Chitral Times

اصول پسندی – تحریر: صوفی محمد

ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا کہ ایک والد اپنی بچی سے کہتا ہے کہ بیٹی کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی نہ کرنا اگر جانے انجانے میں کوئی زیادتی ہوگئ  تو سوری کرنا اور  معافی مانگنا۔ پھر والد بچی کو زیادتی اور ناانصافووں کے کچھ چھوٹے چھوٹے  مثالیں بتاتا ہے۔ مثلا آپ کسی کا مذاق نہ اڑائے، کسی کو گالی نہ دینا، کوئ ایسی بات نہ کرناجس سے کسی کو تکلیف ہوتی ہو، نہ کسی پر طنز،حسد، بدسلوکی کرنا اور نہ کوئی ایسی شرارت کرنا جس سے کسی کو نقصان ہوتی ہو وغیرہ وغیرہ ۔

پھر والد بچی کو لیکر  مارکیٹ جاتا ہے وہاں ایک صاحب اس بچی کو دھکا دیتا ہے ۔ بچی اپنے والد سے کہتی ہے پاپا آپ نے  تو کہا تھا کہ کسی کے ساتھ زیادتی، ناانصافی  نہ کرنا اگر ایسا ہوجائے تو فورا ًسوری کرنا ۔ اس نے مجھے دھکا دی ہے۔ کیا اب اسے نہیں  چاہئے کہ مجھ سے سوری کرے؟۔ والد اک لمحہ  سوچنے کے بعد اس شخض سے کہتا ہے کہ صاحب آپ میرے بچی کو دھکا مارا ہے اور وہ سمجھتی کہ اپ اس کے ساتھ زیادتی کی ہے۔  وہ بازد ہے کہ آپ اسے سوری کرے۔ وہ شخض نہیں مانے کو تیار نہیں ہوتا ہے کہ اتنی چھوٹی سی بات پر ایک بچی سے سوری کرے۔ والد کہتا ہے بات چھوٹی بڑی کی نہیں ہے بات اصول کی ہے  آپ سے غلطی ہوئی ہے اسلئے  اصولا اپکو اس سے سوری بھی کہنا چاہئے۔ وہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا ہے مگر والد اسرار کرتا ہے جناب میری بچی اسے سیریس لیتی ہے اور وہ تربیت کے مراحل میں ہے۔ آپ مہربانی کرے۔  وہ شخض بچی سے سوری کہتا ہے اور بچی ،کوئ بات نہیں ،  کہہ کر مسکراتی ہوئی چلی جاتی ہے۔


اس کہانی کو خاصی اہمت  اس لئے دیا جاتا ہے کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اصول پسند، تہذیب یافتہ اور اپنی غلطیاں تسلیم کرنے والا والا بنے اور زندگی بہتر سلیقے گزارے اور ان سے یہی توقع رکھتے ہیں ۔سوال یہ ہے کیا ہمارے تمنا، خواہشات، توقعات سے انکے زندگیاں بدل سکتے ہیں  تو جواب ہے نہیں  ۔ بلکہ وہ جو دیکھتے اور سیکھتے ہیں وہی اپناتے ہیں ۔ ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات سے زندگی کے ڈنگ سکھتے  ہیں ۔ جو واقعات رونما ہوتے ہیں  اور بڑے ان واقعات کو جس اندازہ  سےڈیل کرتے ہیں انہیں  چن چن کر زندگی کے تجربات حاصل کرتے ہیں ۔ پھر ان تجربات کی روشنی میں  اپنے زندگی گزار نے کی کوشش کرتے ہیں ۔ 


ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے پیچیدگیاں ہیں جو لوگوں کے خاص کرکے کے بچوں کے ذہنوں میں منفی اثرات چھوڑتے ہیں  ۔ جیساکہ ہم بچوں کو بڑوں کی عزت و احترام کی تلقین کرتے ہیں ۔ مگر عزت و احترام کے اصول نہیں بتاتے  ۔ اس کے حدودات نہیں سیکھاتے ہیں۔ جانے انجانے میں ہم بچوں کو  بے اصولی کی درس دیتے ہیں۔ بڑوں سے زیادتیاں اور ظلم برداشت کرنے کی ہنر سکھا تے ہیں  جیسا کہ وہ کمزور کا مزاق اڑاسکتا ہے ، ان سے اپنا ہر کام کرواسکتا ہے، انہیں ڈرا دھمکا سکتا ہے، دوسروں کے سامنے انسلٹ کرسکتا نہ وہ معافی مانگے گا نہ اس ایسا کرنے کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ بڑوں سے غلطیاں نہیں ہوتے ہیں۔ وہ بچوں سے سوری کیوں نہیں کرسکتا۔ ایسے بے ڈنگی اصولوں کی  وجہ سے اصول پسندی کے بجائے قدامت پرست بن جاتے ہیں ۔


ہم سکول میں تھے تو ایک شخض راستے میں کتا باندھا کرتا تھا اور اس کتے کی ڈر سے  ہم راستہ چھوڑ کر بڑی مشکل سے سکول پہنچتے تھے۔  احترام کی وجہ سے نہ کوئ اس سے کہہ سکتا تھا نہ خود اس کو یہ احساس تھا کسی کو میرے وجہ سے تکلیف ہوتی ہے ۔ ہم اپنے مشکلات کسی کو بتا بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ جب ہم  والدین اور استاد  وغیرہ سے شکایت کرتے تو وہ کہتےتھے ہم بچوں کیلئے لڑ تو نہیں سکتے۔یہ ہم عام سنتے تھے کہ وہ تم سے بڑا ہے ایک تھپڑ مار سکتا ہے  ، وہ بڑا ہے ضرور تم نے غلطی کی ہوگی، تمہارے پیچھے کتے بھگایا تو کیا ہوا کتا تمہیں کاٹا تو نہیں نا، وہ مزاق کیا ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ ایسے ایسے دلیلین دیکر ہمیں چپ کراتے تھے ۔  اور ہم چپ چاپ بے اصول بڑوں کے برتریاں تسلیم کرتے تھے۔بڑوں کی عزت و احترام کرنا اور بات ہے انکے زیادتیاں سہنا اور بات ہے ۔ اپ کسی کی عزت و احترام کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپ کو نشت سے اٹھا کر باہر پھنکب دیں یا لوگوں کے سامنے اپ کے تذلل کرے ۔  ہر روز ہم ایسے چھوٹے بڑے کام کرتے ہیں جو کسی نہ کسی کے ساتھ زیادتی اور ظلم کے زمرے میں آتے ہیں  ۔ مگر نہ ہم کھبی کسی سے سوری کرتے ہیں  اور نہ ایسے چھوٹے باتوں پر ہمیں کوئی شرمندگی محسوس ہوتی ہے ۔ 


بچوں کو ہم جو معاشرہ آج دیتے ہیں کل وہ اپنے معاشرے کو بھی اسی طرز سے تشکیل دیتے ہیں ۔ ہمارے ہر عمل اور بات بچوں کے آئندہ زندگی کیلئے  بہت اہم ہوتی ہے ۔ معاشرے میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کی عادت کو عام کرنا چاہیے سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہئیے۔  بگڑتی ہوئی معاشرتی نظام کے بس منظر ایسے چھوٹے بڑے کتاہیوں کو نظرانداز کر نے کی وجہ ہے۔ ایسا کوئ کرامت ہونے والا ہے نہیں کہ ایک چٹکی سے معاشرتی نظام بحال ہوجائے ۔ اس کیلئے ہمیں ہی نکالنا پڑے گا۔  بہتر معاشرتی اصولوں کو اپنانا پڑے گا پھر اپنے بچوں کو سکھا نا چاہئے ۔ بچے بھی وہی سکھتے  جو وہ عمل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52640