Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال سے دیرینہ سفرکی دلچسپ جھلکیاں ۔۔۔۔ حمید اللہ خان

شیئر کریں:

فارن سروس سے ۱۹۹۶کے شروع میں فارغ ہونے کے بعد میں نے اسلام آباد میں سکونت اختیار کی-اس دوران مجھے اپنی والدہ اور بڑےبھا ئی سے ملنے اکثر دروش جاناپڑتا تھا-فضائی سفر پرمیں زمینی سفر کو ترجیح دیتااور میں گاڑی میں اسلام آباد سے نوشہرہ ، مردان ، مالاکنڈ اورچکدرہ ، دیر سےہوتا ہوا دروش پہنچ جاتا-

دوران سفر پبلک ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کی بہتری کو دیکھتے ہوے مجھے طالب علمی کاوہ زمانہ یاد آتا جب میں سال میں دو یا تین مرتبہ اسی سڑک پر پیدل اور پبلک ٹرانسپور ٹ میں سفر کرتا ہوا دروش سے دیر اور پشاور پہنچ جاتا- عجیب بات یہ لگتی کہ دیر سے لواری ٹاپ تک میں نے شاید ہی کسی کو پیدل سفر کرتے دیکھا ہو- مختصرسی چند کلومیٹرمسافت پیدل طے کرنے کے لئے لوگ گھنٹوں گاڑیوں کا انتظار کرتے- اس سےمجھے خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے بچپن کے سفر کا تجربہ چترال کی نئے نسل کے ساتھ شئیر کیا جائے-

۱۹۴۷ میں جب پاکستان بنا تو میں دروش میں پانچویں جماعت میں پڑتا تھا- ہماراسکول جو ساتویں جماعت تک تھا پہلے برطانوی فوج اور بعدمیں چترال سکاوٹ کےبیرکوں میں سے ایک میں تھا- یہ بلکل بوائز اسکاوٹ کے باسکٹ بال گراونڈ سےمنسلک تھا- اس سے پہلے سکول تین چار سال کے عرصے میں کئی بار تبدیل ہوتا رہا- شروع میں سکول قلعہ دروش کے اندر مسجد میں تھا- سردیوں میں جب دھوپ ہوتی تو ہم قلعے کے باہر لان میں بیٹھا کرتے اس وقت کرسی، ڈسک، کارپٹ یا سر کےاوپر چھت کی عیاشی میسر نہیں تھی- جب بارش ہو جاتی تو مسجد یا گھر چلے جاتے-

اسی دوران ایک ایسا کربنا ک واقعہ دیکھنا پڑا جو ہماری نفسیات پر ساری زندگی کے لئے اثر انداز ہوا ہوگا کیونکہ اسے ابھی تک بھول نہیں سکے- ایک قیدی جسکی جرم کا ہمیں پتہ نہی تھا سزا کے لئے اسی لان میں لایا گیاجہاں ہم پڑھتے تھے- ملزم کی ٹانگیں چارپائ کے دونوں بازووں کے گرد پھئلا کر رسی سے باندھ دی گئیں۔پھر رسی میں لکڑی کی چھڑی ڈال کر اسے گھمایا جاتاجیسے جیسے رسی کھینچتی جاتی اسی طرح ملزم کی ٹانگیں بھی کھچتی جاتیں اور جب درد نا قابل برداشت ہوتا جاتا- تب ملزم کسی جرم کا بھی اقرار کر لیتا جو اس سے سر زد ہی نہیں ہوا ہو-اس سزاکا نام” ژینہ نیشیک” تھا-

اس وقت کے گورنر دروش کے دو بیٹے جو میرے کلاس فیلوز تھے وہ بھی یہ ظالمانہ سزادیکھتے رہے اور ہم سب خوف سے سہمے رہتے-

اس کے بعد تین ، چار سال کے عرصے میں ہمارا سکول کئ بار تبدیل ہوتا رہا-گورنر نے قلعہ سے تھوڑے فاصلے پر “ موڑ گاز “ میں جو کہ چارویلُو کی ملکیت تھی سکول تعمیر کروا دی ہم کوئی تین سال تک وہاں رہے یہاں پر اساتذہ کی تعداد بڑھا دی گئ جو کہ چار جانے پہچانےاشخاص پر مشتمل تھی-

جناب خیرُالاعظم ہڈ ماسٹر کا تعلق جنجریت سے تھا یہ گھر سے سکول اور واپسی کی بارہ میل کی مسافت روزانہ پیدل طے کرتے۔دوسرے سینیر استاد جناب حضرت علی فارسی پڑھاتے اوران کی رہائش گاہ “ ڑانگہ” گاوُں میں تھی۔دینیات پڑھانے کے استاد کاڑدام کے بڑے عالم مولوی تھے جو دستار یافتہ ہونے کی وجہ سے “ پھگڑیئ “ کہلاتے تھے- پی۔ٹی یا فزیکل ٹریننگ جناب مراد خان سا کن “ ڑانگہ” کراتے۔ ان کے علاوہ ٹلگراف آفس کے انچارج جو انگریز تھا اپنی مرضی سے موڑگاز سکول آ کر انگریزی پڑھاتے ان کی جسمانی وزن زیادہ تھی اس وجہ سے سکول تک پیدل آنے جانے کی وجہ سے پسینے میں شرابورہوتے۔ تیسری جماعت میں ان سے انگریزی سیکھنے کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ آگے جا کر مجھےانگریزی میں زیادہ محنت کر نے کی ضرورت نہیں پڑی۔

دو یا تین سال اس سکول میں گزارنے کے بعد ہم اچانک یہاں سے پہلے بیان کردہ برطانوی فوج کے ایک بیرک میں منتقل ہوگئے۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے ۔ مختصر یہ کہ گورنر حسام الملک نے اپنے بڑے بھائی مہتر چترال مظفرالملک کے خلاف بغاوت کی تھی جس کی وجہ سے ان کو گرفتار کرکے لورا لائ بلوچستان بھیج دیا گیا جہاں وہ کئی سال تک قید میںرہے-سکول تبدیلی کے ساتھ ہمارے استاد بھی سارے تبدیل ہوگئے اور نئے آگئے- اسی سکول سے میں نے ۱۹۴۷ میں ساتویں جماعت پاس کر کے تعلیم مکمل کی-

مجھے مڈل سکول کے لئے چترال جانا پڑا- یہ سکول ۱۹۳۷ میں مہتر ناصرالملک نے قائم کیاتھا کہا جاتا ہے کہ جب سکول کا افتتاح ہو رہا تھا تو مہتر نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ “ میں چترال میں شاہی خاندان کے خاتمے کا افتتاح کر رہا ہوں “۰ اس سکول میں دروش سےہم آٹھویں کلاس میں دو طالب علم تھے تین تور کھو سے تھے اور باقی تین یا چار چترال ٹاون سےتھے- یہی وہ عرصہ تھا جب چترال اور دروش کے درمیان مجھے سفر کرنا پڑتاتھا۔زندگی میں پہلی دفعہ گھر چھوڑا تھا اس لئے دو ہفتے کے بعد ضرور والدین اور بہن بھائہوں سے ملنے دروش آتا رہتا- یہ ۲۵ میل کا فاصلہ تھا مگر اُن دنوں میں کوئی با قاعدہ ٹرانسپورٹ کانظام نہ تھا۔ دروش میں سیٹھ گلستان کی ایک چھوٹی سی ٹرک ہوا کرتی تھی یہ ہفتہ اور بعض دفعہ دو ہفتے بعد دروش سے چترال جاتی۔

یہ مسا فروں کے علاوہ سامان سے لدی ہوتی۔ زیادہ لوگ پیدل سفر کیا کرتے۔ سامان لےجانے کیلئے جانوروں کے علا وہ انسان بھی کرائے پر حاصل کئےجاتے-

ہفتے کے دن میں چترال سے نکل جاتا، پیدل اور اکثر بھاگتاہوا دروش پہننچتا- یہ مسافت طے کرنے میں مجھے چار سے پانچ گھنٹے لگ جاتے- سردیوں میں جب برف باری ہوتی تومہینے میں ایک بار گھر جاتا۔ یہ سفر کبھی گھوڑے پر اور کبھی پیدل پا طۓ کرتا-

آٹھویں جماعت پاس کرنےکے بعد مجھے تعلیم جاری رکھنے کے لۓ دروش کو بھی خیر باد کہناپڑا- یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ میرے والد میرے گھر چھوڑنے کے بلکل خلاف تھے- تعلیم کے بارےمیں ان کا خیال تھا کہ میں دروش ہی میں کتابوں کا مطالعہ کرتا رہوں- وہ خود بھی فارسی میں خاص کر مولانا جلالدین رومی پر سکالر کا درجہ رکھتے تھے- دوسرےجانب میری پوزیشن یہ تھی کہ تیسری ،چوتھی جماعت سے میں بڑے بھائ کو کہتا کہ میں نے بہر حال ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنی ہے-وہ کہتے کہ آپ کواجازت اور خرچہ نہ ملے پھرکیا کروگے؟ میں پورےعظم کے ساتھ جواب دیتا کہ میں پشاور جا کرمسجد میں رہائش اختیارکر کے تعلیم حاصل کرونگا۔ یہاں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ مکمل ارادہ انسان کے لۓحالات کیسے سازگار بناتا ہے-

مجھے آٹھویں جماعت کے لۓ چترال جانا بھی ممکن نہ تھا- ہوا یہ کہ مہتر سیف الرحمان کو اچانک چترال چھوڑکر پشاور جانا پڑا( یہ دلچسپ کہانی ہےجس پرعلاحدہ لکھنا ضروری ہے) تب چترال قلعے میں میری بڑی بہن اکیلی رہنے لگی-اس وجہ سے چترال جاکر وہاں رہنے کا بہانہ مل گیا- آٹھویں جماعت کے بعد دوبارہ حالات کیسےساز گار ہو گۓ- مہتر سیف الرحمان سیول سروس ٹریننگ کے لۓ پشاور سے ایبٹ آبادمنتقل ہوۓ-اس وقت میں قلعے کے ایک کمرے میں رہتا تھا مہترسیف الرحمان کےجانے کے فورا” بعد اس کے چھوٹے بھائ اسدالرحمان نے اپنے بڑے بھائ کےخلاف سازشیں شروع کیں اس حد تک کہ میں اپنی بہن سے بھی نہیں مل سکتا تھا-چنانچہ مجھے ایبٹ آباد جانا پڑا- قدرت نے میرے لئے تعلیم جار ی رکھنے کا راستہ کھول دیا- وہاں سے میں نے دو سال میں میٹرک پاس کر لیا- اسی سال مہتر سیف الرحمان پشاور منتقل ہوگئے-گرمی کی چھٹیاں دروش میں گزارنے کے بعد میں پشاور گیا اور اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا- یہ تفصیل میں نے اس لئے بیان کی کہ اگر انسان کا ارادہ پکا ہو تو اس کے لئے قدرت وسیلے بنا دیتی ہے-

گرمیوں میں چھٹیاں دروش میں گزارنے کےبعد سال میں دو یا تین دفعہ دروش اور پشاورکے درمیان سفر کرنا پڑتا تھااسی سفر کی تفصیل ہم وطنوں ، خصوصا” چترال کے نو جوان نسل کے ساتھ Share کرنا ضروری سمجھتا ہوں اس لئے کہ ان کو موجودہ سہو لیات پرشکر ادا کرنے کا موقع ملے اور مزید ترقی کے لئے جدو جہدجاری رکھیں-

غا لبا” ستمبر میں دروش سے پشاور اسلا مہ کالج جانا ہوتا تھا-اس سفر کے لئے کپڑوں کی ایک صندوق اور ایک واٹر پروف کور میں کچھ کتابیں اور بستر ہوتے- دروش سے دوسری منزل دیر تھی۔ یہ سارا سفری سامان ایک یادو دن پہلے دروش سے دیربھیجنا پڑتا تھا ۔ان سامان برداروں کو مقامی زبان میں “ پراچہ” کہا جاتاتھا۔ ان کا تعلق دیر کے پہاڑی علاقوں سے تھا سامان لادنے کے لئے ان کے پاس گدھے، خچر اور گھو ڑے ہوتے تھے- ہما را سفر اکثر پیدل اور کبھی کبھی گھوڑے پر ہوتا-دروش سے صبح سویرے سفر کا آغازہوتا- ایک دو دنوں کا کھاناساتھ لے جانا ضروری تھا ۔ پہلا پڑاوُ لواری ٹاپ کے دامن میں واقع زیارت میں ہوتا۔ تا ہم اس کا انحصار موسمی صورت حال پر ہو تا۔دروش سےزیارت کا فاصلہ غالبا” 16 میل اورسطح سمندر سے اونچائ 6 یا 7 ہزار فٹ بلندی پر ہے۔

مارچ کا مہینہ Avalanche یا برفانی سیلا بوں کا مہینہ ہوتا ہے۔اس وجہ سے زیارت سےلواری ٹاپ کا فاصلہ صبح سویرے طئے کرناضروری ہوتا ہے یہی وجہ تھی کہ زیارت میں رات گزارنا پڑتی۔یہاں پر پتھروں کی ایک دوخستہ حال کھنڈر نما عمارات تھیں جن کی چھتیں لکڑی کی شہتیروں سے بنی تھیں ۔چھت میں ایک بڑا سوراخ چھوڑا جاتا تاکہ کمرےکے بیچ میں جلتی ہوئ آگ کا دھواں باہر نکلے ۔کمرے میں پندرہ سے بیس افراد کے لئےسونے کی گنجائش تھی چار یا پانچ چارپائیان ہوتیں باقی زمین پر سوتے۔ سخت سردی کی وجہ سے ساری رات آگ جلا نا پڑتی۔ کھانے کے لئے صرف چاے روٹی ہوتی۔لیکن لوگ اکثر اپنے ساتھ کھانا ساتھ لاتے۔سونے کے لئے میٹرس لحاف بھی تھے۔ شروع میں شایدیہ اچھے بھلے بچھو نے ہوتے مگر زیادہ اور غلط استعمال کی وجہ سے اب ٹاٹ یا ترپال کےچادر محسوس ہوتے۔ صفائی کی یہ حالت تھی کہ سارےچارپائی اور لحاف کٹھ مل اورجووں سے بھرے ہوتے۔سخت سردی اور تھکا وٹ کی وجہ سے یہ صورت حال خاموشی سے برداشت کی جاتی۔

رات آرام اور نیند کے بغیر جیسی بھی گزرجاتی مگر اگلی صبح برداشت اورمشقت کےامتحان کا دن ہوتا۔لواری ٹاپ تک چار میل کا فاصلہ سخت چڑھائی ہے Avalanchesکی وجہ سے وادی برف سے بھری ہوتی اس وجہ سے سڑک کی بجاے وادی کے درمیان برف میں بنے تنگ راستے پر جانا پڑتا اگر رات کو تازہ برف پڑتی تو دوسرے دن ایویلا نچ آنے کا سو فیصد توقع ہوتی۔ اس وجہ سے زیارت سے لواری ٹاپ کا فاصلہ صبح سویرے طےکرنا ہوتا۔ ایک دفعہ میں خود ایویلانچ میں بہ گیا اور ایک میل کے فاصلے تک لیجانے کے بعدمعجزانہ طور پر بچکر بغیر کسی چوٹ کے نکل آیا تھا۔اگرموسم خراب ہو تولواری ٹاپ پرکبھی آندھی اتنی تیز ہوتی ہے کہ لوگوں کو واپس نیچے وادی میں دھکیل دیتی ہے۔

ایک دفع ہمیں چترال سکاوٹس کے تیس پینتیس جوانوں کے ساتھ ٹاپ کےقریب تھاکہ یہی ہمارےساتھ ہوا۔ صرف بیس یا تیس میٹر ٹاپ کو عبور کرنے کے لئے ایک دوسرے کے کمرکےگرد ہاتھ لپیٹ کر آگے بڑھ سکے اور ٹاپ کراس کیا۔جونہی دیر کی طرف وادی میں داخل ہوے تو ہوا کی تیزی اور ایویلانچ کا خطرہ بھی ختم ہوا کیونکہ اُس طرف وادی چوڑی اور نسبتا” ہموار ہے۔یہاں سے چار میل کے فاصلے پر گجر پوسٹ ہے جو خالی اور ویران پڑی تھی ہمارے پاس آگے جانے کے سوا اور کوئ چارہ نہی تھاکہ دیر کی طرف سفرجاری رکھیں جو مزید پندرہ میل آگے تھا۔ دیر سے پہلے ایک چھوٹا سا گاوں قولنڈئ آتا ہےیہاں پر چائ کی دکان کھلی تھی اور ہمیں چائے روٹی مل گئ اور تازہ دم ہوکر آگے چل پڑے۔جب ہم دیر پہنچے تو شام کی سیاہی پھیل چکی تھی۔دیرمیں قیام کے لئے کوئی معقول ہوٹل نہیں تھا۔ یہاں پر میرے قریبی رشتہ دار تھے میں اکثر اُن کے گھر میں رات گزاتا تھا۔

دیر پہنچنے پر پہلا کام سامان لانے والے کی تلاش اور سامان کی وصولی تھی۔ یہ کام ختم کرنے کے بعد رات کا کھانا کھانےاور جلد سونے کی تیاری کرنا ہوتی۔صبح چھ بجے ایک ہی بس یہاں سے چکدرہ چلتی۔ یہ بس دیر کے نواب کی تھی۔ بس کا ڈرایئور بھی ایک خودساختہ نواب ہوتا ۔ جب کوئ سرکاری اہل کار یا وی۔آئ۔پی نہ ہوتا تو مجھے ڈرائیور کےساتھ سیٹ پر جگہ ملتی تھی۔ بس کا بقیئہ حصہ مقامی لوگوں سے بھرا ہوتا ان کے ساتھ ہرقسم کے گھریلو جانور مثلا” مرغیان،بکریاں اور کتے ہوتے جو پچھلے حصے میں بغیر سیٹ والے فرش پر بیٹھ جاتے ۔ اس حصے کو “ چمن” کہتے تھے۔ڈرائیور کی نظر راستے میں انتظارکرتے سواریوں پر ہوتی۔ وہ اپنے اسسٹنٹ( کیلنڈر) کو ہدایت کرتا کہ ان کو چمن یا چھت پر بٹھاے۔

دیر بازارسےنکلتے نکلتے بس کوایک گھنٹہ لگ جاتا۔ ایک اور گھنٹہ جانے کے بعد “ جغا بنج” میںرکتا جو دیر سے صزف بارہ میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ ناشتہ کرنے کا سٹاپ ہے۔ چائےشاپ کے سامنے سڑک کے سائڈ پر ڈرائیور اور اس کے چندجانے پہچانے مہمانوں کےلئے مخصوص چار پائیاں لگی ہوتیں جن پر چادریں بچھائ جاتیں۔ ڈرائیور کو فرائیڈ چکن،پراٹھہ چائے کےساتھ پیش کئے جاتے۔ ہوٹل والے کی طرف سے یہ ضیافت گاہک لانےکے صلے میں دی جاتی۔ ایک گھنٹے کےبعد بس پھر روانہ ہوتی یہ ہر سٹاپ پر رکتی کوئ اترتاتو کوئ چڑھتا۔ نواب صاحب بٹیر لڑانے کا شوقین تھا اس وجہ سے ڈرائیور سڑک کےکنارے بیٹھے بٹیر فروش دیکھ کر رک جاتا اور مخصوس بٹیر خرید لیتا۔ بٹیروں کو محفوظ رکھنےکے لئے ہاتھ سے بنے پنجروں میں ڈالا جاتا اور ڈرائیور کے ساتھ والے سیٹ کے چھت سے لٹکایا جاتا۔ ظاہر ہے ان کی گندگی ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر پر گرتی رہتی پھربھی فرنٹ سیٹ کی آرام کی وجہ سے ہمیں یہ سب کچھ خوشی سے برداشت کر نا پڑتا۔

آخر تین یاچار بجے دوپہر بس آخری سٹاپ چکدرہ پوسٹ پہنچ جاتی اور مسافروں سے خالی ہو جاتی۔ اگلا مرحلہ ہمارے لئے بٹخیلہ پہنچھنا ہوتا۔کافی انتظار کے بعد اگر کوئ ٹانگہ آجاتا توتھوڑی سی سودا بازی کے بعد اس میں سامان کے ساتھ سوار ہو کر اور سُکھ کا سانس لےکر بٹخیلہ روانہ ہوتے ۔ یہاں پہنچنے میں 30سے 40 منٹ لگ جاتے اور شام کا اندھیراشروع ہوتا۔ اب رات گزارنے کا مسلہ حل کرنا ہوتا۔ یہاں کوئ ہوٹل نہیں تھا صرف کھانے اور چائ کے ریسٹورانٹ تھے جن کے پاس کمرہ نما گودام ہوتے جہاں سونے کےلئے چارپائ بسترہ ملتے۔ سوتے ہی ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے ہمارے نیچے چیونٹیوں کا گھرہے ۔ روشنی ڈالنے پر پتہ چلتا کہ یہ کٹھملوں کے لشکر ۂیں۔ بہر حال رات گزرجاتی ۔دوسراآخری دن ہمارے لئے یوم جشن سے کم نہ تھاکیونکہ آج ہم اپنی منزل پشاور پہنچنے والےتھے۔ ظہرانے کے وقت جی۔ٹی۔ایس ( گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس) کی بس پہنچی۔ یہ سروس بہت اچھی ہوتی تھی وقت کے پابند اور ڈرائیور بہت مہذب ہوتے تھے سیٹوں سے زیادہ سواری کبھی نہی لے جاتے۔ بس بٹخیلہ سےپشاور روانہ ہوئی راستے میں صرف بڑے شہروں جیسے مردان، نوشہرہ کے سٹاپ پر رُکی اور شام کے وقت ہم پشاور پہنچ گئے۔

اسلامیہ کالج کی ایک ہی بس ہوا کرتی تھی ۔قسمت کی بات تھی اگر وہ مل جاتی ورنہ ٹانگہ لےکر شام سے پہلے پہلے اپنے ہاسٹل پہنچ جاتے۔

GTS bus service old
(GTS pic by Bherkund)

نوٹ: رائیٹر حمید اللہ خان کا تعلق دروش چترال سے ہے ، وہ فارن سروس سے وابسطہ رہےہیں ۱۹۹۶میں بحیثیت سفیر سبکدوش ہوکربیرون ملک مقیم ہیں۔۔مذید تفصیل جاننے کیلئے لنک منسلک ہے ۔ ۔https://chitraltimes.com/2021/04/27/47769/۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
48924