Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

گفتار کی غازی –  تحریر: اقبال حیات اف برغذی

Posted on
شیئر کریں:

گفتار کی غازی –  تحریر: اقبال حیات اف برغذی

قربانی بظاہر ایک لفظ ہے مگر جس واقعے نے اس لفظ کو  جلابخشا ۔اس پر تاریخ انسانیت نادان ہے۔ اس لفظ کو زبان پر لانے یا سنتے ہی وہ منظر ذہین کو جھنجھوڑتا ہے جب ایک باپ اپنے خواب کی تعبیر کو روبہ عمل لانے کے لئے اپنے معصوم لخت جگر کو زمین پر لیٹا کر تیز دھا رچھر ی اس کے گلے میں پھیرنے میں سرگرم عمل ہوتا ہے اور بیٹا اپنی معصومیت کے باوجود نہ خواب کی اہمیت پر سوال اٹھاتے ہیں اور نہ ماں کے ساتھ ان کی گود میں دودھ پینے کے عالم میں بے آب وگیاہ ریگستان میں اکیلے چھوڑنے پر شکوہ کنان ہوتے ہوئے خواب میں باپ کود ئے جانے والے حکم کی بجا آوری کے لئے نیازمندی کا وہ مظاہر کرتے ہیں جس پر عقل وخردکو حیرت ہوتی ہے اور باپ کے سامنے لیٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں شفقت پدری حائل ہونے کے احتمال کے تدارک کے لئے انہیں آنکھوں میں پٹی باندھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔اس کیفیت پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

وہ فیضان نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی

سکھایا  کس  نے  اسماعیل کو آداب فرزندی

 

بحرحال تعمیل ارشاد ربانی کا یہ عظیم منظر اس وقت قبولیت کے اعزاز زے سرفراز ہوتا ہے ۔جب باپ آنکھیں کھول کر چاقو کے وار سے ذبح شدہ دنبے کو تڑپتے اور فرزند ارجمند کو صحیح سلامت سامنے کھڑے ان کی طرف نظریں اٹھائے مسکراتے ہوئے دیکھتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام سے منسوب رب کائنات کے حکم کی بجا آوری کے اس انمول واقعے میں جہاں خالق کی اطاعت کا عنصر نمایا ن ہے وہاں حق فرزندی کی ادائیگی پر ان کے گلے میں پھیرنے کے لئے زیر استعمال چھری کو بھی حیرت ہوئی ہوگی۔

اس واقعے کے تناظر میں بحیثیت مسلمان آج ہم اپنے دینی احکامات کی ادائیگی کو حقیقت کی کسوٹی میں پرکھ کر دیکھنے لگے تو شاید شرم لفظ بھی اپنا سر نیچا کرتا ہوگا۔ والدین کی تابعداری کا تصور جہاں خواب کی حیثیت میں ڈھل گیا ہے۔ وہاں مالی استطاعت کے باوجود حکم خداوندی کی بجا آوری کرتے ہوئے ایک جانور کے گلے میں بھی چھری  پھیرنےکی توفیق نہیں ہوتی۔ حالانکہ اس عمل کو سرکار د و عالم صلی اللہ علیہ وسلم نماز دوگانہ کی ادائیگی کے لئے عید گاہ میں جانے سے مشروط کئے ہیں۔ اور یوں حسر ت ہوتی ہے کہ رنگ روپ میں دین سے مماثلت نہ ہونے کے باوجود سینہ تان کر خود کو مسلمان کہنے کا دعوی کرتے ہیں اوریہ کردار کی بجائے گفتار کے غازی ہونے کا تصور ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
75987