Chitral Times

Jul 5, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال کے مختلف مقامات کی لوک تاریخ (قسط -9) – پروفیسر اسرارالدین

شیئر کریں:

چترال کے مختلف مقامات کی لوک تاریخ (قسط -9) – پروفیسر اسرارالدین

موڑ کھو میں درِییانو  (Mass Movement) کا مسئلہ:۔

موڑکھو  علاقے کی ایک خصوصیت درییانو یا ماس موومنٹ کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ یہاں کے کئی جگہوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن کشم میں اِسکی صورتحال شیدید ترین ہے۔ بعض صورتوں میں اس کو لینڈ سلائڈینگ بھی کہا جاتا ہے۔

درییانو یا ماس موومنٹ کا اردو ترجمہ متحرک زمینی مواد کرسکتے ہیں۔ یہ کیوں ہوتا ہے؟ اِس کے کتنے اقسام ہیں؟ اور اِس کے اثرات کیا ہوتے یہ ایک لمبی بحث ہے۔ یہاں طوالت سے بچنے کے لئے اِس مسئلے کے صرف ضروری نُکات کی طرف اِشارہ کیا جاتا ہے۔

ماس موومنٹ کی تعریف یوں ہے، زمین کی کشش ثقل کی وجہ سے چٹانیں اور دوسری مواد متحرک ہو کے پہاڑ کے ڈھلوان کے ساتھ نیچے کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں۔ جسے ماس موومنٹ کہا جاتا ہے۔۔ اور کہوار میں اُسے درییانو کہا جاتا ہے۔ عام طور پریہ مسئلہ ایسے علاقوں میں وقوع پذیر ہو جاتا ہے جہاں کی زمین کی ساخت غیر مستحکم (Unconsolidated) ہو۔ اور ڈھلوان زمین پر واقع ہو۔ اور کشش ثقل کی وجہ سے پہاڑ کی ڈھلوان کے ساتھ نیچے کی طرف متحرک یا منتقل ہونے کا باعث ہو۔اس طرح غیر مستحکم زمین

 

کی منتقلی کو مہمیز لگانے کے لئے بارش کی زیادتی، نباتات کی کمی، قدرتی طور پر جذب شدہ پانی کی مقدار میں زیادتی، زلزلوں کی آمد وغیرہ اسباب اہم کردار کرتے ہیں۔ اِن کے علاوہ ارضیاتی اصطلاح میں فالٹ لائین (Fault Line) پر یا اُس کے نواح میں کوئی علاقہ واقع ہو۔ تو وہاں بھی یہ عمل واقع ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔  ڈاکٹر ظہیر احمد کے مطابق موڑکھو اور کشم کے علاقے میں ماس موومنٹ کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔

1. موڑکھو کا علاقہ تریچ میر فالٹ لائن کے نواح میں ہے۔
2. ارضیاتی طور پر کشم کی سرزمین کی ساخت غیر مستحکم  ہے۔ اِس کی وجہ سے یہاں پر یہ مسئلہ خاص طور پر شدید تر ہے۔
3. چمور مال پہاڑ کی چوٹی کا اِس نواح میں واقع ہونا:۔ کہتے ہیں کہ یہ پہاڑ مختلف معدنیات مثلاً انٹی منی وغیر ہ سے پُر ہے۔ شاید اِسوجہ سے بھی اِ س زمین کی ساخت غیر مستحکم ہو۔
4. کہتے ہیں کہاِس زمین کے اندر  پانی کی مقدار خاصی زیادہ ہے جو تریچ آن سے جذب ہوکر نیچے آتا ہے۔ اس  سے اِس زمین کی ساخت غیر مستحکم ہے۔
5. کالی مٹی  (Black Soil): کشم کی مٹی کالی مٹی پر مشتمل ہے۔ اِس قسم کی مٹی کے اندرپانی جذب کرنے کی خاص خصوصیت ہوتی ہے۔ جو ماس موومنٹ کا سبب بن جاتا ہے۔

 

کشم میں قدیمی آثار:۔

شاہ حسین گہتلوی نے اپنی کتاب ’’اوراقِ گلگت و چترال‘‘ میں (صفحہ نمبر 4،3) میں قلعہ خراسان (قوراسان) علاقہ ہن دروئی (Hundroi) کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں یہ قلعہ کشم اور زیزدی کے درمیاں ایک پہاڑی ہن دروئی کے مقام پر واقع ہے۔ اِس قلعے کے مکین مقامی روایت کے مطابق لنڈا ہور تاجدار نامی ایک کافر سردار تھا۔ جو بکریوں کے بالوں سے بنا لباس استعمال کیا کرتا تھا۔ کیونکہ اُس وقت اِس علاقے میں سوتی کپڑے نایاب تھے۔ قلعہ خُراسان کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قلعہ کسی خُراسانی سردار کا تعمیر کردہ تھا جس نے اپنے اصلی وطن کے نام سے اپنے قلعے کا نام رکھا تھا۔

 

 

کشم کے قبائل:

بوشے: اِس قریے کا بڑا اور اہم قبیلہ بوشے ہے، کشم میں مقیم کئی دوسرے قبیلے مثلاً مانایئے، بیگانے، ڈولے (گاچھتریک) وغیرہ بھی اِسی قبیلے کی شاخیں بتائی جاتی ہیں۔

بوشے کشم باکے کی اولاد بتائی جاتی ہے جو ایک اندازے کے مطابق چودھویں صدی میں یہاں آکے آباد ہوا تھا (ڈاکٹر فیضی)      روایات کے مطابق اِس قوم کے اباو اجداد کا تعلق اصلیت میں چلاس سے بتا یا جاتا ہے پہلے وہاں سے یہ لوگ لاسپور بعد میں یہاں آکے آباد ہوئے تھے۔۔ یہ بھی بتا یا جاتا ہے کہ دراصل (بمطابق محمد ولی اور نورزمان) یہ لوگ عرب نژاد تھے کسی زمانے میں امیر خُسرو کے ہمراہ شمال مغربی برصغیرآئے تھے اور مانسہرہ میں آباد ہوئے تھے۔

اُن کے اولین جد امجد کا نام لنداہور (بمطابق محمد ولی سابق کلکٹر) بتا یا جاتا ہے۔ وہاں سے چلاس آئے تھے۔
پروفیسر کارل یتمار اور بڈلف کے مطابق وادی سندھ، کوھستان اور کشمیر میں اکثر لوگ اپنے آپ کو قریشی الاصل یا عرب بتاتے ہیں۔ لیکن کسی کے پاس ٹھوس ثبوت نہیں۔ (بڈلف صفحہ 35)

حقیقت کچھ بھی ہواپنی حیثیت سے اُ ن لوگوں نے فائدہ ضرور اُٹھایاہو گا۔ اس وقت چیلاس کے آس پاس بدھ مت کا پیرو بادشاہ حکومت کرتا تھا (بمطابق ڈاکٹر فیضی)۔لا ولد مرا۔ لندا ہور کے بیٹے بوٹ شاہ اور شاہ بوڈک جو اُس وقت یہاں آباد تھے۔ اُنہوں نے ملکی افراتفری سے فائدہ اُٹھا کر حکومت پر قبضہ کرلیا۔ بوٹ بادشاہ بنا۔ لیکن اپنے بھائی اور اُس کے بیٹوں کے ساتھ بُرا سلوک کرنے لگے۔

اُس سے تنگ آکر شاہ بوڈک کو اپنے دونوں بیٹوں چھوک مچھوک (باچاق ماچاق) اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ چلاس سے کُوچ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ چھوک عشریت میں جا کے بسا۔۔ اور اُس کی اولاد میں ایک فرد گُل سنگ کے نام سے مشہور ہوا۔ جس کی وجہ سے یہ لوگ گُل سنگے کہلاتے ہیں۔ اُن کا ذکرعشریت کے تذکرے میں کیا جائے گا۔

مچھوک یا ماہ چاق سور لاسپور جاکے آباد ہوا۔ ڈاکٹر فیضی کے مطابق اُن وادیوں میں اِن لوگوں کی آمد چودھویں صدی کا وسط اور ریئس حکمرانوں کا دور تھا۔ حال ہی میں عبد الرزاق (گلگتی) نے اپنی کتاب ’’دردستان کا ایک قدیم نامور قبیلہ‘‘ میں اِن لوگوں کی منتقلی کا زمانہ گیارھویں صدی کا وسط بتا یا ہے  (صفحہ 296)۔

بحرحال مچھوک یا ماہ چاق کے دو بیٹے تھے۔ جن کے نام شاہ باق (شاہ عبدالقادر) المعروف کشم با کے اور بوڈک تھے۔ بوڈک کی اولاد سورلاسپور میں آباد ہوئی۔ اور بوژوکے کہلائی۔ (اُن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے)

کشم با کے کی اولاد بوٹ شاہ (بوشا) اور مردسنگ (یاموسنگ) شاخوں پر مشتمل ہے۔ اور کشم میں آباد ہوئی۔

بوٹ شاہ (بوشا، المعروف شاموش) کے پسماندگان کی اکثریت کشم میں  بشاندور (دستون)، اتروپی، گرام ژوئی، سوراغ، کھونیزاور ہوشی میں آباد ہیں۔  اِن میں سے کچھ مستوج، چترال اور اِسکے نواح اور اویون وغیرہ میں بھی پھیلے ہوئے ہیں، اِس شاخ کو خصوصی شہرت اُنیسویں اور بیسویں صدی میں اُس وقت ملی، جب اُس سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت قربان محمدکو اُس وقت کے حکمران سر محمد شجاع الملک کے بڑے بیٹے محمد ناصر الملک کی رضاعت اور تربیت کا اہم فریضہ انجام دینے کا موقع ملا۔ جو آگے چل کر چترال کے ہونہار ترین اور بیدار مغز حکمرانوں میں شمار ہوا۔
مرد سنگ کی اولاد کی اکثریت کشم میں گاچھتر، گوم اور چھرانی میں آباد ہے۔ گاچھتر میں رہنے والیخیراللہ کی اولادمیں سے ہیں۔اور مرد سنگے (موسنگے) کہلاتے ہیں۔ جبکہ سیف اللہ کی اولاد گوم اور چھرانی میں آباد ہیں۔۔ اور سیف اللہ کے بیٹے ببگان کی نسبت سے اپنے آپ کو بیگانے کہتے ہیں۔ بیگانے قبیلے کے لوگ چترال میں کافی جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ مثلاً یارخون، لوٹکوہ، دروش، بروز، کوغوزی اور چترال خاص وغیرہ۔

روایت کے مطابق بیگانے شاخ کے جد امجد سیف اللہ اپنے زمانے میں اپنی بہادری، شمشیرزنی اور شہسواری کیلئے بہت مشہور تھے اُس نے کٹور دور کے شروع میں موڑکھو، تورکھو اور برینس میں اہم قلعے فتح کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جس کی وجہ سے شاہ محترم اول کے منظور نظر ٹھہرے تھے۔
سیف اللہ کا ایک بیٹازیرک نے بھی چقانسرائے کے قلعے فتح کرنے کے سلسلے میں خصوصی ناموری حاصل کی تھی کشم گول نام کا ایک چراگاہ  رینی گاڑو اپر لاسپور میں واقع ہے۔ جس سے اِس قو م کی وہاں سکونت کا ثبوت ملتا ہے۔ پُرانے زمانے میں ان کے مشاہیرمیں سے ایک خیراللہ کا پتہ چلتا ہے جو مہتر خیراللہ کا ہم عصر تھا۔ اور بہادری میں مشہور تھا  اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ۔’’شور خیرُالان سورا ای خیراللہ‘‘۔۔ ایک دفعہ ایک مقامی بادشاہ نے اُن کو غزر کے چُڑیلوں (گورواوں) کی سرکوبی کرنے بھیجا تھا، جب یہ اپنی لشکر کو لے کر وہاں پہنچا تو چُڑیلوں نے ایک چال کے طور پر اُن کو اپنا دودھ پینے کا کہا۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ ’’اِسپہ خیر اللہو بول، پسہ نو مری پسہ چھیرو پسیانہ‘‘، (ہم خیر اللہ کے لشکر والے ہیں بجائے تمہیں ختم کریں تمہارا دودھ کیوں پیئں۔ (بحوالہ محمد ولی، ہیڈ ماسٹر گل یوسف، ہیڈ ماسٹر عبدالمجید، ژان خان، حاجی عبداللہ، محترم خان، دل محمد وغیرہ)

حاتم بیگے (یا اتم بیگے): یہ قبیلہ کشم کے بورچون گاوٗں میں آباد ہیں۔ نئی تاریخ چترال (از غلم مرتضیٰ صفحہ 323) کے مطابق یہ قوم حاتم بیگ اؤل ابن گُرگ علی کی جانب منسوب ہے۔ رئیس حکمرانوں کے عہد سے معزز چلا آرہا ہے گُرگ علی رئیس عہد میں اتالیق کا منصب رکھتا تھا۔ شاہ کٹور آؤل نے جب مہم ملک گیری کا آغاز کیا اُس نے سب سے پہلے گُرگ علی اتالیق کو جو خاندانِ ریئسہ کا وفادار تھا اراروغ (موڑکھو) کے مقام پر قتل کرایا۔۔ او اُس کے لڑکے حاتم بیگ کو دلاسا دے کراپنے ساتھ ملا یا اور اپنی بہن کی شادی اُس کے ساتھ کردی۔ جن کی اولاد سے محمد شکور اور سلطان شاہ نامور لوگ گذرے ہیں۔

اخوانزادہ کے مطابق (اقوام چترال صفحہ 297) ’’اِس قوم کے جد اعلیٰ گلگت کے علاقہ داریل سے ہجرت کرکے چترال آیا۔ اور موڑکھو میں اقامت اختیار کرلی۔ اُس کا ایک بیٹا ہاشم کشم، دوسرا لڑکااویون اور تیسرا لاسپور میں آباد ہوا‘‘۔

نورزمان (مشہور شجرہ خوان) کے مطابق یہ قبیلہ اُس زمانے میں چترال آیا تھا جب کشم باکے کے آباواجداد چلاس سے آئے تھے یعنی ریئس کے دور میں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنے علاقے کے معزز افراد تھے اس لئے ریئس بادشاہ کے دربار میں شروع سے ہی اہم حیثیت کے حقدار رہے۔ اِس خاندان سے تعلق رکھنے والے کئی افراد آنے والے زمانوں میں معزز حیثیت کے مالک  رہے۔ جن میں اتالیق محمد شکور خاص طور پر ممتاز رہیں۔

 

اتالیق محمد شکور غریب:

بتایا جاتا ہے (راوی گُل نواز خاؔکی) محمد شکور سنگین علی بادشاہ کے دربار میں اتالیق (یعنی وزیر اعظم)کے منصب پر قائم رہے۔ وہ ہندوستان کے سفر کے دوران سنگین علی کے ہم رکاب رہے یہ اُس زمانے کی بات ہے جب چترال پر کٹور خاندان کے تسلط کے ابتدائی دور میں کچھ عرصے کے لئے اُن سے حکومت چھیں لی گئی تھی۔ چنانچہ سنگین علی اپنے چند معاحبوں  کے ہمراہ (جن میں محمد شکور بھی تھے) ہندوستان چلا گیا۔  اور شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی خدمت میں حاضر ہوکراُن سے اپنی حکومت دوبارہ حاصل کرنے کے سلسلے میں مدد مانگی۔ اور اُن کی مدد سے دوبارہ چترال پر قبضہ کرنے اور کٹور خاندان کی حکومت  کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوا۔

تاریخ چترال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے (ص 323) کہ محمد شکور صاحب سیف و قلم بھی تھے۔ اُن کے سلک ازدواج میں سنگین علی کی دو بیٹیاں بادشاہ بیگم اور نزاکت بیگم یکے بعد دیگرے آئی تھیں۔ البتہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اُ ن کی ازدواجی زندگی میں ذہنی ہم اہنگی کا فقدان رہا، پہلی بیوئ ذہنی طور پر کمزور تھی اس لئے اُس کے ساتھ نباہ ایک مشکل معاملہ تھا۔ دوسری بیوئ اگرچہ تیز طرارتھی، لیکن اپنے خاندان کی برتری کے گھمنڈ میں محمد شکور کو پرکاہ کے برابر بھی سمجھنے کو تیار نہ تھی۔ چنانچہ زندگی بھر غاؔلب کی طرح محمد شکور بھی ازدواجی طور پر محرومیت اور پریشانی کا شکار رہے، ممکن ہے اُن کے کئی اشعار اِسی محرومیت کا  پرتو ہوں۔

شہزادہ تنویر نے اُن کے اخری لمحات کا اِس طرح نقشہ کھینچا ہے ’’جب میدانِ جنگ سے اُنہیں زخمی اور قریب المرگ حالت میں گھر پہنچایا۔ تو بیوئ اُنہیں اِس حال میں دیکھ کر اُن کے سرہانے بیٹھ کر شدتِ غم سے رونے لگی۔ محمد شکور غریب نے انکھیں کھول کر بیوئ  کو روتے اور آہ وزری کرتے ہوئے دیکھا تو اُن سے مخاطب کرتے ہوئے شکوہ کنان ہو کر فی البدیہہ یہ فارسی اشعار کہہ دیا
رُفیقا! در زندگانی قدرِ ما نہ شُناختی.

بعد مردن در پائے تابوت نالیدن چہ سود
(موڑکھو صفحہ 174)

چترال کے حکمرانوں میں  اتالیق یا وزیر اعظم بہت گذر چُکے ہیں لیکن محمد شکور غریب سب سے ممتاز اس لئے ہیں کہ وہ چترال کے ایک قدیم ترین عظیم فارسی شاعرا ور کھوار زبان کے پہلے ادیب شمار ہوتے ہیں۔ اُن کا دیوان ’’گنجینہء غریب‘‘ یا ’’دیوانِ غریب‘‘ اُن کو ہمیشہ کے لئے  ادب کی دنیا میں زندہ رکھے گا۔  اُن کی شاعری کے بار ے میں نئی تاریخ چترال (از غلام مرتضیٰ صفحہ 410) کے مصنف یوں رقم طراز ہیں۔ محمد شکور غریب شعرو شاعری میں بڑا بلند  مرتبہ رکھتا تھا۔ اُس کی مثنویاں رموزواسلوب کی کلید اور یقین کی دلاویز شاخیں تھیں۔ اُس کی غزلیں بڑی ہی دلکش اور رنگین ہیں۔
راقم (اسرار)کے نزدیک محمد شکور غریب کی شاعری کا ایک پہلو جس سے خاص طور پر  انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا وہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ زندگی بھر حکومت کے اہم عہدوں پر فائز رہا اور بادشاہ  کا نزدیکی مصاحب رہا اور علاقے کے اشراف (Elite)میں ہمیشہ اُن کا شمار رہا۔ لیکن پھر بھی اُن کے اشعار میں دنیا سے بے زاری، جاہ حشمت سے نفرت اور تنہا پسندی ٹپکتی رہتی ہے، اُن کے افکار زیادہ تر دنیا کی بے ثبائی، لوگوں کی بے وفائی، خود عرضی اور اُن کی دنیا پرستی جیسے موضوعات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ البت اُن کا اندازِ بیان نہایت دلندیز اور اظہارِخیال کا اُسلوب نہایت ہی دلنشین اور بے حد دلچسپ ہے۔

اُن کی حاضر جوابی اور بُذلہ سنجی کے بھی قصّے مشہور ہیں۔  بتایا جاتا ہے کہ جب وہ بادشاہ کے ساتھ دہلی گیا تھا۔ تو وہاں ایک دن اورنگزیب بادشاہ کے دربار میں کسی درباری نے مزاحیہ انداز میں یہ بتایا کہ میں نے ایک عجیب تماشہ دیکھا  کہ مچھلی درخت پر چڑھا ہوا تھا۔ محمد شکور نے فوراً جواب دیا۔ کہ چھان (غربال) میں پانی بھر کر درخت کے نیچے جاتے تو مچھلی اُس میں آسکتا تھا۔

اسی طرح ایک دفعہ وہ  بادشاہ کے سفیر کی حیثیت سے امیرِ بدخشان کے ہاں مہمان تھا امیر نے کھانے میں شولہ (کھچڑی قسم کا ایک ڈِش جس میں گوشت ڈالتے ہیں) پیش کیا۔ محمد شکور کو امیر کایہ رویہ پسند نہ آیا۔ بحر حال کھانے کے دوران وہ ناگواری کے انداز میں ہڈی چبا رہا تھا۔ امیر نے کہا آپ ہڈی خود چبا رہے ہو کُتے کو کیا کھلاتے ہو شکور نے فورا ً جواب دیا کہ ہم کُتے کو شولہ کھلاتے ہیں۔

سنگالے: یہ لوگ کٹور دور میں کشم آکر آباد ہوئے اور چترال کے دوسرے حصّوں میں بھی جگہ جگہ آباد ہیں تاریخ چترال (غلام مرتضٰی صفحہ 300) کے مطابق یہ قوم مہتر سنگین علی ثانی ابن شاہ کٹور اول کیجانب منسوب ہے۔ اِ س قوم کی تاریخ کا مختصر خاکہ آگے بیان ہوگا۔ یہاں مختصراً یہ بیان کرنا مقصّود ہے کہ یہ قوم اپنا تعلق چغتائی خان سے جوڑتی ہے تاریخ کے مطابق چغتائی مغل چغتائی خان (جو چنگیز خان کا دوسرا بیٹا تھا) کی اولاد ہیں۔ جس نے وسطی ایشیاء میں چغتائی خانات کی بنیاد رکھی تھی۔ وہاں سے یہ لوگ برصغیر میں (بالخصوص پاکستان میں)اُس وقت آئے جب یہاں مغلیہ خاند ان کی حکومت قائم ہوئی۔بتایا جاتا ہے کہ چغتائی خان نے اپنے باپ (چنگیز خان) کی وفات کے بعد وسطی ایشیاء کے پانچ ملکّوں پر تسلط حاصل کیا تھا اور 18 اگست 1227 ء سے اپنی وفات یکم جولائی 1242 ء تک اُ ن پر حکومت کی۔ اُن کے باپ نے اُن کو اپنے بنائے ہوئے قانون ’’یاسا‘‘کی نگہداری کی ذمہ داری بھی سونپ دی تھی۔ (Chaghtai Wikipedia میں) اِس خاندان سے تعلق رکھنے والے کئی شخصیات چترال کی تاریخ میں نامور گذرے ہیں۔ یہاں صرف آغا سعدی چغتائی مرحوم کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔

آغا سعدی خان چغتائی (بہ حوالہ راقم کی کتاب سرناصرالملک  صفحہ 269) آپ ’’آغا‘‘ نام سے مشہور تھے۔ میرزا عبادت خان کے فرزند تھے۔  جو کہ ایک صاحب علم اور معزز شخصیت تھے۔ اور اعلیٰ حضرت محمد شجاع الملک (1936-1895) کے اُستاد رہ چکے تھے کونسل عدلیہ کے اولین ارکان میں سے تھے آغا سعدی خان نے دھلی میں اُردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ واپسی پر 1922 ء میں اعلیٰحضرت محمد شجاع الملک کے پرسنل سکریٹری مقرر ہوئے اور 1952 ء تک اس عہدہ پر رہے۔ اور اس دوران تمام حکمرانوں کے نہایت پرُ اعتماد حکام میں اُ ن کا شمار ہوتا تھا۔ ہز ھائی نس محمد ناصر الملک کی بیماری کے دوران تمام ریاستی احکام پر اُن کی اجازت کے مطابق بحکم ہزھائی نس آپ دستخط کیا کرتے تھے۔ آ پ حج کے سفر میں بھی اُ ن کے ہمراہ رہے۔ آپ کو شاہی علم بردار ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔۔ مظفر الملک کے زمانے میں اُن کے ہمراہ پشاور میں قائد اعظم کے ساتھ ملاقات بھی کی تھی۔ آپ کو ریاستی باڈی گارڈ میں کپتان کا عہدہ حاصل تھا۔ آپ کو چترال کے حاکم کا منصب بھی ملا تھا۔

 

چاپانے یا چپانے:  یہ ایک قدیم قوم ہے پُرانے زمانے  شغنان سے  ان کا جد امجد چترال آیا تھا وہاں سے بدخشان کے علاقے کا مشہور پہناوا چپان چترال کے بادشاہ کی خدمت میں تحفّے کے طور پر لا یا تھا۔ جس سے اُن کا نام چپانے پڑ گیا۔ بادشاہ نے خوش ہوکر اُس کو یہاں اپنے پاس رکھا۔ بعد کے زمانوں میں اُن کی اولاد کشم میں آکر آباد ہوگئی۔

باٹولے: یہ خواجہ خیل قبیلے کی شاخ ہے۔
ٹھولے: یہ موسنگھے کی ایک شاخ جو تورکھو سے کسی زمانے میں یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔
مانایئے: یہ کشم باکے کی اولاد ہیں۔
بیگانے: یہ بھی کشم باکے کی شاخ ہیں۔
ڈولے:  (گاچھتریک)یہ بھی کشم باکے کی شاخ ہیں۔
ڑافے: یہ بھی بوشے کی شاخ بتائی جاتی ہے۔
باڑیئے: یہ بھی بوشے کی شاخ بتائی جاتی ہے۔
موسنگھے: یہ داریل تانگیر کے علاقے سے رئیس دور میں تور کھو آئے۔ اس کے بعد اسکی شاخیں مختلف جگہوں میں پھیلیں اور کچھ یہاں آباد ہوئے۔

قریہ سہرت

یہ قریہ تریچ آن کے مشرقی ڈھلوان کے ساتھ دریائے تور کھو کے کنارے سے جو سطح سمندر سے 2050 میٹر (تقریباً 9800 فٹ) کی بلندی پر ہے، تقریباً 3 ہزار میٹر (تقریباً دس ہزار فٹ) کی بلندی تک پھیلا ہوا ہے۔ اسلئے یہ کہاوت مشہور ہے کہ اگر سہرت کو اٹھا یا جائے تو یہ آسمان تک پہنچے۔ چنانچہ اِس کی اِس خصوصیت کی وجہ سے اسی ایک قریئے ہیں نیچے سے اوپر تک لوگوں کو ایک ہی وقت میں مختلف موسموں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اور مختلف موسموں کے پھل اُن کو میسر آسکتے ہیں۔ اس قریے کے اہم دیہات دراسن، وریجون، جمیلی، نوغوردور، شیران دور، دونو، استاری، خوشاندہ، بہریان دہ (تورگرام)، اوراروغ، گبند وغیرہ ہیں۔ اس قریہ کو تمام موڑکھو میں ہمیشہ مرکزی حیثیت  کا حامل رہا ہے۔ اور یہ قدیم زمانے سے آباد بتایا جاتا ہے۔ شہزادہ تنویر الملک کے مطابق (بحوالہ موڑکھو صفحہ10 اور45) یہاں کئی قلعوں کے کھنڈرات موجود ہیں۔ اسی نواح میں شیر کھن قلعے کے آثار ملے ہیں جو کلاش دور کی یادگار بتائے جاتے ہیں۔ دراسن میں کٹور حکمران کے محترم شاہ کٹور ثانی (1782 ء) کا تعمیر کردہ قلعہ اب تک موجود ہے۔ جو ایک وسیع رقبے میں پھیلا ہوا ہے۔ جو موڑکھو کے اخری کٹور گورنر خدیوالملک کی  اولاد کی جائیداد میں شامل ہے۔ 1953 ء کی نئی تنظیم کے بعدتاحال دراسن سے ملحق وریجون  تحصیل موڑکھو کا ہیڈ کوارٹر ہے۔

موصوف کے مطابق سہرت کے ذیلی گاوّں گبند بھی ایک تاریخی جگہ ہے اِس چھوٹے گاوّں میں سنگلے اور دشمانے قبیلے کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں کے ایک مسلم حکمران رئیس شاہ اکبر کے قلعے کے کھنڈرات موجود  ہیں۔ جو رئیس حکمران شاہ ناصر کے داماد اور پہلے کٹور حکمران محترم شاہ اوّل کے دادا تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اُس قبرستان میں کچھ قبریں ایک زمین دوز تہہ خانے کے اندر واقع ہیں اور تہہ خانے میں اُترنے کے لئے پُختہ اینٹوں سے سیڑھیاں بنائی گئی تھیں۔ جو ماضی قریب تک موجود تھیں۔ تاہم اُن کا کوئی وجود نہیں۔ (صفحہ 46)

قبائل
سہرت کے مختلف دیہات میں ذیل قبایل یا خاندان آباد ہیں۔

کٹُورے، سنگالے، داشمانے، روشتے، زوندرے (شیرے) اتم بیگے، بہریئے، کشمے، خوشے
کٹُورے:   کٹُورے چترال کا ایک قدیم ترین قبیلہ ہے۔ جس نے اِس علاقے پر تین سو سالو ں سے بھی زیادہ  عرصہ حکومت کی۔ اِن کی روایات کے مطابق یہ ہرات کے ایک شہزادے میرزہ  (بابا ایوب) کی اولاد ہیں جو شاہ اکبر رئیس  (1496 ء سے 1520 ء) کے دور ِ حکومت میں چترال ائے۔  بادشاہ نے اُن کی قدر افزائی کی اپنی لڑکی کی شادی اُن سے کی۔ لون، گُہکیر، کوشٹ اور چرون کے مقامات پر اُ ن کو جائیداد عنایت کئے بعد میں اُن کی اولاد موڑ کھو اور چترال کے دوسرے علاقوں تک پھیل گئی۔

بابا ایوب کا ایک پوتا سنگین علی رئیسہ کے خاندان کے اُس وقت  کے بادشاہ کے دربار میں بطور مصاحبِ خاص  عزت و شہرت کا مالک بن گیا تھا۔ اُس کی وفات کے بعد اُ ن کے پوتے محترم شاہ اور خوشوقت نے بادشاہِ وقت کی کمزوری اور ملک میں انتشار سے فائدہ اُٹھا کر علاقے کے اہم قبیلوں کی مدد سے بادشاہ کو ملک بدر کرکے تختِ چترال پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اُس وقت ریاست کی سرحد یں گلگت سے  چقانسرائے تک پھیلی ہوئی تھیں۔  اِس تمام سلطنت کو محترم شاہاول اور خوشوقت نے اپس میں تقسیم  کرلیا۔ زرین حصّے میں موڑ کھو اور تور کھو کیعلاقے شامل کرکے  محترم شاہ اوّل نے اپنی سلطنت قائم کی اور کٹور کا لقب اختیار کر لیا۔ اور کٹورے خاندان کی بُنیاد رکھ دی۔ ریاستِ چترال کا بالائی حصّہ یعنی مستوج تا گلگت خوشوقت کے حصّے میں آیا۔  جہاں اُس نے خوشوقتے خاندان کی بُنیاد رکھ دی۔  (غلامِ مصطفٰی، صفحہ نمبر 36 تا 47 اور صفحہ نمبر 94)کٹور خاندان کی حکومت  کچھ نشیبُ فراز کے با وجود 1969  ء تک چترال پر قائم رہی۔  اصلیت کے لحاظ سے یہ خاندان اپنے آپ کو مغلوں  کی اولاد بتاتا ہے۔  امریکہ میں ایک اسکالر نے اِس  خاندان سے تعلق رکھنے والے فرد کا  DNAٹسٹ کرایا تھا جس سے پتہ چلا کہ اُن کا تعلق چنگیز خان سے بنتا ہے۔ امریکہ میں 2003 ء میں تحقیق سے پتہ چلا ہے DNA ٹسٹ پر مبنی آج کل دنیا میں 16 ملین لوگوں کا سلسلہ منگولوں کے سردار چنگیز خان تک پہنچتا ہے۔ اِس طرح وہ دنیا میں چھ یا سات شخصیت میں سے ایک ہے۔

مغل خاندان کا سلسلہٗ نسب  ماں کی طرف سے چنگیز خان اور باپ کی طرف سے تیمور لنگ تک پہنچتا ہے۔ اِس قوم کی ایک شاخ سنگالے (جس کا پہلے ذکر ہوا ہے)  اپنے آپ کو چغتائی نسل سے منسوب کرتی ہے چغتائی نسل چغتائی خان  (جو چنگیز خان کا دوسرا بیٹا تھا)  کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔
ہندوستان میں مغلیہ خاندان کا بانی ظہیرالدیں بابر  (1483 ء تا 1530 ء) تھا۔ اُن کی والدہ قتلق نگار خانم یونس خا ن کی بیٹی تھی۔ جو چنگیز خان کے دوسرے بیٹے چغتائی خان کی اولاد میں سے تھی۔  بابر کا باپ ابو سعید میرزہ تیمور لنگ کا پڑ پوتا تھا۔ اِس طرح بابر کا سلسلہ نسب تیسری نسل میں تیمور لنگ تک پہنچتا تھا جبکہ ماں کی طرف سے  دسویں  پشت میں  چنگیز خان تک تعلق بنتا تھا۔ تیمور لنگ  (1370ء سے 1405ء)کی سلطنت وسطی ایشاء سے ترکی تک پھیلی ہوئی تھی۔اُس کی موت کے بعد اُس کی سلطنت اُس کے بیٹوں  شاہ رخ، میران شاہ، عمر شیخ میرزا اور پوتوں میں تقسیم ہوئی۔ ظہیرالدین بابر میران شاہ کی نسل سے تھا۔ جس نے بعد میں مغلیہ سلطنت کی بُنیاد رکھی۔  عمر شیخ میرزا کی نسل میں 1470 ء سے 1506 ء کے دوران سلطان حُسین  بایقرا ہرات کا بادشاہ بنا، اُن کے بعد اُن کے دو بیٹوں مظفر حُسین اور بدل الزمان ہرات کے بادشاہ بنے۔ لیکن اُن کی اپس کی چپقلش کی وجہ سے شیبانی خان جس نے 1500 ء میں اُزبک اقوام کو جمع کرکے تیموریوں کے خلاف محاذ کھڑا کرکے اُن کے علاقوں پر قبضّہ کرنا شروع کیا تھا ہرات پر بھی قبضّہ کر لیا اسطرح تیموریوں کو بے دخل کر دیا۔  حوالہ (www.quora.com)

اُس کے بعد سلطان بایقرا کی اولاد اِدھر اُدھر تیتر بتر ہوگئی ہوگی۔ جن میں سے میرزا ایوب بھی ہونگے۔  جو 1507ء کے بعد ہرات سے ہجرت کرکے بالاخر چترال وارد ہوئے۔ چترال میں اُن کا پہلا پڑاو لون کا گاوّں بتایا جاتا ہے۔ جہاں سے اُن کی اولاد دوسرے علاقوں میں پھیل گئی۔

نئی تاریخ چترال (صفحہ 47) کے مطابق میرزا ایوب اور اُن کے کچھ ہمراھی ایک ولّی کامل شمس الدین کی معیّت میں چترال وارد ہوئے تھے۔ ولّی مذکورہ اُن کو ایک مقام پر چھوڑ کرخود کہیں چلے گئے۔ اور ساتھیوں کو ہدایت کی کہ اُن کی واپسی تک اُن کا انتظار کریں۔ جب کچھ عرصیکے بعد ولی مذکورہ واپس آئے تو دیکھا کہ باقی سب چلے گئے تھے۔ ماسوائے بابا ایوب کے، شاہ صاحب اُن کے استقلال  پر بہت خوش ہوئے اور دعا دی کہ اُس ملک کی بادشاہت تمہیں اور تمہاری اولاد کو بخش دی گئی۔

بابا ایوب کے چوتھے پُشت میں (یعنی بابا ایوب ۔۔۔ ماہ طاق۔۔۔خوشحال۔۔۔ اور سنگین علی اوّل) سنگین علی اوّل مشہور ہوئے۔ اُن کے بارے میں وزیر علی شاہ مرحوم نے ایک روایت بیان کی ہے (چترال ایک تعارف صفحہ 45 –  50)۔

سنگین علی بچپن میں ایک دن کسی مقام پر اپنے ساتھی چرواہوں کے ساتھ مل کر بادشاہ وزیر کھیل رہا تھا۔ اُس دوران ریئس حکمران کا وہاں سے گذرہوا۔ بادشاہ نے دلچسپی سے بچوں کا کھیل دیکھا۔ اور سنگین علی کو کامیابی سے بحیثیت بادشاہ اپنا رول آدا کرتے ہوئے بڑا متاثر ہوا، چنانچہ اُس نے اُس کواپنی ملازمت میں لے لیا۔ کسے پتہ تھا کہ اگے چل کراُس خاندان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ہاتھوں رئیس خاندان کی حکومت ختم ہو جائے گی۔
کٹور خاندان کے قبضے کے بعد 22 بادشاہوں نے 1969 ء تک چترال پر حکومت کی۔ جن کے نام یہ ہیں۔۔۔۔محترم شاہ اوّل، سنگین علی ثانی، محمد غلام، شاہ عالم، محمد شفیع، شاہ فرامرد (خوشوقتے)، شاہ افضل اول، شاہ فاضل، شاہ نواز خان، شاہ خیر اللہ (خوشوقتے)، شاہ محترم شاہ(کٹور ثانی)، شاہ  افضل ثانی، محترم شاہ ثالث، آمان الملک، افضل الملک، شیر افضل خان، امیر الملک، محمد شجاع الملک، محمد ناصرالملک، محمدمظفر الملک، سیف الرّحمان اور سیف الملک ناصر۔ اِن میں سے خاص طور پر آمان الملک، محمد شجاع الملک اور محمد ناصر الملک کا ذکر کیا جاتا ہے۔

آمان الملک:   آپ 1856 ء سے 1862 ء تک چترال کے بادشاہ رہے۔ اُن سے پہلے بادشاہوں کو اندرونی سازشوں اور خطرات کا سامنا رہتا تھا۔ لیکن آمان الملک کے زمانے میں بین الاقوامی صورتحال نے ایسا رُخ اختیار کیا کہ چترال کا بطور ازاد ریاست برقرار رہنا مشکل نظر آرہاتھا۔ اس نے زبردست سفارتکاری اور سیاست کاری، دوراندیشی اور زمانہ شناسی جیسے اعلیٰ صفات کی بدولت نہ صرف چترال کی ریاست کو مستحکم کیا بلکہ اِس کے سرحدات کو ایک طرف گلگت کے پونیال اور دوسری طرف اسمار تک وسعت دینے میں کامیابی حاصل کی۔ غالباً اِ س وجہ سے ہندوستان کے ایک انگریز وائسرائیلارڈ کرزن نے اُن کے بارے میں لکھا تھاکہ ’’وہ ایسی ریاست اور مملک کے لئے موذون شخصیت تھے‘‘۔

 

آمان الملک ایسے زمانے میں بادشاہ بنا جب کشمیر سے افغانستان تک کا علاقہ زبردست بین الاقوامی سیاسی کھیل (جسے مورخیّن The Great Game کا نام دیتے ہیں)کا اکھاڑا بننے والا تھا ایک طرف برطانوی ہند شمال مغربی سرحدوں تک اپنی حکومت کو پھیلانے کی کوشش میں تھی۔ دوسری طرف کوہستان قراقرم کے شمال مشرق میں چین کی سلطنت تھی، تیسری قوت افغانستان کی تھی۔ اُس کی حکومت  شمال میں دریائے امو، شمال مشرق میں بدخشان، واخان اور مغربی پامیر تک وسیع ہو گئی تھی۔ مزید اُن کے توسیع پسندانہ عزائم آگے بڑھنے کے مواقع کی تلاش میں تھے۔ شمال مغرب میں زار روس کی سلطنت تھی۔ جو سنٹرل ایشیاء کی طرف پھیلتی جا رہی تھی اور ایک سامراجی قوت کے طور پر برطانوی ہند کے لئے زبردست خطرہ بنی ہوئی تھی۔ اور برطانوی حلقوں کو روسو فوبیہ میں مبتلا کر دیا تھا۔

آمان الملک کو اُن بین الاقوامی حالات کا پوری طرح ادراک تھا۔ نتیجتاً وہ پہلے (1877ء) کشمیر کے ساتھ بعد میں (1885ء) میں انگریزوں کے ساتھ اُن کی سیادت کوقبول کرنے کا معاہدہ کرتے ہیں۔جو چترال کی تاریخ میں ایک موڑ ثابت ہوتا ہے۔ (تفصیل ملاحظہ ہو راقم کی کتاب سر محمد ناصر الملک صفحات 5 تا 13)۔

سر محمد شجاع الملک: آپ  چترال کے نامور بادشاہ آمان الملک کے فرزند تھے۔ جن کا 1892 ء میں انتقال ہوا تھا اُن کے بعد اُن کے بیٹوں میں خانہ جنگی کی وجہ سے ملک کی حالت درگردگوں رہی۔ 1892 ء سے 1895 ء کے درمیاں تیں سالوں کے دوران چترال میں دو بادشاہ مارے گئے تھے، ایک بادشاہ کو فرار ہو کر افغانستان جانا پڑا، ایک بادشاہ کو دوسرے متوقع بادشاہ  کے ہمراہ انگریزوں کے ہاتھ گرفتار ہوکر جنوبی ہندوستان کے مدراس  شہر میں عمر قید  کی سزا بھگتنی پڑی۔ اُس وقت اگر انگریز مداخلت نہ کرتے تو بہت ممکن تھا کہ چترال کی ہزار سالہ ریاست ہمیشہ کے لئے ختم ہو کر دیر باجوڑ کے ماتحت ضم ہو جاتی۔  اِ س جنگ میں چترال کے لوگ تین حصّوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ ایک گروہ چترال کی ریاست کو بچانے کی خاطر ایک کم عمر بادشاہ (شجاع الملک)کی حمایت میں کمر بستہ ہو گئی۔ انگریز اُن کوسپورٹ کر رہیتھے کیونکہ اُن کو اپنی ایمپائر کی لاج کی فکر تھی دوسرا گروہ شیر افضل کا حمایتی تھا۔ جن کے پیچھے عمرا خان آف جندول کی طاقت تھی اِس گروہ کا مطمح نظر عام طور پر انگریزوں کے خلاف جوش ِ جہاد کا جذبہ تھااِس لئے وہ اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے تیار تھے۔ تیسرا گروہ چترال کے مختلف حصوں کے اُ ن لوگوں پر مشتمل تھا جو گومگو کے عالم میں تھیاور حالات کے رخ کا جائزہ لینے میں مصروف تھے۔ انگریزوں نے تہیہ  کرلیا تھا کہ اِس جنگ کو ہر حالت میں اور ہر طرح سے جیت کے یہاں کے لوگوں (بلکہ پورے برصغیر کے لوگوں) پر اپنی دھاک بٹھانی تھی۔ اور یقیناًانہوں نے پوری طاقت سے اِسی جنگ میں حصّہ لیا۔ اور جیت گئے۔ اسطرح شجاع الملک اُن کی پشت پناہی میں بادشاہ بنا۔ اور 1936 ء تک حکومت کرکیوفات پا گئے۔ اُس دوران بے شک اپنی کمی کوتاہیوں کے باوجود عمومی طور پر وہ کامیاب حکمران ثابت ہوئے۔ اور ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کیلئے کئی کام انجام دئے۔ جن کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔

شاہ محمد شجاع الملک کے تخت چترال پر رونق افروز ہوے کا واقعہ ایک انہونی بات تھی۔ اُس وقت کے حالات کے مطابق آمان الملک کے بیٹوں میں تخت کے دعویداروں میں شجاع کا دور دور تک بھی کہیں ذکر نہیں تھا۔

لیکن اللہ تعالےٰ کے نظام  وَتُعِزُ مَن تَشاءُ و تُذِلُ مَن تَشّاء کے مطابق حالات ایسے پیدا ہوئے کہ شاہی تاج اُن کے سر سج گیا۔ اور دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ اُس وقت اُن کی عمر 15 سال تھی  کیونکہ لاکہارٹ مشن 1885 میں جب چترال آئی تھی۔ تو برینس میں شہزادہ شجاع الملک نے اپنے رضاعی والد کے ساتھ اُن سے ملاقات کی تھی۔ لاکہارٹ اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ ’’برے نس کے قریب 5 سال کا بچہ اپنے ٹٹو پر سوار اپنے رضاعی والد کے ہمراہ ہم سے ملنے آیا۔ جو گاوّں کا رئیس تھا۔ بچے کا تعارف ہم سے یوں کرایا کہ وہ آمان الملک کا بیٹا ہے‘‘۔

’’لاکہارٹ نے اپنی رپورٹ میں یہ پیشن گوئی بھی کی تھی کہ نظام الملک، افضل الملک اور شاہ ملک اپنے والد کی وفات کے بعد شاید اپس میں تخت کے لئے لڑ پڑیں یہ خلاف قیاس نہیں لگتا۔ کہ اس کا نتیجہ ریاست  کے حصّے  نجرے ہونے کی صورت میں نمودار ہو جائے۔  جس کا دوبارہ استحکام کسی بہت ہی قابل اور خوش قسمت بھائی کے ھاتھوں سرانجام پائے گا‘‘

لارڈ کرزن جو بعد میں ہندوستان کے وائسرائے بنے 1895 ء کی جنگ سے تقریباًچھ ماہ پہلے چترال آتے ہوئے برینس میں شہزادہ شجاع الملک سے ملے تھے۔  اور اُن کے بارے میں لکھا تھا ’’اُس لڑکے کا تاثر ہمارے اوپر بہت اچھا تھا۔ وہ اپنے والد کی جوانی کے مشابہہ تھے۔ اگرچہ اُس نے زیادہ باتیں نہیں کی۔ لیکن ہم میں سے کسی کے بھی گمان میں بھی نہیں تھا کہ 8 ماہ سے کم عرصے میں وہ چترال کے تخت پر بیٹھے گا‘‘۔ (بحوالہ راقم کا کلمات ابتدائیہ مشمولہ چترال کے ساتھ انگریزوں کی جنگ، ترجمہ Chitral Campaign  صفحات 13 تا 41)۔

شجاع الملک کے بارے میں ایک روایت بھی قابل ذکر ہیجو اُنہوں نے ایک موقع پر بیان کیا تھا وہ بتا رہے تھے 1895 ء میں جس جگہ نظام الملک کو قتل کیا تھا۔ یہ خود بھی وہاں موجود تھے۔ نظام کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اُس نے اِن کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا۔ جب نظام کو قتل کیا گیا۔ تو کسی نے اُس کو (شجاع) کو وہاں دیکھا اور آواز دی کہ ’’ژاو گانیرو         (یعنی متبنی یا لے پالک) دی مارور‘‘۔ لیکن خوش قسمتی سے میرے شیر تت نے مجھے گھوڑے پر بیٹھایا اور وہاں سے بچا کر لے گیا۔   گویا ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ وہ ایسا بھی کرتے ہیں جو کسی کے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اس طرح ایک پندرہ سال کا بچہ ریاست کا حکمران بن جاتا ہے۔ اور اگے چل کر ایک مظبوط حکمرا ن کے طور پر سامنے آجاتے ہیں اور برطانوی حکومت  کا بھی اکثر امور میں مکمل تعاون اُن کو حاصل رہتا ہے۔ جس کے بل بوتے پر چیں وا ٓرام سے  ایک لمبے عرصے تک حکومت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
محمد ناصر الملک: شاہ شجاع الملک کی وفات کے بعد اُن کی وصیت کے مطابق شہزادہ محمد ناصر الملک (جواُن کے ولیّ عہد رہے تھے) تخت کے حقدار ٹھہرے۔ اور تمام بھائیوں اور دیگر زعمائے قوم کی متفقہ رائے کے مطابق سریر ارا کے سلطنت ہوئے۔ اس طرح پُر امن طور پر حکومت کی منتقلی چترال کے لوگوں کے لئے ایک خوشگوار  تجربہ تھا۔ آپ ایک  تعلیم یافتہ اور بیدار مغز شخصیت تھے۔ جب تخت پر بیٹھے تو اُن کے سامنے ریاست کو چلانے کے لئے مندرجہ ذیل امور تھے (بحوالہ راقم کی کتاب سر محمد الملک 2012ء)۔

1. لوگوں میں بحیثیت آزاد شہری اعتماد اور بیداری کس طرح پیدا کی جائے۔
2. ریاست کی آمدن کو کس طرح بڑھائی جائے۔
3. ریاست کی ترقی کن خطوط پر استوار کی جائے۔

اُنہوں نے پہلی ہی دربار ِ خطاب میں لوگوں کو ’’زریں دور‘‘ (’’مخمور دور‘‘) کا مژدہ سنایا پہلے  ہی سال انہوں نے شروعات بعض معاشی ترقی کے پروگراموں سے کیا۔ کوغوزی تک موٹر سڑک، کچھ آب پاشی نہروں کی تعمیر، گھریلو مصنو عات مثلاً دست کاری، پٹی کی صنعت کو ترقی دینی، جنگلات، کان کنی اور باغبانی کی ترقی وغیرہ، لیکن کم قسمی سے تخت نشینی کے دوسرے سال ہی اُن کو فالج ہوگیا۔ اگرچہ معجزانہ طور پر اِس بیماری سے آفاقہ ہوگیا۔ لیکن جسمانی قویٰ اور توانائی میں کمزوری آنے سے اُن کی کار کردگی کے ٹیمپو (Tempo) میں ضرور فرق پڑا۔ پھر بھی مملکت کو اُسی جوش و جذبہ سے چلانے کی کوشش میں لگا رہا۔ اُ ن کا پروگرام تھا کہ برطانوی حکومت سے ریاست کے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرے۔ تاکہ اس طرح ترقیاتی کاموں کی رفتا ر میں اضافہ کیا جائے۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوں اور ریاست کو خود کفالت بھی حاصل ہو سکے، پن بجلی کی ترقی اور بنجر زمینات کی آبادکاری اُن کی ترجیحات میں تھیں۔ اُس وقت برطانوی حکومت جنگ عظیم دوم کی مصیبت میں گرفتار ہوگئی۔ ایسی حالت میں دوسروں کی کیا مدد کرتی، خود امداد کی محتاج ہو گئی، پھر بھی سات سال کی اپنی مختصر بادشاہت کی مدت میں چترال کے لئے سبسڈی کی رقم کئی گُنا بڑھانے میں کامیاب ہوگئے۔ البتہ معاشی ترقی کا جو خواب اُس نے دیکھا تھا۔ اُن کی جلد وفات سے وہ ادھورا ہی رہا۔ البتہ چترال سکاوٹس کی تنظیم اُن کا اہم کارنامہ تھا جو اُن کی زندگی میں حاصل ہو سکا۔

لوگوں کی سماجی ترقی کامحمد ناصر الملک نے جو پروگرام بنایا تھا وہ خاص طور پر تعلیمی ترقی کا پروگرام تھا۔ اگرچہ چترال کے مختلف حصّوں میں اسلامی مدرسے اور مکتب سکول پہلے سے تھے لیکن عصری ایجوکشن سسٹم کے نصاب کے مطابق سکول کا اجرائپہلی دفعہ اُن کے زمانے میں عمل میں آیا۔ اُس کی ابتدا چترال کے سکول کے قیام سے کی۔ اور پہلی دفعہ 1942 ء میں اِس سکول کے طلباء نے  مڈل  سکول اسٹنڈرد کا امتحان پاس کیا۔ اُن کا ارادہ تھا کہ تمام چترال میں اِس طرح کے سکولوں کا نٹ ورک قائم کرے۔ اور رفتہ رفتہ اُن سکولوں کو اپ گریڈ کرکے ہائی اور بعد میں کالجوں کا سلسلہ متعارف کرائے۔ ساتھ ساتھ قابل طلبا ء کوریاست سے باہر تعلیم دلوا کر انجنیر، ڈاکٹر اور دیگر شعبوں میں تعلیم یافتہ افراد کا ایک کیمپ تیار کرنا چاہتے تھے۔ عموماً وہ کہا کرتے تھے کہ کم از کم اگر سو دوسو تعلیم یافتہ افراد میرے ساتھ ہونگے تو حکومت کرنے کا مزہ آجائے گا۔

ع۔ ائے بسا! آرزو کہ خاک شدہ۔
تعلیم کو آپ لوگوں میں خود اعتمادی اور بیداری پیدا کرنے کا ذریعہ ہی سمجھتے تھے وہ اکثر اوقات اِس بات پر کڑھتے تھے۔ کہ لوگوں کو اپنے حقوق کا شعور ہی نہیں۔ طرح طرح سے اُ ن کو اِس کا احساس دلانے کی کوشش کرتے۔ لیکن عام لوگوں کو ذہنی طور پر اِس قسم کی عیاشیوں کا صحیح ادراک ہی نہیں تھا۔ جس سے اُن کو مایوسی ہو جاتی لیکن یہ ضرور جانتے تھے کہ آنے والے وقتوں میں اِن کے اقدامات کا نتیجہ بہتر ہی ہوگا۔ اس طرح جو تھوڑا بہت وہ کچھ کرنے کے قابل ہوئے وہ ایک ’’پُر امید مستقبل‘‘ کی نوید کے طور پر تھی۔ پاکستان کے قیام پر اُ ن کا یقین بھی اُن کی زبردست وژن کا ثبوت ہے۔ جس پر اُن کو خراج تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہے۔ 1942 ء میں اُنہوں نے شاہی قلعے کے گیٹ کو نئے سرے سے تعمیر کروائی اور اُس کے اوپر چاند تارا نشان لگوایا۔ اور اُس وقت یہ شعر اُن کی زبان پر تھا۔

چو پاکستان شود۔۔ تو نشانِ آن باشی
صد افسوس ہے کہ اب  اُس نشان کو اکھاڑ کے پھینک دیا گیا ہے۔ جو ایک تاریخی ورثہ تھا۔

شاہ ناصر الملک اپے تخلیقی کام کئے جو یاد رکھے جائیں گے۔ وہ فارسی کے ایک بلند پایہ شاعر تھے دوسری طرف قرآن فہمی، عربی دانی، اور بعض سائنسی موضوعات پر وسیع معلومات  کی وجہ سے ممتاز نطر آتے ہیں۔ اُن کی کتابیں صحیفتہ التکوین، تحضتہ الابرار اور مشرق الا نوار اُن کے علمی استعداد کے اہم ثبوت ہیں۔ اُن کے علاوہ 1921 ء میں کھوار حروف تہجی کے نام سے کہوار زبان پر ایک مختصر رسالہ شائع کیا تھا جو بعد میں کھوار زبان کو تحریر میں لانے کی بُنیاد بنی۔ آخری ایام میں کسی اہم موضوع پر کتاب اُن کے زیر تصنیف تھی جس کو ضائع کیا گیا۔ مزید تاریخ و ثقافت پر اُ ن کے کئی مسودّے بھی اُ ن کی موت کے بعد ادھر ہو گئے۔ اقبال ؒ کا شعر ہے۔
سرور رفتہ باز آید کہ ناید۔۔۔ نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگار این فقیرے۔۔ دیگر دانائے راز آید کہ ناید

اُن کے بعد اُن کے بھائی محمد مظفر الملک بادشاہ بنے۔ جنہوں نے پانچ سال تک حکومت کی۔ وہ اِس لحاظ سے خوش قسمت رہے کہ اُن کے زمانے میں پاکستان وجود میں آیا اور اُن کو چترال کی ریاست کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعزاز نصیب ہوا۔ مزید بحیثیت اسلامیہ کالج پشاور کی ٹرسٹی کے صدر کے 1948 ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کے اعزاز میں پشاور میں ایک عصرانے کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔۔۔۔۔
(باقی ائیندہ)


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
78935