Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

گداگری کے جدید طورطریقے – محمدشریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

گداگری کے جدید طورطریقے – محمدشریف شکیب

کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائر پورٹ سے غیر ملکی نجی ائر لائنز کی پرواز ٹی جے 507 بنکاک روانگی کے لئے تیار تھی۔تمام مسافر اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔اس دوران ایک بھکاری طیارے میں داخل ہوا اور جہاز میں بیٹھے مسافروں سے اللہ کے نام پر کچھ دینے کی صدا لگانے لگا۔مسافروں کو بھی ایک لمحے کےلئے یوں لگا جیسے وہ جہاز میں نہیں بلکہ کورنگی جانے والی بس مین بیٹھے ہوئے ہیں۔طیارے میں بھیک مانگنے کا شاید دنیا میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا اورانوکھا واقعہ ہے۔فضائی میزبان سر پکڑ کر رہ گئے۔بھکاری سندھی زبان میں بھیک مانگ رہا تھا۔بھکاری کو.سمجھانے کے لئے ائیر ہوسٹس کی منت سماجت بھی کام نہیں آئی۔بھکاری نے بین الاقوامی پرواز پر جانے والےجہاز تک پہنچنے میں کئی سیکورٹی چیک پوائنٹس عبور کئے اور کسی کو پکڑائی نہیں دی۔

 

بھکاری نے سیکورٹی اہلکاروں کو بھی چکمہ دیدیا۔سول ایوی ایشن کے حکام نے معاملے کو دبانے کی کوشش کی مگرناکام رہے اور بات سوشل میڈیا کے ذریعے چند لمحوں میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔اس معاملے کا سنجیدہ پہلو یہ ہے کہ اگر ایک بھکاری تہہ در تہہ سیکورٹی حصار کو توڑ کر پرواز کے لئے تیار جہاز تک پہنچ سکتا ہے تو کوئی ہائی جیکر بھی آسانی سے یہ مراحل طے کر سکتا ہے۔اس لئے ہوائی اڈوں پر سیکورٹی کا نظام مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔اس واقعے کا دوسرا قابل غور پہلو یہ ہے کہ گداگری کے پیشے نےاتنی ترقی کی ہے کہ اب بھکاری گھروں پر دستک دینے، بازاروں میں خریداروں کا پیچھا کرنے، بسوں میں مسافروں کے جذبہ ہمدردی سے کھیلنے کے ساتھ جہازوں میں بھی بھیک مانگنے لگے ہیں۔بھکاریوں کی بھی کٹیگریاں بن گئی ہیں۔نچلی کٹیگری کےلوگ صبح سے شام تک فٹ پاتھ، بس سٹاپ،انڈر پاس اور فلائی اوورز کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کمالیتے ہیں۔

 

بیشتر بھکارن خواتین ایک ہی عمر ،شکل اور سائز کے بچے اٹھائے بازاروں میں خریداروں کے تعاقب میں رہتی ہیں۔اور اونچی کٹیگری کے بھکاری سرکاری دفاتر،ہائی فائی بسوں کے اڈوں اور جہازوں میں بھیک مانگنے لگے ہیں۔کہتے ہیں کہ گداگری سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔جو پرانے بھکاری ہیں ان کےبارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کئی کئی بنگلوں، گاڑیوں، پلازوں اور پلاٹوں کےمالک ہیں۔ملیر کراچی کے ایک بس سٹاپ کے قریب درخت کے نیچے ایک بھکاری بیٹھتا تھا۔ جنوری کی ایک یخ بستہ رات وہ سردی سے ٹھٹھر کر مرگیا۔ صبح لوگوں نے آکر اسے دفنانے کا انتظام کیا۔جب اس کی لاش اٹھائی گئی تو چٹائی کے نیچے ڈیڑھ لاکھ روپے پڑےتھے۔مزار قائد کےقریب ایک بھکاری کی دونوجوانوں سے تکرار ہورہی تھی۔بہت سے لوگ وہاں جمع ہوگئے۔انہوں نے شورشرابےکی وجہ پوچھی تو جدید لباس میں ملبوس دونوجوانوں نے بتایا کہ یہ بھکاری ان کے والد ہیں۔ دونوں بیٹے اعلی عہدوں پر فائز ہیں بنگلے، گاڑیاں اور کروڑوں کابینک بیلنس ہے مگر وہ بابا اپنا دھندہ چھوڑنے پرتیار نہیں ہورہا۔

 

بیٹے اسے گھر لےجانے کے لئے جدید ماڈل کی گاڑیوں میں آئے تھے مگر وہ ان کے ساتھ جانے کو تیار نہیں تھا۔ہمارے آس پاس بھی ایسے درجنوں بلکہ سینکڑوں لوگ نظر آتے ہیں جو بھیک کے مستحق نہیں مگر انہوں نے گداگری کو منافع بخش دھندہ بنارکھا ہے۔یہ لوگ بھیک کےمستحق لوگوں کا حق بھی مارتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ گداگری اب باقاعدہ کاروبار کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ جس میں بڑے بڑے سفید پوش بھی ملوث ہیں۔ یہ لوگ بچوں کو اپاہچ بنا کرفٹ پاتھوں پرلاکرچھوڑ دیتے ہیں اور شام کو انہین مخصوص ٹھکانوں میں پہنچا دیتے ہیں۔انہوں نے آپس میں مختلف علاقے تقسیم کررکھے ہیںاور ایک دوسرے کے مخصوص علاقے میں پر بھی نہیں مارتے۔ہر ٹھیکیدار کے پاس درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں بھکاری مرد،خواتین اور بچے ہوتے ہیں۔اور وہ ماہانہ کروڑوں روپے کماتے ہیں۔یہ مافیا کی شکل اختیار کرچکے ہیں مختلف ادوار میں حکومتوں نے انسداد گداگری کی مہمات بھی چلائیں، بھکاریوں کے لئے دارالکفالہ بھی بنائے مگر کسی بھکاری کو وہاں ٹھہرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔بھلا اپنی مفت کی کمائی کو کون احمق لات مار سکتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
79127