Chitral Times

Jun 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

‎احساس۔۔!…………..شاہ عالم علیمی

Posted on
شیئر کریں:

‎یہ 2006کا قصہ ہے میرا ایک بھائی ‎ بڑا خوش و خرم میرے پاس ایا اور کہنے لگا؛ یار دیامر بھاشا ڈیم بن رہا ہے اس کے بنتے ہی ہم بے روزگاری سے نکل جائیں گے۔ ہمارے گلگت بلتستان میں روزگار ہی روزگار ہوگا ہمارے اچھے دن عنقریب آنے والے ہیں۔

اپنے سے بڑے اس بھائی کو میں نے احترام سے مخاطب کرکے کہا کہ اپ زرا اپنی سیٹ بیلٹ مضبوطی سے باندھ لیں اور زندگی کی گاڑی کو آہستہ آہستہ چلانا شروع کردیں بہت زیادہ آہستہ بھی نہ چلے کہ کہیں پہنچنے کے قابل نہ ہوں اور اتنی تیزی سے بھی نہ چلے کہ اپ کا ایکسیڈنٹ ہو۔ کیونکہ جو کچھ اپ سوچ رہے ہیں ایسا کچھ ہونے والا نہیں ہے۔

میرے یہ بھائی بڑے حیران ہوکر میری طرف دیکھنے لگا اور کہا؛ کیا مطلب ہے اپ کا کیا یہ ڈیم نہیں بنے گا؟ میں نے عرض کیا دیکھیں ہوسکتا ہے کہ بن جائے لیکن اپ کے زمانے میں نہیں یہ جلد بنا تو اپ کے پوتے کے زمانے میں بنے گا سو تب تک اپ کے پاس اچھا خاصا وقت بلکہ پوری زندگی پڑی ہے اسے کسی اور خواب کے ساتھ گزار لیجئے گا۔ فرمانے لگے؛ لیکن جنرل صاب ( جنرل مشرف) نے تو ڈیم کا افتتاح کردیا ہے اور اس پر کام بھی شروع ہوچکا ہے۔ میں نے عرض کیا؛ افتتاح ہوسکتا ہے اور کام بھی ہوسکتا ہے اور یہ ڈیم آنے والے تیس سالوں میں تو کم از کم نہیں بننے والا۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں: اول یہ کہ پاکستان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اتنا بڑا ڈیم بنا سکیں۔ دوم یہ کہ اگلی حکومت میں اگر کوئی اور آگیا تو وہ اس کو سرے سے ختم ہی کرسکتا ہے یا اس کا دوبارہ افتتاح کرسکتا ہے اور اپنے پانچ سال اس کے ڈھول پیٹنے میں گزار سکتا ہے۔ پھر اس کے بعد کوئی اور آئیے گا وہ بھی یہی کہانی دہرائے گا۔ میں نے روایتی انداز میں بولا، اپ جانتے ہیں یہ پاکستان ہے۔ یہاں قانون کے بجائے مرضیاں چلتی ہیں۔

میرا یہ روایتی لکچر سن کر میرا یہ بھائی اچھا خاصا مایوس ہوا۔ نوکریوں کے لیے اپنی ڈگری اٹھائے دوسری جگہوں میں مارا ماری شروع کردی تاہم وہ اج بھی ہم سب کی طرح بے روزگار ہی ہے کیونکہ نہ تو اس کے خواب کا ڈیم بنا جہاں اس کو نوکری کی ملنی تھی اور نہ ہی کسی اور جگہ اس کو نوکری ملی۔

البتہ اسی دیامر ڈیم کا جس کا اپریل 2006 کو جنرل مشرف نے
کردیا تھا اکتوبر 2011 کو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے دوبارہ افتتاح کردیاپانچ دسمبر 2016 کو وزیراعظم نواز شریف نے دیامر ڈیم کو فنائنس کرنے کا حکم دیا اور مئی دو ہزار سترہ کو اس ڈیم کا ‘افتتاح’ کرنے کا اعلان کیا۔پھر نواز لیگ کے ہی ایک اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی آگئے۔ انھوں نے بھی یہی جنتر منتر پڑھتے پڑھتے اپنا وقت گزارا۔جس ڈیم کے بننے کا تخمینہ 2006میں چھ سو ارب روپے تھا 2011 میں وہ بڑھ ایک ہزار ارب اور 2017میں اس سے بڑھ کر ایک ہزار چار سو ارب اور اب اس ڈیم پر خرچے کا تخمینہ ایک ہزار چھ سو ارب سے بڑھ چکا ہے۔اپ نے صیح انداز لگایا کہ2006 سے اب تک اس ڈیم پر خرچے میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔

اب پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں ائی ہے دیکھتے ہیں کہ وہ کب اس ڈیم کا افتتاح کرتے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم اور پی ٹی ائی کے چیئرمین عمران خان ہسپتالوں کی طرح ڈیم بنانے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں سابق چیف جسٹس اف پاکستان میاں ثاقب نثار کے ساتھ مل کر باقاعدہ چندہ اکٹھا کرنے کا کام شروع کردیا ہے جس کے تحت اب تک تقریباً دو ارب سے زائد کا چندہ جمع ہوچکا ہے۔

تاہم سوال یہ ہے کہ جس ڈیم کو بنانے کے لیے تقریباً ایک ہزار چھ سو ارب روپے چاہئے ہوں اس کا چندوں کے پیسوں سے بننا زمانہ قریب میں ممکن ہے؟ ہرگز نہیں ہے۔ چاہئے بندہ جتنا بھی دلچسپی رکھنے والا کیوں نہ ہو۔ پاکستان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ دیامر ڈیم کو بنانے کا بندوبست کیا جاسکے۔حکومت عالمی ایجنسیوں جیسے ائی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے سخت شرائط کے ساتھ قرضہ لینے سے قاصر ہے۔ ایسے میں دیامر ڈیم جیسا بڑا منصوبہ مستقبل قریب میں بنتا نظر نہیں آتا۔

میرے اس بھائی جیسے نوجوانوں کو ٹرغانے کا دوسرا الہ چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ سی پیک بن رہا ہے عنقریب پاکستان سمیت گلگت بلتستان میں ملازمتوں کی بارش ہونے والی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سی پیک میں گلگت بلتستان کا کوئی ایک پروجیکٹ بھی شامل نہیں ہے۔ سوائے قراقرام ہائی وے کے۔ اگر کے کے ایچ سے ملازمتیں آنی تھی تو وہ کب کے پیدا ہو چکے ہوتے۔ ایک شور گلگت چترال روڑ کا بھی ہے جو سی پیک کے تحت بننے والا ہے۔ اوّل تو یہ کہ پاکستان میں درجنوں کے حساب سے بہت اہم پراجیکٹ ابھی پڑے ہیں جن کے لیے فنائنس کا مسلۂ ہے لہذا اس روڑ کا بننا اور دیامر ڈیم کا بننا دونوں برابر ہے۔ دوم یہ کہ کسی بھی ملک میں سڑک کے بننے سے روزگار نہیں پیدا ہوتا جب تک اس سڑک کے ساتھ روزگار کے دوسرے مواقع پیدا نہ کیے جائے لہذا گلگت بلتستان کے جو سیاستدان لوگوں کو دیامر بھاشا ڈیم یا سی پیک میں لاتعداد ملازمتوں کی نوید سنا کر بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں انھیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور حقیقت پسندی کو اپنا کر ہوشروبا بےروزگاری کو قابو کرنے کے لیے مختصر مدتی منصوبوں پر کام شروع کردیں اور لوگوں کو روزگار مہیا کریں۔ بےروزگاری کے ہاتھوں نوجوان لوگ خودکشیاں کررہیں عوام کا ووٹ اور عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے عیاشیاں کرنے والے منتخب نمائیندوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے۔ گ


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
18126