Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کرپشن کے خاتمے کا خواب……. محمد شریف شکیب

شیئر کریں:


حکومت نے نیب قانون میں بڑی تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کرلیاہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق نیب ایک ارب روپے سے کم مالیت کے کرپشن مقدمات کی تحقیقات نہیں کر سکے گا۔مجوزہ نیب آرڈیننس کے بعد چیئرمین نیب کے اختیارات اعلیٰ سطحی کمیشن استعمال کرے گا۔ضمانت کے معاملات کی سماعت کے اختیارات بھی نیب عدالتوں کو دئیے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق نئے ترمیمی آرڈیننس سے قبل سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔ارباب اختیار کے ذہنوں میں نیب قانون میں ترمیم کے مقاصد بلاشبہ واضح ہوں گے۔ہماری سمجھ میں صرف اتنی بات آتی ہے کہ نیب قوانین میں سقم ہونے کی وجہ سے حکومت کرپشن کرنے والی بڑی مچھلیوں سے اب تک وصولیاں نہیں کرپائی ہے۔ بڑی مچھلیوں کی کرپشن اربوں کھربوں میں ہے جن کی وصولی کے بغیر احتساب کا نعرہ بے معنی ہوکررہ گیا ہے۔حکومت نے سابق صدر آصف زرداری پر کرپشن کے کئی مقدمات بنائے ہیں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان پر کرپشن، منی لانڈرنگ، بیرون ملک اربوں روپے کے اثاثے بنانے، آف شور کمپنیاں قائم کرنے اور اقامہ ہولڈر ہونے کے الزامات ہیں کرپشن کے مقدمات میں مطلوب یہ ملزمان کئی مہینوں سے نیب کی حراست میں اور سلاخوں کے پیچھے ہیں ان میں سے بعض علاج کے بہانے بیرون ملک چلے گئے ہیں حکومت چاہتی ہے کہ نیب قوانین میں موجود سقم دور کرکے سنگین بے قاعدگیوں کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ حکومت نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ایک ارب سے کم کی کرپشن قابل معافی ہوگی یا یہ مقدمات عام عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔قومی امانت میں خیانت چاہئے دس ارب روپے کی ہو یا دس ہزار روپے کی، خیانت بہرحال خیانت اور کرپشن کرپشن ہوتی ہے۔ جن لوگوں کو دس بیس کروڑ کی کرپشن کا موقع ملا۔وہ دس ارب کی کرپشن نہیں کرسکتے تھے۔جس کی جتنی حیثیت ہوگی وہ اس قدر ہی کرپشن کرسکے گا۔ قومی احتساب بیورو کے ریکارڈ سے صاف ظاہر ہے کہ ایک ارب سے زائد کی کرپشن کرنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے جبکہ ایک لاکھ سے ننانوے کروڑ تک کی کرپشن کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں، بلکہ لاکھوں میں ہے۔ ان کی کرپشن کی مجموعی تعداد بھی کھربوں روپے کی بنتی ہے۔اگر ایک ارب روپے مالیت سے کم کرپشن پر کوئی سزا نہیں ہوگی تو چھوٹے پیمانے پر کرپشن کرنے والوں کو مزید شہ مل جائے گی اور بدعنوانی کو جڑوں سے ختم کرنے کا خواب بس خواب ہی رہ جائے گا۔اگر نیب قوانین میں ترمیم کرنی ہے تو نیا قانون ایسا ہونا چاہئے کہ معلوم وسائل سے زیادہ اثاثے بنانے والوں کے خلاف ریفرنس تیار کرکے احتساب عدالتوں میں دائر کیا جائے اور نیب کو بدعنوانی ثابت کرنے کا ذمہ دار قرار دینے کے بجائے ملزم پر یہ ذمہ داری ڈالی جائے کہ وہ زائد اثاثوں کو قانونی اور جائز ثابت کرے اگر وہ ثابت نہیں کرسکا تو اس کی مالی حیثیت سے زائد تمام اثاثے بحق سرکار ضبط کئے جائیں اور کرپشن کا الزام ثابت قرار دے کر ملزم کو دس پندرہ سال کے لئے جیل میں ڈال دیا جائے۔جن لوگوں نے اپنی محنت کے بل بوتے پر دولت جمع کی ہے لوگ ان کو اچھی طرح سے جانتے ہیں اور ان کی معاشرے میں عزت بھی ہے۔ جن لوگوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بے حساب دولت جمع کی ہے وہ ہر صورت میں قابل محاسبہ ہیں خواہ انہوں نے ننانوے کروڑ کی کرپشن کی ہے یا دو تین سو ارب روپے ڈکار لئے ہیں۔ہمارے معاشرے میں ایسے ٹٹ پونجیئے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں جنہوں نے عوامی نمائندگی یا سرکاری عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے چند سالوں میں کروڑوں کی جائیدادیں بنائی ہیں۔ان لوگوں کو سرکار بھی خوب جانتی ہے احتساب بیورو والوں کو بھی ان کے بارے میں بخوبی علم ہے اور عوام بھی ان کے کل اور آج کی حیثیت سے واقف ہیں۔وزیراعظم عمران خان کی دلی خواہش ہے کہ معاشرے سے کرپشن کا جڑ سے خاتمہ ہو۔ لیکن ان کے رفقاء دانستہ طور پر انہیں اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں الجھا کر کنفیوز کرنا چاہتے ہیں کیونکہ بلاامتیاز احتساب ہوگا تو بڑے بڑے پردہ نشین بھی بے نقاب ہوجائیں گے۔ بظاہر دیندار، صوم و صلواۃ کے پابند اور ہاتھوں میں چوبیس گھنٹے تسبیح پکڑے لوگ بھی حلق تک کرپشن کے دلدل میں ڈوبے نظر آئیں گے۔حکومت لاکھ کرپشن میں کمی لانے کا دعویٰ کرے۔زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ضلعی انتظامیہ، پولیس، کسٹم والے، واپڈا اور سوئی گیس والے، محکمہ تعمیرات، پبلک ہیلتھ، محکمہ صحت، محکمہ تعلیم، ای او بی آئی سمیت تمام سرکاری اداروں میں کرپشن کا دور و دورہ ہے۔صرف بڑی مچھلیوں کا شکار کرنے سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔ کرپشن سے نفرت کے لئے قومی سطح پر منظم مہم چلانے کی ضرورت ہے کرپٹ لوگوں سے جب تک سماجی فاصلہ نہیں رکھا جائے گا اور انہیں چور چور کہہ کر نہیں پکارا جائے گا اور جب تک دو چارسو قومی چوروں کے ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے کرپشن ختم کرنا دیوانے کا خواب ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
34846