Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کالاش قبیلے کے حوالے سےایک دلچسپ انکشاف ……… محمدآمین

شیئر کریں:

کالاش لوگ اپنے منفرد ثقافت کے لحاظ سے دینا میں ایک ممتاز مقام رکھتے ھیں یہ قبیلہ صرف ضلع چترال کے تین وادیون بمبوریت،بریر اور رمبور میں رہتے ہیں اور ان کی تعداد کم ہوکر تقریبا تین ہزار تک محدود ہوگئی ھے اور کسی زمانے میں ان کی حکومت چقانسرائے سے لیکر مستوج تک پیھلی ھوئی تھی ۔ان کے رہین سہن اور رسومات دینا کے تہذیبوں کے ماہرین اور محقیقن کے لیئے ایک معمہ سے کم نیہں اور وہ اس سلسلے میں مختلف قیاس ارائیان اور مفروضے پیش کیےھیں۔اس سلسلے میں چند مفروضے جو نہ صرف چترال بلکہ پاکستان سے باہر بھی قابل توجہ یہ ہیں

ایک روایت یہ ھے کہ وہ سکندر اعظم کے نسل یعنی یونان سے ھیں کیونکہ جب سکندر اعظم نے 26/327 قبل مسیح افغانستان پر حملہ کرکے ھندوستان میں داخل ھوا تو طویل جنگ و فتوحات کی وجہ سے اس کے فوج کے بہت سے سپاھی تھک کر ادھر اٰدھر بھٹک گئے اور ھوسکتاھے کہ ان میں بعض موجودہ چترال میں داخل ھوکر رہائش پذیر ھوئے۔اس لحاظ سے قیاس کی جاتی ھے کہ کلاش لوگوں میں بھوڈاڑاک اور افلاطون کے تخیلاتی ریاست (Utopian Sate) کے فلاسفر بادشاہ میں بہت مماثلت ھے جو ریاست کی فلاح کے خاطر شادی نہ کرنے کا پابند تھا یہ نظریہ (communism of wives and property ) پر مبنی تھا جو عملی طور پر ناممکن تھا نیز ان دونون نسلون میں رنگت کی یکسانیت کو بھی اہمیت دی جاتی ھے ۔اس مفروضے کا بانی انگریز محقیق سر جارج سکاٹ ربرٹسن Sir George Scot Robertson )) نے 1880ء کے دہائی میں اپنی کتاب (Kafirs of the Hindu Kush) میں کہا تھا کہ میرا گمان ھے یہ سکندر اعظم کے نسل سے ھونگے۔دوسرا روایت یہ ھے کہ کلاش (سیاہ پوش) لوگ سیام موجودہ تھائی لیںڈ سے ائے تھے اور پہلے زمانے میں جب کوئی قدرتی آفات واقع ھوجاتے تو وہ اپنے دیوتاوں سے ناراض ھوکر سیام کی طرف ھجرت کرتے تھے۔ تیسرا مفروضہ روسی سیاح بیل Beal`s travels of Buddhism) کا ھے جن کا دعویٰ یہ تھا کہ سیاہ پوش لوگ سلو(Slav) نسل سے ھیں اور زر( Czar) روس کے رعایا ھیں۔

لیکن انگریزمصنف اور سیاح کرنل جان بڈالف (Col.John Bidulph) جو کہ 1878ء میں چترال ایا تھ اور برٹش گورنمنٹ میں پولیٹیکل ایجنٹ تھا اپنے مشہور کتاب (Tribes of Hindoo Koosh) میں کلاش قبیلے کے معتلق نہایت دلچسب واقعہ بیان کیاھے۔ان کے مطابق کلاش لوگ دراصل اریان نسل سے ھیں اور یہ لوگ قدراتی اثرات کے پس منظر اپنے ابتدائی اور قدیمی حالت میں رھتے ھیں جو کہ قبل از مسیح سے سے بھی بہت پہلے تھی۔
جا ن بڈالف کے مطابق سیاہ پوش لوگ اپنے قدرتی ماحولیاتی تبدلیوں کی بناء پر تین الگ قبیلوں میں منقسم ھیں۔ان میں ایک قبیلہ رگمالی یا لوگمالی ھے اور یہ علاقہ ھندوکش کے شمال مغرب کے سمت نیچے اتے ھوئے کابل کے افغان قبلے سے ملتی ھے۔ اور لقمان کے لوگ غالبا اسی نسل سے ہیں۔دوسرے سیاہ پوش لوگ وایگالی ہیں جو ہندوکش کے شمال مشرق کی طرف پیھلے ہوے واد یون میں اباد ہیں اور یہ علاقہ چقانسرا میں وادی کنار سے ملتی ھے۔اور تیسرے قسم بشگالی ہیں جو اگے مزید شمال کی طرف اباد ھیں اور ان کا علاقہ بریکوٹ میں کنار ویلی سے ملتی ھے۔

ان بڑے قبائل کے علاوہ ان کے چھوٹے الگ قبلے ھیں جیسا کہ کلاش جو چترال مییں رہائش پذیر ہیں خداخال کے لحاظ سے یہ اعلی قسم کے آریان ذات تعلق رکھتے ھیں۔ان کی مردوں کا واحد مشغلہ جنگ اور شکار ھیں جبکہ زراعت کی تمام زمہ داری عورتوں کے کندھوں پر ہیں۔سیاہ کپڑے جو سیاہ پوش لوگون کی نمایان امتیاز تھے مختلف قبائل میں مختلف طریقوں سے پہنے جاتے تھے ۔کلاش لوگ بھی اسی قسم کے نیم استین والے ڈرس پہنتے تھے ۔۔کلاش خواتین سر پر کوری(cowries) سے بھری ٹوپی استعمال کرتے ہیں ۔جبکہ سر پر خوبصورت موتیون سے بھری فیتے (Lappets) استعمال کرتے ہیں جو اج بھی دیکھنے والوں کے لئے بڑی دلچسپی کا باعث بنتے ھیں۔

روایت کے مطابق سیاہ پوش قوم تین بھایئوں میں سے ایک کے اولاد ہیں جن میں سے دو اسلام قبول کرچکے تھے جبکہ تیسرا بھائی جس کا نام کورئشے ((Korshye تھا اس نے اسلام قبول نیہں کیا ۔اس بنیاد پر بعض مسلمان ان کے بارے میں یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ یہ لوگ عرب کے قریش کے نسل سے ہیں جو کسی زمانے میں اکر اس علاقے میں اباد ہو چکے تھے۔لیکن اس چیز میں میں کوئی صداقت نیہں ھے البتہ یہ روایت کہ وہ کسی زمانے میں ایک وسیع و عریض علاقے کے مالک تھے صحیح بھی ھو سکتی ہے۔اور اس میں کوئی شبہ نیہں ہے کہ سیاہ پوش نسل کے کلاش قوم کسی زمانے قشقر کے جنوبی حصے میں اسمار سے لیکر موڑکہوکے بلائی علاقون تک قابض تھے۔

سیاہ پوش لوگوں کی مذہب کے حوالے سے کرنل بڈالف ایک دلچسب نظریہ بیان کرتا ھے کہ ان لوگون کی مذہب پرانے وید ( Vedic) کی ایک خام قسم ھے اور یہ لوگ امبرا (Ambra) کے نام سے ایک بڑے دیوتا (Supreme Being) کی پرستش کرتے ہیں اسکے بعد پیغمبر مانی( Mani )کا رتبہ ھوتا ہے۔اس کو امبرا کا بیٹا بھی کہا جاتا ہے جو کسی زمانے میں زمین پر رہتا تھا اور اب بھی وہ انسانوں کے عمل کے لئے امبرا سے براہ راست رابطے میں ہے۔سیاہ پوش لوگ امبرا کی پرستش کے لئے تراشے ھوئے بتون کی جگہ پھتروں کو علامات کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔آمبرا اور مانی برہمن کے اندرا ( Indra) اور مانو( Mannu) سے یکسانیت رکھتے ہیں۔ان سے نیچے درجے کے لحاظ سے لگ بھگ اٹھارہ ہزار چھوٹے بڑے دیوتے موجود ہیں۔مثال کے طور پر گیجی جس کے بارے میں یہ مشہور مقولہ ہے کہ اس نے اسلام کے ہیرو جناب آمیروالومینین علی ابن ابی طالب کے ساتھ لڑا تھا اور تب سے سیاہ پوش اور مسلمانوں کے درمیان جنگ جاری رھا ھے۔اس کے بعد بیگیج کا نام اتا ھے جو دریاون کے دیوتا ھونے کے ساتھ مال مویشیون پر بھی کنٹرول حاصل ھے۔اس کے بعد اھم دیوتاون میں پروزی،ڈوجی، پوراتھیک (بارباتی )،اروم،میریر،کرومائے،سرانجی اور ویتر شامل ھیں۔

کرنل بڈالف کے مطابق سیاہ پوش شکاری کتے،مال مویشی وغیرہ بڑے شوق سے پالتےہیں ان کی زرعی پیداوار کوالٹی کے باعث ہمسایوں میں بڑی مانگ کے ھوتے ہیں۔ان لوگون کی ایک نمایان رواج چمڑے کے اسٹول (stool) کا عام استعمال ھے جو ان کے علاوہ کسی دوسرے ایشیائی اقوام میں نیہں پاتی ھے۔ہر قبیلے کا ایک سربراہ ہوتا ھے جس سے جوشت (Jusht) کہاجاتا ھے اور تمام معاملات میں اس کا رائے شامل ھونا ضروری ھوتا ھے۔

کرنل جان بڈالف سیاہ پوش لوگون کے ثقافت کے بارے میں بھی لکھتا ھے،، کہ یہ لوگ ناچ گانے کے بڑے شوقین ھوتے ہیں موسیقی میں دو ڈرام اور ایک کمزور نوعیت کی بانس کا بانسری استعمال ھوتا ہے۔ایک یا دو کی بجائے محفل میں موجود ہر مرد اور عورت ناچ میں اکھٹے حصہ لیتے ہے۔جب کوئی سیاہ پوش انتقال کرلیتا ھے تو دفنانے سے قبل سارے لوگ جلوس کی شکل میں اس کی لاش کو اٹھاکر چلتے ہیں اور ناچتے گاتے ھیں اس موقع پر شامل لوگوں کو لذیذ خوراک پیش کیے جاتے ہیں،،۔یہ رواج تمام سیاہ پوش اقوام میں پائے جاتے تھے اور کلاش جو سیاہ پوش نسل سے تعلق رکھتے ھیں ان میں یہ رسومات اب بھی عام ہے لیکن دوسرے بڑے شاخین اسلام قبول کرنے کے بعد انیہں چھوڑ دیے ھیں۔

المختصر کالاش لوگوں کے حوالے سے کرنل جان بڈالف کا پیش کردہ مٖفروضہ نہایت دلچسب اور قابل غورو فکر ھے۔اگر تاریخ کا بھی مطالعہ کیا جائے تو دری لوگ جو گلگت بلتستان،چترال اور بدخشان کے علاقوں میں اباد تھے اور قدیم آریانی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔وقت اور حالات کے ساتھ اپنے ( primitive) تہذیب اور ثقافت کو ختم کرچکے ہیں اور ہو سکتا کلاش لوگ ان ابتدائی ثقافت سے تمسک رھے ھیں۔(واللہ اعلم)
kalash festival Ochaw concluded here in Chitral 4


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
26321