Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

یہ تعلیم نہیں چلے گی ۔ (اعجاز احمد)

Posted on
شیئر کریں:

یہ تعلیم نہیں چلے گی ۔ (اعجاز احمد)

ایک نجی ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا، پروگرام کا نام ہے ‘ایسے نہیں چلے گا’۔ جس میں صرف جذباتی مواد تھا باقی کوئی تحقیق یا دلیل شلیل قسم کا کچھ مواد نہیں ملا۔ آئیندہ اپنے ایسے کسی کالم جسے میں اپنے ٹیبل پر بیٹھ کر ناصحانہ انداز میں لکھ بیٹھوں تو اسے اسی طرح کا سنسنی خیز سا عنوان دوں گا، تاکہ کم از کم قارئین اس پر ایک کلک ضرور کریں گے کہ ضرور کوئی تحقیقی بات ہورہی ہوگی، کیونکہ میں نے بھی بول ٹی وی کے اس پروگرام کو ایسا ہی سوچ کر دیکھا تھا۔ لکھنا تعلیم کی ناہمواری پر تھا، ادھر اُدھر مواد اکھٹا کررہا تھا اتنے میں اپنے نہایت قابل اور ماہر تعلیم جناب زین الملک صاحب کا آرٹیکل ملا، بہت اچھی تجاویز سے مزین یہ کالم ہر ایک کو پڑھنا چاہئے۔ اب میں نے الگ سے پہیہ ایجاد کرنے کی بجائے زین صاحب کی خیالات کے ساتھ اپنے ماہرانہ مشورے جوڑنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ایک تو زیادہ تحقیق سے جان چھوٹے گی اور دوسری طرف میری وجہ سے (تفنن برطرف) زین صاحب کی بھی مشہوری ہوجائے گی۔

ہم جینئیس لوگ ہیں

ڈین نام کے ایک امریکی محقق ہیں وہ ہمارے اس خطے میں زبان و ثقافت پر کافی عرصے سے کام کررہے ہیں۔ ایک بار تعلیم پر ڈاکومنٹری  بناتے ہوئے ماہرانہ رائے کیلئے ان سے درخواست کی۔ انہوں نے فرمایا کہ بھئی آپ پاکستانی انتہائی جینئس لوگ ہیں، جو زبان آپ کے گھر، محلے اور معاشرے میں نہیں پائی جاتی یعنی بولی نہیں جاتی اس خلائِی مخلوق کی زبان میں آپ اپنے چار سال کے بچے کی تعلیم کا آغاز کررہے ہیں۔ اب وہ بیچارہ بچہ یا تو وہ زبان سیکھے گا یا کوئی علم، یا دونوں نہیں۔

لیکن ہم پھر بھی جینئس ہیں نا، جیسے اس امریکی نے کہہ دیا (چلیں، اگر اس نے طنز بھی کیا ہے ہم تو اسے پازیٹیو ہی لیں گے)۔ ہم نے زبان سیکھنے کو ہی علم کا نام دیا۔ ہوگیا نا مسئلہ حل۔ مثال کے طورپر ہمارا بچہ چوتھی کلاس میں ہے اور انگلش کے دو جملے ایک سانس میں اکھٹا کرکے بول سکتاہے تو ہم مطمئن ہیں، چلو، انگلش تو سیکھ لی نا، اب پرائمری میں وہ ایجادات کرنے سے تو رہا۔ اب یہاں ہم اپنا ایک نقصان کررہے ہیں۔ ہمارے بچے کی ماہانہ فیس کم از کم پانچ ہزار روپے ہوگی (نوٹ کریں کہ جس سکول میں پانچ ہزار سے کم فیس ہوگی ادھر بچے آٹھویں کلاس میں بھی انگلش نہیں بول سکتے)۔ سال کی فیس مبلغ ساٹھ ہزار۔ مجبوری ہے ورنہ میں کیا کرتا کہ بچے کو اس وقت صرف علم سکھواتا (اگر کہیں سے دستیاب ہوتا) اور میڑک کے بعد تین ماہ کا لینگویج کورس کراتا، محض بیس ہزار میں وہ فرفر انگلش بولنا شروع کرتا۔ لیکن اپشن ہی نہیں، کریں تو کیا کریں۔

چلو سویڈن چلتے ہیں

یہ ہوائی باتیں نہیں حقائق ہیں۔ اگر میرے بتائے گئے حقائق کو آپ حقائق نہیں گردانتے تو اس میں میرا نہیں آپ کا اپنا نقصان ہے، مزید دیکھئے کہ اپنے بتائے حقائق میں کتنا اور وزن ڈال دیتا ہوں، ایک سیمنار میں ہمارے ایک کولیگ نے سویڈن کی اپنی سیر کی روداد سنائی، فرمایا کہ سویڈش غیر انگریزی اقوام میں سب سے زیادہ رواںی کیساتھ انگلش بولنے والی قوم ہے (ایک تو یہ انکشاف عجیب تھا)۔ پھر اسٹاک ہوم میں ایک سکول کے دورے کا واقعہ بتایا، کہ وہاں کے سکولوں میں کتابیں سویڈش زبان میں ہی پڑھائی جاتی ہیں، انگلش کی کتاب چٹھی کلاس سے شروع ہوتی ہے اور ہفتے میں صرف دو دن انگلش پڑھائی جاتی ہے۔ اب اس پہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ ضرور انگلش اور سویڈش میں کوئی طبعی ربط موجود ہوگا جیسے پنجابی بولنے والے معمولی سی کوشش کرکے اردو پر عبور حاصل کرسکتے ہیں۔

برٹش کونسل کی تحقیق

اپنی انگلش کا تو پوچھئے ہی نا، سولہ سالہ تعلیم جس میں اسی فیصد کتابیں انگلش میں پڑھنے کے باوجود انگلش کی اجنبیت ویسے کی ویسے ہے۔ اس پر بھی ایک تحقیق یاد آگئی، اوروں کی تحقیقات سے اپنا کالم نچوڑنا بھی ایک تحقیقی کام کہلاتاہے۔ ہائیول کولمین نام سے کوئی انگریز مصنف ہیں، شنید ہے انہوں نے پاکستان میں برٹش کونسل کے ساتھ کافی کام کیا، ان  گورے مصنف صاحب کو بھی پاکستانیوں کی طرف سے انگلش کی ٹانگیں توڑنے کا غم کھائے جارہا تھا، سوچ سوچ کر پاگل ہوگیا کہ بھئی یہاں ہر آدمی ماسٹرز ڈگری یافتہ ہونے کا دعویدار ہے لیکن ایک جملہ انگلش کا ڈھنگ سے نہیں بول اور لکھ پارہا کوئی تو وجہ ہوگی۔ تو اپنے ادارے یعنی برٹش کونسل کی طرف سے پورے ملک پاکستان کے سکولوں کا دورہ کیا، ہر استاد سے ملا، ہر طالب علم کی انگلش کنگھالی اور آخر کار مرض کی تشخیص کرڈالی، معلوم ہوا کہ پاکستانیوں کی انگلش زبان میں بنیاد ہی کمزور ہے۔ یعنی اپنی مادری زبان کو گھر چھوڑ کر سکول آدھمکتے ہیں،  اور منہ ٹیڑھا کرکے ٹینس کا رٹا مارتے ہیں، نہ سبق کی سمجھ آتی ہے اور زبان پر عبور حاصل کرپاتے ہیں۔ تقریبا ایک ناقابل عمل تجویز اپنی تحقیق کے آخری پیراگراف میں شامل کی ہے کہ پاکستانی بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہونی چاہئے، پھر انگلش سے پنگا لیں۔

ڈاکٹر طارق رحمان کی خوش گمانیاں

راقم نے  ایک  ڈیجیٹل ٹی وی کیلئے کچھ غیرمطبوعہ انٹرویوز ریکارڈ کئے ہیں ان میں اسی موضوع پر ڈاکٹر طارق رحمن صاحب سے کووڈ کے دنوں زووم پر بات ہوئی (انٹرویو ابھی تک ہمارے ہارڈ ڈرائیو میں ہی ہے) بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس ملک میں وہ نایاب آدمی ہیں جنہوں نے لسانیات کو صحیح معنوں میں پڑھا، لکھا اور پڑھایا ہے۔ خوش گمان اتنے ہیں کہ پاکستانی اور بھارتی دنیا میں انگلش بولنے والی اقوام میں سرفہرست ہیں، اکیڈمک ہیں، یعنی چائینیز، کورئین اور جاپانیوں کی طرح خالی خولی تکنیکی ذہن کے نہیں۔ ہم (یعنی برصغیر کے لوگ) ناول، ادب، سائنس میں نوبل انعام پاچکے ہیں، جاپانی بے شک ایجادات کریں لیکن اکیڈیمک نہیں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے خیالات سر آنکھوں پر، بائیس کروڑ لوگوں میں سے صرف ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل انعام ملا ہے تو اس کا کریڈٹ پوری قوم کو دینا سراسر ناانصافی ہے۔ ایسے تو ہر شعبے میں جینئس پاکستانی دنیا کے بہترین اداروں میں کام کررہے ہیں سب اپنی ذاتی قابلیت کے بل بوتے پر۔ امریکی ناسا میں ایک پاکستانی لڑکی کی شمولیت پر ہمارا میڈیا ڈھول پیٹ رہا تھا، بعد میں پتہ چلا کہ اسکی سکولنگ بھی غیر ملک میں ہوئی تھی، خود ڈاکٹر سلام بھی باہر کے ڈگری ہولڈر تھے۔ اس طرح کی انفرادی قابلیت کو بنیاد بناکر اپنے نظام کی خرابیوں سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔  ثانیہ مرزا کا بین لاقوامی ٹینس کی کھلاڑی بننا انڈیا میں ویمن سپورٹس کی صورتحال کی درست تصویر ہوتی تو اب تک دو تین اور بھارتی لڑکیاں ٹینس میں آجاتیں۔

اپنی صورتحال

ایک بار کا واقعہ ہے کہ نیا نیا کالج میں داخلہ لیا تھا اپنا اکنامکس کا لیکچرر نہ آنے کی وجہ سے باہر گھوم رہا تھا، سینئر لڑکوں کی طرف سے فولنگ کے امکانات خطرناک حد تک ظاہر ہونا شروع ہوئے، تو بھاگ کر پروفیسرممتاز صاحب کی کلاس میں گھس گیا، ان کانئی کلاس میں نئے سٹوڈنٹس کو پہلا لیکچر جاری تھا،پاک سٹیڈیز کی کتاب اٹھائی اور پہلا جملہ یہ تھا کہ جس کتاب کو اپنے دور طالب علمی میں خود پڑھا تھا اسے تمہیں پڑھانے جارہاہوں، اب کیا صورتحال ہے پتہ نہیں ہوسکتاہے کہ پاک سٹڈیز کو اپڈیٹ کی ضرورت بھی شاید اتنی نہ ہو، البتہ زین الملک صاحب نے ہر پانچ سال بعد نصاب اپڈیٹ کرنے کی تجویز دی ہے۔  اپنے صوے میں جس پارٹی کی گزشتہ نو سال سے حکومت ہے اس پارٹی کے ایک پُرجوش حمایتی دوران سفر ایک بار مجھے قائل کرتے کرتے رہ گیا کہ صوبے میں تعلیم کی تو تقدیر ہی بدل دی گئی ہے اور انقلاب برپا ہوگیا ہے، اس کی تصدیق کیلئے ایک مانیٹرنگ افسر کو کال کی۔ معلوم ہوا کہ صوبے میں مانیٹرنگ سسٹم کی بدولت اساتذہ کی غیر حاضری کا مسئلہ تقریبا حل ہوگیا ہے اور بس۔ اس سے زیادہ نا پوچھئے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ ہم سکولوں میں جاتے ہیں ہر بار کمرے، سٹاف کی تعداد، ، واش رومز، واش رومز میں لوٹے گن کر آتے ہیں۔ مانیٹرز کے پاس ایک چیک لسٹ ہوتی ہے جس میں درج اشیاء کے سامنے ٹک لگادیا ہے۔ البتہ کوئی سٹاف ممبر غیر حاضر ہو تو سکول کا ہیڈ وضاحت کرتا ہے، اور وضاحت ماننی پڑتی ہے وگرنہ وہ مانیٹر کے دورے کی تصدیق نہیں کرتا، یعنی مانیٹر کے پاس اختیارات سکول ہیڈ کی رضامندی سے مشروط ہے۔

اپنی کھوار سکول پہنچ گئی ہے؟

جی باکل پہنچ گئی ہے، اپنے صوبے میں پشتو، سرائیکی، ہندکو کے ساتھ ساتھ کھوار زبان کو بھی پرائمری سکولوں میں نصاب کا حصہ بنادیا گیاہے۔ اگرچہ یہ مروجہ بین الاقوامی کثیرالسانی نظام تعلیم کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا پھر بھی بطور مضمون چھٹی جماعت تک پڑھایا جانا کوئی کم اہم بات نہیں ہیں، لیکن بات وہی چکی کے دو پاٹ۔ صوبائی سرکار کے اس اقدام سے کم از کم کھوار کو پڑھنے والے مستقبل میں ملیں گے، جہاں تک معیار تعلیم کی بہتری میں اس کے کردار کا سوال ہے تو فی لحال نا ہی سمجھیں۔  کم از کم چار سرکاری پرائمری سکولوں کے اساتذہ جن میں سے دو خواتین تھیں سے ڈیٹا لیکر آپ کو مطلع کررہا ہوں کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ کیسے؟ ایک پرائمری سکول میں کے جی سے پانچویں تک چھ کلاسز ہوتی ہیں، ہر کلاس میں چھ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، یعنی روزانہ چھتیس کلاسز۔ اب پرائمری سکولوں میں دو ٹیچرز پانچ گھنٹے میں چھتیس کلاسز کس طرح پڑھائیں گے؟ دوسرا مسئلہ، انگلش اور اردو کتب پڑھانے کیلئے اساتذہ کی تربیت بھی ہوتی ہے، کھوار اور دیگر نومولود زبانوں کو یہ لگژری حاصل نہیں ہے، تیسرا مسئلہ ضلعی تعلیمی انتظامیہ کی جانب سے سکولوں کیلئے چار لازمی مضامین روزانہ پڑھانے اور بقیہ دو مضامین اختیاری رکھنے کی ہدایات ہیں ، اب کھوار کتاب کیلئے ہفتے کے کتنے دن اور دن کا کتنا وقت مقرر ہوسکتاہے خود ہی اندازہ لگائیے، کھوار کتاب میں امتحان نہ لینے کے الزام کو ایک ٹیچر نے نفرت انگیز انداز میں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ “ہم تو لیتے ہیں”۔تاہم کچھ دن قبل محکمہ تعلیم کے ایک اعلی افسر کو کہتے سنا کہ بہت جلد ہر پرائمری سکول میں مادری زبان میں کتاب پڑھانے والا اضافی ٹیچر تعینات کردیا جائے گا۔

تو کیا کریں؟

1۔         سب سے پہلے یہ سوچیں کہ واخان کی سرحد کے قریب بروغل کے ایک گاؤں میں آپ نے سرکار کے پیسے خرچ کرکے ایک پرائمری سکول بنایا، کم از کم دو ٹیچرز مقرر کردئیے، اگر چالیس ہزار کی بھی تنخواہ ہو، دو اساتذہ مشترکہ طورپر دس لاکھ روپے سالانہ میں پڑ گئے، اگر سکول میں بیس بچے بھی زیر تعلیم ہوں تو دس لاکھ کوئی زیادہ رقم نہیں ہے لیکن بات یہاں نتائج کی ہورہی ہے۔ اس گاؤں کے ماحول کے مطابق بچے کا نصاب تیار نہ کریں تو نتیجہ نہیں آئے گا، “کے” سے کینگرو پڑھائیں گے تو ان معصوموں کی سمجھ میں کیونکر آئے گی جن کے ماحول میں کینگرو نہیں ‘یاک’ پائے جاتے ہیں۔ ہاتھی ہم چڑیاگھر آکر دیکھتے ہیں، ہمارے ماحول میں نہیں ہے۔ بچے کے آس پاس کے حالات اس کی کتاب کا حصہ ہوں، اس کے ماحول کی زبان میں ہو۔ تب نتیجے کی امید کی جاسکتی ہے۔ پرائمری ایجوکیشن کو بچے کی مادری یا ماحول کی زبان میں رکھیں، اس کے بعد مادری زبان میں کتب میں بتدریج کمی لائیں اور اردو اور انگلش میں کتب داخل کرتے جائیں یوں میٹرک تک پہنچتے پہنچتے مادری زبان میں ایک آدھ کتاب رہ جائے اور بقیہ کتب اردو اور انگلش میں ہوں، آپ اس نظام کے تحت بچوں کو احساس دلائے بغیر دوسری اور تیسری زبان میں منتقبل کرسکیں گے، یہ ہے عالمی سطح کا کثیرالسانی تعلیم کا ڈھانچہ۔ میراگرام نمبر دو ، کھوت، آوی، ستارو وغیرہ کے کھوار میں خواب دیکھتے، گاتے، اور کہانیاں سنتے بچوں سے ان کی زبان چھین کر شروع میں ہی شیکسپیئر کی زبان میں تعلیم دینگے تو وہ رٹا نا لگائیں تو کیا کریں۔ چلیں آپ کے پاس اختیار ہے آپ انگلش میں ہی پڑھائیں گے تو کیا انگلش کا ماحول ان کو دے سکیں گے؟ ایک بات پلے سے باندھ لیں زبان صرف ماحول سے سیکھی جاتی ہے یا پھر منظم طریقہ کار سے۔

2۔         ریاضی کو انگلش میں پڑھانے کا آئیڈیا کس جینئیس کا تھا علم نہیں۔ بھئی آپ کا مقصد بچے کو حساب و کتاب کا علم دینا ہے نا؟ تو اسے انگلش میں پیش کرکے بچے کیلئے ناممکنات کیوں پیدا کررہے ہیں۔ آئییے، آج انگلش لٹریچر پڑھا ہوا کوئی  آغاخان سکول سسٹم میں پڑھائی جانے والی چوتھی کلاس کی ریاضی کو صرف سمجھنے کا دعوی کرکے دکھائے، مان لیں گے۔ بند کریں یہ ظلم۔

3۔         پرائمری ایجوکیشن پوری دنیا میں ایلیمنٹری سے الگ نہیں ہے۔ آپ پرائمری ایجوکیشن کیلئے دو اساتذہ کی تقرری کی پالیسی بنائی ہے، حالانکہ ہمارے ہاں پرائمری ایجوکیشن میں بچے زیادہ ہوتے ہیں، ڈراپ آؤٹ پرائمری کے بعد عمل میں آتاہے، بچے زیادہ نہ بھی ہوں کلاسز کی تعداد میں ردو بدل نہیں ہوتی۔ مثال کے طورپر کسی کلاس میں دو بچے ہوں تو تب بھی چھ کلاسز کا بوجھ قائم رہے گا۔ جبکہ مڈل سکول میں تین کلاسز ہوتی ہیں اور درجن بھر ٹیچرز(ممتاز ماہر تعلیم شیرولی خان اسیر صاحب نے سوشل میڈیا پر ایک مڈل سکول کی صورتحال لکھی جہاں صرف اٹھارہ بچوں کیلئے تیرہ اساتذہ دستیاب تھے، اس کے ردعمل میں اسیر صاحب پر ٹیچرز کے منہ سے نوالہ چھیننے جیسے الزامات کی بارش ہوئی)۔  پرائمری اور مڈل سکولوں کو باہم مدغم کرلیں تو اساتذہ کی کمی کا مسئلہ حل ہوجائے گا اور دوسری طرف مڈل سکولوں پر بچے کم ہونے کا دباؤ بھی ختم ہوگا۔ نویں سے بارہویں تک ہر سکول کو سیکنڈری سکول کا درجہ دینے سے کلاسز کی مینجمنٹ درست ہوجائے گی۔

4۔         اگر سکولوں کے مانیٹرنگ سسٹم کے کچھ نتائج اچھے آرہے ہیں اور ان کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ہر ضلع کیلئے الگ نظام رکھنا ہوگا۔ اب ضلع کرک جہاں کی تعلیم کی صورتحال اچھی ہے کو ضلع اپر کوہستان کے ساتھ ملاکر پرکھیں گے تو یہاں ضلع کرک متاثر ہوگا کوہستان کا کیا بگڑنا ہے۔ یعنی آپ کی مساویانہ پالیسیوں سے جہاں اچھی تعلیم ہے وہ مزید اچھی ہونے کے بجائے متاثر ہورہی ہے۔ یا یہ کہنے دیجئے کہ آپ چونکہ کوہستان میں بہتری نہیں لاسکتے تو کرک کی صورتحال میں تنزلی لارہے ہیں۔ مانیٹرنگ کے مسائل میں یہ بھی شامل ہے کہ پورے خیبر پختونخوا صوبے کیلئے ایک ہی اینڈرائیڈ ایپلی کیشن کے ذریعے ڈیٹا اکھٹا کیا جارہا ہے۔ اب کوہستان میں سکولوں کی حالت ایسی نہیں کہ جن کو ضلع کرک، ایبٹ آباد اور چترال میں سکولوں کے مقابل رکھا جائے، ہر ضلع کے اپنے مسائل ہیں، آپ نے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی پالیسی بنائی ہے جس کا متوقع نتیجہ نہیں آرہا ہے بلکہ اس کے برعکس نتائج آرہے ہیں، دنیا بدل گئی ہے، تعلیم کا یہ نظام نہیں چلے گا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
62093