Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چین مسلم دنیا کے لیے متبادل سپر پاور….. پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:


علم حاصل کرو چاہیے تمہیں چین جانا پڑے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلم دنیا اور چین کا رشتہ بہت قدیم ہے۔ زمانہ قدیم میں بھی مسلم دنیا چین کی تہذیب، خوشحالی، علم اور ترقی سے آشنا تھی۔ اس میں حصول علم، سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید مہارتوں میں چینی اشتراک کی طرف رہنمائی بھی موجود ہے۔چین کی ترقی دنیا کے لیے مقناطیسی کشش کی طرح ہے۔ مغرب کی مسلم کش پالیسیوں، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مسلم دنیا پر یلغار نے مسلم دنیا کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی ترقی اور تحفظ کی خاطر کسی متبادل طاقت کا انتخاب کریں۔

چین بھی مسلم ممالک کے ساتھ دوستانہ مراسم اور تعاون کا خواہش مندہے۔ مشرق وسطی، وسط ایشیائی اور افریقہ کے تیل سے مالامال مسلم ممالک باہمی مفادات کے پیش نظر چین کے ساتھ بلاک بنانے کے لیے تیار ہیں۔تیل کی چینی مانگ اور تجارتی مفادات کے علاوہ چین پڑولیم کے لیے سعودی عرب، کویت، ایران، قطر، اومان اور مشرق وسطی پر انحصار کرتا ہے اور یہی وہ کڑی ہے جس کی زریعے مسلم دنیا چین کو ایک متبادل سپرپاور کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔ سعودیہ چین سفارتی تعلقات 1990 انتہائی موزوں ہیں۔ سعود عرب261.9بلین بیرل پیڑول کے ذخائر کے ساتھ دنیا میں پٹرول کا سب سے بڑا ایکپورٹر ہے۔ چین کی مسلسل بڑھتی ہوئی تیل کی مانگ نے چین سعودیہ تعلقات کو مزید تقویت دی ہے۔1995میں چین کی یومیہ تیل خریداری 86000بیرل تھی جو9/11کے واقعہ کے باوجود2005میں 59%تک پہنچ گئی۔ تیل کی اس مانگ نے دونوں ممالک کو 2006کے چین سعودیہ معاہدہ پر راضی کیا۔

اس معاہدے کے سبب سعودی عرب چین کو خام تیل فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے ملک، بڑا تجارتی حلیف اور چین، مغربی ایشیاء اور افریقی درآمدات کا دوسرا بڑا ملک بن گیا۔ نتیجتا 1999کا 2بلین ڈالر کا تجارتی حجم2005میں 14بلین ڈالر اور 2010میں 40بلین ڈالرسے تجاوز کر گیا۔سعودی عرب چین میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ چین نے بھی سعودی عرب میں متذکرہ بالا عرصے کے دوران7.95 بلین ڈالر کے منصوبے مکمل کیے۔ سعودی عرب میں چینی سرمایہ کاری کے 82منصوبے،1900 سے زیادہ چینی ملازمین موجود ہیں۔ 2009میں دونوں ممالک نے 6.7بلین سے زیادہ مالیت کے35نئے منصوبوں پر دستخط کیے۔2015تک 60بلین ڈالر کا ہدف حاصل کر لیا گیا۔ 2003-8کے دوران چین سعودیہ تجارت کا نموع30سے 50%ریکارڑ کیا گیا جو 2008میں 64.7تک پہنچ گیا اور چین کی یومیہ خام تیل کی درآمدات12%تک پہنچ گیا۔2009میں نموع کا یہ تناسب13.9 سے تجاوز کر گیا۔چین نے سعودی عرب حج کے لیے13000مسلمانوں کو روانہ کیا۔

2019کے دورانہ چین سعودیہ تجارت کا حجم 23.92بلین ڈالر جبکہ 2020میں دونوں ممالک نے تجارت میں ماضی کے سارے ریکارڑ توڑ دیے۔ دوسرا بڑا اسلامی ملک کویت ہے۔ چین اور کویت کے تعلقات 1971سے مسلسل بہتری کی راہ پر گامزن ہیں۔1990کے عشرے میں یہ تعلقات مزید پائیدار ہوئے اور چین کی جانب سے 1989-2008کے دوران 17بڑے سرکاری دورے کیے گئے۔ 1990-2009کے دوران کویت کی جانب سے بھی چین کے 21سرکاری دورے کیے گے۔ 2006-7کے دوران چین کویت باہمی تجارت کا حجم2.8بلین ڈالر تھا جو اسی عرصے میں جی سی سی کے ساتھ چین کی تجارت کا پانچواں حصہ بنتا ہے۔ 2008میں چین کویت تجارت کا حجم6.78ڈالرز تک پہنچ گیا۔ چین کی برآمدات 1.74جبکہ درآمدات 5.04بلین ڈالر تھیں۔ کویت چین کو عرب ممالک میں سے قرض دینے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ 1982چند سال پہلے تک کویت نے چین کو 810ملین ڈالر قرض دیا تھا۔1998میں چین کے سیلاب کے دوران کویت نے چین کو 3ملین ڈالر صر ف کیش کی صورت میں مدد کی تھی۔کویت اور چین نے 1.8بلین درہم کا تعمیراتی معاہدہ کیا۔

کویت نے2010میں چین میں 5بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے کیمیکل ریفائنری تعمیر کی۔ کویت کے قومی بینک نے شنگائی میں اپنی ایک برانچ بھی کھول رکھی ہے۔ کویت چین اشتراکی سرمایہ کاری کی کمپنی کا قیام 2005میں عمل میں لایا گیا جس میں 3000ملین ڈالر کا حصہ تھا۔ ایران کے ساتھ بھی چین کے خوشگوار تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک نے کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔2007میں 2ملین ڈالر کی ایران چین ڈیل طے پائی۔ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں بھی چین کو روکنے میں ناکام رہیں۔ 2000میں چین نے ایران سے 170,000بیرل تیل خریدا جس کی مقدار 2006میں 244,000بیرل سے تجاوز کر گئی۔ آئندہ سالوں کے دوران چین اور سعودی عرب میں تیل کی فروخت کا ہدف 250ملین مقرر کیا گیا ہے۔ ایران پہلا مسلم ملک ہے جہاں پر چین کی آٹو چیری نے 375ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ مسلم دنیا میں ایران اور چین کی تجارت سے سے زیادہ موزوں اور درخشاں ہے۔ اس وقت چین کی 100سے زیادہ سرکاری کمپنیاں ایران میں کام کر رہی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں چین ایران تجارت کی وصولیوں کا تخمینہ400ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔

2009میں چین ایران کا سب سے بڑا تجارتی حصہ دار رہا اور باہمی تجارت کا حجم 21.2بلین ڈالر رہا جو 2020میں 200بلین ڈالر کی حد پار کر گیا۔ توانائی کے شعبے میں چین اور ایران کی سالانہ باہمی تجارت تقریبا16بلین ڈالر ہے۔ چین نے2005-10کے دوران ایرانی تونائی کے منصوبوں کے لیے 12بلین ڈالر کے معاہدے کیے ہیں۔ چین اور ایران کی کمپنیوں نے شمالی آزادیگان سے تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے 1.76بلین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے جس سے یومیہ75,000بیرل تیل نکالا جائے گا۔ 2009میں چین اور ایران نے 3.2بلین ڈالر کا معاہدہ کیا جس کے زریعے 10ملین ٹن قدرتی گیس کا حصول ممکن ہوا۔ اس سال دونوں ممالک نے 17بلین ڈلر کا معاشی تعاون کا معاہدہ بھی کیا۔سال 2010کے دوران بھی یہ رجحان قائم رہا۔ 2020میں چین ایران تجارت کا حجم 200بلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ چین کا بلیٹ اینڈ روڈ کا منصوبہ ملک کو وسط ایشیاء، چین، ایران کازکستان، ازبکستان اور ترکمانستان اورخطے کے دیگر ممالک سے جوڑ دے گا۔

خطے میں قازقستان کی اہمیت تیل کی پیداوار کے لحاظ سے کافی اہم ہے۔ قازکستان کے پاس 29بلین بیرل سے زیادہ تیل کے ذخائر ہیں۔ چین قازقستان میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔چین نے قازقستان کی اخبرمومنی گیس کمپنی کے  60%شئیرز بھی خرید لیے ہیں۔  دونوں ممالک باہمی تعاون سے بہت سارے منصوبے مکمل کر چکے ہیں اور بہت سارے ابھی جاری ہیں۔ چین نے ازبکستان کے ساتھ600ملین ڈالر کا معاہد ہ کیا ہے ملائیشاء، جنوبی کوریااور روس کی کمپنیوں کے ساتھ ملکر تیل کے ذخائر کی تلاش اور ان کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے پر کام ہورہا ہے۔ چین انڈونیشیا اور ملائیشیا کے بھی آپس میں خوشگوار معاشی اور سیاسی تعلقات ہیں۔دونوں ممالک نے چین کے ساتھ لمبے عرصے کے سفارتی تعلقات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ چین میں انڈونیشیا ء کی سرمایہ کاری انڈونیشیا میں چینی سرمایہ کاری سے 20گنا زیادہ ہے۔ انڈونیشیا نے 2003میں 2.024بلین ڈالر کے 970منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جبکہ چین نے انڈونیشیا میں 0.27بلین ڈالر کی مشترکہ سرمایہ کاری کی۔ دونوں ممالک نے باہمی سطح پر بینک اور انشورنس کمپنیاں بھی کھول رکھی ہیں۔ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری اور تجارت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

2002میں چین نے 585ملین ڈالر کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے نڈونیشیا میں چین سب سے بڑا تیل نکالنے والا ملک بن گیا۔ 2004چینی کمپنی برطانوی کمپنی کے 20.77%شیئرز خریدنے میں کامیاب ہوئی اور یہ مٹ ورئی لمٹیڈ کی سب سے بڑی حصہ دار بن گئی۔ 2002میں ہی چین کی تیل کی سب سے بڑی کمپنی نے انڈونیشیا میں 216ملین ڈالر کا معاہدہ کیا۔پاک چین دوستی اپنی مثال آپ ہے۔ دونوں ممالک ہر شعبے میں ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف تعاون کر تے بلکہ دونوں ممالک کی باہمی تجارت بھی دیگر مسلم ممالک کے لیے ایک مثال ہے۔ سفارتی محاذ ہو یا دفاعی، معیشت ہو یاتعمیر و ترقی دونوں ممالک دیرینہ دوستی کو نبھاتے ہوئے ترقی کی منازل تیزی سے طے کر رہے ہیں۔ شاہرہ ریشم اس دوستی کی بہترین مثال ہے۔

پاکستان چین کی مدد سے امریکی معاشی تلوار کے خطرے سے نکل چکا ہے۔ پاک چین معاشی راہداری ایشیاء کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے جس سے خطے کے تمام ممالک مستفید ہوں گے۔مسلم ممالک میں چین کے ساتھ پاکستان کے سب سے زیادہ خوشگوار تعلقات ہیں۔دیگر ممالک کی نسبت تجارت اور سفارتی تعلقا ت بھی بہت مضبوط ہیں۔ تجارت کے علاوہ بھی مسلم دنیا کے چین کے ساتھ دفاعی تعلقات ہیں۔ مسلم ممالک میں سے اکثر اسلحہ خریدنے کے لیے چین کو ترجیح دیتے ہیں۔اسلحہ کی خریداری مقدار کے لحاظ سے پاکستان پہلے نمبر پر، بنگلہ دیش دوسرے نمبر پر اس کے بعد ایران، کویت، سوڈان اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ ایران اور سوڈان پر اقوام امتحدہ کی پابندیاں ہیں جبکہ پاکستان  اور بنگلہ دیش مستقل خریدار ہیں۔ دیگر مسلم ممالک میں سعودی عرب، نائجیریا، نیگار، جیبوں، مصر، انڈونیشیا، یو اے ای اور عراق چینی اسلحہ خریداروں میں شامل ہیں۔یہ وقت ہے مسلم دنیا اپنے وسیع تر مفاد، ترقی اور سلامتی کی خاطر ایک متبادل سپرپاور کی طرف قدم بڑھائے۔  


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
47347