Chitral Times

Jul 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پوسٹ پارٹم ڈپریشن – میرسیما آ مان

Posted on
شیئر کریں:

پوسٹ پارٹم ڈپریشن – میرسیما آ مان

آ پ نے کبھی دیکھا کہ ایک شخص گاڑی چلا رہا ہو اور ساتھ بیٹھے ہوئے دسیوں افراد پر ہر لمحہ اسے ٹوکتے ہوں سکھا رہے ہوں کہ گیر دباؤ ریس دباؤ بریک لو ٹرن لو یہ کرو وہ کرو۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا شخص ایک لائینسس یافتہ ڈرائیور ہے ۔ ظاہری بات ہے ایسا سین ہم نے کبھی نہیں دیکھا ۔لیکن اک لمحے کے لئے ہم یہ فرض کر لیتے ہیں۔ کہ ایک وین میں بیٹھے پچیس افراد ڈرائیور کو بار بار  ہدایت دیں گے تو وہ کیا کرےگا ۔۔یقینا وہ گاڑی لے جاکر کسی دیوار پہ دے مارے گا کیونکہ ڈرائیونگ ایک انتہائی حساس کام ہے ۔میرے نزدیک اکیسویں صدی میں ایک ماں کی بھی وہی صورتحال ہے جو اس وین میں بیٹھے ڈرائیور کی ہے ۔اور مجھے سمجھ نہیں آئی کہ نپولین نے کس نشے کی دھت میں پڑ کر یہ بے کار جملہ ایجاد کیا تھا کہ تم مجھے ایک بہترین ماں دو میں  تمھیں بہترین قوم دونگا یا بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود وغیرہ وغیرہ ۔

 

ہوسکتا ہے نپولین کا دور ہی اتنا محدود ہو کہ پوری قوم کی تربیت ماں کی گود پر منحصر ہوتا ہو ۔ یا ہوسکتا ہے اس دور میں ایک ماں کو وہ سارے حقوق حاصل ہوں جو تربیت کے حوالے سے ایک ماں کے ہیں لیکن آ ج کا دور اس بات کا قطعی منافی ہے ۔۔کیونکہ آج کا بچہ ایک ماں کی گود سے ذیادہ اردگرد کے ماحول سے سیکھتا ہے ماں کی گود تو اسکے لیے جیل خانہ ہے ۔ وہ ان تمام رشتوں کی طرف لپکتا ہے جو لاڈ کے نام پر اسے بے جا ضد اور بد تمیزی سکھاتے ہیں اور ماں اپنی آنکھوں سے یہ سب دیکھ کر صرف اسلیے صبر کے گھونٹ پیتی ہے کہ رشتوں کا لحاظ باقی رہے۔کوئی ناراضگی نہ ہو ۔ حالانکہ ماں کا حق ہے کہ وہ اولاد کی تربیت اپنی اصولوں اور خواہش کے مطابق کرے لیکن ہمارا معاشرہ عورت کو یہ حق بھی نہیں دیتا ۔بحرحال نفسیات کے مطابق عورت جب بچہ جنتی ہے تو کم ازکم  دو سے چھ ماہ تک کا دورانیہ زچہ کے لیے نفسیاتی اعتبار سے انتہائی نازک ہوتا ہے یہ دورانیہ ماں کے نفسیات پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے ۔بعض اوقات تو عورت ڈپریشن کے اس لیول تک پہنچ جاتی ہے کہ اپنی یا بچے کی جان تک لے لیتی ہے ۔

 

اس عرصے کے ڈپریشن کو پوسٹ پارٹم ڈپریشن کہا جاتا ہے ۔یہ ٹاپک جتنا حساس ہے اس پر بہت لمبی بات ہونی چاہیے لیکن فی الحال میں اپنے پرخلوص معاشرے کو صرف یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ جب تمھارے گھر میں کوئی بہن بیٹی بہو ماں بن جائے تو خدا آرا اسکی استاد مت بن جانا بلکہ بحیثیت انسان اسکا بازو بنو ۔اسکی مدد کرو ۔۔بچہ شہر خوار ہے ساری رات ماں کو سونے نہیں دیتا تم دن میں آ کر ایک ماں کو چند لمحے آ رام دو بچے کی خبر گیری کرو ۔جب بچہ چلنے پھرنے اور بولنے کی عمر کو پہنچے تو اپنی طرف سے بچے کو کوئی مثبت  عادت کوئی اچھی بات سکھاؤ جو خود تمھارے لیے صدقہ جاریہ بن جائے ۔ لیکن اگر تم ایسا کچھ نہیں کرسکتے تو خدا کے واسطے چپ رہو مداخلت نہ کرو وین میں بیٹھے وہ مسافر مت بنو جو ڈرائیور کو ڈرائیونگ سکھائیں ۔۔کیونکہ تمھارا یہ قدم خود تمھارا قد تو چھوٹا کرے گی ہی ساتھ ہی ان خوابوں کو بھی چکنا چور کرےگی جو ایک ماں نے اپنی اولاد کی تربیت کے لیے دیکھ رکھے تھے ۔کیونکہ میں نے اپنی گنہگار آ نکھوں سے ایسا معاشرہ دیکھا ہے جہاں ایک ماں کا بازو کوئی نہیں بنتا ۔لیکن وقت پڑنے پر اسے بلیم کرنے کے لیے سارے کردار سامنے آ جاتے ہیں۔

 

ہم مشرق کے خاندانی نظام پر فخر اسلیے کرتے تھے کہ یہ بچہ کو مہذب سوشل دیندار بناتا ہے اخلاق سنوارتا ہے مگر آج کا خاندانی نظام جو بچے کی بالوں سے لیکر جراب تک کپڑوں سے لیکر کھانے تک تو کیڑے نکال لیتی ہے ۔جو سوائے بچے کو احساس محرومی ،ضد اور بد تمیزی کے اور کچھ نہیں سکھاتی ہے اور میرے نزدیک ایسے سسٹم میں رہ کر ایک عورت جب ماں بنتی ہے تو چھ ماہ تو کیا ساری عمر اس پوسٹ پارٹم ڈپریشن سے نہیں نکل پاتی۔۔ اسلیے معزز نپولین جو معاشرہ ایک ماں کو نفسیاتی مریض بنائے وہ تمھیں بہترین قوم کبھی نہیں دے سکتی اس لیے اگر دوسری جنم ممکن ہے  تو آ ؤ  اس جملے کی تصیح کرو یا ایک بہترین ماں کی معنی کیا تھا اپنے معاشرے پر اس بات کو واضح کرو ۔یا  خدارا کوئی ایسا جملہ ایجاد کرنا جو  تمھاری قوم سے ایک ماں کے حقوق کی تحفظ کراسکے  کیونکہ اگر بچے کی درسگاہ واقعی ماں کی گود ہے تو اس گود کا ذہنی صحت کا  ٹھیک ہونا ازحد ضروری ہے ۔۔۔۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
87677