Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال کے مختلف مقامات کی لوک تاریخ (قسط10) – پروفیسر اسرار الدین

Posted on
شیئر کریں:

چترال کے مختلف مقامات کی لوک تاریخ (قسط10) – پروفیسر اسرار الدین

(موڑکھو کا سلسلہ جاری)
سنگلے:سہرت کے اہم قبیلوں میں سنگالے بھی شامل ہیں یہ ایوبیہ خاندان کی ایک شاخ ہے۔ان کا کچھ تذکرہ کشم کے قریہ کے سلسلے میں ہوا تھا۔جہاں چغتائی خاندان سے ان کے تعلق کا تذکرہ ہوا تھا۔اخوانزادہ کے مطابق یہ قوم سنگین علی ثانی ابن شاہ کٹور اول کی جانب منسوب ہے۔جن کے لڑکے شاہ فرمان علی بیگ،ناصر علی،جہانگیر عنیمت وغیرہ ہیں۔اس طرح شاہ کٹور اول کی اولاد میں محمد غلام اور عبدالغنی کی اولاد بھی سنگلے کہلاتی ہے۔مہترمحمد شفیع کے لڑکوں میں خان بہادر،خان دوران اور سنگین علی ثالث کی اولاد بھی سنگلے کہلاتی ہے(اخوانزادہ،اقوام چترال صفحہ نمبر307)۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے۔پہلے کٹورے اور سنگلے سنگلان دور(وریجون) میں آباد تھے۔وہاں سے بعد میں سہرت کے گنبد میں آکر آباد ہوئے۔ اور بعض دوسرے مختلف علاقوں میں پھیلے۔شہزادہ تنویر کے مطابق گنبد گاؤں ایک تاریخٰی مقام ہے۔یہاں چترال کے ایک رئیس مسلم حکمران کے قلعے کے کھنڈرات موجود ہیں۔یہاں پررئیس دور کا ایک تاریخی قبرستان بھی ہے۔اس قبرستان میں کچھ قبریں ایک زمین دوز تہہ خانے میں واقع تھیں۔اب ناپید ہیں (حوالہ کتاب موڑکھو صفحہ46)۔

رضاخیل:رضاخیل کاتعلق شاہی خاندان سے رہا ہے۔ان کی تاریخی پس منظر پرمعلومات سے کتابیں بھری ہیں۔یہاں صرف تاریخی تسلسل برقراررکھنے کی خاطرمختصراًان کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔اس خاندان کے جدامجدباباایوب (جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے)کے دوبیٹے محمد رضا اور شاہ محمد بیگ موڑکھو میں آباد تھے۔محمد بیگ نے اپنے چھ بیٹوں کی مدد سے محمد رضا اور اسکے دو بیٹوں کوقتل کردیا۔اور اس کشمکش میں خود بھی مارا گیا۔قدرت کا کرنا محمد رضا کا ایک بچہ قزل بیگ جوموڑکھوسے باہراپنے رضاعی والد کے گھر میں تھا۔وہ کسی طرح بچ گیا اور جان بچانے کے لئے بدخشان چلاگیا۔جب بڑا ہوا تووہاں سے کمک لے کرچترال پرحملہ آورہوا۔دودفعہ ناکام ہوکے واپس چلا گیا۔تیسری دفعہ حملہ کرتے ہوئے گرفتار ہوا۔اور سنوغرمیں محصور ہوا۔بالاخرمحترم شاہ کٹور (جومحمد بیگ کی اولاد میں سے تھا اور چترال کا حکمران بن بیٹھا تھا)سے صلح کرلی اور اسکی پدری جائیداد مع اضافوں کے ان کوواپس کردیا۔اور ان کوجگہ جگہ آباد کرلیا۔موجودہ رضاخیل اسی قزل بیگ کی اولاد ہیں۔جوملک کے طول وعرض میں وسیع جائیداوں کے مالک ہیں (حوالہ غلام مرتضیٰ صفحہ 49)

قزل بیگ کے چارفرزند ہوئے۔موجودہ رضاخیل ان کے حوالے سے چار گروہ میں تقسیم ہیں۔یعنی محمد صفا،محمدنور،محمددوست اور سکندر اول۔
محمدصفا کی اولاد محمد اعظم،ابوالخیر اور محمد صابر پرمشتمل تھے جن سے ان کی نسل آگے چلی۔محمد نور کی اولاد محمد یونس،طاہر ،شہزاراور دیوانہ شاہ تھے اور محمد دوست کی اولاد میں میر مردان ،روشن علی خان شاہین دان اور اب قلی خان تھے۔سکندر کے بیٹے تیموشی ،منہ اور متولی تھے(بحوالہ غلام مرتضیٰ312تا316)موڑکھو کے رضا خیلوں میں روشن علی خان اور ان کابھائی داڈوک امان الملک محترم کے زمانے میں اپنی شمشیرزنی اور بہادری کی وجہ سے شہرت کے مالک رہے،روشن علی خان کوبالائی تورکہو کی حاکمی کامنصب بھی عطا ہواتھا اور ان کی اولاد میں حاکم

فریدون لال (ریچ) مشہور ہے جن کے فرزند لفٹننٹ شیرعرب نے اسکردو کی لڑائی میں 1948ء شہزادہ مطاع الملک کی سرکردگی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ہزہائی نس شجاع الملک اور ہزہائی نس محمد ناصر الملک کے دور حکومت میں اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے حاکم فیروز اہم شخصیت رہے جن کے فرزندان مصنف خان،محمد شریف خان اور مشرف خان اہم عہدوں پرسرفراز رہے اور محمد شریف خان نے بریکوٹ (افغانستان) کی جنگ میں اعلےٰ کارکردگی کے باعث MBEکاخطاب انگریزوں سے حاصل کیا(حوالہ غلام مرتضیٰ صفحہ312)۔

روشتے:مقامی روایات کے مطابق یہ یارکند سے کٹورثانی کے زمانے میں چترال آئے تھے۔کٹورثانی نے یارقند کے میر کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ان کے ہمراہ ان کا جد امجد اس وقت چترال آیا تھا اور یہاں ان کو پال ماٹی نامی زمین دی گئی تھی۔بعد میں ڈومو خرچوم (گہت) میں بھی ان کو کچھ زمین دی گئی۔شہزدہ تنویر کے مطابق(بہ حوالہ ان کی کتاب موڑکھو صفحات108تا111)ان کے مورث اعلےٰ کانام باپی تھا وہ کشمیردوری میں آبادہوئے تھے بعد میں محترم شاہ کٹور ثانی کے مصاحب بنے اور ان کی جلاوطنی کے زمانے میں چکیاتن(دیر) میں ان کے ہمراہ بھی رہے۔ان کے چھ بیٹے تھے جن کو خیراللہ مہتر کے حکم سے شاہ کٹور کی حمایت کرنے کی بنا پرقتل کرایا گیا تھا۔اس واقعے کے کچھ عرصے کے بعدباپی کے ایک بیٹے کی بیوہ نے ایک بچے کوجنم دیا جس سے ان کی نسل آگے چلی۔ان کی اس قربانی کے صلے میں کٹورے خاندان کے بادشاہوں نے آنے والے زمانوں میں ان کی ہرطرح کی پذیرائی کی اور گذشتہ صدی تک اس قوم سے تعلق رکھنے والے کئی شخصیات اہم عہدوں پرفائز رہے۔جن میں سے نوشیروان،اسقال فتح علی شاہ،اتالیق بہادر شاہ،اتالیق سرفراز شاہ اور اتالیق جعفر علی شاہ خاص طورپرقابل ذکر ہیں۔اس قوم کی ترقی میں بعض لوگوں کی دعاوں کا بھی بڑا اثربتایا جاتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ان کا مورث اعلےٰ باپی نے ایک اللہ والے کی خدمت کی تھی جس نے دعاکی کہ چھ پشتوں تک انہیں حکمران وقت کے تخت کے قریب بیٹھنا نصیب ہوجائے۔یعنی مصاحب اور وزارت ملے اور ساتویں پشت میں تخت پرچڑھنانصیب ہو۔شہزادہ تنویر کے مطابق اس اجنبی بزرگ کی دعا کے اثر سے یہ قبیلہ اقتدار کے ایوانوں میں اثررسوخ حاصل کرتاگیا۔یعنی چترال کی ریاست میں اسقال،اتالیق،حاکم،مالیہ افسر،گورنر مستوج اور شاہی فوج کے بریگیڈئیر کا عہد ہ اس قبیلے کے افراد حصے میں آیا۔اور آخرکار وہ وقت بھی آیا جب 1970ء میں قومی انتخابات میں اتالیق جعفر علی شاہ نے چترال سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکے پاکستان کی سطح پرپورے چترال کی نمائندگی کی۔“

دعا کی تاثیر کے سلسلے میں اتالیق سرفراز شاہ مرحوم نے راقم کے والد کو اپناایک واقعہ بتایا تھا کہ ایک دفعہ وہ اعلٰحضرت محمد شجاع الملک کے دور حکومت کے ابتدائی ایام میں شاہی فوج کے ایک چھتے کوکمان کرتے ہوئے زرق برق وردی میں گھوڑے پرسوار کہیں جارہا تھا کہ سڑک کے کنارے ایک نہایت ضعیف شخص کوگھاس کاایک بھاری بوجھ اُٹھائے مشکل حال میں چلتا ہوا دیکھا۔تو مجھے اس پرترس آیا اور میں نے گھوڑے سے اُترکر گھوڑا نوکر کے حوالے کیا اور اس بابا کا بوجھ اپنے اوپر اُٹھایااور اسکے گھرتک پہنچایا اس بابا نے مجھے جودعا دی میں سمجھتاہوں کہ آگے جوترقیات مجھے ملیں اس کی دعاوں کا نتیجہ تھا۔“

اس قوم کی اصلیت کے بارے نئی تاریخ چترال(1963)میں یہ تذکرہ ہے کہ یہ ایران کے رشت سے تعلق رکھتے تھے۔اس لئے ان کانام رشتے پڑگیا ہوگا۔ہوسکتا ہے کہ رشت ایران سے ان کے آباو اجداد سنٹرل ایشیاء سے ہوتے یارقند جاکے آباد ہوئے ہوں۔وہاں سے شاید چترال آئے ہوں اور موڑکھو میں آباد ہوئے ہوں گے یہاں سے دوسرے علاقوں میں وقتاً فوقتاً پھیلتے رہے ہوں ۔یہاں ان کے دومشاہیر کاذکر بے جانہ ہوگا۔

اتالیق سرفراز شاہ : آپ بہادر اتالیق کے فرزند ارجمند تھے۔جو خود بھی امان الملک اور شجاع الملک کے دوران حکمرانی میں اہم حیثیت کے مالک رہے تھے۔ اور مختلف اہم عہدوں پر براجمان رہے تھے ۔ یہاں تک بڑھاپے کی عمر میں جنگ بریکوٹ (1919) میں بھی شریک ہوے تھے۔ اسی جنگ میں ان کا ایک جوان سال بیٹا صوبیدار گل حسین نےبہادری سے دشمن کی گولہ باری کی پرواہ نہ کرتے ہوے آگے بڑھتے ہوےشہادت حاصل کی تھی۔اور سرفراز شاہ نےخود بھی اس جنگ میں دشمن سے برسر پیکار رہ کے بہادری دکھای تھی۔ (غلام مرتضی صفحات 197-198 اور 344-347)۔ اگرشاہی خاندان سے باہر کسی شخصیت کے حالات زندگی کاجائزہ لیاجائے توکسی بھی مورخ کو اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں ہوسکتی کہ بیسویں صدی کی پہلی نصف صدی اتالیق سرفراز شاہ کا عہد تھا۔باڈی گارڈ کی صوبیداری سے میجر اور آخری زمانے میں بریگیڈئیر۔سرکار انگریز کی طرف سے جنگ بریکوٹ (افغانستان 1919ء) میں بہترین کارکردگی پرMBEکے خطاب کا حصول،بطور حاکم لٹکوہ ایک اعلےٰ منتظم،سیاسی وملکی اُمور میں زبردست بصیرت چند ایسے صفات ہیں جنکی وجہ سے وہ اپنے زمانے کے مشاہیر میں ممتاز نظرآتے ہیں۔ (حوالہ راقم کی کتاب سر محمد ناصر الملک ص 331).

اتالیق جعفر علی شاہ(بحوالہ کتاب ایضاً صفحہ336): آپ اتالیق سرفراز شاہ کے بڑے فرزند تھے۔اسلامیہ کالج پشاور سے پڑھا اور بعد میں ہزہائی نس محمد ناصرالملک اور ایچ ایچ مظفر الملک کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔باڈی گارڈ میں ان کو لفٹننٹ کا منصب بھی دیا گیا۔چترال میں نئی تنظیم کے بعد آپ ایڈوایزری کونسل کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے1955ء میں جب پہلی مرتبہ چترال کو مغربی پاکستان اسمبلی میں ممبری مل گئی توآپ کو ممبر منتخب کرلیا گیا۔1990میں آپ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے۔دونوں حیثیتوں سے آپ نے چترال کی بھرپور نمائندگی کی اور آپ کی دیانتداری،خلوص،قوم پرستی اور قابلیت کے لئے آپ یادرکھے جاتے ہیں اپنی ممبری کے زمانے میں چترال کے لئے راشن کے کوٹے میں تیس ہزارٹن گندم منظورکرانے اور حکومتی خرچ پرچترال پہنچانے نیز پیٹرول کوسرکاری خرچ پرچترال پہنچانے کے سلسلے میں ان کی کامیابی کے ثمرات سے اب تک لوگ بہرہ ور ہورہے ہیں اور آئیندہ بھی ہوتے رہنگے۔اس طرح لواری ٹنل کے بارے حکومتی ایوانوں میں پہلی دفعہ آواز اُٹھانے والا بھی یہی تھے اور اس کے بارے میں باربار مطالبے کرنے کی وجہ سے ان کا نام”لواری ٹنل والا ممبر“ پڑگیا تھا،جسکا نتیجہ آخرکار 30سال کے بعد ٹنل کی تکمیل کے بعد سامنے آگیا۔ پی آئ اے جہاز کی چترال کے لئے سروس بھی آپکی کوششوں کا نتیجہ تھی۔

زوندرے:زوندرے قبیلے کی تاریخ وغیرہ پس منظر کا پر پہلے تذکرہ پیش کیا جاتا رہاہے۔یہاں مقامی طورپر جوروایت سامنے آئی ہے۔اس کا مختصرذکر پیش کیا جاتا ہے۔زوندرے قبیلے کی ایک قدیم شاخ یہاں شیراندور(سہرت) میں آباد ہے۔کہا جاتا ہے اس قبلیے کا پہلا فرد رئیس دور میں یارقند سے ایک پیر بہ اسم اخوند کے ساتھ آیا تھا۔وہ ایک پالتو شیر بھی اپنے ساتھ لے آئے تھے اوریہاں جس جگہ آباد ہوئے اسی مناسبت سے اس کا نام شیران دور پڑگیا۔یہ بات بھی مشہور ہے کہ خاندان جنالی اُنہوں نے اس زمانے میں بنایا تھا۔

اتم بیگے:اتم بیگے یا حاتم بیگے کا پہلے ذکرہوا ہے۔روایت کے مطابق رئیس دور میں یہ لوگ داریل سے آئے تھے۔پہلے استابون(زاینی) آئے وہاں سے یہاں اسکے بعد دوسرے مختلف مقامات میں پھیلے۔

داشمنے: یہ نہ صرف موڑکھو بلکہ تعداد کے لحاظ سے تمام چترال میں اہم قبیلہ ہے۔سہرت کے دیہات گنبد،استاری،جمیلی وغیرہ کے علاوہ نہ صرف موڑکھو بلکہ دوسرے علاقوں کے کئی دیہات میں بھی یہ لوگ پائے جاتے ہیں۔مثلاًجنجریت،چترال خاص،کوغذی،استنبول،برے نس،بگشٹ،اوژور،اویر،موردیر،کوشٹ،کشم،نشکو،سوروہت اور تریچ وغیرہ۔

نئی تاریخ چترال(غلام مرتضیٰ) کے مطابق داشمنے نام دانشمندے کی بگڑی شکل ہے۔ اس قبیلے کا جد امجد جو باب ایوب کے ساتھ آ یا تھا عالم فاضل آدمی تھا اس وجہ سے دانشمند کہلاتا تھے۔ اسکی وجہ سے قبیلے کانام دانشمندے پڑ گیا۔ ۔لیکن مقامی طورپر اس نام کوبگاڑ کے داشمنے بنایا اب بھی کھوار زبان میں عالم کودشمان کہتے ہیں۔اسی مناسبت سے اس قبیلے کانام داشمنے پڑگیا(بر سبیل تذکرہ اس حوالے سے ایک لطیفہ بھی ہے۔ایک دفعہ چترالی ایک داشمان(عالم) اور ایک ہندو برہمن میں جھگڑا ہوگیا۔داشمان نے اسکو کہا جانتے ہو میں داشمان ہوں۔اس نے برجستہ جواب دیا اگر تم دس من ہو تومیں بارہ من ہوں)۔اس قوم کی اصلیت کے بارے اخوانزادہ نے(تاریخ اقوام صفحہ173تا184)کافی تفصیل سے بحث کی ہے۔جس کا خلاصہ ذیل میں دیاجاتا ہے۔دشمنے عارف جلال الدین فریدون کی اولاد ہیں جو مولانا رومی ؒ کاپوتا تھا۔جو تبلیغی مشن میں وسطی ایشیاء سے چترال میں وارد ہوئے اور یہاں کے اسوقت کے حکمران نے ان کو استاری گاوں (سہرت)میں رہنے کو جگہ دی۔وہ عالم فاضل شخصیت تھے۔اور لوگوں کو دینی تعلیم دینا شروع کی۔اور لوگوں میں دانشمند مشہور ہوئے۔

بعد میں یہ نام بگڑ دشمن بن گیا اور اسکی قوم دشمنے کہلائی اس قوم کے افراد تاحال چترال کی تاریخ میں اہم حیثیت کے مالک رہے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں قضاۃ کا منصب بھی اس خاندان کے اصحاب کے پاس رہاتھا۔اور رئیس حکمران کے دور میں بھی ان کے مشاہیر کا تذکرہ آیا ہے۔اور کٹورے دور میں بھی ان کے کئی مشاہیر نے ان کے ساتھ مشکل حالات میں وفاداری نبھائی جسکی وجہ سے اہم مناصب کے حقدا ررہے۔“
نئی تاریخ چترال (صفحہ333-332) میں گذشتہ صدی کےآخیری عشروں میں اس قوم سے تعلق رکھنے والے لفٹننٹ سردار امان شاہ اور ظفر احمد خان کا ذکر یوں ہوا ہے۔لفٹننٹ سردار امان شاہ بن حضرت جی(جی صوبیدار) نے سکردو کے محاذ پراپنی اعلےٰ کارکردگی کی وجہ سے فوج کے کمانڈر شہزادہ محمد مطاع الملک سے سند حسن کارکردگی حاصل کی تھی۔اور اس وقت ان کو لفٹننٹ کا عہدہ بھی تفویض کیا گیا تھا۔

ظفر احمد خان بن حاجی اقبال خان چترال مسلم لیگ کے اولین قائدین میں شامل تھااور پارٹی کاجنرل سیکرٹری مقرر ہوا تھا۔اور اس پارٹی کی اعلےٰ تنظیم میں اعلےٰ کارکردگی کامظاہرہ کیا۔مزید چترال کے لوگوں میں آزادی کا شعور پیدا کرنے کے سلسلے میں اہم کردار کیا تھا۔1958ء میں ریاست کی نئی تنظیم میں مشاورتی کونسل کا موڑکھوحلقے سے رکن منتخب ہوئے۔بعد میں ضلع مستوج کے ڈپٹی کمشنر اور مالیات سیکرٹری وغیرہ عہدوں پررہے اورآخری ایام میں گلگت میں ٹریڈ کمشنر رہے۔ایک لائق اور دیانتدار افیسر کی حیثیت سے تادیر یاد رکھے جاتے رہے ہیں۔راقم کوان کے سکول کا ایک واقعہ یوں بتایا گیا تھا۔۔”وہ چترال سکول کے اولین طلبہ میں سے تھے۔ایک دفعہ سکول کی سالانہ تقریب میں جس میں ہزہائی نس محمد ناصرالملک موجود تھے۔اس نے تقریرکی جسے بہت سراہا گیا۔ہزہائی نس کے مصاحب میں سے کسی نے طنزاًکہا کہ ہمیں توقع نہیں تھی کہ کھدرپوش کا لڑکا اتنی اچھی تقریر کرے گا“۔ہزہائی نس بہت ناراض ہوئے اور کہا تمہیں کیا پتہ کل جاکے یہ کھدر پوش کا لڑکا کتنا بڑا آدمی ہوگا۔(بحوالہ راقم کی کتاب ناصرالملک صفحہ 348)۔

صوفی صاحب سنگور: ان کا اسم گرامی میرزا محمد تھا۔آپ کا تعلق دشمنے قوم سے تھا۔ان کے آباواجداد موڑکھو سے سنگور جاکے آباد ہوئے تھے۔اُنہوں نے پشاور سے تحصیل علم کیا۔اور حج بیت اللہ کی سعادت اور روضہ پاک ﷺ کی زیارت سے بھی شرفیاب ہوئے۔بتایا جاتا ہے کہ ان کازیادہ ترسفر پیدل تھا واپسی پرہندوستان کا ان کا سفر بھی پیدل تھا۔اس دوران بادشاہ صاحب لغمان کے سلک ارادت سے وابستہ ہوئے۔زہد تقویٰ توان کی طبیعت میں بچپن سے ہی تھا۔اب اس میں مزید ترقی ہوئی۔اعلیٰحضرت شجاع الملک ان سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔آپ نے1926ء میں وفات پائی۔ان کا مرقد سنگور میں واقع ہے اور مرجع خاص وعام ہے(حوالہ غلام مرتضیٰ۔صفحات 405-406).

مندرجہ بالا کے علاوہ سہرت میں خوشے بھی آباد ہیں جو تورکھو سے یہاں آئے اور بہریئے اور کشمے نہایت قدیم باشندے ہیں جوکسی زمانے میں یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔
5۔قریہ زائینی: زائینی موڑکھو کے قدیمی دیہات میں سے ایک ہے۔یہاں قدیم زمانے کے چنار موجود ہیں جویہاں کی قدامت کے ثبوت ہیں۔یہا ں کے دوقبیلے شان ٹوٹے اور تاواڑے روایت کے مطابق رئیس دور سے یہاں آباد ہیں۔یہ پہاڑوں کے درمیان طاس کی مانند ایک خوبصورت قریہ ہے چشموں سے سیراب ہوتا ہے۔نہایت زرخیز ہے لیکن پانی کی کمی کا شکار ہے۔اس میں ذیلی دیہات زائینی نوغور،پشال دور،سرماری،کوٹھالان دور،شکاران دور اوراستابون پرمشتمل ہیں۔یہاں کے اہم قبیلے کٹورے،سنگالے،رضا خیل،وزیربیگے،تاواڑے،دربہ اولے اور شان ٹوٹے وغیرہ ہیں۔
دربہ اولے قدیمی قبیلہ لگتا ہے۔باقی قبیلوں کادوسری جگہوں میں ذکر ہوچکا ہے۔

6۔گہت: دراسن نوغور کے قریب پہاڑی کے ڈھلوان پرگہت کا قریہ آباد ہیں۔اسکے ذیلی دیہات کے نام یہ ہیں۔مہتری ڈوک،بھیلی،گہت توری،گہت موڑی،دودو ، مارینی اور ڈوک ژیلی ۔ یہاں سے تریچ آن کے ذریعے تریچ کو پگڈنڈی بھی جاتی ہے۔جو12820فٹ اونچائی سے ہوکے وریمون(تریچ) میں نکلتی ہے۔یہاں بسنے والے قبیلوں میں حاتم بیگے،روشتے،سنگالے،بیگالے شغنے،رونو اور زون وغیرہ شامل ہیں۔زون قبیلے کے بارے میں زوندران گرام(تریچ) میں کچھ تذکرہ ہوا تھا۔یہاں شاہ حسین گہتو(اوراق گلگت،چترال صفحہ184تا187) کے حوالے ذیل اضافہ پیش کیا جاتا ہے۔جیسا پہلے ذکر ہوا تھا۔اس قبیلے کے مورث اعلےٰ زون کے بیٹے ظاہربیگ اور اسکے بیٹے کا نام شاموش تھا۔جس کے تین بیٹے علی مالک،شاہ ولی اور قحتہ عاشور تھے۔علی مالک اور شاہ ولی زوندران گرام میں ہی مقیم رہے۔قحتہ عاشور گہت(وریجون) کے اپنے قبیلے کے ایک سردار شنگ رائے کے خاندان میں شادی کرکے خانہ داماد بنا۔چونکہ ان کے سسر کاکوئی نرینہ اولاد نہیں تھا۔اسلئے وہ اپنے سسرکے جائیداد کا وارث بنا۔اس خاندان سے تعلق رکھنے والے کئی مشاہیر حال تک کٹور حکمرانوں کے درباروں میں اہم حیثیت کے مالک رہے۔عہد قدیم میں اس قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت شنگ رائے اہم حیثیت کامالک رہاتھا۔موڑکھو اور زون دران گرام میں سینکڑوں چکورم ارضیات کامالک بھی تھا۔راویوں کے مطابق یہ صاحب قلعہ شخص تھاترکوں /رئیسوں کے دور میں یہ خاندان زیرعتاب آیا۔گہتوی کے مطابق ترکوں کے حملوں (1540-1640)یعنی ایک سوسالوں کے دوران یارقندیوں نے چترال پرجو حملے کئے تھے ان حملوں کی زد میں زون قبیلے کاسردار شنگ رائے اوران کا خاندان بھی آیا تھا۔اس وقت شنگ رائے کے بیٹوں کوقتل کرایاگیا تھا۔اور اس بوڑھے سردار کی جان بخشی کی گئی تھی۔اس واقعے کاذکر پیٹر پارکس نے بھی کیا ہے اور لکھتا ہے۔”چترال کے طول وعرض میں کالاش اور کھو سرداروں کوچینی ترکستان کے یارقند یوں نے قتل کردئیے تھے۔چترال کے نئے مسلمان ترکستانی حکمرانوں نے قدیم چترالی حکمرانوں پر ٹیکس بھی لگائے تھے۔

جان بڈلف نے بھی اس واقعے کا ذکر یوں کیا ہے”راجہ شری بدت کے حکومت کے احتتام پرآذر کے خاندان کی حکومت گلگت اور چترال پرقایم ہوئی تھی۔اس کی حکومت کے دور میں عبداللہ خان ازبک کی وفات(1598) کے بعد ترکوں نے چترال پرقبضہ کرلیا تھا۔اس مذکورہ ترک سردار کی عورت کے ساتھ بڈلف کے بیان کے مطابق زیادتی کا واقعہ پیش آیا تھا۔جس کے نتیجے میں ترکوں نے قتل عام کا حکم دیا تھا۔“مقامی روایات کے مطابق ترک عورت مورد الزام ٹھہری تھی۔وہ اس طرح کہ اس زمانے میں ایک دفعہ علاقہ کھو کا ترک/رئیس حکمران اپنے مستورات کے ہمراہ سیروتفریح کے لئے علاقہ تریچ کے زوندران گرام آئے۔اس وقت شنگ رائے اپنے بیٹوں کے ساتھ زوندران گرام میں مقیم تھا۔ان کے بیٹوں میں سے ایک بہت حسین تھا اور ترک شہزادی کادل اس پر آگیا۔اور اس سے اپنی مطلب براری کی کوشش کی۔اسکے انکار پرشہزادی نے الٹا اسکو الزام دیا کہ وہ مجھ سے زیادتی کرنا چاہتا تھا۔اس پرترکوں نے ان کے سب بیٹوں کوقتل کرکے رکھدیا۔“

اس کے بعد شنگ رائے واپس گہت اپنے جائیداد پرچلاگیا جہاں انہوں نے غیرآباد زمینات کو نہرروغونڈوک کی تعمیر کرکے سیراب کردیا۔جسکی طوالت 5میل ہے۔شنگ رائے کی نوآبادی ورثے میں زونے کو ملی۔جسکا نصف حصہ کٹوردور میں روشتے قبیلے کو منتقل ہوئی۔دونوں قبیلے تاحال اس جائیداد پرآباد ہیں۔
7۔کوشٹ:دریائے تورکھو اور دریائے مستوج کے سنگم پردریائے تورکھو کے مغربی کنارے پرتریچ آن کے ڈھلوان پر6400فٹ اور تقریباً8ہزار فٹ کی بلند یہ موڑکھو کا اہم قریہ آباد ہے۔بدھ مت کے زمانے کے آثار اور دوسرے آثار قدیمہ کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام چترال کے نہایت قدیمی دیہات میں سے ہے۔بعض نشانیاں کلاش دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً بشالینی مقام۔ پرانے زمانے میں یہاں سے کسی حملہ آور لشکر کے گزرنے کا وقعہ کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ یہاں بت نام کا ایک مقام بھی تھا جہاں پرانے زمانے میں بت نصب ہوگا۔

اس قریہ کے پیچھے کوشٹ زوم کی چوٹی ہے جو 4731میٹر(15518)فٹ بلند ہے۔اس چوٹی کے نواح سے کوشٹ گول (ندی) نکلتا ہے۔جواس قریے کو سیراب کرتا ہے اور اس کے درمیان میں بہتا ہے اور قریہ کو دوحصوں میں تقسیم کرتا ہے۔یہ ندی گرمیوں کے مہینو ں میں بالائی حصے میں برف کے پگھلنے سے اور باقی مہینوں میں چشموں سے سیراب ہوتا ہے۔چشموں کی تعداد آٹھ ہے جن میں سے چھ کے نام لئے اوچھوغ،چھیر اوچھوغ،دیرشالوغ،غال وختوغ،غوچھاروغ،میرغیزوغ وغیرہ ہیں۔یہ چشمے ندی کے مختلف حصوں میں نکلتے ہیں۔اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ان چشموں کا منبع ایک گلیشیائی جھیل ہے جوکوشٹ کے پیچھے پہاڑ کی اگلی طرف واقع ہے۔گرمیوں میں برف پگھلنے کے دوران ندی میں کافی پانی ہوتا ہے۔باقی مہینوں میں چشموں کاپانی یہاں کی ضروریات کے لئے ناکافی رہتا ہے۔چنانچہ اس مسئلے کوحل کرنے لئے مصنوعی گلیشئر لگانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور حال کے زمانے میں حکومت کی مد د سے پہاڑ کے اوپر سے تریچ وادی سے نہر لانے کی سکیم زیرعمل ہے۔

جغرافیائی طورپرکوشٹ کوبالائی کوشٹ اور زیریں کوشٹ میں تقسیم کرتے ہیں۔جن میں مندرجہ ذیل دیہات آباد ہیں۔
بالائی کوشٹ:جماران دہ،دراسن،غاری گرام۔
زیرین کوشٹ: اوناردیر،سندراغ،ڑوماڑی،نوروڑی،موڑکوشٹ،تورگمبار،بوت،لشٹ اور موڑی سندراغ کوشٹ میں مندرجہ ذیل قبیلے قیام پذیر ہیں۔رضاخیل،طرقولے،نعمت اللہ،بدالے،محمد بیگے،شاہ نوے،زرگرے،رئیسے،جمارے،
کوراکے،راماسارے،گوشاکے،طہرے،اوکیلے،مگاسرے،ڈوقے۔
کوشٹ قریے کا ابپاشی کا نظام کافی دلچسپ ہے۔اسلئے قبائل کے تذکرے سے پہلے یہاں کے اب پاشی نظام کا مختصر جایزہ لیا جاےگا۔ ۔۔(باقی آیندہ)


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
79227