Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال کی لوک کہانیاں (قسط -۹) – پروفیسر اسرار الدین

شیئر کریں:

چترال کی لوک کہانیاں (قسط -۹) – پروفیسر اسرار الدین

کھوار زبان میں بے شمار لوک کہانیاں،قصے اور داستانیں موجود ہیں۔ان کوراقم نے مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا ہے۔(دیکھئے راقم کامضمون کھوار ادب۔تاریخ ادبیات مسلمانان پاک وہند جلد 14(حصہ دوم۔علاقائی ادب(کھوار ادب)ایڈیٹرقاسم محمود پنجاب یونیورسٹی لاہور(1971ء)صفحات89تا134)
(1)سبق آموزکہانیاں: اس قسم کی کہانیوں میں زندگی کے حالات ایسے پیرائیے میں بیان کئے جاتے ہیں جن سے کوئی اہم سبق دینا مقصود ہو۔مثلاً۔

الف: دوشہزادوں کی کہانی جن میں دوبھائیوں کی آپس میں محبت اور ایک دوسرے لے لئے تکلیف برداشت کرنے کے واقعات
ب: سوتیلی ماں کی کہانی جسمیں سوتیلی بیٹی کے ساتھ اسکے ظالمانہ سلوک کابیان ہے۔مگر آخر میں حالات ایسے ہوجاتے ہیں۔اسکی سوتیلی بیٹی ملکہ بن جاتی ہے اور وہ خود ذلیل وخوار ہوکے اس کی محتاج بن جاتی ہے۔

ج: شیر اور شکاری کی کہانی۔اس میں یہ بتایا ہے کہ احسان اگر شیر جیسے خونخوار جانور کے ساتھ بھی کیا جائے وہ احسان مند ہوجاتا ہے اور اسے فراموش نہیں کرتا۔
(دوسری کہانیاں مندرجہ ذیل ہیں)
سوتیلے بھائیوں کا دھوکہ اور شرمندگی۔

عیار بیوی اور اس کا حشر۔
مغرور بادشاہ اور اس کا انجام۔

2۔مہماتی کہانیاں۔ان میں دیو پریوں اور بادشاہوں کے ایسے قصے شامل ہیں جو عام طورپر مہماتی قسم کے ہوتے ہیں۔اور ان سے یہ سبق دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انسان کس طرح خطرناک مہم میں بھی غیر مرئی طاقتوں پرکامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ان کہانیوں میں دیو پریوں کے ساتھ انسانوں کے تعلقات کابھی ذکر ہوتا ہے اوریہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کون سی مخلوق انسان کی دشمن ہے اور کونسی اسکی دوست۔اپنے دوستوں کی دوستی برقرار رکھنے کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے اوردشمن کوزیر کرنے کے لئے اسکو کونسے حربے استعمال کرنا چاہئیں۔مہماتی کہانیوں میں چند ایک یہ ہیں۔

(الف)۔ سات شہزادے سات شہزادیاں
(ب)۔ طوطا اورشہزادی
(ج)۔ اندھا دیو(کانو نہنگ)
(د)۔ سات سروں والا دیو
(ھ)۔ اسمان پری

(3) مزاحیہ حکایتیں۔ان میں مختصر حکایتیں شامل ہیں۔جنہیں مزاحیہ انداز میں یہ واضح کرنے کیلئے بنایا گیا ہے کہ دیہات اور وادیوں کے بعض لوگ کتنے سادہ لوح اوربھولے بھالے ہوتے ہیں۔مثلاً

(الف)۔ گدھی کاانڈا۔یہ ایک سادہ لوح دیہاتی کا قصہ ہے جس نے خربوزے کو گدھی کا انڈا سمجھاتھا۔
(ب)۔ عقاب کی پوستن پہن کر اُڑنے والے کا حشر۔
(ج)۔ نمک کاشت کرنے والے کانجام۔
(د)۔ چترالی اور بدخشانی کا قصہ۔اس میں ایک چترالی کی حاضر جوابی اور بدخشانی کی خفت اور شرمندگی کا ذکر ہے۔
(4)۔رومان:کھوار زبان میں کئی رومان بھی موجود ہیں۔ان میں محمد سیر کا رومان،ڈوک یخدیز کا رومان،ترچھے غان کارومان،امان کارومان،لالوزانگ کا رومان،شیرملک کا رومان وغیرہ مشہور ہیں۔

مختصراًمحمدسیر کا رومان کا خلاصہ اس طرح ہے۔
”محمد سیر جوچترال کامشہور صوفی شاعر گذرا ہے۔کہتے ہیں کہ وہ ریشن نامی ایک گاؤں میں ایک حسینہ پردل وجان سے فریضتہ ہوگیا۔بعد میں پتہ چلا کہ وہ حسینہ کسی اور شخص کی بیوی ہے۔اس وجہ سے سیرکافی عرصہ ذہنی کشمکش میں مبتلا رہا۔ایک طرف دل کے ہاتھوں مجبور اور دوسری طرف ضمیر کی ملامت کاشکار۔آخر کارنتیجہ یہ ہوا کہ اس کی زندگی کا رخ ہی بدل گیا اور اس نے یہ فلسفہ بنایا

شویو صحبتو ساری دردیریو زینہارمہ بوخوش
التی پیشمان بکو سار نو التی آرمان مہ بوخوش

(یعنی محبوب کاقرب حاصل ہونے سے بہتر ہے کہ دور سے اسکی تمنابی رہے۔وصال کا انجام پیشمانی کے سوا کچھ نہیں۔اسلئے فراق کی حالت میں مدام آرزو کرتے رہنے میں مجھے زیادہ خوشی رہے گی“۔

لوک ورثہ اسلام آباد والوں نے تقریباًتیس سال پہلے اس قسم کی نورومانوی کہانیوں کویکجا کراکے غلام عمرمرحوم سے”چترال کی لوک کہانیوں“کے نام سے ایک کتاب تدوین کرائی تھی۔جوکافی پسند کی گئی تھی۔اور حال ہی میں اس ادارے نے چترال سے تعلق رکھنے والے دوسکالروں فرید احمد رضااور ظہورالحق دانش کی مرتب کردہ لوک کہانیوں کی کتاب شلوغ کے نام سے شائع کی ہے۔جو اردو اور انگریزی زبانوں میں ہے۔ان حضرات نے جس طرح ان کہانیوں کوجمع کرکے ترتیب اور ترجمہ کرکے پیش کیا ہے وہ قابل صدتحسین ہے۔یقینا ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ وہ اس کام کو آگے بڑھائینگے۔(ان کہانیوں کے خلاصے بعد میں دیےجاتے ہے۔تاکہ قارئیں کواندازہ ہوسکے کہ کس قسم کی کہانیاں ان میں شامل ہیں۔نیز شاید اس سے یہ فایدہ بھی ہوسکے کہ کئی لوگوں کوجو پُرانی لوک کہانیاں معلوم ہونگی۔ان کے بارے میں ان مصنفین سے رابطہ کرسکیں)۔

اس سلسلے میں یہ ذکر بھی بجالگتا ہے کہ پروفیسر جارج مارگنٹیس نے1930کے عشرے میں چترال کے مختلف لوگوں سے کئی کہانیاں جمع کی تھی۔جن میں ایک کہانی کا ترجمہ کرکے چھاپ دیاتھا۔(جواگے دیاجاتاہے)۔اسکی باقی کہانیاں ان کی بے فرصتی کی وجہ سے منظرعام پرنہ آسکیں۔البتہ آسلو(ناروے)میں ان کے ادارے کے لوگوں کی بڑی خواہش ہے کہ چترال سے کوئی ان سے تعاون کرکے ان کے بہت سارے جمع کردہ مواد کودنیا کے سامنے لانے میں مدد دے سکے۔

چترال لوک کہانیاں:پس منظر

لوک کہانیاں کسی معاشرے کی ثقافتی ارتقاء کو سمجھنے میں مددگار ہوتی ہیں۔اسلئے تمام دنیا میں ان کی اہمیت مسلم ہے۔دنیا میں کوئی بھی ایسا خطہ نہ ہوگا جہاں کی لوک روایات میں لوک کہانیوں کاذخیرہ موجود نہ ہو۔یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے فارغ اوقات کوخوشگوار بنانے کے لئے کسی شغل کواپنائے۔قدیم زمانے میں فارغ وقت گذارنے کا مصرف عام طورپر کہانی سننا بھی ہوتا تھا۔ہرچھوٹے بڑے کو یہ شوق ہوتا ہے کہ اپنے گردوپیش کے حالات واقعات کے بارے سنے اورجانے۔یہ چھوٹی چھوٹی باتیں وقت گذرنے کے ساتھ قصوں کہانیوں میں ڈھلتی رہیں۔اور آگے چل کے حالات نے ان کو شاہی ایوانوں اور مذہبی درباروں تک رسائی دی۔اوربے شمار داستانیں انسانی معاشروں کی ثقافتی تاریخ کا حصہ بنیں۔ان داستانوں میں لوک رومان،تاریخی داستانیں،جن پریوں کی کہانیاں شامل ہیں۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انہی کی بنیاد پرڈرامے،ناول اور افسانوں کی صنفیں وجود میں آئیں۔

چترال میں لوک کہانیوں کے ماخذ:

عام طورپرلوک کہانیاں کسی مقام کے قدرتی روایاتی اور ثقافتی ماحول کا عکس ہوتی ہیں۔لیکن ساتھ ساتھ دوسری تہذیبوں سے رابطہ رکھنے کی بناپر ان سے اثراندازی میں واضح امر ہے۔

چترال میں جتنی لوک کہانیاں ہیں وہ غیر مرئی مخلوق اور مخیرالعقول قسم کے واقعات پرمبنی ہوتے ہیں۔مثلا اژدھا،دیوپری۔ نہنگ،چڑیل(گورواو)وغیرہ۔اور انسانوں کاان سے مقابلہ اور ان پرفتح کی کہانیاں جوبعض لحاظ سے دلچسپ اور بعض لحاظ سے سبق آموز بھی ہوتے ہیں۔

دراصل اسلام کی آمد سے پہلے چترال اور گردونواح کے علاقوں میں مختلف مذاہب مثلاً ہندومت،بدھ مت،مجوسیت،،مانوویت اور شمان(Shamanism)کا دور دورہ تھا۔خاص کر شمان مذہب(جسکی موجودہ شکل کلاشہ مذہب ہے)کے عقیدے کے مطابق انسانی گردوپیش میں غیر مادی روحانی طاقتیں موجود ہیں جو انسان کے ہرافعال پر اثرانداز ہوتے ہیں۔اس مذہب کا اس علاقے کےلوگوں پرعرصہ دراز تک تسلط رہا۔اسلام کے آنے کے بعد اگرچہ بنیادی طورپر لوگوں نے اسلامی عقیدوں کو اپنایا۔لیکن شمان مذہب کے اثرات سے تادیر چھٹکارا حاصل نہ کیا جاسکا۔شاوان کاتصور حال تک لوگوں میں موجود رہا ہے۔جسکے مطابق کسی مشکل وقت میں شاوانان شنجک (یعنی شامان عرمرئی طاقت کی نذر ماننا)والا لفظ کھوار زبان کااہم حصہ رہا ہے۔کھوار کہانیوں میں اژدار(اژدھا)کاتصور چینی ڈریگن سانپ(Chinese Dragon Snake)سے ملتا جلتا ہے۔جو چینی روایات میں تاحال موجود ہے۔اسمیں ایک خطرناک اور طاقتور مخلوق کا تصور ہے۔البتہ چترالی یاکھوار کہانی کا ہیرو اژدھا پرآخر کار کامیاب ہوجاتا ہے۔آنو ژاندارسے ژاندار کاتصور وجود میں آیا۔اور ژاندار بذات خود ایک خوفناک اور خطرناک مخلوق کاہم نام بن گیا۔جس سے بچوں کو ڈرانا(بلکہ بڑوں کوبھی)عام رویہ بن گیا۔
کھوارزبان میں اشلوغ یاشلوغ کا لفظ جو کہانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔یہ ہندی لفظ اشلوگ سے نکلا ہے جسکے معنی ہیں مذہبی اشعار۔یہ ہندی اشعار مختلف واقعاتی قصوں اور کہانیوں پرمبنی ہوتے تھے۔ہندوستان میں مہابھارت اہم مذہبی کتاب ہے جسمیں آٹھ ہزار اشلوگ ہیں۔کئی ہندی کہانیاں اس زمانے میں ہمارے ہاں آئی ہونگی۔
فارسی زبان اور ثقافت کاان علاقوں پر بڑا اثر رہاہے۔اسلئے اس ماخذ سے کئی قصے کہانیاں مثلاًلیلیٰ مجنون جیسے کئی قصے کہانیاں کایہاں نغود ہوا اور مذہبی کہانیوں میں یوسف زلیخا کا یہاں تعارف ہوا ہوگا۔رومانوی کہانیوں میں جو کلاسیکل کہانیاں ہیں ان مٰ یورمان ہمین،ڈوک یخدیز اور نان دوشی معروف ہیں۔کلاش کہانیوں صرف کوشون (دھواں) نامی ایک کہانی مجھے ملی(جس پرمیں نے ڈرامہ بھی تشکیل دی ہے)۔

اس سلسلے میں قصہ گو یا داستان گو یاشلوغ دیاک کارول بھی ہمیشہ اہم رہا۔چھوٹا موٹا قصہ خوان یا داستان گوتوہرگھر میں ہوتا تھا۔لیکن وقت گذرنے کے ساتھ پروفیشنل قسم کے قصہ گو یا قصہ خوان بادشاہوں اور امراء کے ایوانوں میں اہم حیثیت کے مالک بن گئے تھے۔چترال میں بادشاہوں،شہزادوں اور رئیس لوگوں کے ہاں بھی ایسے قصہ گو یاشلوغ دیاک عام طورپر ملازم ہوتے تھے۔جوقصہ گوئی کے فن میں ماہر تھے۔بے شمار قصے کہانیاں ایسے قصہ خوانوں کی وجہ سے ہماری روایات کا حصہ بن گئیں۔المختصر چترال کی لوک کہانیوں کا موضوع ایک اہم موضوع ہے۔اس پرتحقیق سے ہماری ثقافت کے کئی اہم گوشے وا ہوسکتے ہیں۔

چترال کی لوک کہانیاں

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے۔چترال کی لوک کہانیوں پر کھوار شلوغ کے نام پرایک کتاب حال ہی میں لوک ورثہ ادارہ اسلام آباد نے شائع کی ہے۔اسکے موضوعات مندرجہ ذیل ہیں۔

(1) وے اژیرو باچھو شیلوغ
(2) وزیر وژورو شیلوغ
(3) تروئی اشکاری برارگینیان شیلوغ
(4) ظالم تت اوچے ژیژاوان شیلوغ
(5) نانو ای پھولوک ژاو و شیلوغ
(6) تروئی برارگینیان شیلوغ
(7) ہوساک سایورجو شیلوغ
(8) نان بیلیو شیلوغ

ان کہانیوں کا خلاصہ یوں ہے۔

1۔وے اژیروباچھوشیلوغ: بادشاہ کااکلوتا لڑکا گھر بارچھوڑ کے نکل جاتا ہے اور دور دیس میں ایک حسینہ سے ملاقات ہوجاتی ہے اور اسکے ساتھ شادی کرلیتا ہے۔لیکن ایک جادوگرنی(گورواو)ان میں جدائی کاسبب بنتی ہے لیکن شہزادہ اپنی بہادری کے بل بوتے پراپنی محبوبہ کوواپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
(2)۔وزیرو ژورو شیلوغ:ایک بادشاہ کے وزیر کی بیٹی جوبادشاہ کی بیٹی کی سہیلی ہے شہزادی کو لے کے مہم جوئی کے لئے نکل جاتی ہے اور دیووں (نہنگوں) کے چنکل میں پھنس جاتی ہیں لیکن وزیرزادی کی ہوشیاری سے ان پر فتح پانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔

(3) تروئی اشکاری برارگینی:یہ تین شکاری بھائیوں اور ان کی منہ بولی بہن کا قصہ ہے۔ایک پجادوگرنی شرارت کرکے ان کی بہن کوان سے جداکرتی ہے۔پھر ان کے ایک پالتو کبوترکی مدد سے وہ سب یکجا ہوجاتے ہیں۔

(4) ظالم تتوچے ژیژاو:ظالم باپ کے بیٹوں میں ایک بیٹا گھر چھوڑ کرچلاجاتا ہے اور ایک جادوگرنی کے پاس رہنے لگتا ہے۔اس جادوگرنی کی ایک مخالف جادوگرجوڑی اسکے پڑوس میں رہتی ہے جواس لڑکے کوقتل کرکے ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔لیکن لڑکے نے ایسی چال چلی کہ وہ دونوں قتل ہوگئں پھر یہ بخوشی رہنے لگا۔

(5) نانو ای پھولوک ژاو:ماں کا اکلوتا بیٹا۔ماں نے سودا سلف خریدنے کے لئے پیسے دئیے۔بیٹا ایک دن جاکے بلی لایا۔دوسرے دن مینا خریدلایا۔تیسرے دن ایک نابینا نہنگ جسے لوگ ماررہے تھے۔اسکو خریدا۔نہنگ نے خوش ہوکر اسکو دو تحفے دئیے۔ایک کھال جس پر سوار ہوکروہ اُڑ سکتا تھا۔دوسری ریتی جسے کسی پتھر سے رگڑنے سے ایک جگہ محل تیار ہوجاتا تھا۔اس طرح وہ لڑکاایک محل کامالک اور شہزادی کا شوہر بن جاتا ہے۔پھر ایک جادوگرنی کی شرارت سے میاں بیوں میں جدائی ہوتی ہے۔پھر وہ بلی اور مینا کی مددسے دوبارہ یکجا ہوجاتے ہیں۔

(6) تروئی برارگینی:تین بھائی تھے لیکن والد نے سونے کی چار اینٹیں وارثت میں چھوڑی۔درمیانی بیٹے کی نیت میں فتور آگیا اور ایک اینٹ کی چوری کرلی۔اب چور کی تلاش شروع ہوجاتی۔کئی دلچسپ مراحل سے گذرتے ہیں۔آخر میں ایک قاضی صاحب کی بیٹی کی ہوشیاری سے اصل چور پکڑا جاتا ہے۔

(7) ہوساک سایورج:ایک بادشاہ خواب میں ہنسنے والے ایک باز کو دیکھتاہے اور اس کادیوانہ بن جاتا ہے۔حکم دیتا ہے کہ اس باز کو پکڑکے بادشاہ کی خدمت میں لایا جائے۔بادشاہ کے چار بیٹے تھے۔ان میں سے ایک بیٹا تھا جواسکی ناپسند بیوی کے بطن سے تھا۔اور اسے ناپسند تھا۔بادشاہ کے تمام بیٹوں نے اس باز کی تلاش میں مہم جوئی شروع کی۔لیکن اسکو لانے میں بادشاہ کا وہی لڑکا کامیاب ہوجاتا ہے جواسکو ناپسندتھا۔بادشاہ خوش ہوکے اسکو اپنا ولی عہد مقرر کرلیاہے۔

(8) نان بیلیوقصہ: سوتیلی ماں کا قصہ جواپنی سوتیلی بیٹی پرظلم ڈھاتی رہتی ہے۔لیکن قدرت کاکرنا کہ آخر میں وہ شہزادی بن کرایک شہزادے سے شادی کرلیتی ہے اور سوتیلی ماں اپنے بُرے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔(نوٹ)یہ کہانی میں نے عرصہ دراز پہلے کسی سے(جوکہ ایک اچھا اسٹوری ٹیلر تھا)سے سنی تھی بعد میں انگریزی کہانیوں میں اسی کہانی کو پڑھا۔حالانکہ موصوف انگریزی سے نابلد تھا۔حیرانگی یہ ہے کہ ایک زبان سے دوسری زبان تک اس کہانی کا سفر کیسے ممکن ہواہوگا۔
پروفیسر مارگنٹین والی کہانی

پروفیسر موصوف اپنے مضمون A Khowar Tale(ایک کھوار کہانی)کے شروع میں رقم طراز ہے کہ”کھوار چترال کی بڑی(Principal)زبان ہے اور انڈوآریان زبان کے شمال مغربی سرے کی چوکی(Outpost)ہے۔اسلئے لسانیات کے حوالے سے کافی دلچسپی کاباعث ہے۔۔۔میں نے مناسب جانا ناروے ملک سے کھوار لوگوں کی سپاس گذاری اورشکرگذاری کے طور پر یہ کھوار کہانی کاتحفہ ان کو پیش کروں۔یہ کہانی مجھے1929ء میں تورکھو شاگرام کے محمد زرین نے سنائی تھی۔اس وقت وہ ایک عمررسیدہ شخصیت تھے اور کئی سالوں سے چترال خاص میں قیام پذیر تھے۔وہ ایک نہایت اچھے اور دانشمند معلومات رسان(Imformant)ثابت ہوئے ۔ (موصوف پروفیسر نےکہانیاں کافی جمع کی تھیں لیکن طوالت سے بچنے کے لئے یہ مختصر کہانی پیش کی گئی ہے۔ان کا مقصد اس کہانی کو پیش کرنے سے خاص طورپر کھوار زبان کی لسانی خصوصیات اُجاگر کرنا تھا۔)

کہانی کامتن

ایک بادشاہ اسکے سات بیٹے تھے۔ایک بیٹا دیہاتی عورت سے تھا۔وہ باپ کو پسند نہیں تھا۔اسکو اپنے پاس آنے نہیں دیتا تھا۔بادشاہ کے محل کے پاس ایک بڑاساباغ تھا اس میں میوے کے درخت تھے۔جورات کوپھول لاتے اسکے بعد اسی رات بڑوچی (کچے پھل)بنتے۔صبح ہوتے ہوئے پک جاتے۔لیکن اب تک کسی کوان کوچھکنا نصیب نہیں ہواتھا۔کیونکہ راتوں رات پریاں اوران کے گھوڑے مل کے ان چٹ کرجاتے۔ایک دن بادشاہ نے اپنے بیٹوں سے کہا جوبھی میرے باغ کے ان میووں کو سورج نکلنے تک رکھوالی کرے گا۔میں اسکو بہت انعامات دوں گا“چنانچہ ایک بیٹا نگرانی کے چلاگیا۔لیکن صبح پھر تمام میوے ختم تھے۔یعنی وہ ناکام رہا۔اسطرح دوسرے بیٹے چلے گئے لیکن ناکام رہے۔اخیر میں وہ دیہاتی ماں والا بیٹا چلاگیا۔وہ ایک درخت پرچڑھ کے انتظار کرتا رہا۔

 

رات کے درمیانی حصے میں ایک کالا گھوڑا زورزور سے ہنہناتا ہوا آیا۔اورمیووں کوکھانا شروع کیا۔جب گھوڑا اس درخت کے نیچے آیا جس کے اوپر وہ لڑکا چھپاہوا تھا تو اس نے چھلانگ ماری اور گھوڑے پرسوار ہوا۔مظبوطی سے اسکے یال پکڑے رکھا۔پھر گھوڑے نے اس سے کہا کہ اپنا مقصد بتاؤ۔تم کیوں ایسا کررہے ہو،“لڑکے نے کہا کہ میرا والد مجھے اپنے پاس نہیں چھوڑتا“۔گھوڑے نے اپنے یال کا ایک بال نکال کے اسکو دیدیا کہ جب بھی تمہیں کوئی کام پڑے اس بال کو آگ لگاو تمہارا کام ہوجائے گا۔”لڑکے نے گھوڑے کوجانے دیا دوسری صبح میوے پک گئے تھے اور موجود تھے“۔بادشاہ کوخبردی گئی کہ تمہاری دیہاتی بیوی کابیٹا جس نے باغ کی رکھوالی کی تھی میووں کوبچانے میں کامیاب ہوگیا۔اور میوے چن کے بادشاہ کی خدمت میں پیش کئے۔بادشاہ بہت خوش ہوا۔اس بیٹے کواپنے پاس بلایااور اسکو بہت انعام دیے۔اسکے بعد بادشاہ نے بیٹوں کوبلایا اور ان سے کہا کہ فلان جگے میں ایک بادشاہ کی بیٹی ہے وہ سونے کابال پھینک دیتی ہے جوبھی گھوڑے پرسوار ہوکے اس بال کوپکڑلیگا شہزادی اس سے شادی کرے گی۔

 

شہزادے اپنے گھوڑوں پرسوار اس مہم کے لئے روانہ ہوگئے اور بادشاہ کایہ غیر منظورنظر لڑکا بھی اپنے لنگڑے ٹٹو پرسوار ہوکرچلاگیا۔جب اس جگہ پہنچے تو شہزادی نے اپنے سونے کا بال پھینکا۔مگران میں کوئی بھی پکڑنہ سکا۔اس دوران اس غیر منظورنظر لڑکے نے گھوڑے کے بال کو آگ دکھائی اور پریوں کاگھوڑا یکدم وہاں حاضر ہوا۔لڑکا اس گھوڑے پرسوار ہوا۔اور اس بال کو پکڑنے میں کامیاب ہوا اور لیجاکے شہزادی کوپیش کیا۔اس طرح شہزادی نے اسکو قبول کیا۔اور اس کے ساتھ روانہ ہوگئی اور وہ دونوں پریوں والے گھوڑے پرسوار ہوکر چلے۔راستے میں ایک جگہ رات آئی۔جہاں وہ رات گذارنے کے لئے ٹھہر گئے۔رات کو اس لڑکے کے بھائی آئے اور اسکے دروازے کے چوکھٹ کے ساتھ اپنی تلوار اسطرح لگایا کہ تلوار کی بلیڈ کا تیز حصہ اندر کی طرف تھا۔”اس کے بعد انہوں نے اسکو آواز دی کہ جلد باہر آجاؤ۔دشمن کی فوج نے حملہ کیا ہے۔“وہ لڑکا پریشانی میں جلد باہرکی طرف دوڑا اور تلوار کی تیز دھار سے ٹکراکراسکی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں اور وہ لڑکا وہیں گرپڑا۔وہ بھائی اس کووہیں چھوڑ کے اسکی بیوی اور گھوڑے کو لے کے بادشاہ کی خدمت میں پہنچے اور ان کو بتایا کہ اُنہوں نے کس طرح یہ سارا مہم انجام دیا اور شہزادی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ دوسرا بیٹا کچھ نہ کرسکا۔“

 

دوسرالڑکا کچھ عرصہ اس جگے پڑا رہا ایک دن وہ ایک درخت کے نیچے لیٹا ہواتھا کہ دوپرندے آئے اور آپسمیں بات چیت کرنے لگے۔”ایک نے پوچھا اس لڑکے کوکیا ہوگیا ہے؟دوسرے نے جواب دیا کہ”اسکی ٹانگیں کٹ گئی ہیں اسلئے یہ چلنے سے معذور ہے۔“”ان کے لئے ایک اچھی دوائی موجود ہے اگر یہ استعمال کرے“۔پہلے نے کہا وہ کیا“دوسرے نے پوچھا۔پہلے نے کہا ”کہ یہاں پرایک چشمہ ہے اس چشمے کے پاس ایک گھاس ہے اس گھاس کو خوب پامال کرکے ان زخموں پر مرہم کے طورپر رکھے۔پھر چشمے کے پانی میں نہائے توٹھیک ہوجائے“

لڑکا یہ ساری باتیں سن رہاتھا۔گرتے پڑتے اس گھاس کوتلاش کیا پھر سارا بتایا ہواعمل کرلیا۔اور ٹھیک ہوگیا۔اور بادشاہ کے پاس پہنچا تمام حالات بیان کیا۔بادشاہ پردوسرے بیٹوں کی جھوٹ واضح ہوگئی اور اس نے اس بیٹے کو اپنا منظور نظر بنایا اور دوسرے بیٹوں کو قرار واقعی سزادی۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
78201