Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کہوار ادب ۔ تحریر: منیجر ظہیر الدین

Posted on
شیئر کریں:

کہوار ادب ۔ تحریر: منیجر ظہیر الدین

زمانہ قدیم میں اگرچہ کہوار زبان کا ادب تحریری صورت میں موجود نہیں تھا لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ زمانہ قدیم میں کہوار زبان کا دامن ادب سے خالی تھا۔ بلکہ زمانہ قدیم میں کہوار زبان کے ادب کا بیش بہا خزانہ موجود تھا جو صدیوں سے سینہ بسینہ چلے آرہے تھے۔ زمانہ قدیم میں کہوار زبان کے تحریر میں نہ آنے کی کئی وجوہات تھے۔ اُسی زمانہ میں چترال کے گردو نواح میں فارسی زبان رائج تھی اور لوگ فارسی لکھتے اور بولتے تھے۔ اس کے اثر سے چترال کے لوگ فارسی جانتے، بولتے اور لکھتے تھے۔ اس طرح فارسی کے ہوتے ہوئے کہوار لکھنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔

زمانہ قدیم میں چترال میں بڑے شعراء اور دانشور حضرات موجود تھے۔ ان کی اکثریت بلخ اور بخارا کے مشہور زمانہ درسگاہوں سے فارغ التحصیل تھے۔ انھوں نے ورثے میں جو یادگار چھوڑے ہیں وہ بھی فارسی زبان میں تھے۔ سب سے بڑی وجہ اسی زمانہ میں دو بڑے ملکوں افعانستان اور چینی ترکستان کے درمیان تجارت کا ایک بڑا سلسلہ جاری تھا۔ چترال ان دو بڑے ملکوں کے درمیان صدر دروازہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی معاملات، معاہدے، ووچرنگ کا کام، تجارتی مال کی منتقلی و تمام حساب کتاب چترال میں طئے ہوتے تھے اور یہ سارے معاملات فارسی میں لکھے جاتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود بھی کہوار زبان کا ادب ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ کہوار زبان کے ضرب المثال، محاورے، لوک گیت، لوک کہانی، مہماتی کہانیاں، مزاحیہ حکایتیں، مرثیہ، رومان، القابات اور نادر تشبیہات کہوار زبان کے ادب کا بیش قیمت شرمایہ ہیں۔میں اس کی مختصر مثالیں پیش کرتا ہوں۔ ضرب المثال: ہونار نِسی ریشٹو موڑتو بِک۔ یعنی ایک چھوٹی مصیبت سے نکل کر بڑی مصیبت میں گرفتار ہونا۔ محاورہ: توشو موژی شونج مشکیک۔ یعنی ناممکن کام کی تلاش میں سرگردان ہونا۔

لو ک کہانی: سوتیلی ماں کی سوتیلی بیٹی کے ساتھ ظلم کی داستان۔ آخر میں سوتیلی بیٹی کے ہاتھوں مجبور ہونا۔ سوتیلی بیٹی کی بہتر خدمات
مہماتی کہانی: اس میں دیو، پریوں اور بادشاہوں کے قصے شامل ہیں۔ اس کہانی میں یہ سبق دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان ایک خطرناک مہم میں کس طرح کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ ان کہانیوں میں دیو اور پریوں کے ساتھ انسانی تعلقات کا ذکر بھی آتا ہے اور یہ بھی ظاہر کرنے کی کوشش کی تئی ہے کہ کون سی مخلوق انسان دوست ہیں اور کونسی انسان دشمن۔ اپنے دوستوں کی دوستی برقرار رکھنے کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے اور اپنے دشمن کو زیر کرنے کے لیے اسے کونسا حربہ استعمال کرنا چاہیے۔

لوک گیت: کہوار زبان میں گیتوں کو باشاؤنو کہتے ہیں۔ ان گیتوں میں عشق و محبت کے اظہار کے علاوہ دوسرے موضوعات کو بھی لیا گیا ہے۔ اس میں چند نمونے درجہ ذیل ہیں۔

۱۔ لوری: جس میں مائیں اپنے معصوم بچوں کو سکون، آرام اور اطمنان دلانے کے لیے گاتی ہیں۔ ایک انتہائی خوبصورت دھن ہے۔
۲ لوک ژور: یہ گیت بیٹی کی رخصتی کے موقع پر گائی جاتی ہے۔ اس گیت میں بیٹی کی رخصتی کے موقع پر ماں کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ ان گیتوں میں جان دار اور بے جان چیز کے احساسات کا ذکر بھی بیان کیا جاتا ہے۔ ان میں ”شارو بشاؤنو“ یعنی مارخورکا گیت مشہور ہے۔ مارخور کا بچہ شکاری کو دیکھ کر اپنی ماں سے مکالمہ کرتا ہے اور شکاری آدمی کی نشاندہی کرتا ہے تو ماں اس کو تسلی دیتی ہے کہ وہ آدمی نہیں درخت ہے۔ پھر مارخور کابچہ شکاری کی بندوق دیکھ کر ماں کو بتاتا ہے کہ آدمی کے ہاتھ میں بندوق ہے۔ ماں کہتی ہے کہ اس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے بندوق نہیں۔مارخور سمجھتا تو ہے لیکن اپنے بچے کو تسلی دیتا ہے۔ پھر شکاری فائر کرتا ہے۔ ماں بچے کو تسلی دیتی ہے کہ یہ بندوق کی آواز نہیں پہاڑ کی گونج ہے۔ پھر مارخور کو گولی لگنے سے سینہ میں خون بہتا ہے۔پھر بھی اپنے بچے کو تسلی دیتا ہے کہ یہ خون نہیں بلکہ گرمی کی وجہ سے پسینہ ہے۔ اس طرح مارخور اپنے بچے کو تسلی دیتے دیتے مرجاتا ہے۔

مرثیہ: شوہر بیوی کی موت پر، ماں بچے کے غم میں یا بہن بھائی کے ماتم میں یا کسی دوست دوست کی جدائی پر گاتے ہیں۔

رومان: رومان کا مطلب عشق و محبت کی داستان ہے۔ کہوار آداب میں رومان کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ کئی رومان موجود ہیں۔ مثلاًشھزادہ تجمل شاہ محوی کا رومان۔ محمد سیر کا رومان، آمان کا رومان، گل آعظم خان کا رومان، شھزادہ بیغش کا رومان، دوستی کا رومان، سمندر کا رومان، شھزادہ فخر کا رومان، بابا ایوب کا رومان، چرویلو خان کا رومان، ڈوک یخدیز کا رومان، بلبل چترال امیر گل امیر کا رومان، شیر ملک کا رومان، چرویلو مستوج اور کہقباد مستوج کا رومان، رحمت اکبر خان رحمت کا رومان اور کئی رومان موجود ہیں۔ مختصر طور پر دو رومان کا ذکر کرتا ہوں۔

محمد سیر کا رومان: محمد سِیَر بن دوست محمد لال کا تعلق چترال کے ایک خوبصورت گاؤں شوگرام سے تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں اپنے والد کے زیر سایہ حاصل کی۔ بعد میں علاقہ بروز چترال جاکر ایک جید عالم دین سے علم حاصل کی۔ اس کے بعد ہندوستان چلا گیا اور ناصر علی سرہندی سے اپنے اشعار کی اصلاح کرتے رہے اور مزید تعلیم حاصل کرتے رہے۔پھر مزید تعلم حاصل کرنے کے لیے بغداد، بخارا، سمرقند وغیرہ ملکوں میں جاتے رہے۔ سیر و سیاحت کے بھی دلدادہ تھے۔ شاہنامہ سیر اور دیوان سیر ان کی تصنیفات ہیں۔ محمد سیر مشہور جنگجو، شاہسوار، موسیقار، شاعر اور مشہور ماہر تعمیرات تھے۔ ان کا رومان بھی چترال کے خاص وعام میں بے حد پسند اور مقبول ہے۔ محمد سیر چترال کے ایک خوبصورت گاؤں ریشن میں ایک حسینہ کے عشق میں دل و جان سے گرفتار ہوئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کسی دوسرے آدمی کی بیوی ہے۔ اس وجہ سے محمد سیر کافی عرصہ تک ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوئے۔ ایک طرف دل کے ہاتھوں اور دوسری طرف ضمیر کی ملامت کے اس کشمکش میں محمد سیر کی زندگی کی راہیں بدل گئیں۔ اس کا عشق مجازی سے نکل کر عشق حقیقی میں تبدیل ہوگیا اور اپنا فلسفہ اس طرح بتایا۔
شویو صحبتو سار دی دودیریو زنہار مہ بوخوش
آلتی پیشمان بکو سار نو آلتی ارمان مہ بو خوش

اس طرح اپنے محبوب کے عشق میں شعر کہتا اور تڑپتا رہا مگر اپنے محبوب کو اپنانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ انکے رقیب یعنی دوست کے شوہر نے محمد سیر کو طرح طرح کے آزمائیشوں میں ڈالنے کی کوشش کی مگر محمد سیر ان تمام آزمائشوں میں کامیاب و کامران ہوئے۔

ڈوک یخدیز کا رومان: زمانہ قدیم میں چترال سے لوگ قلعوں کی رکھوالی کرنے کے لیے گلگت جایا کرتے تھے۔ اسی سال ان قلعوں کی رکھوالی کرنے والوں میں تورکہو کھوت یخدیز کا ایک نوجوان بھی شامل تھا جو ورشگوم قلعہ کی نگرانی پر مامور تھا۔ قلعہ کی نگرانی کے دوران یخدیز کا نوجوان اچانک ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہوا اور واپس آنے کے قابل نہیں رہا۔ اس وقت گلگت کو جانے والی سڑکیں انتہائی خطرناک تھے۔ گھوڑے پر سوار ہوکر بھی چلنا مشکل تھا۔ دشوار گزار پہاڑی راستے تھے۔ تورکہو کھوت یخدیز کا نوجوان بیماری کی حالت میں ورشگوم گلگت میں پڑے رہے۔ ان کے گھر والوں کو چھ سالوں تک ان کی خیریت کی کوئی خبر نہیں آئی۔ ان کے سسرال والوں نے بھی یہی سمجھا کہ وہ مرچکا ہے۔ ان کی بیوی کی دوسری شادی کے بارے میں سوچنے لگے۔ ان کی بیوی شوہر کی جدائی میں پہلے سے ہی بہت غمگین اور افسردہ تھی دوسری شادی کی باتیں سن کر اور بھی زیادہ پریشان ہوگئی مگر اس بیچاری کی بات کون سنتا تھا۔ شادی کی تاریخ مقرر ہوئی۔ اس خاتون کو یقین تھا کہ میرا شوہر زندہ ہے وہ ضرور گھر آجائیں گے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ نوجوان بھی صحت یاب ہوکر گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ چھ سال بعد عین رسم نکاح سے تھوڑی دیر پہلے وہ نوجوان اپنے سسرال پہنچ گئے اور شادی کے سلسلے میں آنے والے مہمان شرمندگی کے عالم میں اپنے گاؤں واپس چلے گئے۔ یوں چھ سالوں بعد بچھڑے ہوئے میاں بیوی ایک دوسرے سے مل گئے۔

تشبیہات: کہوار گیت اپنے ماحول کے پیداوار ہیں۔ ان گیتوں میں چترال کی قدرتی مناظر کا حسن اور سادگی ہے۔ خیالات اور جذبات میں برفانی چشموں کی بے ساختگی اور پاکیزگی، لہلہاتے ہوئے کھیتوں کی دلکشی اور فلک بوس پہاڑوں کی وسعت اور خوبصورت پرندوں اور پھولوں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
القابات: محبوب کو مہ ژان یعنی میری جان، مہ ہردیو باتین یعنی میرے دل کے ٹکڑے، میر ژوری یعنی پری زاد کے لقب دیتے ہیں۔
رب کائنات سے دعا ہے کہ ہمارے اہل قلم اور دانشوروں کو کہوار زبان کے ادب کی ترقی کے لیے کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
67371