Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال کا سب سے بڑا قبرستان، ایون ……………..اصفی چترالی

Posted on
شیئر کریں:

چِتر پل سے ایون میں داخل ہوتے ہی مولدہ کی آبادی اور دکانیں آتی ہیں۔ یہ ختم ہوتے ہی ہلکی اترائی آتی ہے اس اترائی سے گزرتے ہوئے داہنے ہاتھ دیکھیں تو چترال کا سب سے بڑا قبرستان ایک گنجان آباد کوچہ خموشاں کی صورت میں پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ اس قبرستان میں ایون ون کے تینوں بڑے دیہات مولدہ، تھوڑیاندہ اور درخناندہ کی کئی نسلیں آسودہ خاک ہیں اور مزید مجھ سمیت کتنوں کے انتظار میں یہ میدان بیچین پڑا ہے۔ یہ قبرستان مولدہ اور تھوڑیاندہ کے درمیان میں واقع ہے۔ یہاں سے پیدل گزرتے ہوئے ایک تو موت کا گمان یقین میں بدلتا ہے اور دوسرا یہ کہ عالم برزخ کی طوالت پر ایمان مستحکم ہوتا ہے۔
ayun qaboristan chitral 1
اس وسیع قبرستان کی تاریخ کچھ یوں بتائی جاتی ہے کہ ابتدائی کٹور یا رئیس دور میں یہ شاہی جولانی (رائل پولو گراونڈ) ہوا کرتا تھا۔ مہتر چترال یہاں پولو کھیلنے آیا کرتے تھے۔ ایون کسی زمانے میں علمی لحاظ سے “بخارا” کہلایا جاتا تھا۔ یہاں کے جید علماء ہر دور میں دینی، معاشرتی، درباری اور سیاسی حوالوں سے معتبر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں درخناندہ سے تعلق رکھنے والے ایک شاہی دربار کے قاضی نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں مقربین کو یہ وصیت فرمائی کہ جب میں انتقال کر جاوں تو مجھے جولانی کے بیچ میں دفن کردینا تاکہ یہ میدان اہل علاقہ اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے قبرستان کی صورت اختیار کرے۔ جب قاضی کا انتقال ہوا تو لوگوں نے فوری طور پر اس کی وصیت پر عمل کر لی۔ دوسری طرف شاہی مخبروں نے چترال جاکر مہتر وقت سے اس واقعے کا تذکرہ کیا۔ اس پر مہتر غصہ ہوئے اور اس حکم کے ساتھ لشکری روانہ کیے کہ قبر اکھاڑ کر قاضی کی جسد خاکی وہاں سے ہٹادیں اگر کوئی مزاحمت پر اتر آئے تو اس کا بھی کام تمام کردیں۔ لشکری ایون پہنچے اور سیدھا جولانی کی طرف گئے۔ جوں ہی اس قبر سے ان کا فاصلہ چند قدموں کا رہ گیا اچانک قبر کے منڈیر کی سوراخوں سے بھڑوں کا ایک بڑا جھلر نکل کر لشکریوں پر حملہ آور ہوا اور انھیں کسی بھی حال میں اس مبارک قبر تک پہچنے نہیں دیا۔ جب لشکریوں کو قبر تک پہنچنے کی کوئی ممکن صورت نظر نہ آئی تو وہ قلعہ واپس ہوئے اور مہتر کو ساری صورت حال سے آگاہی دلائی۔اس پر مہتر نے مشیروں اور قاضی حضرات سے رائے لی اور یہ تاریخی فیصلہ سنادیا کہ اہل علاقہ سے جا کر کہہ دو کہ قاضی جی کی مبارک قبر کے سبب میں اس جُولانی کو قبرستان کے لئے وقف کرتا ہوں۔ مہتر کے اس فیصلے کے پیش نظر اس قبرستان میں باقاعدہ طور پر دفنانے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک چلا آرہا ہے۔ مولدہ کے ساتھ ملحق حصہ مولدہ کو، درمیانی حصہ درخناندہ کو اور تھوڑیاندہ کے ساتھ جڑا حصہ تھوڑیاندہ کا قبرستان قرار پایا۔
ayun qaboristan chitral 3
مذکورہ بالا تاریخ اگرچہ کتابی نہیں ہے لیکن ایون میں گھر گھر اسں روایت کو سند کا درجہ حاصل ہے۔ ویسے بھی تاریخ چترال کی صحت پر اعتراضات بہت ہیں۔ قبرستان سے جڑی اس کرشماتی روایت کے حق میں میری چند دلائل ذیل ہیں
٭ موجودہ تجاوزات کو نظر انداز کریں تو اس قبرستان کا جغرافیہ بالکل جولانی معلوم ہوتا ہے۔ یعنی اس کی لمبائی بمقابل چوڑائی کے کافی زیادہ ہے اسی لئے اسے عمودی تقسیم کیا گیا ہے۔
٭ قاضی کا درخناندہ سے تعلق تھا اس لئے درخناندہ کو درمیانی حصہ ملا ہے۔
٭ درخناندہ والے حصے میں قاضی خاندان کو وہ جگہ ملی ہے جو کل قبرستان کا بالکل سنٹر بنتا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ دراصل یہی وہ جگہ تھی
جہاں پر قاضی دائمی نیند میں ہیں۔
٭ قبرستان کا جغرافیہ بالکل ہموار ہے مگر آس پاس کے جغرافیے سے صاف لگتا ہے کہ قبرستان کا علاقہ زمانہ قدیم میں ہموار نہیں ہوگا اسے کسی خاص مقصد(جولانی بنانے)کے تحت ہموار بنایا گیا ہے۔
٭ چترال کی تاریخ میں کوئی التتمشی خصائل کا متحمل حکمران نہیں گزرا ہے جس نے رعایا کے لئے شاہی جولانی کو قبرستان کے لئے بیوجہ وقف کیا ہو۔
لہذا جب تک ٹھوس دلائل کے ساتھ اس وسیع شہر خموشاں کی کوئی اور تاریخ پیش نہ کی جائے مذکورہ بالا تاریخ پر اکتفا کی جائے گی۔ اللہ تعالی بزرگ قاضی جی کے درجات بلند فرمائے۔
ayun qaboristan chitral 2
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قبرستان ہذا کے تحفظ اور صفائی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے درمیان کی گزرگاہیں محدود کردی جائیں۔ اس کے ہمسائے دیہاتیوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کو بازیچہ اطفال نہ بنائیں اور اپنے مال مویشی یہاں نہ چھوڑیں۔ نیز اگلی نسلوں کا سوچ کر ہمیں ضرور یہ قدم اٹھانا ہوگا کہ وہ سینکڑوں قبریں جن کے مرقد مٹ چکے ہیں اور صرف گور کے نشانات باقی بچے ہیں ان کی ازسرنو کھدائی کر کے اس قابل بنائیں کہ دوبارہ اس کو استعمال میں لایا جاسکے۔ اس حوالے سے علماء کی رہنمائی لینی ہوگی مگر یہ جان لیں کہ یہ عمل ناگزیر بن چکا ہے۔
اللہ تعالی اس قبرستان عظیم کے تمام مکینوں کی مغفرت فرمائے۔ اور ہمارے لئے اس کو مبارک بنادے۔ آمین۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
22285