Chitral Times

Jun 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پس و پیش – انگریزی زبان چترال میں کیسے پہنچی؟-اے۔ایم۔خان

شیئر کریں:


چترال اپنی تنوع کی وجہ سے نمایاں رہی ہے۔ اس میں موجود  تمدن، زبانین، مسلکی اور مذہبی گونا گونی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ چترال کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ ایک پُر امن علاقہ ہونے سے مشہور ہے۔اگرچہ ریاستی دور میں ایک ‘لہر’ آئی تھی اسکی نوعیت مسلکی تفرقہ کے حوالے سے اختلافات اور نقصانات جو سن80 کی دہائی میں  رونما ہوئے اُن سے مختلف تھیں لیکن عمومی طور پر چترال کی تاریخ میں منافرت کی لہر ، اختلافات اور شدت پسندی نہایت محدود رہ چُکی ہے۔

یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکار جب ہندوستان (1611-15) پہنچے تو اُن کے ساتھ انگریزی زبان ہندوستان پہنچی۔کمپنی کے اہلکار تو انگریزی بولتے تھے لیکن  جب ہندوستان میں1858 کے بعد ہندوستان کی بھاگ دوڑ براہ راست برطانوی حکومت نے لے لی تو انگریزی زبان بھی سکہ رائج الوقت ہوگئی۔ جیسے ہی سلطنت برطانیہ کی بساط ہندوستان کے شہر در شہر  سے ہوکر باہر سرحدات یا سرحدی علاقوں میں برسر پیکار رہی تو اُن کے ساتھ انگریزی زبان بھی وہاں سرایت کر گئی۔

 بین الاقوامی جریدےکے ایک آرٹیکل میں ڈاکٹر طارق رحمان لکھتے ہیں  کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کا آغاز اور جدیدیت نے زبان کو شناخت کی ایک اہم علامت بنا دی… جوکہ )انڈیا میں (مذہب کے بعد تشخص متعین کی. نوآبادیاتی نظام میں انگریزی زبان تشخص کے علاوہ  سرکاری زبان اور طاقت کی علامت بھی رہی ۔ 

19ون صدی کے آخری عشرے میں گریٹ گیم کے پیش نظر جب برطانوی حکومت کیلئے ریاست چترال نے اہمیت لے لی تو ویلیم لوکھرٹ مشن سن 1877ء کو اُسوقت کے ریاستی حکمران کے ساتھ معاہدہ کر لی تو اس کے بعد برطانوی اہلکار چترال آئے اور قیام کرتے رہے ۔  اور یہ وہ دور تھی جب رسمی طور پر انگریزی زبان انگریز کے ساتھ چترال آئی۔ فرنگی اہلکار اپنے روداد سفر جس میں چترال آنے ، وہاں قیام کرنے ،اور چترال سے واپس جانے کے حوالے سے اپنے کتابوں میں لکھے ہیں۔

فرنسس ایڈورڈ ینگھسبنڈ  اپنے کتاب(1884-94) میں کئی ایک موضوعات پر لکھنے کے علاوہ  چترال آنے  اور وہاں تعلیم کے حوالے سے تحریر کرتےہیں کہ اس پورے [ملک] میں یقیناً ایک درجن سے زیادہ لوگ لکھ اور پڑھ نہیں سکتے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ مستوج کے گورنر کے پاس اُس وقت کوئی نہیں تھا کہ وہ لکھ سکے اور چند مواقع پر انہیں خط ملے تو وہ اُنہیں میرے کلرک کے پاس پڑھنے کے لئے لے آئے۔

اُس وقت کے تناظر میں چترال میں تعلیم کی شرح کے حوالے سے شاید کوئی دوسری رائے ہوسکتی ہے کیونکہ چترال میں پہلے سکول کی بنیاد 1920میں رکھی گئی ۔ غیر رسمی تعلیم کے علاوہ،  گوکہ وہ بھی نہایت محدود تھی، اس سکول سے چترال میں رسمی تعلیم کا آغاز ہوا تھا۔ ینگھسبنڈ کے کتاب کے اس اقتباس سے یہ بات واضح نہیں کہ وہ کس زبان میں لکھنے اور پڑھنے کی بات کرتا ہے۔ اُس وقت فارسی یا اُردو زبان میں کچھ لکھنا اور پڑھنا خواندگی کے ذمرے میں آتا تھا یا نہیں یہ معلوم نہیں؟ہاں یہ معلوم ہے کہ اس سے پہلے ہندوستان میں لارڈ میکالے کا وہ قول تو سب کو یاد ہوگا جسمیں اُس نے یورپ کے ایک اچھے لائبریری کا ایک شلف ہندوستان اور عرب کی مقامی ادب سے قدرے بہتر ہونے کی بات اپنے  “منٹ” میں درج کی تھی۔

ہندوستان سے باہر پہاڑی سرحدات  یعنی پامیر سے ہوتے ہوئے جب انگریز  چترا ل پہنچا تو اُن کی زبان ، چال ڈھال، طور طریقے، کلچر، رہن سہن اور لباس توجہ کا مرکز بنے۔ مقامی لوگوں کیلئے یہ وہ زبان تھی  جسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ اور جو کوئی  غیر مقامی ہندوستانی انگریزی جانتا تھا دربار میں اُسکی بھی بہت قدرو منزلت تھی۔

پہاڑی لوگوں میں اُسوقت انگریزی بولنے اورسمجھنے  کا شوق پیدا  ہونے کی ایک بڑی وجہ اانگریزی زبان اور کلچر سے منسلک امتیاز، طاقت اور مراغات تھیں۔ چترال میں اُس وقت انگریزی  زبان میں لکھی کتابوں میں موجود علم توجہ کا مرکز بننے کی گنجائش کم تھی۔ اُس وقت جو انگریزی بول اور لکھ سکتا تھا وہ تعلیم یافتہ ، اور وہ ایک اچھے عہدے پر فائز ہوسکتا تھا ۔ اور ساتھ وہ انگریز کے قریب اور رابطے کا ایک ذریعہ بن سکتا تھا۔

برنرڈ کہن کے مطابق 17 ون صدی عیسوی میں برطانیہ کو ہندوستان میں یہ محسوس ہوگیا کہ فارسی نہایت اہم زبان ہے جسے سیکھنا چاہیے۔ آٹھارون صدی میں پھر برطانوی افسران فارسی سیکھے، اس میں دستاویزات تیار کئے، اور یہ بھی اُنہیں محسوس ہوا  کہ اسے انڈیا میں جو اشرافیہ ہے اسےبھی سیکھایا جائے۔ ایک دوسرے جریدے کے آرٹیکل میں ڈاکٹر طارق رحمان لکھتے ہیں کہ فارسی زبان سیکھنے کا اصل مقصد اس سے پہلے نظام حکومت کو سمجھنا اور اُس مربوط نظام کے مطابق حکومت چلانا تھا تاکہ ہندوستان کے لوگوں کے پاس کم سے کم حکومت کے خلاف ہونے یا بغاوت کرنے کی گنجائش باقی رہے۔

اُس زمانے میں انگلینڈ میں بھی فارسی سیکھنے کا ڈیمانڈ بڑھ گیا، اور بنگال کی فتح کے بعد یہ مزید زیادہ ہوگئی تھی۔ اور تو اور ، فورٹ ویلیم کالج(1800) میں برطانوی افسران کو فارسی کی تعلیم  دی جانے لگی۔

جو انگریز اہلکار اُس وقت چترال آیا اُسکی تعلیم، سمجھ اور دُنیا بینی مقامی لوگوں کیلئے فکر انگیز تھی ۔ گوکہ مقامی لوگ سودیشی علم و سمجھ کے مالک تھے لیکن ہم عصری، بین الاقوامی ،  نظریاتی اور دوسرے دقیق موضوعات سے  اگر عاری نہیں تو اُن پر دسترس بھی نہیں رکھتے تھے۔ اور جو علم اُس وقت لوگوں تک پہنچتی تھی جوکہ ملک میں رائج اور ریاست چترال میں فارسی زبان سے مل رہی تھی۔

انگریز کی آمد کے بعد فارسی زبان، ادب اور علم پر توجہ جس مقصد کیلئے شروع ہوا اُس مقصد کے حصول کے بعد اس پر توجہ کم ہوئی ۔ اب فارسی سے انگریزی میں موجود علم کو ‘خالص’ قرار دینے پر کام شروع ہوا تاکہ فارسی کی جگہ انگریزی زبان لے سکے۔  یہ صورت حال  تقسیم سے پہلے ہندوستان میں رہی، اور پاکستان بننے کے بعد جب اُردو قومی زبان قرار دی گئی اور سرکاری یا دفتری زبان انگریزی جاری رہی تو فارسی کی حالت ہوئی۔

چترال میں فارسی زبان کا استعمال پاکستان بننے کے بعد بھی ہوتا رہا اور اس کی اہمیت طویل وقت تک رہی جسکی ایک وجہ اُسوقت کے تعلیم یافتہ  لوگ فارسی داں تھے، اور دوسرے زبان اور مضامین میں تعلیم اسے ریپلیس نہ کر چُکے تھے۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کے مطابق ‘چترال میں 1030ء سے فارسی کی آمد آمد تھی’ اور یہ ایک وقت تک جاری رہی جبکہ گل مراد خان حسرت  تاریخ رشیدی کا حوالہ دے کر بتاتے ہیں کہ 1540ء کے بعد یہ علاقہ فتح ہوا تو فارسی زبان چترال پہنچی۔   چترال ریاست میں )چترال کے زبانوں کے حوالے سے 1992 کے ایک سروے کے مطابق( فارسی زبان 1952 ء تک سرکاری زبان رہی۔ انگریزی کی افادیت ، ضرورت  اور طاقت پہلے سے محسوس کی جارہی تھی اور جب فارسی ریاستی زبان سے بھی نکل گئی تو چترال میں بھی فارسی زبان کی جگہ اُردو اور انگریزی نے لے لی، اور پاکستان کے ساتھ باقاعدہ ضم ہونے کے بعد سکول وکالج میں جو بھی سیلیبس تیار ہوئی  وہی پڑھایا گیا۔تقسیم سے پہلے کی طرح پاکستان اور چترال میں بھی انگریزی ، اُردو اور مقامی زبانین سماجی اور معاشی تقسیم کی پیمائش کے طور پر  بھی لئے جانے لگے۔

چترال میں انگریزی تعلیم سے متاثر ہوئے، اور فائدہ سب سے پہلے وہ لوگ لئے جو انگریز کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہے اور تھے ۔  انگریزوں کے ساتھ کام کرنے والے لوگ اور اُن کے رشتہ دار انگریزی زبان اور اس سےمتعلق چیزیں اُسی طرح اختیار کیں۔ مقامی لوگ بعد  میں اُن غیر مقامی لوگوں کے ساتھ رشتہ ازواج میں بھی منسلک ہوئے جو اسوقت انگریز کے ساتھ چترال آئے تھے ۔ اسطرح چترال کے لوگوں کا چترال سے باہر رشتہ داری بھی ہوگئے ۔جس کا ایک اثر یہ ہوا کہ عام لوگ اسوقت تعلیم اور انگریزی تعلیم کی ضرورت ، افادیت اور اہمیت کا ادراک رکھتے تھے وہ اپنے بچوں کے تعلیم اور خصوصاً انگریزی تعلیم و تمدن کو ہر چیز پر فوقیت دی۔ اور انگریز اب بھی نسل اور زبان سے فائدہ بٹور رہی ہے۔  

 1980ء کے بعد چترال میں انگریزی تعلیم پر کام مزید شدت سے شروع اُسوقت ہوئی جب چترال میں بھی پرائیوٹ سکول بنے ۔ اُسوقت )اور اب( ہر پرائیوٹ سکول کا مطلب انگلش میڈیم سکول ہے۔ سرکاری سکولوں میں چند سال پہلے تک وہی نظام تھا جو چلی آرہی تھی، اور  چند سال پہلے سے سرکاری سکول بھی انگریزی تعلیم شروع کئے۔ )اب سنگل نیشنل کریکلم کے بعد کیا منظرنامہ ہوگا وہ دیکھنے کی بات ہے(

برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارندے  آئے تو ساتھ انگریزی زبان کی بھی یہاں پہنچی۔ ہندوستان میں نطام حکومت اور قواعد وضوابط کو سمجھنے کیلئے انگریز نے وقت کی مناسبت سے فارسی زبان پر توجہ دی، اور مقصد کے حصول کے بعد اپنی زبان پر کام شروع کی۔  نو آبادیاتی نظام کے دوران انگریزی ایک علامتی زبان رہی، اور سولائزنگ مشن میں انگریزی زبان اور کلچر کا کردار اہم رہا۔ گریٹ گیم کے دوران جب انگریز چترال آئی تو انگریز کے ساتھ اُس کی زبان بھی چترال پہنچی۔ 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
52383