Chitral Times

Jul 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ڈاکٹرفیضیؔ کی نئی تصنیف…….شہزادہ تنویرالملک ایڈوکیٹ

Posted on
شیئر کریں:

گزشتہ دنوں چترال کے نامورلکھاری اورکالم نگار ڈاکٹرعنایت اللہ فیضیؔ صاحب کی نئی کتاب’’علامہ محمدغفران ‘‘ منظرعام پرآئی جو دراصل چترال کے ایک جوہرقابل مرزامحمدغفران (۱۸۵۶ء ؁ تا۱۹۲۶ء ؁ )کی سوانح عمری ہے ۔ مرزامحمد غفران کی شخصیت کے بارے میں تاریخِ چترال سے شغف رکھنے والے معدودے چنداہل دانش کے علاوہ یہاں کے بہت کم لوگوں کوپتہ ہے کہ تنگ گھاٹیوں میں گھری اس وادی میں علمی تاریکی کے اس دورمیں مرزا محمدغفران نام کی ایک ایسی شخصیت بھی گذری ہے جن کے علم وفضل اورہمہ دانی کاپورے ہندوستان میں چرچاتھا۔بدقسمی سے چترال میں انھیں ریاستی حکمرانوں کے میرمنشی یابہت ہواتوفارسی تاریخ چترال کے مصنف کی حیثیت سے جانااورپہچاناجاتاہے اوران کی ہمہ جہت شخصیت کے بیشترپہلوآج تک یہاں کے باشندوں کی آنکھوں سے اوجھل رہے ہیں۔

ڈاکٹرفیضیؔ لائق تحسین ومبارکبادہیں کہ انہوں نے اس بات کومحسوس کیااوراس حوالے سے تحقیق کاحق اَداکرتے ہوئے مرزامحمدغفران کی شخصیت وعلمیت ، ان کی انتظامی صلاحیت اور اَدبی ودینی خدمات پرقلم اٹھایا ۔۱۲۰صفحات پرمشتمل اس کتاب میں مرزاموصوف کی حالاتِ زندگی پیدائش سے لے کر ۵نومبر ۱۹۲۶ء ؁ میں ان کی وفات تک کے تمام اہم واقعات ایسے دل نشین پیرائے میں بیاں ہوئے ہیں کہ گویادریا کوکوزے میں بندکردیا گیاہے۔ تاریخ اور تحقیق کے طالب علم کے لیے اس مختصر کتاب میں بہت کچھ موجودہے جس کے مطالعے سے مرزا محمدغفران اوران کی شخصیت کے حوالے سے کسی قسم کی تشنگی باقی نہیں رہتی۔اس کتاب پرحافظ نصیراللہ منصورکے مختصرتبصرے کے علاوہ چترال کے نامورلکھاری اورسینئراَدیب پروفیسر اسرارلدین کی پرُ مغزتحریرکتاب کی وقعت واہمیت میں مزیداضافہ کرتی ہے۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں مصنف کتاب ڈاکٹرفیضی ؔ صاحب کے علاوہ محمدعرفان عرفان ؔ اور جناب نقیب اللہ رازیؔ جیسے ثقہ لکھاریوں کے تبصرے مزیددلکشی کاباعث ہیں۔ مولاناحسین احمدجیسے معروف عالم دین کی اس کتاب کے بارے میں مختصر تحریرنہ صرف مولاناموصوف کے اَدبی ذوق کی دلیل ہے بلکہ ان کی تاریخ سے واقفیت کا بھی پتہ دیتی ہے۔

اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مرزامحمدغفران نہ صرف ایک متبحر اوربے باک عالم دین ،مدرس،محقق،انشاء پرداز، بہترین منتظم ، اَدیب اورشاعر تھے بلکہ فنِ تاریخ نویسی سے بخوبی آشنا تاریخ نویس بھی تھے۔کتاب کے مطالعے سے ریاستی حکمرانوں کے میرمنشی ہونے کے ناطے مرزا موصوف کے نہایت مصروف شب وروزکابخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ ایک نہایت اہم ریاستی عہدیدارہونے کے ناطے انھیں ہروقت حکمرانِ وقت کے حضور حاضررہناپڑتاتھااورپھران کی تصنیفات وتالیفات اور دیگرمشاغل کاپڑھ کرانسان حیرت واستعجاب میں ڈوب جاتاہے کہ انہوں نے ان سب کے لیے کس طرح وقت نکالاہوگا۔

مرزامحمدغفران کاسب سے بڑا کارنامہ چترال کی تاریخ پرتحقیق اورپھران کانچوڑفارسی تاریخ چترال کی صورت میں پیش کرناہے جو اس موضوع پر اکلوتی مستند تاریخی ماخذکادرجہ رکھتاہے تاہم آج کل کے دورمیں ناقدیں اس پربھی انگلی اٹھاتے نظرآتے ہیں۔ بحیثیت انسان مرزا موصوف کے کام میں کمی خامی کی گنجائش بہرحال موجودہے کیونکہ یہ اس حوالے سے اپنی نوعیت کی پہلی کوشش تھی اورپھر مرزاصاحب کو اس پرنظرثانی کا موقع بھی نہیں ملا۔ اگر اس کتاب کو پرے رکھ دیاجائے توپھرچترال کی تاریخ کے حوالے سے بطور بنیادی ماخذہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچتا۔ پھر اس حوالے سے ہم محض اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے یاپھر اپنی طرف سے تاریخ گھڑنے کے سوا مثبت طورپر کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہتے جیساکہ آج کل ہورہاہے۔

چترال پہلے وقتوں میں اپنی جغرافیائی محل وقوع اورایک Land Lockمملکت ہونے کی وجہ سے علمی اوراَدبی مراکزسے کٹارہاہے اوریہ سوچ کر

دل سے اک ہوک سی اٹھتی ہے کہ نہ جانے مرزامحمدغفران جیسی کتنی اور کیسی کیسی نابغہ روزگار ہستیوں کو اس مٹی نے جنم دیاہوگاجن کے کارنامے وقت کی گرد تلے دب گیے اوروہ خودزمین کی پہنائیوں میں اترکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے نام ونشان ہوگیے ۔انھیں ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی ؔ جیساکوئی قدردان نہیں ملاکہ جس کے طفیل ان کے نام اورکام کو تاریخ میں صحیح مقام ملتا اورانھیں حیاتِ جاویدان میسرآجاتی۔ اس بات کاشکوہ یوں تو یہاں کے بہت سارے قدیم شعراء کے ہاں ہمیں نظرآتا ہے جن میں سے دو شخصیات کے فارسی اور کھواراشعار اس وقت مجھے یادآرہے ہیں ۔ناقدری ٗ زمانہ کاشکوہ کرتے ہوئے چترال کے مشہورصوفی شاعر مرزامحمدسےئر فرماتے ہیں .

؂ دریں دوران سےئرعنقاصفت آوازۂ دارم
نہاں درگوشہ ام امابود نامم بہ کشور ھا
اسی طرح کیسوُ کے مہترژاؤ غلام دستگیر اپنے کھوار لوک گیت میں یوں کہتے نظرآتے ہیں۔
؂ کھیوحال بوس شوم بیتی دایوس وطنہ
کوُ را شیرننگ اوچے ناموس وطنہ

بحیثیت لکھاری یہ ہم سب کی قومی وملی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے ناموں اورکارناموں کونہ صرف تحریری صورت میں محفوظ کریں بلکہ انھیں دنیاکے سامنے پیش کرنے کی سعی بھی کریں کہ یہ ہے ہماری تاریخ ۔جیساکہ شروع میں عرض کیاکہ مرزاموصوف کے بارے میں بہت کم لوگ علم رکھتے ہیں کہ وہ کس شخصیت کے مالک تھے اورتاریخ میں ان کاکیاکرداررہاہے ۔اگرڈاکٹرفیضی ؔ صاحب مرزامحمدغفران کی حالاتِ زندگی اورشخصیت پرقلم نہ اٹھاتے توکل کو یہاں کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے حضرات ان کے بارے میں بھی پوچھتے پھرتے کہ ؂ کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میربھی تھا.
faizi book alam muhammad ghofran


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
21000