Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ٰڈالرز کی اونچی اڑان اور عصاب شکن منہگائی کا طوفان۔ تحریر: قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ

Posted on
شیئر کریں:

ٰڈالرز کی اونچی اڑان اور عصاب شکن منہگائی کا طوفان۔ تحریر: قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ

قارئین کرام:

پاکستان کے اعلی حکام کی انٹرنیشنل مو نیٹری فنڈز کے ذمہ داران کے ساتھ قرض کے حوالے سے اجلاس کے بعد پٹرول، بجلی، گیس، اشیاء خوردونوش کے نرخوں میں عصاب شکن اضافے کا طوفان پاکستان کے غریب اور متوسط مزدور پیشہ عوام کے سروں پر ابھی تک منڈلا ر ہا ہے۔ 3مارچ 2023 کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک ہنگامی نیوز کانفرنس میں ملک کی معیشت کے جاری بحران کے سدباب میں ناکامی پر احتجاجا استعفے پرایک دفعہ پھر قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے آگاہ کیا کہ ملک کو کسی قسم کے ڈیفالٹ کا سامنا نہیں ہے۔ اس سال جون تک بجٹ خسارہ کم ہوجائے گا اور ملک میں معاشی استحکام پیدا ہوجائے گا۔ اس موقع پر اسحاق ڈار نے ملک کی معاشی بدحالی کا ذمہ دارسابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم کو قرا ر دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی معیشت کے استحکام کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق معیشت کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔لیکن پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے بار بار یقین دہانیوں اور ٹھوس اقدامات کے باوجود ملک کے عوام مہنگائی اور بے روزگار ی کی دلدل میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔

 

جس کے نتیجے میں ریاست کو بچانے کی دعویدار اتحادی حکومت کی اپنی تمام سیاسی ساکھ داؤ پر لگ چکی ہے۔ حکومت کو انتخابات کے دوران عوام کے شدید دباؤ کاسامناہے۔ قبل ازیں 2.3.2023 جمعرات کے روز پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکی ڈالرکی قیمت میں اچانک18روپے سے زائد کے اضافے کے بعد پورے پاکستان میں بونچال آگیا ہے۔ اس طرح سے پاکستانی روپے کی قدر میں ساڑھے چھ فیصد سے کچھ زیادہ کمی ہو گئی۔ معاشی ماہرین کے مطابق شرح سود، مہنگائی اور ڈالر کی اڑان تاریخی بلندیوں پرہے۔ ڈار صاحب کا سرنڈر ہونے کے باوجود اسٹاف لیول تک کا معاہدہ نہ ہوسکا۔ ان حالات میں 30جون تک 10 ارب ڈالرز کے ذخائر کیسے ہوں گے۔ تاہم اتحادی حکومت کے وفاقی وزیر اسحاق ڈار پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام پیدا کرنے اور ڈالر کو اپنی اصل قیمت190 تک لانے کے لیے کوشاں ہیں اور اگلے چند ماہ کے دوران پاکستان کے عوام کو مہنگائی اور بیروزگار ی سے نجات دلانے کے لیے پر امید ہیں۔ بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ جبکہ بلوم برگ نے اپنے سروے میں پاکستان میں 10 فیصد ڈیفالٹ کی نشاندہی کی ہے۔

قارئین کرام: پاکستان تحریک انصاف کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے باعث پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان حکومت کے خاتمے سے لے کر آج تک موجوہ حکومت پر قبل از وقت الیکشن کرانے کے لیے مسلسل دباؤ بڑھا تے ہوئے 26 نومبر 2022 کو راولپنڈی میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ملک میں جاری معاشی بحران میں مزید تیزی آتی جا ر ہی ہے۔ پاکستان کے غریب عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں۔ حکومتی اداروں کے تمام اقدامات اور کاوشوں کے باوجود مہنگائی اور بیروزگاری کاسیلاب تھم نہیں رہا۔ پاکستان میں اس سیاسی کھینچاتانی اورتناؤ کی وجہ سے حکومت کی رٹ بھی خطرے میں ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈر صاحبان ملک کو اس معاشی بھنورسے نکالنے کے لئے ایک ٹیبل پر بیٹھنے کی بجائے اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ملک کی معیشت سنگین دیفالٹ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس نازک مرحلے پر سپریم کورٹ بار نے بھی تمام سیاسی جماعتوں کو مزاکرات کرنے کی پیش کش کی ہے۔

 

قبل ازیں وفاقی وزیر خرانہ اسحاق ڈار نے صدر پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی سے خصوصی ملاقات کے دوران اس سنگین صورت حال کا بھی ذکر کرتے ہوئے ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو میثاق میعشت طے کرنے پر زور دیا۔جو ملک کی بگڑی معاشی صورت حال کی سنبھالہ دینے کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ شماریات ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق رواں ہفتے میں مہنگائی کی شرح میں 30.16 اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کھانے پینے کی 19 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور 23 اشیاء میں استحکام رہا۔ اس سنگین معاشی بحران کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح 45 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ صارفین کی قوت خرید بھی انتہائی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ 25نومبر2022 کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے اپنے اعلامیہ میں ملک میں مہنگائی کے دباؤ کے پیش نظر شر ح سود میں ایک فیصد اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔ شرح سود 15فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد کر دی تھی۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے 2 مارچ 2023 کے پالیسی ریٹ کے مطابق شرح سود 17.40فیصد مقر ر کر دی گئی ہے۔ جس کامقصدمہنگائی کو بڑھنے سے روکنا ہے۔

 

فنڈنگ کے باوجود بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ملک میں حالیہ سیلاب کے دوران فصلوں کے نقصان سے غذائی قلت پیدا ہوئی ہے۔ جاپانی بنک نے پاکستان کو رومانیہ، مصر،سری لنکا،ترکی،چیک ریپبلک اور ہنگری جیسے ممالک میں شامل کر دیا ہے۔ جو شدید مالی اور کرنسی کے خطرناک بحران کاشکارہیں۔ ان ممالک کے زر مبادلہ ذخائر، ایکسچینج ریٹ،مالی حالت اور شرح سود کی بے یقینی صورتحال ہے۔ بنک کے مطابق ایک ملک کو64 فیصد تک کرنسی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ معاشی اور اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کم ہوتی جا رہی ہے۔ مارکیٹ سے ڈالر غائب ہیں جس کا تمام تر بوجھ ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر اور ایکسچینج ریٹ پر پڑ ے گا۔پاکستانی روپے کی قدر کم ہو کر امریکی ڈالر کے مقابلے میں 280سے بھی زیادہ کی سطع پر جا رہی ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر کے قریب ہیں جبکہ سٹیٹ بنک کے پاس 8 ارب ڈالر سے بھی کم ہیں۔ ملک میں جاری سیاسی بحران کے اثرات ایکسچینج ریٹ پر بھی پڑ رہے ہیں درآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور برآمدات میں شدیدکمی دیکھنے میں آئی ہے۔ جس کی وجہ سے ڈالر میں ادائیگی ہو رہی ہے۔ سارے ڈالر ملک سے باہر جا رہے ہیں اور ملک میں ڈالر کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ پاکستان ی توانائی اور غذائی ضروریات کا دارومدار درآمدات پر ہے۔

 

جس کی ادائیگی ڈالر میں کی جاتی ہے۔ جب ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتاہے تو تیل اور غذائی ا شیاء کی قیمتوں میں اچانک اضافے سے عام آدمی کی قوت خرید بھی متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان میں عام شہریوں کی آمدنی اور بچت پاکستانی روپے میں ہوتی ہے جب روپے کی قدر گرتی ہے تو عام آدمی کا بجٹ کم ہو جاتا ہے۔ اگر ملک میں جاری کرنسی بحران مزید جاری رہے گا اور ڈالر کی اڑان 280روپے سے اوپر جاتی ہے تو ملک میں ایک مہنگائی کا نہ تھمنے والا طوفان آئے گا۔ جس کے نیتجے میں غربت اور بیروزگار میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔ ملک میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہو گا۔ لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ معاشی ماہرین کی رائے میں جب ملک کے کرنٹ خسارے میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے اور زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوتی جائے اور غیرملکی قرضوں اور سود کی ادائیگی میں مشکلات پیدا ہوجائیں تو ملک ڈیفالٹ کی جانب بڑھتا جاتا ہے۔ اس دوران بین الاقوامی مارکیٹ میں قرضے کے لیے جاری کردہ بانڈز بھی زیادہ شرح سود پر حاصل کئے جاتے ہیں۔ اور بین الاقوامی مارکیٹ میں کریڈٹ ریٹنگ اداروں کی جانب سے دیوالیہ شدہ ملک کی ریٹنگ بھی کم کر دی جاتی ہے۔ کرنسی کی قدر روز بروز گرتی جاتی ہے۔ جسے وینزویلا کے ملک میں ہوا جب یہ ملک دیوالیہ ہوا تو اس کی کرنسی کی وقعت اتنی نیچے گر گئی کہ وہ سڑکوں پر بھکری رہتی تھی اور اس ملک کے لوگ اپنی کرنسی کو پیروں کے نیچے روندتے ہوئے چلتے تھے۔ ملک میں سرلنکا جیسی صورت حال پیدا ہونے کے بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔

قارئین کرام: ملک کی بدلتی ہوئی صورتحال میں ناجائز منافع خور مافیا بھی قانون نافذکرنے والے اداروں اور ضلع انتظامیہ کے پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ ملک بھر کی افسر شاہی نے نئی آنے والی حکومت پر نظریں مرکوز کرتے ہوئے مہنگائی کے خلاف جاری آپریشن کو صرف کاغذی کاروائی اور فوٹو سیشن تک محدودرکھاہوا ہے۔افغانسان کا ایک مشہور قصہ ہے کچھ لوگوں نے ملک میں مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے کی کوشش کی افغانستان کے صدر داود خود بیس بدل کر شہر میں نکلے ایک کوچوان کے پاس آئے اور کہا پل چرخی جانا ہے کوچوان نے کہا چلونگا لیکن حکومت کے 20 روپے ریٹ پر نہیں جاؤنگا صدر داود نے کہاں پھر کتنا لو گے کوچوان نے کہا سرکاری ریٹ سے تھوڑا اوپر جاو صدر داود نے کہا 25 روپے لو گے کوچوان نے کہا تھوڑا اور اوپر جاو صدر داود نے کہا 30 روپے لو گے کوچوان نے کہا تھوڑا اور اوپر جاو صدر داود نے کہا 40 روپے لو گے کوچوان تھوڑا اور اور جاو صدر داود نے 45 روپے کہا کوچوان نے کہا بجاؤ تالی کوچوان نے کہا اتنی چال بازی کیوں کر رہے تھے کیا پولیس والے ہو صدر داود نے تھوڑا اور اوپر جاو کوچوان نے کہا آفیسر ہو صدر داود نے کہا تھوڑا اور اوپر جاو کوچوان نے کہا گورنر ہو صدر داود نے کہا تھوڑا اور اوپر جاو کوچوان نے کہا صدر داود ہو تو صدر داود نے کہا بجاو تالی کوچوان نے پوچھا آپ میرے ساتھ کیا سلوک کرو گے جیل میں ڈالو گے صدر داود نے کہا تھوڑا اور اوپر جاو کوچوان نے کہا 10 سال کی سزا دو گے صدر داود نے کہا تھوڑا اور اوپر جاو کوچوان نے کہا عمر قید کرو گے صدر داود نے کہا تھوڑا اور اور جاو کوچوان نے کہا پھانسی پر چڑھاو گے صدر داود نے کہا بجاو تالی اس کے بعد کبھی حکومت کے رٹ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔پاکستان کے منافع خور مافیاز بھی کئی برسوں سے حکومتی اداروں کی سرپرستی میں اس طرح سے عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے حکومت وقت کو ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
72131