Chitral Times

Jul 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ٹڈی دل کی وباء سے درپیش خطرات …….محمدآمین

شیئر کریں:


جہاں سے کورونا وائرس نے دنیا کو ازمائش اور پریشانی میں مبتلاء کیا ہے اور عالمی وباء کی صورت اختیار کر چکی ہے تو ساتھ ہی ٹڈی دل نے چند ممالک اور خصوصا پاکستان میں قہر خداوندی بن کر نازل ہوئے ہیں اور ہمارے لیے فوڈ سکیورٹی کی خطرے کی گھنٹیان بج رہے ہیں۔اوریہ اگلی بھیانک عالمی وباء (locust next pandemic)کی شکل اختیار کرنے والی ہے اگر چہ یہ مو ضوع بہت سے لوگوں کے لیے نیا اور بھیانک ہے کیونکہ ٹڈی دل ایک خاموش قاتل اور ایک دہشت گرد تنظیم کی طرح پاکستان میں داخل ہو چکا ہے لاکھوں ایکڑ کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہے اور پاکستان خوراک کے شدید بحراں کی جانب تیزی سے بڑہ رہا ہے اور یہ حملہ اتنی سنگین ہے کہ پاکستان میں ریاستی سطح پر اس سلسلے میں یکم فروری میں ایمرجنسی کا اعلان ہو چکا ہے جبکہ صوبہ خیبر پختوانخوا نے 29جنوری 2020؁ء کو صوبائی سطح پر ایمرجنسی کا اعلان کر چکا تھا۔


ٹڈی دل ٹڈیون یعنی grasshopersکی ایک مخصوص قسم ہے جو کہ شدید سبزہ خور ہوتی ہے ٹدیون کی سات ہزار اقسام میں سے 20جدید قسم کی سبزہ خور ہیں ٹڈی دل اپنی ساخت،شکل اور رنگ تبدیل کرتے رہتے ہیں اور جیسے جیسے ان کو خوراک ملتی رہتی ہے یہ مزید طاقتور اور خطرناک بن جاتے ہیں اور جہاں سے گزر جاتے ہیں فصلوں،سبز درختوں اور چراگاہون کا صفایا کر جاتے ہیں۔


ٹڈی دل کی تعداد میں اضافہ بھی بھیانک شرح سے ہوتی ہے ایک ماہ ایک دن میں 1000انڈے دیتی ہے اور نمی میسر اجائے تو ان میں سے سینکڑوں انڈون سے بچے نکل اتے ہیں جن سے ان کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ٹڈی دل کو دور سے دیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے جیسے گرد کا کوئی خطرناک طوفان یا گہرے سیاہ بادل اگے بڑہ رہے ہیں نئے ٹڈی دل میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ یہ زہریلے پودے اور پتے بھی کھا جاتا ہے اور اسے کوئی نقصاں نہیں ہوتا جو کہ اس کو مذید خطرناک بنا دیتا ہے ایک اندازے کے مطابق ٹڈی دل دن میں 90 میل سے زیادہ کا فاصلہ بااسانی طے کر سکتی ہے اور فصلوں کو چھٹ کر جاتی ہے۔یہ دانے دار فصلوں گندم،باجرہ،چاول،مکئی،چنا،دالوں اور پھل دار درختوں کی سخت تریں دشمن ہے جو کہ انسانی خوراک کے لئے نہایت اہم ہیں ایک اندازے کے مطابق ایک مربع کلومیٹر میں پھیلا ٹڈی دل لشکر تقریبا 35000انسانوں کی خوراک ایک دن میں چھٹ کر جاتاہے جیسے اس وباء کے بھیانک پن کا بخوبی اندازا ہو تا ہے۔


حالیہ تحقیق کے مطابق ٹدی دل کا موجودہ وباء کا اغاز خطہ عرب میں ربع الخالی کے علاقے میں دو عدد سائکلون انے کے باعث ان کو پانی اور نمی میسر ائے جس کے باعث ان کی افزائش میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا اور محض چند ماہ میں کروڑون اربون ٹڈی دل جمع ہوئے اور جیسے ہی موسم گرم ہوا انہوں نے یمن اور اومان کی جانب ہجرت کیے اور ایران کے راستے پاکستان اور جبکہ دوسری طرف افریقہ جا پہنچے یہ تو وہ سرکاری کہانی ہے مگر خود ٹڈی دل ماہریں حیران ہیں کہ کروڑن اربوں ٹڈی دل کی افزائش ربع الخالی جیسے صحرا میں اس قدر تیزی سے کیسے ہوئی جبکہ وہاں سبزہ بھی نہیں ہے؟جب ازاد ماہریں نے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یمن کے بارڈر کے ساتھ ربع الخالی کے صحرا میں انتہائی دور دراز اور ناقابل رسائی علاقے میں ایک خفیہ امریکی فوجی بیس ہے جس میں ڈرونز کا علاقائی اڈا بھی ہے جو یمن میں امریکی حملوں اور نگرانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جس کی تعمیر 2011؁ء میں ہوا تھا یہ بات بھی ایک اوپن سکرٹ ہے کہ چھوٹے جہازون اور ڈرونز کو مصنوعی بارش برسانے کے لیے عرصہ دراز سے استعمال کیا جارہاہے لہذا یہ بات بیعد از قیاس نہیں کہ امریکہ نے افریقہ،ایران،سوڈان اور پاکستان میں زرعی اجناس کو نقصان پہنچانے اور شدید زرعی بحراں پیدا کرکے خوراک کی کمی کا شکار کرنے کی کوشش کی،مصنوعی سائیکلون،نمی اور مصنوعی بارش سے وہاں (genetically modified locust)کی ایسی نسل کی افزائش کی جو تیزی سے بڑھتے ہیں جہاں سے ٹڈی دل وباء پھوٹی، اور ازاد ماہریں بھی وہاں سے ان لشکروں کے نکلنے پر حیران و پریشاں ہیں لہذا وہاں خفیہ امریکی فوجی بیس اور ڈرونز کی موجودگی کنپیرسی تھیوری کو تقویت دیتی ہے۔یاد رہے کہ (genetically modified locust) کی تیاری کوئی نئی بات نہی فصلوں کے لیے نقصاندہ حشرات الارض کو کھانے کے لیے اسی طریقے سے اور دیگر ٹڈیوں کی بڑے پیمانے پر لیبارٹری میں تیاری اوپن سیکرٹ ہے۔


یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عالمی اشرافیہ خوراک کی سپلائی کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے تاکہ جہاں ایک طرف وہ (genetically modified ) خوراک لوگوں کو کھلا سکیں وہاں عالم انسانی کو اپنا محتاج بھی بنا سکیں۔چنانچہ ایسے ٹڈی دل حملوں کے بعد بڑے پیمانے پے فصلوں اور زرعی زمینوں پر خطرناک کمیکلز کا اسپرے کروایا جائے جو بظاہر ٹدی دل کے خاتمے کے لیے ہو گا مگر اس کا اہم مقصد نیچرل فصلوں اور بیچوں کی تباہی اور زمینوں کی زرخیزی میں کمی ہو گا جس کے بعد جنیٹکلی موڈیفائیڈ بیجوں کے استعمال پے یہ ذور دیا جائے گا جبکہ زیادہ اجناس ملٹی نیشنل کمپنیوں سے خریدی جائے گی۔
اس وبا ء کو 2019-20؁ءlocus infestation کا نام دیا گیا ہے یہ وباء اب تک جن ممالک کو شدید متاثر کرچکی ہے ان میں پاکستان سر فہرست ہیں دیگر ممالک میں صومالیہ،یوگنڈا،یمن،سعودی عرب،ایران اور بھارت وغیرہ شامل ہیں۔ماہریں موجودہ ٹڈی دل حملے کو کورونا کے بعد ایک نئی اور خطرناک عالمی وباء قرار دیکر خبردار کررہے ہیں کہ اگر بروقت اس کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے تو خوراک کا ایک عالمی بحراں پیدا ہو سکتا ہے جسے لاکھوں لوگوں کی جان جا سکتے ہیں عالمی ادارہ خوراک نے اس عالمی ٹڈی دل وباء کے باعث عالمی سطح کے خوراک کے بحران کی پیشں گوئی کردی ہے اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران اس وباء سے شدید متا ثر ہو سکتے ہیں۔پاکستان میں حالیہ ٹڈی دل حملے سے نقصاں کا تخمینہ ملکی ماہریں کے مطابق 205 ارب ہو سکتا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق فصل ربیع کا نقصاں 353ارب روپے جبکہ خریف کا نقصان 464 ارب روپے تک ہو سکتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی زرعی یونیورسٹیز میں ہنگامی بینادوں پہ اس حوالے سے تحقیق کی جائے اور ٹڈی دل سے نجات کے طریقوں پر غور کرکے ایسا لائحہ عمل تشکیل دیا جائے کہ جس سے کم سے کم نقصاں ہو اور سائنس دانوں کے ساتھ مل کے ایسا اسپرے تیار کی جائے کہ جسے فصلوں اور زمین کی زرخیزی کو قطعا نقصاں نہ پہنچ سکیں اور بیروں ممالک سے خریدی اسپرے کو اپنے مقامی لیبارٹریز میں ٹیسٹ کیا جا سکیں تاکہ ان کے مضر اثرات سامنے ائے۔اس سلسلے میں ازاد عالمی ماہریں اور زراعت کے شعبے میں ترقی یافتہ اسلامی ممالک کے ماہرین سے بھی مشاورت لی جائے۔پاکستام جو کہ پہلے ہی خوراک کی شدید کمی کا شکار ہے اس وباء کا ہر گز متحمل نہیں ہو سکتا اور ملک میں ستر سال بعد ٹڈی دل کا یہ بدتریں حملہ ہے کراچی میں گزشتہ ستر سال جبکہ پنجاب اور کے پی کے میں نقصانت کا گزشتہ 25 سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
37618