Chitral Times

Jun 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کاکونکائے کی رات – عبدالکریم کریمی

شیئر کریں:

کل کا دن اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ گزر رہا تھا۔ ایمت بیس کیمپ کے برآمدے میں بیٹھے میں اس دلآویز گاؤں کی خوبصورتی میں کھویا تھا۔ ایمت جہاں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے بے مثال ہے وہاں اپنی گوناگونی اور تکثیریت کی وجہ سے بھی مشہور ہے کہ اس گاؤں میں نو زبانیں بولنے والی مختلف النسل قومیں بستی ہیں۔ قدیم زمانے میں ایمت گورنر اشکومن کی قیام گاہ بھی تھا۔ مشہور ہے کہ میر علی مردان خان جب واخان سے ہجرت کرکے اشکومن میں آباد ہوئے تو واخان سے ان کی رعایا کا ایک وفد ان سے ملنے ایمت آیا۔ میر صاحب کو سبزی اور سلاد کھاتے ہوئے دیکھ کر وہ حیران ہوئے اور واپس واخان جاکے کہنے لگے کہ اشکومن کا راجہ گھاس کھاتا ہے۔ سبزی اور سلاد کھانے کا رواج آج بھی ایمت میں باقی ہے۔ آپ کو دسترخواں پر کھانے سے زیادہ مختلف قسم کے سلاد کھانے کو مل جائے گا شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ خوبصورت اور تندرست ہیں۔ ایمت میں گزرے خوبصورت ایام کے بارے میں یا یوں کہئے یہاں کی ڈھلتی خمار آلود راتوں کے بارے میں پھر کبھی بات ہوگی۔ آج ہم کاکونکائے میں گزری رات اور اس سے جڑی دیگر باتوں کا تذکرہ کرنے چلے ہیں۔ 


ایمت میں یہ میرے آفیشل دورے کا چھٹا دن تھا، آج کاکونکائے جانا تھا۔ کاکونکائے کے نام کے بارے میں دیومالائی قصے مشہور ہیں کہ اس نالے میں ایک دیو اپنی بہن کے ساتھ رہتا تھا۔ بہن بھائی ایک دوسرے کو کاکو اور کائے کے نام سے پکارتے تھے، یوں بہن بھائی کے یہ الفاظ کاکو اور کائے کاکونکائے بن گئے اور اس گاؤں کا نام ہی کاکونکائے پڑ گیا۔ خیر اس نام کی وجہ تسمیہ کچھ اور بھی ہوسکتی ہے۔ اب اس گاؤں کا نیا نام شمس آباد ہے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے آغا خان ایجوکیشن سروس کا ایک آفیسر پہلی بار پا پیادہ اس گاؤں کی یاترا کو پہنچے۔ آفیسر کا نام بلبل جان شمس تھا، وہ ہمارے بزرگ دوست بھی ہیں۔ لوگوں نے ان کی تعلیمی خدمات کو سراہتے ہوئے اس گاؤں کا نام ان کے نام سے منسوب کرکے شمس آباد رکھا۔ 

chitraltimes kakonkai visit karimi 3


میرے ہمسفر تھے دیدار شاہ بھائی۔ دیدار بھائی میرے پھوپھی زاد ہیں۔ ان سے محبت کا سلسلہ کافی پُرانا ہے۔ یہ سنہ دوہزار تین کی بات ہے۔ جب پہلی بار تعلیم کے حصول کے لیے شہر قائد جانے کا تہیہ کیا تو کراچی میں دیدار بھائی کی محبت نے مجھے کچھ وقت وہاں خیمہ زن ہونے کا حوصلہ دیا ورنہ والدین کے اکلوتے چشم و چراغ اور چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی کے لیے ایک لمحہ بھی گھر سے دور رہنا محال تھا۔ کراچی میں دیدار بھائی کی محبت نہیں ہوتی تو شاید میرے وہاں گزرے تین مہینے قید تنہائی کا منظر پیش کرتے۔ یہ پردیسی بھی کیا چیز ہے کہ ماں باپ اور بہنیں تو ٹھہریں ایک طرف، گاؤں کی گلیوں کی بھی یاد ستانے لگی۔ کراچی کے میرے شب و روز ذیشان مہدی کے ان اشعار کی ترجمانی کر رہے تھے؎


پردیس میں گھر یاد جب آیا تو میں رویااحساسِ جُدائی نے ستایا تو میں رویاگاؤں کی کسی صبح کا یا شام کا جب بھیآنکھوں میں کوئی نقش سمایا تو میں رویاخط ہی سے تو ملتی تھی میرے دل کو تسلیجب دوست کا خط دیر سے آیا تو میں رویاوہ کھیل، وہ جھگڑے، وہ ستانا، وہ منانااس دیس میں ان سب کو نہ پایا تو میں رویا”ذیشان! ترے بِن میں بھلا کیسے جیوں گی”کل ماں نے مجھے خواب دکھایا تو میں رویا


پردیس میں ہمارے رونے کی خبر بھی غالباً دیدار بھائی کو معلوم پڑی تھی کہ انہوں نے ہمیں واپس گاؤں چھوڑ کر ہی ہمارے دکھوں کا مداوا کیا تھا۔ آج کئی سالوں بعد پھر وہی دیدار بھائی کی قربت ملی تھی۔ دیدار بھائی نفیس طبیعت اور اعلیٰ اقدار کے ایک محبت کرنے والے انسان ہیں۔ اب ہم تھے، دیدار بھائی کا ساتھ تھا، ہماری گاڑی تھی اور کاکونکائے کی چڑھائی تھی۔ شام کے سائے کے ساتھ ہم بھی کاکونکائے پہنچے تھے۔ ایمت سے صرف پندرہ کلومیٹر کی دوری پر پینتالیس گھرانوں پر مشتمل یہ گاؤں فلک کی آغوش میں کچھ ایسا پُرسکون تھا جیسے کوئی شرارتی بچہ کھیلتے کھیلتے ماں کی آغوش میں ہوتا ہے۔ مجھے یہاں کے لوگوں کے اس اطمینان کو دیکھ کر سقراط یاد آگئے تھے۔ انہوں نے بڑے پتے کی بات کی تھی:
“جو شخص روکھی سوکھی کھا کر بھی مطمئن رہتا ہے وہ سب سے زیادہ دولت مند ہے، کیونکہ اطمینان فطرت کی سب سے بڑی دولت ہے۔”

chitraltimes kakonkai visit karimi 5


کاکونکائے والے اطمینانِ قلب کی اس دولت سے مالامال تھے۔ ہم جس گھر کے مہمان بننے والے تھے اس کے مکین نیچے نالے کے دامن میں کسی کام میں مصروف تھے۔ دیدار بھائی کو وہاں چھوڑ کر میں ان کی تلاش میں نشیب کی طرف گیا۔ اب میں جہاں کھڑا تھا وہاں سے جہاں گھر کے مکین نظر آ رہے تھے وہاں باج گوز نالے کا پانی نشیب میں ایسے بہہ رہا تھا جیسے کوئی عاشق اپنے معشوق کے عشق میں اُداس اور بوجھل قدم اٹھاتا ہے۔ حبیب بھائی نے ایسے ہی کسی منظر کی خوب منظرکشی کی ہے۔ کہتے ہیں؎
کچھ دن ہوئے ہیں پانی وہ لینے نہیں گئیکوئی اُسے بتائے کہ دریا اُداس ہے
آسمان کو اتنے قریب سے شاید پہلی بار دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ عرشِ برین اور یہاں کی جنت زمین کا یہ منظر دلآویز تھا۔ جمشید دکھی بھائی نے خوب کہا ہے؎


بس آسماں زمیں کے لپٹنے کی دیر ہےبوس و کنار پیار کا شاید اِرادہ ہے
میں بُت بنا نہ جانے کب تک اس منظر میں کھویا رہتا۔ گھر کے مکینوں نے میرا ہاتھ تھاما۔ ہم گھر کی اور چلے گئے۔ مٹی سے بنے صاف ستھرا گھر اور اسے کئی زیادہ من کے اُجلے اور صاف ستھرے مکین ہماری سیوا میں لگ گئے تھے۔ ظاہری طور پر غریب اور من کے امیر مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر رہے تھے کہ دُنیا میں غریب نہیں ہوتے تو شاید محبت نہ ہوتی۔ 


اس گاؤں کی اخلاقی اقدار کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ مرشد سے جڑے رہنے کا کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ کسی نے بڑۓ پتے کی بات کی ہے:
“حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جس راستے سے دریا پار کیا تھا، فرعون اسی راستے پر غرق ہوا۔ راستے نہیں بچاتے راہبر اور مرشد بچاتے ہیں۔”
مرشد سے تعلق کا تذکرہ ہوا تو مولانا رومیؒ یاد آگئے۔ مولانا رومیؒ نے “تعلق” کی خوبصورت تشریح بارش کے قطرے سے کی ہے۔ فرماتے ہیں:


“بارش کا قطرہ صاف ہاتھوں پر گرے تو پینے کے قابل بنتا ہے۔ گٹر میں گرے تو پاؤں دھونے کے قابل نہیں ہوتا۔ گرم سطح پر گرے تو بخارات بن کر غائب ہوجاتا ہے۔ لوٹس کے پتے پر گرے تو موتی کی طرح چمکنے لگتا ہے۔ سیپی کے اندر گرے تو موتی بن جاتا ہے۔ قطرہ وہی ہے فرق صرف یہی ہے کہ اس کا تعلق کسے رہا۔”
میں مرید و مرشد کے اس تعلق کی بقا کے لیے دُعاگو ہوں۔


کاکونکائے کی رات ڈھل رہی تھی، نیلگوں آکاش سے چکمتے ستارے، تاربوٹ نالے کی سرد ہوائیں اور نیچے نشیب میں بہتا باج گوذ کے ٹھنڈے ٹھار پانی کی آوازیں ایک عجیب سرشاری طاری کر رہی تھیں۔ اس خوبصورت احساس کے ساتھ نہ جانے کب نیند کی دیوی نے اپنی آغوش میں لی۔ صبح جب دیدار بھائی نے مجھے جگایا، تو میرے خواب کا تسلسل ٹوٹ رہا تھا۔ ان خوابوں کی بھی کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔ کیا کیا دکھاتے ہیں، کس کس سے ملاتے ہیں اور کس کس سے جُدا کر دیتے ہیں، میری حالت کہوار کے اس شعر کے مصداق تھی؎
ای بس جو بس بیرائے نغمہ سرائیہتے سوم عمرا پت درونگار جُدائی


یوں کاکونکائے میں گزری رات اپنی انجام کو پہنچی۔ ناشتے کے بعد ہم نے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا اور واپسی کی راہ لی۔ مجاور میں ریور ویو گیسٹ ہاؤس کے منیجر دولت علی ہماری راہ تک رہے تھے۔ ریور ویو گیسٹ ہاؤس کے صحن میں جہاں قرمبر جھیل کی کھوک سے نکلتے دریا کا نظارہ ہماری آنکھوں کو تراوت بخش رہا تھا وہاں دولت علی کی مہمان نوازی اور ان کی نمکین چائے ہماری تھکاوٹ دور کرنے کے لیے کافی تھی۔ آپ کو پیاس ستائے، بھوک لگے اور تھکن سے بدن چور ہو، ایسے میں خوش گاؤ کے گوشت کا کباب ہو، وخی تاجکی نمکین چائے ہو، گرم گرم دیسی روٹیاں ہوں اور میزبان سراپا محبت ہو تو بندے کی زبان سے اس آیہ کریمہ کا ورد جاری ہونا اچھنبے کی بات نہیں۔ ارشاد ہے:
فبای الاء ربکما تکذبان! 


یکے از تحاریر: عبدالکریم کریمی٢٩/ ستمبر ٢٠٢١ءایمت اشکومن غذر


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
53115