Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال کی سڑکیں، موٹر وے اور سی پیک….(پروفیسر ممتاز حسین)

شیئر کریں:

پچھلے دنوں سوات موٹر وے کے دوسرے مرحلے کی تعمیر کا اعلان ہوا تو دیر والوں کو خیال آیا کہ اس قسم کی سڑک ان کے لیے بھی ہونی چاہیے تھی۔ سو انہوں نے اس کے لیے آواز بلند کی۔ اس پر ہمارے چترالی بھی خواب غفلت سے ہڑبڑا کر جاگ اُٹھے اور دیر والوں کے ساتھ سر تال ملا کر “موٹر وے، ایکسپریس وے، سی پیک” وغیرہ کا راگ الاپنے لگے۔

سڑکوں کی خرابی بلکہ بیشتر علاقوں میں ان کا نہ ہونا چترال کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے۔ دو اضلاع میں ایک کلومیٹر بھی معیاری سڑک موجود نہیں۔ جو تھوڑی بہت پکی سڑک تھی وہ بھی دیکھ بال نہ ہونے سے کھنڈر بن گئی ہے۔ تورکھو کی سڑک برسوں سے زیر تعمیر ہے لیکن بجٹ کی کمی کی وجہ سے اس کی تکمیل کا کوئی امکان مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔ دیگر وادیوں میں تو حکومت نے کبھی سڑک بنانے کا سوچا ہی نہیں۔ لوگ اپنے طور پر جیپ ٹریک بنا کر کام چلا رہے ہیں۔ مستوج کے لوگ حکومت اور نمائیندوں سے اس قدر مایوس ہوگئے ہیں کہ بونی مستوج کی بتیس کلومیٹر مین روڈ چندہ کرکے بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہاں سڑکوں پر حادثات میں اموات کسی بھی دوسرے علاقے سے زیادہ ہیں، اور ان کی واحد وجہ سڑکوں کی خرابی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ معاملہ ہماری سیاسی قیادت کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہا۔ نمائیندے کوشش کرتے ہیں کہ تھوڑے بہت پیسے مل جائیں تو اپنے کارکنوں میں فرضی اسکیموں کے نام پر تقسیم کرکے ان کا منہ بند رکھیں۔

2013 کے بعد وفاق کی سطح پر چترال کے اندر سڑکوں کی تعمیر کے لیے کچھ اقدامات کیے گئے۔ ان کے نتیجے میں سروے اور فیزبیلیٹی بنا کر چند منصوبوں کو منظوری کے مراحل سے گزارا گیا۔ ان میں چترال – شندور، چترال – گرم چشمہ، ایون- بمبوریت اور اویر- تریچ روڈ وغیرہ تھے۔ اپریل 2018 کو ان منصوبوں کی صورت حال کچھ یوں تھی:


1۔ چترال شندور روڈ کا منصوبہ منظوری کے آخری مرحلے یعنی ECNEC سے گزرچکا تھا۔ تاہم اس کی لاگت 21 ارب سے کم کرکے ساڑھے 16 ارب کر دی گئی۔

2۔ گرمچشمہ روڈ کا ٹندر ہوکر ٹھیکہ دیا جاچکا تھا۔

3۔ بمبوریت روڈ منظوری کے مرحلوں سے گزر کر ٹنڈر کے مرحلے پر تھا۔

4۔ اویر تریچ روڈ منظوری کے آخری مرحلے CDWP سے پاس ہوچکا تھا۔

5۔ لواری ٹنل کے دونوں طرف ایکسیس روڈز پر کام شروع ہوچکا تھا۔

6۔ لواری ٹنل کا بقایا اندرونی کام (روشنی اور ہوا کا انتظام وغیرہ) کا ٹنڈر ہونے والا تھا یا ہوچکا تھا۔

7۔ کلکٹک سے چترال تک ایک معیاری شاہراہ کی تعمیر کا منصوبہ زیر غور تھا اور سروے وغیرہ ہورہے تھے۔

2018 کے دوران پہلے ان منصوبوں پر پیش رفت روک دی گئی اور پھر انہیں منسوخ کردیا گیا۔ صرف لواری ایکسیس روڈز کا کام جاری رکھا گیا۔ تاہم اب وہ بھی بند ہیں۔ اب ان میں سے کچھ منصوبوں کی بحالی کی خبریں آرہی ہیں جو ایک خوش آئیند بات ہے۔

چند سال پہلے خبر آئی تھی کہ سی پیک کا ایک روٹ گلگت چترال نوشہرہ بھی زیر غور ہے، بلکہ نون لیگ کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اسے سی پیک کے فریم ورک میں شامل کیا گیا ہے۔ لیکن اس تجویز کا مذکورہ بالا منصوبوں سے کوئی تعلق نہیں تھا، کیونکہ یہ این ایچ اے کے اپنے منصوبے تھے۔ سی پیک کے اس روٹ کے بننے کا انحصار چینی حکومت کی ترجیحات پر ہے۔ تاہم قراقرم ہائی وے کی تکمیل سے پہلے اس پر کام شروع ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ اس کے علاوہ سوات ایکسپریس وے کا بھی اس مجوزہ روٹ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ایکسپریس وے صوبائی حکومت کا اپنا منصوبہ ہے اور یہ چار لین پر مشتمل ایک “محدود رسائی والی” سڑک ہے، جبکہ سی پیک کا روٹ ایک دو رویہ عام سڑک ہوگی، جیسی ہنزہ میں سے گزرتی ہے۔ اس وقت “موٹر وے”، “ایکسپریس وے” اور “سی پیک روٹ” کو آپس میں کنفیوز کرکے معاملات کو الجھایا اور عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔

ان حالات میں ہمارے رہنماؤں کا فرض یہ بنتا ہے کہ وہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کی بجائے اپنی تمام تر صلاحتیں مندرجہ بالا اسکیموں کو عملی جامہ پہنانے پر صرف کریں۔ وہ اس کے لیے مل بیٹھیں اور کامیابی کے لیے راستے تلاش کریں۔ سستی سیاست اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کام فی الحال ملتوی کردیں۔ ان کے لیے الیکشن کا وقت موزوں ہوگا۔

عوام کو چاہیے کہ وہ نعرے لگانے سے پہلے معاملات کو سمجھیں۔ آپ یقین رکھیں کہ چترال جیسے دشوار پہاڑی علاقے میں چار لین ایکسپریس وے قیامت تک نہیں بن سکتی اور نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ہمارے لیے بہتر کوالٹی کی تیس چالیس فٹ سڑک کافی ہے۔ سوات والے اگر ایکسپریس وے بنا رہے ہیں تو ان کے ہاں عمدہ سڑکیں ضرورت کے مطابق بن چکی ہیں۔ اور ان کا علاقہ بھی ہماری طرح دشوار گزار نہیں۔ اس کے علاوہ ان کی نمائیندگی مرکز اور صوبے میں مضبوط ہے۔ فارسی میں کہتے ہیں کہ حلوا خوردن را روے باید” یعنی حلوہ کھانے والوں کا منہ اور طرح کا ہوتا ہے۔

(یہاں دیے گئے اعداد شمار تھوڑا بہت آگے پیچھے ہوسکتے ہیں لیکن مجموعی صورت حال بالکل یہی ہے)


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
38755