکھنے کاآغاز کیا۔ایک زمانہ تھاجب کاغذنہیں تھا اور کتابیں پتھروں پر اسی طرح لکھی جاتی تھیں جس طرح آج کل قبروں پر لگی صاحب قبر کے نام کی سنگی تختی لکھی جاتی ہے۔حضرت موسی علیہ السلام کو توریت پتھرپر لکھی ہوئی صورت میں ملی اوربمشکل ایک دو مزیدنقول اس مقدس کتاب کی تیارکرلی گئی ہوں گی اور پھر اس کتاب کے نسخوں کو تابوت سکینہ میں رکھ دیاگیاجسے بہت سارے بیل مل کر کھنچتے تھے۔ایک بار وہ بیل اتنی رفتار سے دوڑے کہ بنی اسرائیل ان کا پیچھانہ کرسکے اور آسمانی کتب کے نسخے گم ہوگئے۔طالوت کی بادشاہت کے دوران اللہ ٰتعالی کے وعدے کے مطابق وہ کھویاہواتابوت سکینہ پھر بنی اسرائیل کو لوٹا دیاگیا۔حضرت داؤدعلیہ السلام کو زبور عطا کی گئی جس کی نقول بھی پتھر پر کنداں کی گئیں۔توریت اور زبور دونوں عبرانی زبان میں نازل ہوئیں اور انکے مجموعے کو عہدنامہ قدیم کہتے ہیں۔بخت نصر کے حملے میں ان دونوں کتابوں کو نذر آتش کردیاگیایہ حضرت عیسی علیہ السلام سے کوئی پانچ چھ سو سال پہلے کی بات ہے۔دور مسیحی تک کم و بیش پانچ یا چھ دفعہ عہدنامہ قدیم کا تواتر مجروح ہوااور متعدد بار کتابوں کا یہ مجموعہ گم ہوگیایا نذرآتش ہوگیااور دودوتین تین نسلوں کے وقفے سے یادداشت کی بناپر ان کتب کو دوبارہ تحریرکیاگیا۔

                حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے تک مسودوں کی املاء کے لیے کپڑا اور چمڑابھی استعمال کیاجانے لگااور تحریراپنے اس ارتقائی دور میں کتابی شکل اختیارکرنے لگی۔انجیل مقدس کی آیات اور حضرت عیسی علیہ السلام کے حالات زندگی پرمشتمل مسودے کم و بیش ڈھائی سو کی تعداد میں مرتب کیے گئے،جن میں سے چار مسودے آج تک بائبل کے عہدنامہ جدیدکاحصہ ہیں اور انہیں لوگوں کے نام سے موسوم ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے مقدس ساتھی تھے اور انہوں نے یہ مسودے تحریرکیے تھے۔یہ مسودے آرامی زبان میں تحریر کیے گئے تھے،جوکہ آج متروک ہوچکی ہے۔ایک مسودہ جو انجیل برناباس کے نام سے آج بھی کتب خانوں کی زینت ہے لیکن اسے بوجوہ بائبل کاحصہ نہیں بنایاگیاجبکہ ”برناباس“نامی بزرگ حضرت عیسی کے بہت قریبی ساتھی تھے اور باقی چاروں مسودوں میں انکا ذکر بہت کثرت سے ملتاہے۔

                آخری نبی ﷺ کے زمانے تک زبان دانی تواپنے ارتقائی مراحل سے ترقی یافتہ شکل تک پہنچ چکی تھی لیکن فن تحریروخواندگی ابھی تک ناپختگی کاشکار تھااور دنیاکی بڑی بڑی زبانوں کو بھی دوسروں کے لیے پڑھ کر سمجھناکافی مشکل اور بعض اوقات ناممکن تھا۔انہیں حالات میں قرآن مجید کی کتابت عمل میں لائی گئی۔ابتدائی زمانے میں چمڑے پر،اونٹ کی شانے کی ہڈی پر،بوسیدہ کپڑے پر،پتھرپر،کھجور کی چھال پر،لکڑی کی تختی پر اور ابتدائی دور کے گتہ نماکاغذپرقرآن مجیدلکھاگیا۔لیکن قرآن کے نزول کے بعدسے کتاب خوانی کے ارتقامیں جیسے بجلیاں سی کوند گئی ہوں،آہستہ آہستہ پوری دنیامیں کتاب خوانی اور کتابیات اور کتابت کے فنون پیشہ ورانہ انداز میں بڑھنے لگے۔شروع شروع میں ہاتھ سے کتابیں لکھی جاتی تھیں  جنہیں مخطوطہ کہاجاتا۔مسلمانوں کے دورعروج میں یہ فن اتنا ترقی کرگیاکہ ہزار ہزار صفحے کی کتاب ایک آدھ گھنٹے میں نقل کردی جاتی۔جیسے کوئی طالب علم کتاب لے کر کاتب کے پاس پہنچا،کاتب نے جلد کھول کر اپنے پچاس شاگردوں میں بیس بیس صفحے بانٹ دیے،ہم اتنی رفتار پڑھتے نہیں ہیں جتنی رفتار سے اس زمانے کے لوگ لکھ لیاکرتے تھے۔اگلی نماز سے واپسی پر اس طالب علم کو اصلی کتاب اور اسکی نقل مجلد صورت میں تیار ملتی تھی۔

                مسلمانوں نے اپنے ایک ہزار سالہ دوراقتدارمیں جو تہذیب پیش کی اسے بلاشبہ ”خواندگی کی تہذیب‘کہاجاسکتاہے۔کتابوں کی تصنیف و تالیف،انکامطالعہ،ان پر حاشیہ لکھنا،کتاب کے مندرجات پر اپنے رائے تحریر کرنااور صاحب کتاب سے اگر شناسائی ہوتوکتاب کے آغاز میں خالی صفحات پر اس سے ملاقات کاذکر کرنااس زمانے کی عام عادات تھیں۔یورپ نے تو سال کاایک دن ”یوم کتاب“کے طور پر منانے کاعلان کیاہے تاکہ لوگ کتاب کی اہمیت سے آگاہ ہوں جبکہ مسلمانوں کاہردن یوم کتاب ہے۔مسلمانوں کے دن کاآغاز بھی انکی کتاب ”قرآن مجید“ کی تلاوت سے ہوتاہے،نمازمیں وہ اجتماعی تلاوت کرتے اور سنتے ہیں جبکہ اپنے اپنے گھروں میں اور مدرسوں میں کاروائی کاآغاز بھی کتاب کی تفہیم سے ہوتاہے۔

                اندلس کے مسلمانوں کے ہاں نجی لائبریریوں میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کتابیں ہواکرتی تھیں،مسلمان بادشاہوں کے گماشتے پوری دنیا میں متحرک رہتے تھے،جیسے ہی کوئی نئی کتاب تدوین ہوتی اسکی نقول فوراََ بادشاہ کو ارسال کر دیتے اور بعض اوقات مصنف کے ہاتھ سے لکھاہوا اصل کتاب کامسودہ بہت مہنگے داموں اور بولی لگا کر فروخت کیاجاتا۔اس زمانے میں صرف قرطبہ شہر میں بیس ہزارتاجر محض کتابوں کی تجارت سے وابسطہ تھے،بغداد،قاہرہ،حجازاوروسطی ایشیاکے علاقے اس سے علاوہ تھے۔قرطبہ کے مشرقی محلہ میں سترعورتیں صرف قرآن مجید کی کتابت سے منسلک تھیں۔اندلس کا ایک شہر پوری دنیامیں صرف اس لیے مشہور تھا کہ وہاں کاغذ کی بہت بڑی صنعت تھی،اس شہر کاکاغذموجودہ دور کے کاغذسے معیار میں کسی طرح بھی کم نہ تھااور پورے شہر کی آبادی کاروزگار کاغذسے وابسطہ تھا۔ہندوستان میں اکبر اعظم اور اندلس میں عبدالرحمن الناصر کے زمانے میں ابتدائی نوعیت کا چھاپہ خانہ بھی بن گیاتھا لیکن آغاز میں اس چھاپہ خانہ میں صرف بادشاہوں کے احکامات ہی شائع ہواکرتے تھے۔

                مسلمانوں کے زمانے کی کی نجی لائبریریاں بھی بڑی شان و شوکت کی حامل تھیں،ایک لائبریری اگر سبزرنگ کی ہوتی تو اسکی کتابوں کی جلدیں بھی سبزرنگ کی ہوتیں،اسکے قالین اور غالیچے بھی سبزرنگ کے ہوتے،اسکافرنیچراوردرودیوار پربھی سبز رنگ ہوتااور اسکی کھڑکیوں سے نظر آنے والاقدرتی نظارہ بھی سبزرنگ سے بھرپور ہوتا۔لائبریری میں اساتذہ و طلبہ کے قیام و طعام اور قلم و قرطاس اور چراغ کی سہولیات مفت فراہم کی جاتیں۔لائبریریوں میں ایک کمرہ آلات موسیقی کے لیے مخصوص ہوتا تاکہ بہت پڑھ پڑھ کربوریت ہوجائے تودل بہلانے کاسامان مہیاکیاجاسکے۔نوابین اپنی باہمی ملاقاتوں میں کتابوں کی کثرت اورانکی لائبریری میں علماء و طلبہ کی توجہ کو فخرسے بیان کیاکرتے تھے۔اندلس کے مسلمان علماء کی لکھی ہوئی کتب کے تین سوسالوں تک یورپی زبانوں میں ترجمے ہوتے رہے اس کے باوجود بھی بے شمار مخطوطے آج بھی اٹلی،جرمنی اور فرانس کے عجائب گھروں کے تہہ خانوں میں صدیوں سے کسی قاری کے منتظر ہیں۔

                اشاعت کی تیزترین تکنالوجی سے کتابوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہواہے،آج چندگھنٹوں مین کتاب شائع ہوکر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہے۔لیکن مغربی کے تہذیب کے مکروہ تحفوں میں سے ایک تحفہ”سکرین“ہے،ٹیلی ویژن کی سکرین،انٹرنیٹ کی سکرین اور موبائل کی سکرین وغیرہ،اس سکرین کے بہت سارے نقصانات کے ساتھ ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ لوگ عام طور پر اور نوجوان خاص طور پر کتاب خوانی سے دور ہوگئے۔جو فارغ اوقات آج سے پہلے کتابوں کی معیت میں صرف ہوتاتھاآج وہی وقت ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول تھامے قسم قسم کے اچھے برے چینل دیکھنے میں صرف ہوتاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ”یوم خواندگی“کے حوالے سے اپنی قوم میں کتاب خوانی کی اہمیت کو دوبالا کیاجائے،کتاب لکھنے،اسکا مطالعہ کرنے اور اپنے گھر میں ایک مناسب لائبریری کے قیام کو اپنی اجتماعی عادات کاحصہ بنایاجائے۔

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52240