Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ڈگری برائےفروخت….. پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

بلاشبہ ترقیاتی سکیمیں علاقے کی ترقی کی ضامن ہیں۔موجودہ حکومت نے سکیمیں پبلک کرکے ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ اللہ کرے یہ روایت برقرار رہے۔ سابقہ ادوار میں کبھی بھی سکیمیں پبلک نہیں کی گئیں۔ موجودہ حکومت سے عوام مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سابقہ ادوار کی سکیموں کو عوامی مفاد کے لیے پبلک کرے اور عوام کے ٹیکسوں کے پیسے کھانے والے چہرے بے نقاب کرے۔بیشمار سکیمیوں میں سے زیادہ تر زمین پر نظر نہیں آتی۔ جو کسی نہ کسی حالت میں موجود ہیں وہ عوام کے کسی فائدے کی نہیں بلکہ محض خانہ پری کے لیے لگائی گئی ہیں۔

لوکل گورنمنٹ نے ان سکیموں پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئیں ہیں۔متعلقہ محکمے کے افسران نے سکیمیں جاری کرنے کے بعد ان کے بارے کبھی زحمت کرنا گوارہ نہیں کی۔ ان سکیموں کی لسٹوں میں اندراج کی ہوئی رقم بھی ٹھیکداروں کو پوری نہیں دی جاتی اور نیچے سے لے کر اوپر تک ہر کوئی اپنا حصہ رکھتا ہے۔ یو ں لگتا ہے حکومت چند سکیم خوروں کے ہاتھوں بلیک میل ہے۔ شاید یہ سیاسی مجبوری ہے کیونکہ سکیمیں لینے والا گروہ حکومتی ایم ایل اے کو یہ باور کروا دیتا ہے کہ اگلا الیکشن ان سکیموں کی مدمیں ہی جیتا جاسکتاہے۔پورے خطے میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔سب اپنی باری کے چکروں میں مصروف ہیں۔سکیمیں لینے والوں میں مقامی نام نہاد سیاسی ورکر زاور ٹھیکداروں کے علاوہ کچھ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل ہیں۔سیاسی ورکرز اور ٹھیکداروں کی روزی روٹی تو ان سکیموں اور ٹھیکوں پر منحصر ہے مگر یہ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بھی اپنی ڈگریاں نیلام کرتے نظر آرہے ہیں۔قصور نہ تو تعلیم کا ہے اور نہ ہی نوجوانوں اور عوام کا۔ اس سب بندر بانٹ کی ذمہ دار سابقہ اور موجودہ حکومت ہے۔

ہم نے عوامی ٹیکسوں کی کھلواڑ کے لیے آر ٹی آئی قانون ہی نہیں بننے دیا۔ اس قانون کے تحت ہر شہری سوائے حساس نوعیت کی معلومات کے تمام معلومات قانونی طریقے سے حاصل کرنے کا مجاز ہے۔اعلی تعلیم یافتہ نوجوان اپنی صلاحتیں متعلقہ شعبے میں صرف کرنے کے بجائے سیاسی مہمات اور سیاسی لوگوں کے گرد طواف کرنے میں صرف کر رہے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟ ہم پڑھے لکھے نوجوانوں کو موردالزام ٹھہراتے جو کے غیر عقلی اور غیر منطقی بات ہے۔آزادکشمیر میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو میرٹ پر نوکری دینے کا کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے، اگر لولہا لنگڑا نظام موجود بھی ہے تو وہ مکمل طور پر سیاسی چھتری کے نیچے کام کر تا ہے گریڈ 17 سے نیچے کی ساری نوکریوں کے لیے سیاسی پلیٹ استعما ل ہو تی ہے۔ نوکری حاصل کرنے کا میعار تعلیم کے بجائے سیاسی قابلیت اور کارکرگی ہے۔۔

ہمارے ہاں کم یا زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد نوکری حاصل کرنے کے لیے آپ کا سیاسی اثرورسوخ بھی ہونا چاہیے۔ نام نہاد این ٹی ایس جسکی موجودہ ایم ایل اے نے یہ کہتے ہوئے مخالفت کی تھی کے اگر این ٹی ایس نافذ ہو جائے گاپھر ہم کیا کریں گے۔ جی ہاں آج تک یہی روایت رہی ہے پانچھ سالوں میں چند من پسند افراد کو نوکریاں دی جاتی رہی ہیں۔ این ٹی ایس کے باوجود بے شمار نوجوانوں کو انٹرویو کی تلوار سے کاٹا گیا۔ ایسے واقعات بھی موجود ہیں کہ میرٹ پر آنے کے باوجود بھی نوکری نہیں دی گئی۔ زیادہ تر تقرریاں خلاف میرٹ اور این ٹی ایس کے علاوہ بغیر مشتہر کئے کی گئیں ہیں۔ جتنے بھی نوجوان ایڈجسٹ ہوئے ہیں سب کا تعلق سیاسی اثرورسوخ والے گھرانوں سے ہے۔بہت سارے نوجوان ابھی بھی آمدہ الیکشن کے بعد اپنی نوکری کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ اپنی نوکری کے چکر میں وہ جی حضوری، سیاسی چاپلوسی، سیاسی مہمات میں شمولیت اور حق سچ کی بات کو یکسر نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔وہ اپنے حقوق کی آوازبلند کرنے کے بجائے ذاتی مفاد بچاو کی پالیسی پر کاربند ہیں۔نوجوان ایسا کیوں کرتے ہیں؟

جب ہم نے نوکری کا معیار سیاسی اثرورسوخ، سیاسی وابستگی،سیاسی مہمات میں شرکت، سیاسی کمپین چلانے کے اخراجات میں حصہ، جلسوں کا انعقاد، سیاستدانوں کا استقبال، ان کے طعام و قیام کے علاوہ ان کے دوروں کے دوران ان کے ساتھ رہنا، مالے ڈالنا، ہار پہنانا، اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف خبریں لگوانا، سوشل میڈیا ونگز بنانا،اپنی چاپی کروانا، نعرے لگوانا، بھنگڑے ڈلوانا اور پوسٹرز چھپوانا مقرر کر دیں گے تو پھر نوجوان اس معیار پر پورا اترنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔ پاکستان میں نوجوان این ٹی ایس کی باتیں کرتے، سی ایس ایس کی بات کرتے، پی ایس سی کی بات کرتے، پی ایم ایس کی بات کرتے اور ان امتحانات کو پاس کرنے کے لیے بھر پور کوشش کرتے۔ ان امتحانات کے بعد اکثر نوجوان ایڈجسٹ ہو جاتے جو رہ جاتے وہ اپنی توجہ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف مبذول کر دیتے۔ ہمارے ہاں نیلم میں سی ایس ایس اور پی سی ایس  کے امتحانات کا انعقاد کتنے سالوں تک ہوتا ہی نہیں یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔

ہمارے ہاں پرائیویٹ سیکٹر اتنا کمزورہے کہ اس میں شامل ہو کر گھر کا خرچہ تک چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کی معاشی بدحالی ہے۔ ان میں بھاری فیسیں ادا کرنے کی سکت نہیں ہے۔ اگرچہ پرائیویٹ سیکٹر نیلم میں عوام پر ایک بوجھ کے طور پر مسلط کیا گیا ہے اور شاید اس بات کا علم بھی گنتی کے چند افراد کو ہو کے ہمارے موصوف وزیر تعلیم اور آمدہ الیکشن کے ایک امیدوار پرائیویٹ سیکٹر کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے لائے تھے۔ وادی کی غریب عوام جو سرکاری سکول کی بیس تیس روپے فیس دینے کی سکت نہیں رکھتی تھی ان کو پرائیویٹ سیکٹر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ سرکاری سکولوں کی مار، گالیاں اور تعلیمی زوال نے غریب عوام کو پرائیویٹ سکولوں کی بھاری فیسوں کے بوجھ تلے روند دیا۔پرائیویٹ سکولز میں سے اکثر سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے ہیں جو انہوں نے اپنے بھائی بہن کے حوالے کیے ہوئے ہیں۔

سرکاری سکولوں میں اگر ایمانداری سے پڑھائیں گے تو پھر ان کے ذاتی پرائیویٹ سکولز کیسے چلیں گے۔ بچوں کے ننھے اذہان میں بھی یہ بات بیٹھ چکی ہے جتنا مرضی پڑھ لو نوکری تو سیاسی دم پکڑنے سے ہی ملنی ہے۔ ہمارے اساتذہ کرام بھی سیاستدانوں کی مہم میں شریک ہو تے اور مستقبل کی نئی نسل سے سیاسی نعرے لگواتے۔ جب تک ہم ایک نظام کے لیے کوشش نہیں کریں گے تب تک یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔ پنجاب میں اب نوجوان ایم این اے یا ایم پی اے کے بجائے مقابلے کے امتحانوں کے مراکز کے چکر لگاتے اور تیاری کرتے۔ جب ہم بھی ایسا نظام لانے میں کامیاب ہو جائیں گے تب ہمارے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بھی ایم ایل اے اور سیاسی لوگوں کے گرد طواف کرنا چھوڑ دیں گے۔

انتہائی اعلی تعلیم یافتہ اور ذہین فطین نوجوان سیاسی سرکس میں شامل ہو کر بھی بے روزگار ہیں کیونکہ ان کاکوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے۔ اگر کوئی سیاسی گرو ڈھونڈ بھی لیں تو وہ لاکھوں مانگتا۔ ہم نے ایک نظام کے لیے کوشش کرنی ہے جس کے زریعے ہر پڑھے لکھے نوجوان کو برادری ازم، سیاسی پس منظر،معاشی حالت اور دیگر منفی عوامل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خالصتا میرٹ پر نوکری ملے۔ ہر کسی کو سرکاری نوکری تو نہیں دی جا سکتی اس لیے ہم نے یہ کوشش بھی کرنی ہے ہم پرائیویٹ سیکٹر میں انویسٹمنٹ کو یقینی بنوائیں اور جو نوجوان سرکاری نوکری حاصل نہ کر سکیں وہ پرائیویٹ سیکٹر میں ایڈجسٹ ہو جائیں۔ 7000کے لگ بھگ افراد ایڈہاک پر تعینات ہیں جن کواپنے مستقبل کا کوئی پتہ نہیں۔ یہ بات بعدی از قیاس نہیں ہے کہ ان میں سے بیشترکسی مقابلے کے امتحان کی عمر کی حد عبور کر جائیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
44157