Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہمارے معاشرتی رویوں میں تضاد…….. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

ایک دوست نے سوشل میڈیا پر ہماری اجتماعی معاشرتی رویوں میں کھلے تضاد کی بڑی خوبصورت عکاسی کی ہے۔ کہتے ہیں کہ ہمارے تھانوں میں غریب شہریوں سے کس کس بات کی رشوت نہیں لی جاتی۔ مگر تھانے کی دیوار پر جلی حروف میں یہ حدیث مبارکہ لکھا ہوتا ہے کہ ’’ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘ہمارے اسپتالوں میں موت بانٹی جاتی ہے۔ پرائیویٹ کلینکوں میں بھی مریض کی کھال اتارنے کے بعد ان کا علاج کیا جاتا ہے۔ وہاں یہ حدیث لکھا ہوا ملے گا کہ ’’ اور جس نے ایک زندگی بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کو بچا لیا‘‘ہماری عدالتوں، کچہریوں میں جھوٹی گواہی دینے والے پیشہ ور لوگ بیٹھے ہوتے ہیں جو دو چار سو روپے لے کر جھوٹی گواہی دیتے ہیں اور وہاں یہ حدیث نمایاں جگہ آویزاں یا کندہ نظر آتی ہے کہ ’’ جھوٹی گواہی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے‘‘ہماری عدالتوں میں انصاف بکتا ہے یہاں صرف اسی کو انصاف ملتا ہے جو اسے خریدنے کی استطاعت رکھتا ہو ۔جبکہ عدالتوں کے باہر لکھا ہوتا ہے ’’ لوگوں کے درمیان حق اور انصاف کے مطابق فیصلہ کرو‘‘ہمارے بازار جھوٹ، فریب، دھوکہ ، خیانت اورملاوٹ کے مراکز ہیں اور ہر دکان میں یہ حدیث نمایاں جگہ آویزاں نظر آتی ہے ’’ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘یہ حدیث ہر چھوٹے بڑے مسلمان کو یاد ہے کہ ’’ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب اس کے پاس امانت آئے تو اس میں خیانت کرے‘‘ان احادیث مبارکہ میں واضح طور پر ہمیں زندگی گذارنے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ لیکن ہمارے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور مدرسوں میں صرف امتحان پاس کرنے اور ڈگری لینے کے لئے یہ احادیث یاد کرائی جاتی ہیں۔ ہم نے انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ اسلام نے ہر عمل کا ایک مقصد بیان کیا ہے۔ سائنسی تحقیق نے بھی ڈیڑھ ہزار سال گذرنے کے بعد اسلامی تعلیمات کی تصدیق کی ہے۔ کہ ہر عمل صالح کا دنیاوی فائدہ بھی ہے اور اس کا اخروی پہلو بھی ہے۔ نماز کے بارے میں اسلام میں سب سے زیادہ تاکید ہے۔ اور نماز کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ انسان کو فحاشی اور منکرات سے روکتی ہے۔ اگر پانچوں وقت کے علاوہ تہجد ، اشراق اور نوافل پڑھنے کے باوجود ہم فحاشی اور منکرات کو نہیں چھوڑتے ۔ جن کاموں سے اسلام نے روکا ہے۔انہیں کرنے سے باز نہیں آتے تو وہ نماز محض چند منٹ کی ورزش کے سوا کچھ نہیں۔روزے کے بے شمار دنیاوی فوائد کے علاوہ اس کا بنیادی مقصد اسلام نے یہ بتایا ہے کہ ’’ بے شک تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی والی امتوں پر فرض کئے گئے تھے۔ تاکہ تم پرہیز گار بنو‘‘ جس پرہیز گاری کی اسلام نے تلقین کی ہے اگر وہ خصوصات رمضان کے تیس روزے رکھنے کے باوجود ہم میں پیدا نہیں ہوتیں تو سمجھ لینا کہ ہم نے بھوکے پیاسے رہ کر خود کو مفت میں تکلیف دی ہے۔قربانی کا فلسفہ اسلام نے یہ بتایا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ تک قربانی کے جانور کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا۔ صرف تمہارا تقویٰ اللہ تک پہنچتا ہے‘‘۔ اگر ہم اس جذبے سے قربانی نہیں کرتے جس کا اظہار حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کیا تھا تو ہم محض دکھاوا اورپیٹ پوجا کر رہے ہیں۔یہ بات طے ہے کہ مسلمانی کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلامی تعلیمات سے دوری نے ہمیں مصائب ا آلام میں مبتلا کردیا ہے۔ دہشت گردی کی لہر، بد امنی، زلزلے، سیلاب اور طوفان سے تباہی، موسمی تبدیلی، بارشیں نہ ہونا، فصلوں کی تباہی، اخلاقی انخطاط اور ظالم حاکم مسلط ہونا قہر خداوندی کی نشانیاں ہیں۔ ہمارا تعلق خواہ اسلام کے جس فرقے سے بھی ہو۔ یہ تعلیمات ہمارا اثاثہ اور ایمان کا حصہ ہیں۔ ان تعلیمات کو بھلا کر ہم نے نہ صرف دین اسلام کو بدنام کیا۔ بلکہ اپنے لئے بھی رسوائی کا سودا کیا ہے۔ ہمارا عمومی بہانہ یہ ہوتا ہے کہ ایک میرے ایماندار، فرض شناس ، دیانت دار اور پرہیز گار ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ سارا معاشرہ بگڑا ہوا ہے۔ حالانکہ ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ہم انفرادی طور پر خود کو دین کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ڈھالیں تو رفتہ رفتہ پورا معاشرہ سدھر سکتا ہے۔ منزل جتنی طویل ہی کیوں نہ ہو۔ منزل کی طرف سفر کے لئے پہلا قدم اٹھانا ضروری ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اگر پہلا قدم اٹھائے تو اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کی کوشش میں اللہ تعالیٰ بھی ہمارا حامی و ناصر ہوگا۔ اسلام عمل سے پھیلتا ہے۔ یہ سرکاری اعلامیہ، قانون سازی یا آئین میں ترمیم کے ذریعے نہیں پھیلتا۔نہ ہی دعاوں سے اسلام کا نفاذ ممکن ہے۔ ہماری دعائیں بھی اسی وجہ سے قبول نہیں ہوتیں کہ زبان سے کلمہ پڑھتے ہیں لیکن دل میں کھوٹ رکھتے ہیں۔جعل سازی سے ہم خود کو یا دوسرے لوگوں کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن اس ہستی کو دھوکہ نہیں دے سکتے جو ہر چیز پر قادر اور دلوں کا بھید جانتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
14194