Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہم شہید سیف الرحمن کے ساتھی ہیں ۔ تحریر: شمس الحق نوازش غذری

شیئر کریں:

ہم شہید سیف الرحمن کے ساتھی ہیں ۔ تحریر: شمس الحق نوازش غذری

انا کی تسکین اور اپنی ذات کو اوروں سے بالاتر سمجھنے کا جو “لت” اس سماج میں پنجے جمائی ہے کہیں اور ۔۔۔۔۔۔۔ خصوصاً بیرون اور عموماً اندرون اس طرز کے احساسات اور رویوں کی زیارت کے لیے انسانی چشم بصارت ترستی ہی رہیگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں کا ہر دوسرا انسان اپنی ذات و صفات کے لیے معیار کا خود ساختہ پیمانہ تیار کرکے پیمائش کا اہتمام بھی خود کرنے لگ جاتاہے ۔ انفرادی مفادات کو اجتماعیت پر ترجیح دینے کے الزام کی زد میں ہر دور میں منتخب نمائندہ ہی رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔مقامی سماجیات کے مذکورہ اجتماعی نفسیات کے بحر ِبے کنار کے سطح کی لہریں گننے کی بجائے “بحر” کی تہہ تک غوطہ زنی کی توفیق ملے۔ تو یہاں کا ہر غرض آشنا دوران الیکشن امیدوار کے ساتھگزارے ہوئے ہر سانس کا کامل معاوضہ یومِ انتخاب کاآفتاب ڈھلنے کے ساتھ ہی فاتح امیدوار سے نقد وصولی کےلئے کمر کستا ہے ۔ ذہنی افلاس اور بحرانِ ظرف کا عالم یہ ہے اہل سماج کے ووٹ کا مقروض اگر اجتماعی مفادات کے واسطے فضاء میں اڑتے ہوئے شاہینوں کو بھی اپنی گرفت میں لے، تو بھی ایسے اقدامات اور حالات کے مجال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ انفرادی اور شخصی بتوں کے پجاریوں کے چہروں میں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصّے میں بھی حقیقی مسکراہٹ کی جھلک دکھائی دی ہو ۔۔ میر کارواں بصیرت کے اعتبار سے جتناوژنری اور زبان وبیان کے لحاظ سے جس قدر فحیق اور بلیغ ہو ۔۔۔۔۔۔ جب تک ابن الوقت رفیقاں کے ذاتی خواہشات کی تسکین کے لیے ضمیر کے گلے میں چھری نہ پھیرے ، انفرادی مفادات کے خول میں مقید غرض آشناؤں کے گروہی اور ذاتی خواہشات کو تحفظ نہ دے تو ایسے سماج کے مکین اس دھرتی کو ان کے بصیرت ، فصاحت و بلاغت اور جرات کا روضہ مبارکبنا کر ہی دم لیتےہیں ۔۔۔۔۔ ۔شخصی اور خاندانی مفادات کے گرد مرکز مائل قوت کی طرحگردش کرنے والوں کی لغت میں بیدار مغز اور زیرک رہنماؤں کا کوئی قدرو منزلت توہے ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اس قسم کے گھٹن زدہ سماج کے کوتاہ فہم عناصر ایسے شیشوں والے عینک کے استعمال کے عادی ہیں جو انکے ذات اور ذَویِ القربیٰ سے متعلق ہر شے کو زوم کرکے طشت از بام کردے لیکن عوام الناس سے متعلق دیوہیکل اجتماعی ایشوز کو حقیر اور صغیر بنا کر پیش کردے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذاتی اور شخصی غرض مندوں کا وجود قوموں ،ملکوں ، کمپنیوں اور پارٹیوں کو تنزلی اور رسوائی کے دلدل میں گردن تک ڈبو دیتا ہے ۔۔۔۔ اس قسم کے طرز فکر کے عناصر کے قلوب میں احسان کے تڑپتے ہوئے کیڑے کو اس وقت تک چین میسر نہیں ہوتا جب تک احسان کے مکرر تذکرہ کے لیے محسن کا زبان متحرک نہیں رہتا ۔۔۔۔۔
گروہی مزاج اور شخصی مفادات کے دلدادہ افراد کو وژنری اور منصوبہ ساز لیڈرز سے ہمیشہ بغض رہتا ہے چاہے وہ ترکی کا طیب اردوگان ہو یا جی بی کا حافظ حفیظ الرحمان ۔۔۔۔۔۔۔! کیونکہ یہ سارے کام اور فیصلے ذاتی اثر رسوخ کے علاوہ وابستگی کی بنیاد پر کرنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ گروہی مزاج کے حامل افراد کو اگر انکے قلبی خواہش کے مطابق مسند اقتدار تک رسائی مل بھی جائےتو ایوان ہائے پارلیمنٹ میں بحثیت مقتدر موجود ہونے کے باوجود سرعام اپنی بےبسی کا رونا روتے ہیں ۔۔۔۔ جب کہ دوسری طرف ناک چڑھا کر حکومت کی بھاگ ڈور ایک سرکاری آفیسر انجام دے رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ ایسے میں عوام وخواص کے علاوہ پارٹی کے مخلص اور بےلوث ورکرز کو ہر زاویے سے پارٹی پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہیں ایسا تو نہیں ۔۔۔۔۔۔ شہید سیف الرحمن کے عقیدت مند شہید سیف الرحمن کے پارٹی کو بھی شہادت کی نعمت سے سرفراز کرنے پر تلے ہوں ۔۔

ذاتی اور گروہی مزاج کے معتقدین میں سے جن کے پاس چھ ووٹ ہوں وہ خود کے لیے لفظ ووٹر توہین تصور کرنے لگ جاتا ہے ووٹ کی طاقت کے مذکورہ معیار کے مطابق درجن ووٹس پر اختیار رکھنے والا تو سپورٹر سے بھی دو قدم آگے ” چیف سپورٹر” کہلانے لگ جاتا ہے۔اس قسم کے افراد کے شخصی اور خاندانی خواہشات کا محل وقوع روس سے بھی وسیع تر ہوتا ہے یہی عناصر چڑھتے سورج کو ایڑیاں بجا کر سلوٹ مارنے کے جذبے سے بھی سرشار ہوتے ہیں…. جی ہاں ! اردو ڈکشنری میں نوسرباز اور شاطر جسے الفاظ ایسے ہی افراد کے لیے تخلیق ہوئے ہیں یہ لوگ متوقعفاتح امیدوار سے بھی پہلے خود کو کسی نہ کسی حیثیت میں مسندِ اقتدار کے کسی نہ کسی پوزیشن میں فٹ کر چُکے ھوتے ھیں اگر حسب توقع وہ اپنی مطلوبہ کازکوسر کرنے میں سرخرو رہے تو پھر اسی محاذ کے دوسرے معرکہ میں خونی قربت کے معیار پر سب سے پہلے اترنے والے عزیز کو گھسیٹ کر اقتدار کے راہداریوں تک رسائی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا تے ہیں ۔اسی محاذ کے دوسرےفیز میں ان ووٹرز اور سپورٹرز کا قافلہ ہوتا ہے جو ہمیشہ دو نکاتی ایجنڈےکے ساتھ دو افراد پر مشتمل ہوتا ہے فاتح امیدوار کے دفتر میں اس وفد کا درآمد اور برآمد قضاء ہونے کا نامہی نہیں لیتا اس وفد میں شامل پہلی نسل دوسری نسل کے لیے چور دروازے سے سرکری نوکری کا خواہاں ہوتا ہے۔ اگر دوسری نسل کے لیے چور دروازے سے کسی سرکاری محکمے کے اندر دُخول نا ممکن ہو تو پھر پہلی نسل انتہائی ڈھٹائی سے سینہ تان کر ٹھیکداری کا کنڈیڈیٹ بن جاتاہے ۔ ظاہری بات ہے حصول ٹھیکداری کیلئے بھی کچھ نہ کچھ دستور العمل موجود ہیں لیکن یہ نسل ان دستورالعمل پر براہ راست پریڈ کر کے انہیں اپنے قدموں تلے روندنا چاہتا ہے۔جب فاتح امیدوار ذاتی اور خاندانی مفادات کے اس چوٹی کو سر کرنے کی راہ میں چٹان کی طرح حائل رہتا ہے ۔تو دونوں نسلوں میں شخصی مفادات کا لاوہ یکے بعد دیگرے پھٹنا شروع ہوجاتا ہے اور درِآفس کھلتے ہی یہ دونوں نسلیں سیدھے جا کر شہید سیف الرحمن کے ساتھیوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔

دامنِ کوہ اور لب دریا کے باسیوں کی نظر میں تنگی غالباً یہاں کے جغرافیائی خدو خال کا شاخسانہ ہے ان دروں اور دروں میں مقیم مکینوں کے ذہنوں میں جھانک کر سیاست کرنا اور سیاست کو پروان چڑھانا کس قدر کھٹن اور گھمبیر ہے اس کے ادراک پر دسترس انھیں حاصل ہے جو اس محاذ کے مستقل جنگجو ہیں ۔۔ محدود رقبے پر مشتمل محدود آبادی یہاں کے مختلف پہاڑی سلسلوں اور دریاؤں کی وجہ سے الگ الگ جغرافیائی خانوں میں مقید ہیں یہاں کے لسانی ، قومی اور مذہبی تنوع وہ عوامل ہیں جو آسانی سے اجتماعی پلیٹ فارم کے ذریعے قومی ، ثقافتی اور مذہبی مشترکات کو پنپنے کا موقع نہیں دیتے۔۔۔۔۔۔ یہاں کے باسیوں کے دل و دماغ کی گہرائیوں میں پہاڑوں کی طرح پیوست ہونے کا اعزاز صرف اور صرف مذہب کے حصے میں آیا ہے اور تو اور یہاں کے سماج میں ڈنکے کی چوٹ پر خود کو قوم پرست ظاہر کرنے والوں پر بھی مذہبی کشیدگی کے دوران اکثر وبیشتر فرقہ واریت کا بخار طاری ہوتا رہا ہے یوں تو ہر فرقے کے ہر فرد کے چہرہ مبارک میں اس فرقے کا ” ریلیجیس مارک” بلوغت کے فوراً بعد چسپاں ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔۔۔۔

ان حالات سے رہائی کے لیے انتہائی زیرک اور دوراندیش سیاسی رہنما ملک و ملت کے واسطے آکسیجن کا درجہ رکھتے ہیں جب کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے ادارے میں حصولِ ملازمت کے لیے اہلیت کا مخصوص معیار مقرر ہے تو وچار کی بات یہ ہے کسی پارٹی کی صوبائی قیادت کے لیے معیار کا پیمانہ کیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سطحی ذہنیت کے سادہ اور نادان جذباتی ناقدین جذبات کی رو میں بہہ کر جو مرضی کہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وطن عزیز میں قومی وحدت کے لیے میاں محمد نواز شریف ، آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق کے نام سے جو کردار موجود ہیں ان کے ثانی پیدا ہونے میں صدیاں لگ جاتی ہیں ان کے وجود کی اہمیت پر عبور حاصل کرنے کے لیے سائنس کی ضرورت ہے پولیٹیکل ایکسپرٹس اسی سائنس کو ” پولیٹیکل سائنس” کہتے ہیں

لیکن ہماری اجتماعی نفسیات کا مشترکہ المیہ یہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں کسی بھی انسان کی خوبیاں اور کمالات اس کے روح سے محروم بدن میں نظر آتی ہیں زندہ انسان کے خوبیوں کو مرحبا کہنا پھر ان کے عوض داد دینا اور موت کو گلے لگانا ہمارے لیے ایک برابر ہے اس قسم کے سماج کی لغت میں زندوں میں کوئی اچھا نہیں اور مُردوں میں کوئی برا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصہ مختصر ۔۔۔۔! دنیا کے کسی بھی ذہنی تنگ دست اور گھٹن زدہ سماج میں انسان کو اپنی فطری صلاحیتوں کو تسلیم کروانے اور بشری کمالات کے واسطے آفرین سمیٹنے کے لیے کفن اوڑھنا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس لیے ہم مرحوم سیف الرحمن کے ساتھ تو دنیا کے آخری کونے تک چلنے کے لیے تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن زندہ حفیظ الرحمن کے ساتھ دو قدم سفر کے لیے ہم میں طاقت وسکت ہے اور نہ ہی قوت اور ہمت۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!

” غالباً یہی وجہ ہے ہم منوں مٹی تلے مُردوں پر تو پھول برساتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن ٹنوں مٹی کے اوپر زندوں کے لیے بچھا نے کو ہمارے پاس کانٹوں کے سوا کچھ نہیں.”


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
79798