Chitral Times

Jul 5, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

 چوگان بازی کی معاشرتی تاریخ کا ایک مختصر جایزہ – ڈاکٹر اسماعیل ولی

شیئر کریں:

 چوگان بازی کی معاشرتی تاریخ کا ایک مختصر جایزہ – ڈاکٹر اسماعیل ولی

چہار چیز گزین بود  خسروان کا کار

نشاط کردن و چوگان و رزم و بزم شکار

فرخی ترجمہ: بادشاہوں کے چار پسندیدہ  مشاغل تھے – می و موسیقی کی محفل، چوگان بازی ، شکار ،  اور جنگ

 

polo asfahanka

نقش جہان—اصفہانکا  وہ تاریخی میدان جسکو یونیسف نے عالمی ورثہ قرار دیا ہے    

 

 

پہلاضرور ی نوٹ: اردو ٹایپنگ میں مہارت نہ ہونے کی بنا پر یہ مضمون غلطیوں سے مبرا نہیں ہے اور “خام” حالت میں ان لاین شایع کرنے کیلیے بھیج   رہاہوں-

دوسرا ضرور نوٹ: یہ مضمون ایک دوست کی فرمایش پر   لکھا گیا ہے حالانکہ راقم  نے نہ کبھی پولو کھیلا ہے نہ اس موضوع سے انکی کوی جذباتی وابستگی رہی  ہے البتہ    بچپن میں دوستوں کے ساتھ مل کر گدھوں کو میدان میں اتارنے کا ناکام تجریبہ اس کی یاد داشت میں ابھی تک تازہ ہے دوسرا ،والد کے گھوڑے کو  پانی پلانے کیلیے قریبی چشمے تک لے جاتے ہوے  بریپ کے زار حسین  جو میرا ردیف تھا کا  گھوڑے سے گرنا ابھی تک یاد ہے

 ایک ایرانی سایٹ سے اقتباس  کا ترجمہ

“ترجمہ: مسنتد تاریخ سے اشارے ملتے ہیں کہ اس کھیل کا اغاز چھ سو قبل از مسیح میں “ھخا منشیاں” کے دور میں ہوا یہ کھیل توپ یعنی گیند کے ذریعے کھیلا جاتا تھا اور داریوش اول کے زمانے میں مقبو لیت حاصل کی اوربشمول ہند دنیا میں پھیل گیی”

 

چوگان بازی کی تاریخ :

انسان ، گھوڑا ، گیند، چوگان،  اور میدان  کب اپس

میں جڑ گیے  اس سوال کا جواب تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہیں تاہم ایک بات جس کی حقیقت عیان ہے وہ یہ ہے کہ جس کھیل کو اج ہم “پولو”کے نام سے جانتے ہیں شطرنج کی طرح،  ایشیای ممالک ، خصوصا ایران اور اذر بایجان، اس کے اغاز کو اپنی  ثقافتی  تواریخ  سے جوڑتے ہیں   اگرچہ ایرانی دعوے کا دامن بھی  کسی ٹھوس تحریری ثبوتوں سے خالی ہے   لیکن ایران میں موجود ایک میدان کو جسکو “نقش جہان”   “میدان اصلی” ، “میدان بزرگ” ، “میدان قصر” میدان سلطنتی” ،” میدان نو” اور انقلاب ایران کے بعد “میدان امام” بھی کہتے ہیں ایران کے شمال میں واقع ہے اور یونسکو نے اس میدان کو عالمی ورثہ قرار دیا ہے کیونکہ اس  میدان کو ایران کی ثقافتی تاریخ میں خاص اہمیت حاصل ہے اور اس اہمیت کا ایک سرا  چوگان بازی سے جڑا ہے

دوسری تاریخی حقیقت یہ ہے کہ چوگان بازی کی ابتدا قبل از مسیح میں ہوی اگرچہ مقام و تاریخ کا تعین مشکل ہے لیکن اندازہ لگانے کیلیے مغربی اور مشرقی محققین شاہنامہ فردوسی کا محتاج ہیں کیونکہ شاہنامے میں ترکوں اور ایرانیوں کے درمیاں چوگان بازی کے مقابلے کا ذکر موجود ہے اور اندازہ یہ ہے کہ یہ مقابلہ چھ سو قبل از مسیح میں ہوا تھا فردوسی کے اس بیان کو ثبوت مانتے ہوے عصر حاظر کے محققین  ایران ہی کو چوگان بازی کی ابتدا کا مقام قرار دیتے ہیں اس اس سلسلےمیں ایک ایرانی محقق کہتے ہیں:

اسناد بسیار محکمی از دوران سامانی وجود دارد که نشان می دهد تمام سربازان سواره باید

چوگان را می آموختند. چوگان همواره چند وجهی بوده است. اولا اینکه چوگان آیین جنگ بود. به هم خوردن اسب ها و ضربه چوب ها به توپ، نوعی جنگ جدی بود. همچنین بازی چوگان تمرین سوارکاری بود. تمام دانشمندان ما که به چوگان پرداخته اند به این نکته اشاره کرده اند که اگر می خواهید جنگ آور خوبی بشوید تمام سربازان سواره باید اول چوگان بازی ۔۔۔

 

ترجمہ :ساسانی دور کے کیی  اسناد اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ   جوانوں کیلیے چوگان سیکھنا اسلیے ضروری تھا کہ اصل میدان جنگ کیلیے ذہنی اور جسمانی ورزش کے عمل سے گزرا جاے اسلیے ہمارے عقلمند لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اصل جنگ کیلیے  ضروری ہے کہ سارے جانباز چوگان بازی سیکھیں کیونکہ شہسوار ی کے بغیر چوگان بازی ممکن نہیں

ایک مغربی محقق انہی مواد سے فایدہ اٹھاتے ہوے کہتے ہیں کہ

Polo is perhaps the oldest team sport, although the exact origins of the game are unknown. It was probably first played by nomadic warriors over two thousand years ago but the first recorded tournament was in 600 B.C. (between the Turkomans and the Persians – the Turkomans were victorious.

ایک ایرانی ان لاین مجلے میں چوگان بازی کی تاریخ  پر تبصرہ درجہ ذیل الفاظ میں کیا گیا ہے

“بعد از اینکه در سال ۱۰۰۶ هجری قمری اصفهان پایتخت صفویه شد در باغ بزرگ نقش جهان میدانی تاریخی به اسم نقش جهان درست شد که روز به روز با اضافه شدن بناهایی جدید در اطراف آن رونق بیشتری می گرفت. این میدان امروز بعد از گذشت سالیان زیاد همچنان یکی از معروف ترین میدان های ایران و دنیاست. اما این میدان به غیر از حس و حال خاص و بناهای تاریخی اش قدیمی ترین میدان چوگان دنیا هم هست. چوگان بازی ای سوار بر اسب است که با موسیقی و روایتگری همراه است و بنا بر مستندات تاریخی قدمت آن در ایران به بیش از دو هزار سال قبل می رسد.

ترجمہ:  اصفہان میں قدیم ترین پولو گراونڈ ہے پھر       100 صدی ہجری میں صفیہ خاندان کا پایہ تخت ہوا اسکا نام “نقش جہاں” رکھا گیا کیی صدیاں گزرنے کے باوجود ایران بلکہ دنیا کا مشہور میدان ہے دنیا کا قدیم ترین میدان ہونےکی  بنا پر اس کو خصوصی اہمیت حاصل ہے چوگان بازی گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر کھیلی جاتی ہے اور موسیقی قدیم زمانے سے اس کا  حصہ رہا ہے ایران میں چوگان بازی کی تاریخ دو ہزارقبل از مسیح تک پہنچتی ہے”

ایک اور  ایرانی  اخبار سے  بعنوان “چوگان، اصیل ترین بازی جہان”  سے یہ اقتباس بھی پولو کی تاریخ کے سلسسلے میں اہم ہے

اروپاییان در زمان صفویان و در زمان استعمار خود در هند، با این بازی آشنا شدند و افسران انگلیسی نیز به طور حرفه‌ای چوگان را در باشگاه کلکته آموخته و با خود با انگلیس بردند. بعدها نیز ورزش‌هایی از قبیل گلف و هاکی پدید آوردند که دسته‌های استفاده شده در این بازی‌ها به همان چوب چوگان برمی‌گردد. در سال ۱۸۶۰ (میلادی) چوگان در انگلیس متداول می‌شود. سپس به آمریکای جنوبی می‌رود و به شدت رواج می‌یابد چنانکه اکنون چوگان در آمریکای جنوبی از همه جای دنیا بیشتر بازی می‌شود و طرفداران بسیاری نیز دارد.

“ترجمہ: صفویہ خاندان کے دور میں یوروپ والے اپنے استعماری دور میں ہندوستان میں اس کھیل سے اشنا ہوے اور انگریز افسران کلکتہ میں کھیلنا شروع کیا اور اپنے ساتھ یوروپ لے گیے پھر اسی سے دوسرے کھیلوں یعنی ہاکی اور گالف کو ایجاد کیا یوروپ سے یہ کھیل جنوبی امریکہ پہنچا اور ساری دنیا میں پھیل گیی اج اس کھیل کے شوقین دنیا ہر حصے میں پاے جاتے ہیں”

 

. اس کا مطلب یہ ہے ایران کی ثقافتی تاریخ میں جنگ اور چوگان بازی کا رشتہ چولی دامن کا رہا ہے  اس نکتے کو  فردوسی کی زبان میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے

نبودش هنرهای نیکو گمان—- بہ گرز و به چوگان و تیرو کمان

    

ترجمہ: اچھے ہنر کا تصور گرز، چوگان، اور تیر وکمان کے بغیر  ممکن نہیں

شاہنامے کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہو تی  ہے کہ چوگان بازی ایرانی ثقافت میں  جنگی ورزش کے علاوہ   تفریح کا سامان مہیا کرتا تھا :

که با گوي و چوگان به میدان شویم      زمانی بتازیم و خندان شویم

ترجمہ: گیند اور چوگان کے ساتھ میدان کی طرف جاتے ہیں کچھ وقت کیلیے گھوڑوں کو  دوڑاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں – “شرفنامے” میں درج اس  شعرسے  ہم اسانی سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ  بچوں کی تربیت کا اغاز اسی کھیل  سے ہوتا تھا

ز چوگان و گوي اندر آمد نخست که      طفلی تو بازي به این کن درست

ترجمہ:  بچوں کیلیے سب سے پہلے چوگان اور گیند  سے کھیلنا ضروری ہے

فردوسی ہمیں یہ  بتاتا ہے کہ کھیل کے اغاز سے پہلے گیند کو بوسہ دیکر میدان میں پھینک جاتا ا تھا اس کے ساتھ ڈھول اور بانسری  گونجنے لگتے

سیاوش بر آن گوي برداد بوس      برآمد خروشیدن ناي و کوس

ترجمہ: سیاوش نے گیند کو بوسہ دیا اس کے ساتھ طبلوں کی اواز گونجے لگی

چوگان بازی میں کھلاڑی کی مہارت کا اندازہ گیند کو زور سے مارنے سے ہوتا تھا کہ وہ ہوا میں اڑتے ہوے کہیں  دور گر جاے اس منظر کو فردوسی یوں پیش کرتا ہے

بزد همچنان تا به میدان رسید      بر آن سان که از چشم شد ناپدید

میدان میں پہنچ کر گیند کو اس زور سے مارا کہ وہ انکھوں سے اوجھل ہوگیا

یا سیاوش کا میدان میں اترنے کا منظر یوں پیش کرتا ہے

 

سیاوش برانگیخت اسب نبرد     چو گوي اندر آمد نهشتش به گرد

سیاوش جنگی گھوڑے کوشہ دیکر میدان میں  داخل ہوا اورگیند کی طرح گرد وغبار میں گم ہوگیا

میدان سے گرد اٹھنے کا منظر ملاحظہ کریں

خروش تبیرہ ز میدان بخاست – ہمین خاک براسمان گشت راست

میدان سےا یسا شور اٹھا کہ  گردو غبار اسمان تک پہنچ گیا

شاہنامہ میں شاہ پور دوم کی چوگان بازی سیکھنے کا ذکر، یزد گرد کا اپنے بیٹے بہرام کیلیے تربیت کا انتظا م جس میں چوگان بازی شامل ہے  سہراب کا  تین سالگی میں چوگان بازی سیکھنا ، ، داراب کی پرورش میں چوگان بازی کی اہمیت کا ذکر،  بہمن کو رستم کو دیتے وقت سیاوش ان کو یاد دلانا کہ بہمن کو چوگان بازی یاد دلاے سیاوش کی زبانی  تورانیوں کے مقابے میں ایرانیوں کی مہارت کی تعریف  — یہ سب فردوسی اس مہارت کے ساتھ بیاں کرتا ہے کہ مناظر تصور میں زندہ گھومنے  لگتے ہیں

شاہنامہ ہی سے ہمیں ایرانی ثقافت میں چوگان کی اہمیت کے بارے کیی مفید معلومات  حاصل ہوتے ہیں مثال کے طور پر میدان میں اترنے کے بعد بادشاہ گیند  پھینکتا تھا

سیاوش به اسب دگر برنشست- بینداخت آن گوي خسرو به دست

ترجمہ سیاوش دوسرے گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے ہاتھ سے گیند میدان میں پھینک دیا    یعنی کھیل کا اغاز بادشاہ خود گیند پھینک کر کرتا تھا

شاہنامہ فردوسی میں وہ اشعار جن میں چوگان بازی کی تصوراتی نقشہ کشی کی گیی ہے ان کو پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ اج کے دور کا کویی ماہر کمٹیٹر اپنی لسانی مہارت کا مظاہرہ کر رہا ہو  تاہم موزون کلام ہونے کی بنا پر فردوسی کے اشعار تخیل کو مہمیز دینے میں اہم کرادر ادا کرتے ہیں مثال کے طور پر کہتے ہیں ک

سیاوش از ایرانیان ہفت مرد گزین کرد شاہستہ اندر نبرد 

ترجمہ: سیاوش نے ایرانیوں میں سے سات مردوں کو “جنگ” کیلیے چنا

اس شعر سے چوگان بازی کے کھلاڑیوں کی تعداد کا بھی پتہ چلتا ہے کہ سیاوش کے ساتھ اٹھ کھلاڑی تھے- پھر کہتا ہے

ازان پس بہ چوگان برو کار کرد – چنان شد کہ با ماہ دیدار کرد

ترجمہ: اس کے بعد گیند کو ایسا مارا کہ اس کو چاند کا دیدار نصیب ہوا یعنی گیند اتنا اوپر چلا گیا

یا کہتا ہے

ز چوگان او گوے شد نا پدید – تو گفتی سپہرش ہمی بر کشید

ترجمہ: اس کے چوگان کی مار سے گیند غایب ہوا یا یوں کہ سکتے ہیں کہ اسمان نے اپنی طرف کھینچا

ایک اور مقام پر ایک ہندو بادشاہ کا نشہ یوں کھیچتا ہے

 

شه هندوان باره را بر نشست

به میدان خرامید چوگان به دست

 

ترجمہ: ہندوں کے بادشا ہ گھوڑے پر سوار ہو اور چوگان ہاتھ میں لیکر ٹہلنے کے انداز میں میدان میں داخل ہوا

نظامی نے ساسانی دور  کی  عورتوں   کی  چوگان بازی کا بیاں  مندرجہ اشعار میں یوں کرتے ہیں

 

چو شیر ماده آن هفتاد دختر
سوی شیرین شدند آشوب در سر
به مردی هر یکی اسفندیاری
به تیر انداختن رستم سواری
به چوگان خود چنان چالاک بودند
که گوی از چنبر گردون ربودند

 

 ترجمہ:  وہ ستر بیٹیاں مادہ شیر کی طرح  جنونی جذبے کے ساتھ شیرین کی طرف اییں مرادانگی میں ہر ایک اسفندیار تھا –  تیر اندازی  اور  شہشواری میں رستم کے ہم پلہ تھیں  اور چوگان بازی میں اتنی پھرتھیلی تھیں کہ اسمان کے دایرے  تک ان کی  گیند  پہنچتی تھی-  ان حوالوں کے علاوہ شاہنامے میں ایک اور واقعے  کا ذکر ہے یعنی جب سکندر ایران پر حملہ اور ہوا اور ایران کے قریب پہنچا تو دارا  سویم نے چوگان اور گیند  ان کو پیش کرنے کے لیے بھیجدیا  سکندر   کا جواب فردوسی نے یوں موزون کیا ہے کہ

   تو کودکی، اینک چوگان و گوی فرستادم، بازی کن و ز ملک دست بازدار

ترجمہ: تم بچے ہو اسلیے چوگان اور گیند بھیجدیا – مرادنگی یہ ہے جنگ کے لیے تیار ہوجاو اور سلطنت سے دست برداری کا اعلان کرو

محولہ بالا حوالوں سے چند باتیں واضح ہوجاتی ہیں یعنی چوگان بازی  جنگجوں  کو   جنگ  کیلیے تیار کرتی تھی  یعنی یہ صرف تفریح نہیں تھی دوسری یہ کہ یہ بادشاہوں کا کھیل تھا اور شہزادوں کیلیے ضروری تھا  کہ وہ بچپن میں ہی یہ ہنر سیکھیں  تیسری یہ کہ مردوں کے علاوہ عورتیں بھی یہ کھیل کھیلتی تھیں چوتھی یہ کہ فردوسی جیسے شعرا اگر شنیدہ روایات    کو تحریری شکل نہ دیتے تو اج ہمارے پاس چوگان کی قدامت کا اندازہ  لگانا مشکل ہوتی پانچویں یہ کہ ان اشعار کی مدد سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قدیم دور میں اس کھیل کی کتنی اہمیت تھی   چھٹا یہ کہ ایرانی شاعری اور مصوری کے  ایک بڑا حصے کا تعلق چوگان بازی سے رہا ہے جس کا  اجمالی سا بیان اگے اے گا

 

 

اسلامی دور:

ساتویں صدی میں اسلامی فتوحات کے نتیجے میں ساسانی دور کا خاتمہ ہو  ا لیکن چوگان بازی ختم نہیں ہوی چوگان معرب ہوکر  “صلجان ” ہوگیا اور عربوں نے بھی یہ کھیل کھیلنا شروع کیا – کہتے ہیں کہ  عباسی بادشاہ ہارون الرشید کو یہ کھیل بہت پسند تھا   ان کے دربار میں ایک ماہر کھلاڑی تھا جسکو “جکندر” کہتے تھے  شاید جکندر سکندر کا معرب ہے یعنی ہارون الرشید نے اس کھیل کی سر ہرستئ کی پھر یہاں منگولوں کا دور دورہ ہو ا وہ ویسے بھی گھڑ سواری کے شوقین تھاا سلیے اس کھیل کو مزید فروغ ملا – اور یہی روایت  ہندوستان کے سلاطین میں برقرار رہی اور کھیل کو عوامی مقبولیت حاصل ہوی – قطب ایبک کی موت بھی کھیل کے میدان میں زین کا ابھرا ہوا سرا     زور سے سینے سے لگنے سے ہوی   مغل- سلاطین  بھی اس کھیل کا دلداہ  تھے  اور اکبر بادشاہ ایک روشن گیند  کے ذریعے رات کو چوگان کھیلا کرتے تھے  بادشاہوں اور شہزادوں کے علاوہ  شہزادیاں اور ملکاییں  بھی اس کھیل میں حصہ لیتی تھیں اس سلسلے میں  بی بی سی سے مندرجہ ذیل اقتباس اہم ہے

”  چوگان کی بازی صرف امرا اور وزرا تک محدود نہیں تھی بلکہ حرم کی خواتین اور شہزادیاں بھی اس کھیل کو بڑی مہارت کے ساتھ کھیلتی تھیں۔ ملکہ نور جہاں چوگان کی ماہر کھلاڑی تھیں۔ حرم کی شہزادیاں جب گھوڑے دوڑاتی چوگان کی گیند کا پیچھا کرتیں تو ایک دلفریب سماں بندھ جاتا تھا اور دربار کے مصور و نقاش اس منظر کو قید کرنے میں کوشاں رہتے تھے۔ آج بھی دنیا کے بعض کتب خانوں میں ان کی تصاویر کے قلمی نسخے موجود ہیں”۔  

 

محولہ بالا اقتباس ہمیں ایک اور  اہم نکتے پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے وہ یہ کہ چوگان بازی نے مصوروں اور شعراء کے تخیل کو  خام مواد مہیا کیا اور شعراء نے اس کھیل کے مختلف پہلووں سے نت نیے معنوی نکتے پیدا کیے بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اس کھیل کے بغیر شعراء اپنے بعض تصورات کو لسانی  لباس پہنانے  میں ناکام ہو جاتے  اس سلسلے میں “چوگان ” اور “گیند” کی اہمیت مسلمہ ہے کیونکہ فارسی کے مشہور شعراء جن میں رودکی  ، سعدی، حافظ ، رومی، عمر خیام ، فردوسی اور نظامی شامل ہیں ان دو اصطلاحات سے ایسے تشبیات اور استعارے تخلیق کیے جن پر کیی جلدیں لکھی جا سکتی ہیں قارییں کی دلچسپی کیلیے یہاں میں چند ایک کا حوالہ ضروری سمجھتا ہوں –   شروع ان مرکبات سے کرتا ہوں جن میں “چوگان” ایک اہم جز ہےان مرکبات میں مثبت اور منفی اشارے شامل ہیں

 

چوگان ظفر، موارد مثبت: چوگانِ ظفر،  چوگان فضل، چوگان جاہ، چوگان مراد،چوگان عدل، چوگان سعادت،چوگان عشق، چوگان محبت، چوگان وحدت، یا منفی معنوں میں “چوگان  طعنہ” ، “چوگان ملامت’، “چوگان حوادث” – ان کے علاوہ فارسی میں ” چوگان ہلال” چوگان قضا” “چوگان صبح یا شام” “چوگان زلف “چوگان ابرو”کے مرکبات بھی مستعمل ہیں

حافظ کا یہ شعر جو چھترار  کے پولو گراونڈ ک ے کنارے ایک چنارپر بھی  کندہ ہے جوانی میں و قت سے فایدہ   اٹھانے کے نکتے  کو یوں بیاں کرتے ہیں

اے جوان سرو قد گوی بزن ٓ  پیش ازان کز قامتت  چوگان کنند

ترجمہ: اے سرو قد جوان ، گیند کو مارو اس سے پہلے تمہارے جسم سے چوگان بن جاے یعنی بڑھاپے یا جنازہ بننے سے پہلے کویی کارنامہ سر انجام دو    

 

  مولانا روم کی مثنوی اور دیوان شمس میں بھی “چوگان”  اور  “گوی” کے تشبیہات اور استعارات  کا استعمال بھی فارسی شاعری کے شایقین  کیلیے ایک اہم ذخیرہ ہے :

عاشقان گویند در چوگان یار- گوی را با دست و یا با پا چہ کار؟ ترجمہ: عاشق لوگ معشوق کے چوگان کی زد نیں ہوتے ہیں کیونکہ انکی مثال گیند   کی ہے اور گئبد کا تعلق ہاتھ     یا پاوں سے نہیں ہوتا – اگر مولانا  فٹ بال یا والی بال کا تماشا کرتے تو کیا نکتہ  نکالتا اپ کے تخیل کیلیے چھوڑتا ہوں – کبھی  چوگان بازی کے دوران  بادشاہ کے چہرے سے پسینے ٹپکنے کی منظر کسی ان الفاظ میں کی جاتی ہے

  

چوگانی شه ز بس تک و پوي         صد قطره عرق فکنده چون گوي

یعنی چوگان بازی کے دوران پسینے کے سو قطرے گیند کی مانند ٹپک رہے تھے

حافظ معشوق سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں

عنبرین چوگان زلفش را گر استقصا کنی – زیر ہر مویی دلی بینی کہ سرگردان چو گوست

جب تم  اپنی خوشبودار زلفوں اگر کاٹو گے تو ہر بال کے نیچے ایک دل کو گیند جیسا سرگردان پاوگے

 

امیر معزی چوگان و گوی اور زلف و خال کے تعلق کو اس طرح بیاں کرتے ہیں

زلف و خالش را شناسد  ہر کسے شناسد چوگان و گوی- در خور امد گویی و  چوگا ن راا و چوگانو گوی

یعنی ہر ایک زلف و خال کو چوگان اور گیند سے جوڑتا ہے کیونکہ گیند کا تعلق سے اور چوگان کا تعلق    گیند سے ہے

 

ایک اور شاعر اپنے عاشقانہ تصور  کو گوی و چوگان کے استعاروں کی مدد  سے یون بیان کرتے ہیں

به هر کویی پریرویی به چوگان میزند گویی        تو خود گوي زنخ داري بساز از زلف چوگانی

ہر کوچے میں کویی پری رو چوگان سے گیند کو مارتا ہے تم خود کہتے ہو کہ میری بھی ٹھوڑی ہے پھر زلفوں سے چوگان کیوں نہیں بناتے

بابا افضل عمر خیام کا طرز اپناتے ہوے اپنے تخیل کا گھوڑا یوں دوڑاتے ہیں

اي در خم چوگان قضا همچون گو   چپ میخور و راست میبرو هیچ مگو

انسان سے مخاطب ہو کر شاعر کہتا ہے کہ تیری حیثیت قضا کے چوگان میں گیند جیسی  ہے اسلیے چپ کے شراب پیو سیدھا چلو اور خاموش رہو

میدان میں گیند ضربوں کی زد میں ہوتا ہے اسلیے پریشانی کی حالت میں ہوتی ہے اس مشاہدے سے سعدی یوں خیال افرینی کرتے ہیں

 

سعدیا حال پراکندة گوي آن داند    کہ   –    همه عمر    به چوگان کسی افتاده است

سعدی، گیند کی پراگندی کو وہی جانتا ہے جو ساری عمر کسی کی زلفوں کا اسیر رہا ہو

 

اور رومی انسان کی بے کسی کی تصویر کچھ اس طرح کھیچتے ہیں

 

پر کاهم در مصاف تند باد خود ندانم در کجا خواهم فتاد
پیش چوگان های حکم کن فکان   می دویم اندر مکان و لا مکان

یعنی میری حیثیت اس پتے کی ہے جو تیز اندھی کی زد میں ہو معلوم نہیں کہان گر جاے گا کن فکان کے احکام کی مثال چوگان کی ہے اسلیے ہم گیند کی طرح مکان و لا مکان کے درمیاں دوڑتے رہتے ہیں

صوفی شعراء نے چوگان کو مختلف روحانی معنی پہنانے میں اپنے فن و تخیل کا بھر پور استعما ل کیا   ہے عراقی کا یہ شعر ملاحظہ ہو:

کی به میدان تو یابم این دو سه گوي جهان

در خم چوگان وحدت ناگهان انداخته

ترجمہ :اپ کے میدان میں جہاں کے دو تین گیندوں کو پانے کیلیے وحدت کے چوگان کی خمیدگی میں اچانک رکھا   ہوا پایا

 

مندرجہ بالا حوالوں سے ان حقیقت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ فارسی شاعری کاا یک بڑا حصہ ان کنایوں اور استعاروں  کا محتاج ہے جن کااتعلق چوگان اور گیند سے ہے یعنی گیند و چوگان نہ ہوتے ہم رودکی سے لیکر  رومی تک ان خوبصورت شعری نگینوں سے سےمحروم رہ جاتے جن کو پڑھ کر اج بھی ہم تخیلاتی جمالیات سے حظ اٹھاتے ہیں

 

انگیریزوں کا دور:                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                      

فارسی میں چوگان  یا  چوکان  یعنی “چوب” جو کہوار میں”چوو”  مستعمل ہے اور” گان” کا مرکب ہےایران کی معاشرتی تاریخ میں اس کھیل کیلیے معروف اصطلاح ہے  جو عربی میں صولجان اور فراسیسی میں  ‘شیلکان” کی شکل میں پاے جاتے ہیں مرجان ابراھیمی اور  عبدالحسین ابراہیمی تحقیقی مقالے میں کچھ غیر معروف اصطلاحات   کا  ذکر بھی موجود ہے مثالا “طبطاب، طاب طاب، تختہ گویی، دبرک، مطرق، دبوس، کطا، محجن، معصال، مصیل اور  میجار  ” ان الفاظ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے بعض الفاظ معرب ہیں فارسی فارسی میں چوگان   مذکورہ بالا محقین کے مطابق فارسی میں چوگان مختلف المعنی لفظ ہے  فارسی میں یہی لفظ ہر اس لکڑی کے ٹکڑے کیلیے استعمال ہوتا ہے جس کا ایک سرا ٹیڑھا ہو اور یہی لفظ ڈھول بجانے کی چھڑی کیلیے بھی مستعمل رہا ہے اور یہی لفظ اس چھڑی کیلیے استعمال  ہوتا ہے جس کے ایک سرے پر فولادی “گیند” اویزان ہوتا تھا شاہی درباروں میں دبدبے کی نشانی تھی اس کو کوکبہ بھی کہتے تھے

تا ہم انگریز شاہی کے بعد چوگان کی اصطلاح اہستہ اہستہ پس منظر میں چلی گیی اور مسلمانوں کے مقابلےمیں ہندوں اور بدھ متوں کے معاشرتی تعلق استوار  کرنے کیلیے ان کی زبانوں کو تر جیح دی اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک غیر معروف اصطلاح یعنی پولو جن سکی اصل شاید” بولو” مقبول بنایا یہ تبتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گیند کے ہیں پھر اس لفظ کے ساتھ کھیل کو بھی سیکھنا شروع کیا اور کلکتہ میں پہلا کھیل کھیلا گیا  اس اس سلسلے  میں ایک فارسی اقتباس کا ترجمہ یہاں پیش کرنا ضروری ہے

 

 

چھترار میں میں چوگان بازی کی تارٰیخ:

ایران کی طرح چھترار کی تاریخ بھی افسانوی رنگ ہے –  تا ہم چھترار کی معاشرتی  تارٰیخ کی تین بڑی تہوں کو کلاش دور، کہو دور اور سیاسی طور  میں ریس دور کٹور اور خوشوقت دور   کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں  انگریزوں کی امد سے پہلے چھترار کی سیاسی تاریخ “خونبار” رہی ہے اور تاریخ کا یہ دور معاشرتی انتشار کا دور ہے انگریزوں کی امد کے بعد سیاسی استحکام کا سبب بنا اور معاشرتی سرگرمیوں میں تیزی اگیی پھر چوگان بازی کو ریاستی سرپرستی حاصل  ہویی – چھترار کے طولو عرض میں پھیلے ہوے چوگان بازی کے میدانوں کی موجود گی اس معاشرتی حقیت کا ثبوت ہے کہ چوگان بازی کے ساتھ چھترار  والوں کی والہانہ محبت رہی ہے کہوار میں “استور غاڑ” دو الفاظ کا مرکب ہے یعنی استور بمعنی گھوڑا اور غاڑ بمعنی کھیل – یہ اصطلا ح  مقامی طور پر زبان زد خاص و عام ہے اگرچہ نیی نسل “پولو” کو ترجیح دیتی ہے – غاڑ کہوار میں بچوں کے اس کھیل کیلیے مستعمل رہا ہے جو ہم بچپن میں خمیدہ چھڑی یعنی” کھمشیر ”  اور لکڑی سے بنے ہوے چھوٹے گیند کے ساتھ کھیلتے تھے “کھمشیر” کی ترقی یافتہ شکل “گونتو بنتو” ہے یعنی لکڑی کے ایک چھوٹے ٹکڑۓ میں ایک خاص زاویے میں سراخ کرکے     دستے کو اس سے گزار کر نیچے سے کیلیں ٹھونکر مظبوط کیا جاتا ہے ہمارا بچپنہ اس کو بناتے ہوے “خونین ہاتھوں” کے تجریبے   میں گزار ا ہے

یہ کھیل پیادہ کھیلا جاتا تھا اس کا مطلب یہ “استور” کے سابقے کا اضافہ بعد میں ہوا ہے یہاں جو نکتہ قابل غور ہے وہ یہ کہ  “استور” فارسی لفظ ہے جسکو “غاڑ” سے پہلے بطور سابقہ استعمال کرکے نیا مرکب بنایا گیا اس بات سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس مرکب کو ان مقامی لوگوں نے بنایا جو یہاں اباد تھے اور فارسی سے مانوس تھے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اصطلاح باہر سے نہیں ایی بلکہ مقامی ایجاد ہے چھترار میں دوسری روایت  استور غاڑ اور موسیقی کا لازم و ملزوم ہونا ہے اس سلسلے میں مقامی روایت یہ رہی ہے کہ مہتر جب کھیل کیلیے  قلعے سےنکلتا تھا تو روانگی کا دھن بجایا جاتا تھا یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ شاہی خاندان کے  افراد  کا دھن اور عام لوگوں کا دھن الگ ہوتا تھا جو” تمپوق” کو مارنے کیلیے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے ہوے میدان کے درمیاں یا کچھ اگے پہنچ  کر ہوا میں مارتے وقت بجایا جاتا تھا

مستوچ     اٹھارہ سو پچھانوے سے لیکر انیس سو پندرہ تک  ایک ہنگامی انتظام کے تحت انگریزوں کی ماتحتی میں رہا یعنی ان کا مستقل نمایندہ یہاں رہتا تھا قدیم دور میں بالای چھترار خصوصا مستوچ کہونگیرو دیرو بوہت” سے شمال کی طرف    خوشوقت خاندان والوں کے  زیر تسلط رہا تھا  اسلیے شندور متنازعہ ہونے کا سوال نہیں تھا  لیکن انگریزشاہی کے بعد شندور لنگار میں “کہو بوھت” تک  لاسپور والوں کے حصے میں ایا –

گلگت اور چھتر ار کے درمیاں شندور   ٹورنامنٹ کا اغاز بھی بعد میں ہوا اورصدر  ضیاء الحق کے دور میں اس کو خاصی  پذیرای حاصل ہوی لیکن اس ٹورنمنٹ کو سنسی خیز بنا کر ایک فلمی حیثیت دینے میں شہزادہ سکندر الملک کا  کردار خصوصی اہمیت کا حامل ہے شروع میں گلگلت والوں کی مہارت جو عموما سادہ سامان ہوتے تھے مسلمہ تھی لیکن شہزادہ سکندر الملک کی محنت، لگن، اور نہ ہارنے کا عزم چھترار ٹیم کو وہ حوصلہ دیا کہ کیی  سالوں سے چھترار کی ٹیم جیت رہی ہے

 

اخر میں کچھ تجاویز :
چھترار والوں کو چاہیے کہ وہ پولو کے بجاے صرف” استور غاڑ ” کو مارکٹ کرنے پر توجہ دیں استورغاڑ کے علاوہ دوسرے مقامی کھیلوں کو فروغ  دیکر سیاحوں کیلیے پر کشش بناییں ان کھیلوں میں پٹک دک، کھمشیر غاڑ، بول دک، شمینی ژنگینک شامل ہیں پھر مقامی غذاوں کے ساتھ کہو ثقافت کی روایتی لباس   اور پہناوں کو بنا کر “اینٹیک” کی صورت میں مارکٹ کرنے کا انتظام کریں –

یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ چھترار میں استورغار کی ارتقا پر ایک کتاب وقت کی ا ہم ضرورت ہے


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
62867