Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

گولڈن جوبلی آئین پاکستان ا ور حقیقی جمہوریت کے منتظر 23کروڑ عوام – تحریر: قاضی شعیب خان

شیئر کریں:

گولڈن جوبلی آئین پاکستان ا ور حقیقی جمہوریت کے منتظر 23کروڑ عوام – تحریر: قاضی شعیب خان

متحرم قارئین: پاکستان کے پارلیمنٹرین نے 10اپریل 2023 کو اسلامی جہوریہ پاکستان کے منظورشدہ 1973کے آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریبات منائی جو پاکستان کے 23کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی مصدقہ دستاویز ہے۔ اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تمام جج صاحبان کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ جن میں سے جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب نے آئین پاکستان سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی۔ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں یادگار کا بھی افتتاح کیا۔ لیکن آزادی کے 75 سال گزرنے کے بعد بھی آج پاکستان کی غریب اور متوسط عوام عدل و انصاف کے حصول کے ساتھ ساتھ بھوک بے روزگاری جسے گرداب میں الجھی ہوئے ہیں۔ بہت اچھے! تمام مہذب معاشروں میں عوام کی بھلائی کے فیصلے پارلیمنٹ کو ھی کرنا ہوں گے لیکن اگر پارلیمنٹ عوام کا اعتماد بحال نہیں کر سکتی تو فیصلے کون کرے گا؟درحقیقت ہم یہ بھول گئے ہیں کہ سارے باغ و بہار کے گانے کون لکھے گا، انہیں سنے گا اور دوبارہ پڑھے گا کون؟

 

کیا وہ گیت آزادی، خوشحالی، بھائی چارے، اچھی سوچ اور قوم کے درد کے جذبات کی لازوال داستان بن گئے ہیں؟ 23 کروڑ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کب باغ میں حسن بہار دوبارہ آئے گا اور مایوس اور مرجھائے ہوئے دل اس کے گیتوں سے دوبارہ بہار کی امید کے ساتھ سکون حاصل کر سکیں گے۔ بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے وعدوں اور ترجیحات کی فہرست بدل گئی ہے۔ہم غریبوں کے ساتھ ہونے والی حقیقت کو محسوس کرنے کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اور یہ اخلاقیات کے منافی ہے اور جن معاشروں میں اخلاقیات دم توڑ دیتی ہیں وہاں کوئی بھی کوشش اور قانون بے اثر ہو جاتا ہے اور معاشرے کو جڑت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے عوام کی آواز گونج رہی ہے کہ انہیں صرف اس بات کی سزا دی گئی کہ وہ عوامی نمائندے تھے،

 

کرپشن نہیں کی، سب کے ریکارڈ کھولے، کرپشن کو بے نقاب کیا۔اسے NRO 2 نہ دینے کی سزا ملی، امریکہ کو یہ بتانے کی سزا ملی کہ بالکل نہیں??،سزا اس لیے دی گئی کیونکہ وہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے سستا تیل لینے روس گیا تھا۔یہ ان کا قصور تھا کہ اس نے لنگر خانہ، ہیلتھ کارڈ، احساس پروگرام کے تحت 14 ہزار روپے عزت سے دیے، پیسے غریبوں کو دیے۔ کیا اس کا قصور تھا کہ وہ عوامی نمائندہ تھا؟اس رات وہ ضدی تھا۔ وہ چاہتا تو لندن، امریکہ چلا جاتا، لیکن نہیں، یہیں رہ کر ہمیں جگایا، شعور دینے میں لگا ہوا کہ غلامی کیا ہے، آزادی کسے کہتے ہیں؟انجانے میں اس رات اسے پکڑنے کے لیے کیا حربے استعمال کیے گئے۔ لیکن وہ درویش اپنی ڈائری لے کر باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھ کر خود گاڑی چلا کر فتح کا نشان بنا کر ان تمام اداروں کو تھپڑ مارتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔اگلے دن عجیب منظر تھا۔ جو لوگ مٹھائیاں بانٹتے تھے، ڈھول پیٹتے تھے، گرجتے تھے، احتجاج کرتے تھے، جب وہ وزیر اعظم ہاؤس جاتے تھے۔

 

اس کے بعد انہوں نے ملاقاتیں کرنا شروع کر دیں۔ ایک ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے لیکن سب نے اسے مذاق سمجھ کر نظر انداز کر دیا لیکن وقت آہستہ آہستہ ثابت کرتا ہے کہ وہ سچ کہہ رہے تھے؟پھر اس نے یہ لانگ مارچ شروع کیا، 25 مئی کو بعض گھروں پر چھاپے مارے گئے، چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری، ان کے مارچ پر حملہ ہوا، خون خرابے کے خوف سے وہ مارچ کر کے اسلام آباد کے قریب گھر چلے گئے، اس کے بعد انہوں نے دوبارہ لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ پھر اسے توڑنے کی سازش رچی گئی اور کینیا کے نیروبی میں مارچ سے 5 دن پہلے ارشد شریف کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ تاکہ وہ خوفزدہ ہو جائیں، لیکن وہ خوفزدہ نہیں ہوا، اس نے کچھ دن پہلے ہی اپنا مارچ شروع کر دیا، انہوں نے پھر سفاکیت کا مظاہرہ کیا اور 3 نومبر کو اس کے مارچ پر قاتلانہ حملہ کیا، لیکن وہ اللہ کی مدد سے محفوظ رہا، اور پھر مضبوط ہو گیا. لوگوں کا لاڈ پیار تھا۔ اس انہدام کے لیے ان پر 150 مقدمات لگائے گئے، جن میں بغاوت، دہشت گردی، قتل، پتہ نہیں کون کون سی دفعات لگائی گئیں، لیکن وہ ڈٹے رہے اور کیس کا سامنا کیا، وہ عدالتوں میں پیش ہوئے۔ پھر اسے گرفتار کرنے کا منصوبہ تھا، لیکن لوگوں نے کہا کہ بالکل نہیں۔ عوام نے اسے ناکام کر دیا ہے اور عوام ان کے گھر کے باہر ایسے بیٹھی ہے جیسے یہ کسی پیر کی پناہ ہو۔

 

اس کے بعد 13، 14 اپریل کو عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا، 10 منٹ کا آپریشن۔ گھنٹوں تک پہنچایا اور کامیاب نہیں ہوا۔ عوام کی اکثریت نے اپنے قائد کی حفاظت کی۔پھر انہوں نے 18 مارچ کو غیر قانونی طور پر ظاہر کیا، جب وہ عدالت گیا تو اس کی اجنبی بیوی گھر میں اکیلی تھی، گھر کے دروازے ٹوٹے ہوئے تھے، دیواریں ٹوٹی ہوئی تھیں، اسے خوفزدہ کرنے، جھکنے کے لیے فرنیچر توڑا گیا تھا لیکن وہ جھکنا نہیں ہے پھر اسلام آباد پہنچ کر اس کی تذلیل کی گئی، گولہ باری کی گئی، پتھراؤ کیا گیا، لیکن اللہ نے اس کی مدد کے لیے فرشتے بھیجے۔ اللہ نے اسے بچا لیا اور اس نے بحفاظت اپنے خستہ حال گھر تک 16 گھنٹے کا سفر طے کیا، جسے کارکنوں نے اس کی آمد سے تھوڑا پہلے ٹھیک کر دیا تھا۔ اس دن سے آج تک 3 کارکن شہید ہوئے، ہمارا جان ارشد شہید ہوا۔سینکڑوں کارکن گرفتار، ہزاروں کارکن ہسپتالوں میں ہیں۔ لیکن وہ نہیں جھکا، وہ لٹکا نہیں، وہ کھڑا تھا، وہ کھڑا ہے اور انشاء اللہ وہ کھڑا رہے گا۔

 

اور یہ باشعور عوام اس کے ساتھ ہے۔ یہ اربوں لوگوں کے بیانات ہیں۔ ریاست اور عوام کے اس ناگفتہ بہ حالات کا فیصلہ کون کرے گا؟ہماری پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس ریاست میں کیا ہو رہا ہے کن مقاصد کے لیے؟اگر پارلیمنٹ غیر جانبداری سے مشاہدہ اور فیصلہ کرنے سے قاصر رہے تو پھر قانون کے نفاذ کے لیے کون آگے بڑھے؟آئین اور ضوابط ہمیشہ عوام کے سب سے بڑے مفادات کے حق میں ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان طاقتور اداروں سے امیدیں وابستہ ہیں جن میں اعلیٰ عدلیہ اس اھم حصہ ہے اور پارلیمنٹ سمیت تمام اداروں کو اس کے فیصلوں کا احترام اور احترام کرنا ہوگا۔ورنہ بہت کچھ کھونے کے بعد، ہم اپنی اصل پوزیشن پر واپس نہیں آسکتے ہیں۔ خان صاحب کے باب کو تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف چھوڑ دیں لیکن پارلیمنٹ کا فرض ہے کہ وہ عوامی مفادات کے لیے اپنے ایجنڈے کو منظر عام پر لاتے ہوئے گزشتہ ایک سال سے عوام پر کیا گزری ھے؟سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جب عوامی نیشنل پارتی کے راہنماؤں کو پاکستان میں حراست میں لیا گیا تو ایک ایسا شخص تھا جو بہت ہی خستہ حال تھا، اس کو گرفتار کر کے حیدرآباد جیل لایا گیا۔جیلر نے اس پریشان حال شخص کو دیکھا اور حقارت سے کہا کہ اگر تم عبدالولی خان کے خلاف بیان لکھ کر دے دو تو ہم تم کو رہا کر دیں گے- ورنہ یاد رکھو اس کیس میں تم ساری عمر جیل میں گلتے سڑتے رہو گے اور یہیں تمہاری موت ہو گی۔

 

یہ سن کر اس شخص نے جیلر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور مسکرا کر کہا ”جیلر صاحب جیل میں تو شاید میں چند برس زندہ بھی رہ لوں, لیکن اگر میں نے یہ معافی نامہ لکھ دیا تو شاید چند دن بھی نہ جی پاؤں -اصولوں او عزم و ہمت کی اس دیوار کا نام حبیب جالب تھا۔ اور اس کو جیل میں بھیجنے والا اپنے وقت کا سب سے بڑا لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھا۔میں کل سے حیرت کا بت بنا بیٹھا ہوں جب میں نے بلاول بھٹو کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر حبیب جالب کا کلام پڑھتے دیکھا اور کلام بھی وہ جو اس نے بھٹو کے دور میں لکھا تھا۔ آپ کو یہ سن کر شاید حیرت ہو کہ حبیب جالب عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر تھے اور انہوں نے بھٹو دور میں الیکشن لڑا تھا اور الیکشن ہارنے کے بعد وہ بھٹو کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے رہے، ان کو جیل میں ڈآل دیا گیا اور ضیاءُ الحق کے مارشل لاء کے بعد ان کو اس کیس سے بری کیا گیا تھا۔کاش کہ بلاول کو تاریخ سے تھوڑی سی بھی آگہی ہوتی تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب کا بیشتر کلام بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھا۔ جن میں سے ایک مشہور نظم پیش خدمت ہے –

میں پسرِ شاہنواز ہوں میں پدرِ بے نظیر ہوں
میں نکسن کا غلام ہوں، میں قائد عوام ہوں
میں شرابیوں کا پیر ہوں، میں لکھ پتی فقیر ہوں
وہسکی بھرا اک جام ہوں، میں قائد عوام ہوں
جتنے میرے وزیر ہیں، سارے بے ضمیر ہیں
میں انکا بھی امام ہوں، میں قائد عوام ہوں
دیکھو میرے اعمال کو، میں کھا گیا بنگال کو
پھر بھی میں نیک نام ہوں، میں قائد عوام ہوں

کل جب بھٹو کی برسی پر بلاول حبیب جالب کا کلام پڑھ رہے تھے تو بھٹو دور میں ہونے والے مظالم میری آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ حبیب جالب پر اتنا ظلم ایوب خان اور ضیائالحق جیسے آمروں کے دور میں نہیں ہوا جتنا ظلم قائد عوام اور ایک جمہوری لیڈر بھٹو کے دور میں ہوا۔ جس دن بھٹو نے حبیب جالب کو گرفتار کروایا تھا اس دن جالب کے بیٹے کا سوئم تھا اور وہ چاک گریبان کے ساتھ جیل میں گئے تھے اور اپنے بیٹے کی یاد میں لکھی نظم ایک تاریخی انقلابی نظم ہے۔کاش کوئی یہ سب باتیں جا کر بلاول کو بتائے کہ رٹی رٹائی تقریریں کر لینا بہت آسان ہے لیکن بہتر ہو اگر تم ان باتوں کا تاریخی پسِ منظر بھی جان لو۔ جیسی جاہل یہ قوم ہے ویسے ہی جاہل اور تاریخی حقائق سے نابلد ان کے لیڈر۔۔۔۔!!


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
73520