Chitral Times

Jun 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم ہے، جسٹس شاہد وحید کا اختلافی نوٹ,جسٹس عائشہ نے بھی اختلافی نوٹ جاری کر دیا

Posted on
شیئر کریں:

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم ہے، جسٹس شاہد وحید کا اختلافی نوٹ,جسٹس عائشہ نے بھی اختلافی نوٹ جاری کر دیا

 

اسلام آباد(سی ایم لنکس)سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں جسٹس شاہد وحید کا اختلافی نوٹ جاری کر دیا گیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ آئین سے متصادم ہے۔ جس کا مقصد عدلیہ کی آزادی اور اس کے امور پر قدغن لگانا ہے۔جسٹس شاہد وحید نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ آرٹیکل 191 کا سہارا لینے کی اجازت ملی تو عدالتی معاملات میں بذریعہ آرڈیننس بھی مداخلت ہو سکے گی، عدالتی دائرہ اختیار میں اضافہ صرف آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہے، سادہ قانون سازی سے عدالت کو کوئی نیا دائرہ اختیار تفویض نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ ججز کمیٹی اپنے رولز پریکٹس اینڈ پروسیجر کے مطابق ہی بنا سکے گی، ججز کی 3 رکنی کمیٹی پریکٹس اینڈ پروسیجر میں موجود خامیوں کو رولز بنا کر درست نہیں کر سکتی، اگر ججز کمیٹی کا کوئی رکن دستیاب نہ ہو تو اس کی جگہ کون لے گا؟ اس پر قانون خاموش ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے مطابق کوئی دوسرا جج کسی کمیٹی ممبر کی جگہ نہیں لے سکتا۔

 

جسٹس شاہد وحید نے لکھا کہ اگر کمیٹی کے 2 ارکان چیف جسٹس کو صوبائی رجسٹری بھیجنے کا فیصلہ کریں تو کیا ہو گا؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے انتظامی سربراہ ہوتے ہیں انہیں دوسرے صوبے بھیجنے کے نتائج سنگین ہوں گے،ایک رکن بیمار اور دوسرا ملک سے باہر ہو تو ایمرجنسی حالات میں بینچز کی تشکیل کیسے ہو گی؟۔انہوں نے لکھا کہ قانون میں ان سوالات کے جواب نہیں، نہ ہی ججز کمیٹی ان کا کوئی حل نکال سکتی ہے، آئین کے مطابق آرٹیکل 184/3 کے درخواستیں قابل سماعت ہونے کا فیصلہ عدالت میں ہی ممکن ہے، ججز کمیٹی انتظامی طور پر کسی درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتی، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی سیکشن 3 اور 4 آپس میں متضاد ہیں، سیکشن تین کے مطابق 184/3 کی بنیادی حقوق کا کیس 3 رکنی بینچ سن سکتا ہے۔جسٹس شاہد وحید نے نوٹ میں کہا کہ سیکشن 4 کے مطابق بنیادی حقوق کے معاملے کی تشریح 5 رکنی بینچ ہی کر سکتا ہے، سیکشن 3 سماعت اور آئینی تشریح کی اجازت دیتا ہے جبکہ سیکشن 4 پابندی لگاتا ہے۔جسٹس شاہد وحید کے مطابق قانون کی حکمرانی کے لیے نظام انصاف ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ عدلیہ کو آزادی سے بغیر کسی مداخلت کام کرنے دیا جائے، عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قانون آئین میں عدالت کو دیئے گئے رولز بنانے کے حق پر حاوی نہیں ہوسکتا، پارلیمان کو بھی آئین سے متصادم قوانین بنانے کا اختیار نہیں، عدالت کے انتظامی امور پر پارلیمان کو مداخلت کی اجازت دینا اختیارات کی آئینی تقسیم کے خلاف ہے، حکومت اگر مخصوص مقدمات میں مرضی کے بینچز بنائے تو یہ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہو گا

 

پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیس، جسٹس عائشہ نے بھی اختلافی نوٹ جاری کر دیا

اسلام آباد(سی ایم لنکس)پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیس میں جسٹس عائشہ ملک نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا۔جسٹس عائشہ ملک نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ سادہ قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق نہیں دیا جا سکتا، آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق دینے کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے، آرٹیکل 191 کے تحت آئین سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سپریم کورٹ کے آئینی اختیار کو ختم نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ رولز میں ترمیم فل کورٹ ہی کر سکتی ہے، اصل سوال یہی ہے کہ فل کورٹ بینچ تشکیل کی صورت میں اپیل کا حق غیر مو?ثر ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل سے کسی فریق کا اپیل کا حق ختم نہیں کیا جاسکتا، فل کورٹ کی تشکیل سے 184/3 میں اپیل کا حق دینے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ گزشتہ سال دسمبر میں جاری کیا تھا۔اس سے قبل سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں جسٹس شاہد وحید نے بھی اختلافی نوٹ جاری کیا تھا۔جسٹس شاہد وحید نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ عدلیہ اور انتظامی امور کو آئین نے الگ الگ طے کر رکھا ہے، عدالتی دائرہ اختیار میں اضافہ آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے، سادہ قانون سازی سے عدالت کو کوئی نیا دائرہ اختیار تفویض نہیں کیا جاسکتا، ججز کمیٹی اپنے رولز پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق ہی بنا سکے گی، ججز کمیٹی کا کوئی رکن دستیاب نہ ہو تو اس کی جگہ کون لے گا؟ قانون خاموش ہے۔

 

 

سابق کمشنر راولپنڈی کے دھاندلی الزامات، الیکشن کمیشن کا انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کا فیصلہ

اسلام آباد( چترال ٹائمزرپورٹ)عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کے الزامات کے حوالے سے انکوائری رپورٹ پہلے کمیشن اجلاس میں پیش کی جائے گی، الیکشن کمیشن انکوائری رپورٹ کی سفارشات پر من وعن عمل کرے گا۔الیکشن کمیشن نے تحقیقات کے لیے ممبر سندھ نثار درانی پر مشتمل ایک رکنی کمیٹی قائم کی تھی۔الیکشن کمیشن کے مطابق رپورٹ ڈسٹرکٹ اور ریٹرننگ افسران کے بیانات پر مشتمل ہے، کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ نے کمیٹی میں تحریری بیان جمع کرایا تھا۔واضح رہے کہ سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے انتخابات میں سنگین بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں ترجمان ای سی پی اور چیف جسٹس نے سابق کمشنر کے الزامات کی سختی سے تردید کی تھی۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
88538