Chitral Times

Jun 22, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

وہ دانائے سُبل, خَتمُ الرُسُل ,مولائے کُل…………………. قاری فدا محمد

Posted on
شیئر کریں:

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام ہر روز کروڑوں لبوں پر آکر  دلوں کو شادمانی، اَذہان کو تروتازگی، طبعیت کو راحت   و فَرحت  اور زِیست کے مَلال لمحوں کو نِہال  سے مالامال کرتا  رہتا ہے۔ ہمارےیہ لب اور ہمارے یہ دل صدیوں سے اسی نام سے لطف اندوز  ہوتے آئے ہیں، اور قیامت تک  لطف اٹھاتے رہیں گے۔ہر روز دِیجور شب کی لکیریںچھوٹتے اور عالم ِپر مَطلع ِانوار ہوتے  ہی ‘مُنادیِ حق و راستی ‘ کی صدائے دلآویز      و فَرحت انگیز سے دنیا کے چپے چپے پر بسنے والے اہل ایمان اپنے   مالِک و خالِق  کی کِبریائی کے ساتھ اس نام نامی پر دُرود و سلام کے نذرانے پیش کرنے لگتے ہیں۔   پھر جب مِہر ِ  نیم روز  اور آفتاب عالمتاب  جوبن سے گزر کر زوال کی جانب گامزن ہونے لگتا ہےتو اہل ِایمانکا گروہ رب کی عظمت کے ساتھ اس نام  کیزَمزَمَہ  پرَدازی میں مَحو ہوتا ہے۔  یوں صبح و شام پانچ مرتبہ  خالق ِ دوسَرا اور رب کون و مکان کے نام کے ساتھ رحمت العالمین کا ذکر بھی  اِس وسیع پیمانے پر چار سُو بلند ہوتا  رہتا ہے۔   حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اہل ایمان کی یہ مودَت و مَحبت  ، ان کے نام پر مرمٹِنے اور جان فدا کرنے کا جذبہ لطیف تاابد یونہی  ہنستا بستا اور شاد و آباد  رہے گا۔  اور کیوں نہ ہو، اس اُمت  تک  حیاتِ جاوِدانی  کا پیغا م پہنچاتے پہنچاتے جن اذیتوں اور تکالیف کے کوہ ِگِراں سے آپ ﷺ کو گزرنا پڑا تھا، جن دِقتوں اور آلام کا سامنا کرنا پڑا تھا، جن ذہنی و بدنی زخموں کو سہنا پڑا تھا،   اس کے عِوض  اللہ کی حمد و ثَنا کے بعد اُنہی کے حق میں تَحِیہ و تسلیم کے نذرانوں سے ہر وقت رَطبُ  الِلسان رہنا  بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ وہ جمال سحر انگیز، وہ حُسن عالمتاب، وہ سیرت  ِ فاتح عالم، وہ خُلق   دلبرا ، وہ کردار دلکُشاجس پر دل و جان ہی نہیں، ماں باپ، خویش و اَقارِت، اِحَبّاء و جَلِیس ، خود حیاتِ مُستعار اور  عمر عزیز سب کچھ قربان کرنا بھی بڑی بات نہیں۔

 

حسنِ کردار اور خُلق عظیم کی جھلک مُلاحَظَہ ہوں:  زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو کہ  نکاح کے بعد حضرت خدیجہ  رضی اللہ عنہاکی طرف سے آپ ﷺ کو  خدمت گزاری کے لیے تحفے میں ملا تھا، ایکروز ان کے عزیز و اقاربتلاش کرتے کرتے مکہ پہنچ گئے،  اور یہاں سے پتا لگانے کے بعد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر بھاری رقم کے عوض بیٹے کی آزادی کی التجائیں کرنے لگے۔   آپﷺ نے ان کی فریاد توجہ سے سنی  اور فرمایا” اِس کا فیصلہ بچے سے کرالیتے ہیں۔ اگر وہ آپ کے ساتھ جانے پر تیار  ، تو بغیر کسی عوض کے  آپ کے ساتھ کردیا جائے گا، اور اگر وہ آمادہ نہیں ، تو میں  اُن پر زبردستی نہیں کروں گا۔”  زید کے اَقارِب کہنے لگے کہ اس سے بڑھ کر انصاف کی بات کیا ہوسکتی ہے۔ الغرض زید کو بلاگیا، اور حضور ﷺ نے پوچھا: “زیدکیا  ان لوگوں کو جانتے ہو؟ ” زید نے اِثبات میں جواب دیا، تو آپ نے فرمایا کہ ” یہ تمھیں  لینے آئے ہیں، کیا تم ان کے ساتھ جانے  کے لیے تیا ر ہو؟ ” زید  نے جواب دیا، ” نہیں !میں آپ کو چھوڑ کر ان کے ساتھ جانے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔”

 

سبحان اللہ!  کیا شان ہے اُس  خُلق ِ عظیم کی، جن کی آغوشِ مَحبت عرصہ سے ماں باپ کی مُفارَقَت سہنے والے بچے کو ہاتھ آئی آزادی بلاتامّل مسترد  کرادیتی ہے۔واضح رہے کہ یہ قبل از نُبوَّت کا واقعہ ہے۔  وہ  جہالت زدہ  اور گندگی سے مَملو معاشرہ جس کے  ہر سو   کفر و ضلَالت ، فِسق و فُجور  ، بغض و عِناد اور عَداوَت و کَدُورَت کی  سِیاہ گھٹا ئیں  چھائی رہتی تھیں،ہَوَس و  خود غرضی  ان کی گَٹھی میں پڑی تھی، قتل  ومُقَاتَلہ  اور جنگ و جَدَل  جن کا مَحبوب مشغَلہ تھا،طاقت  ور کو اپنی طاقت کے بے جا استعمال سے کوئی چیز روکنے والی تھی نہ مظلوم کی داد رسی کی کوئیسبیل پائی جاتی تھی۔ طاقتور کو    مَظالم کا بازر گرم کرنے کا حق  حاصل تھا، اور بے کَس  بَربَریت کی چکی میں پسے جانے کا سزاوار  مانا جاتا تھا۔ اِس کے باوجود انسانیت  پوری طرح مری نہیں تھی بلکہ اس کی رَمَق کسی  گوشے  میں  آدھ مُوا    اور نیم   بسمل صورت میں  بِلبِلاتی  آخری سانس لی رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مشرکین ِ مکہ  خودسَرا پا سَرکش و ناہَنجار ہونے کے،آپ ﷺ کےحُسن کردار  ، شرافت و شائستگی ، ملُائِمت و نرم خوئی ، صداقت و  دیانت  اور غریب  نوازی و مظلوم پروری  کی خوئے دلنواز  اور خَصائلِ کریمانہ سے یک گونہ متاثر تھے۔پھرنبوت سے سرفراز ی کے بعد آپ ﷺ اُسی اَخلاقی اسپرٹ  اور کردار کی بلندی کے ساتھ لوگوں کو دین حق کی طرف بلانا شروع کیا ۔ مگر مَحاسِن اور اوصاف حَمیدہ کے معترف ہونے کے باوجود مشرکینِ قریش  کی  اکثریت حق  و صداقت کی آواز پر لبیک کہنے کے بجائے مخالفت پر اتر آئی۔

 

اہل مکہ کی طرف سے  مخالفت کی ابتدا تضحیک و اِستہزاء  سےہونے لگی۔ جوں جوں مخالفت میں تیزی آنے لگی، تو نبی کریم ﷺ کی دعوت کو پایۂ اعتبار سے گرانے کے لیے سُوقِیَانہ مُغلظات بکنے کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈہ کے ماہر استادوں  نے گوناگوں القابات  گھڑنے شروع کردیئے۔ گلی گلی ، قریہ قریہ  مکہ کے پروپیگنڈہ کے ماہرین ڈھنڈورا   پیٹتے پھیر نے لگے ۔ رفتہ رفتہ اِستہزاء ، اَلقاب طَرازی اور گالی گلوچ کی مہم غنڈی گردی کا رنگ اختیار کرتی چلی گئی۔  شریر اور منفی رُجحانات کے حامل لوگ جب تَضحیک اور دُشنام طرازی  کو ناکام ہوتے دیکھتے ہیں تو اگلا قدم غنڈہ گردی کا لیتے ہیں۔ اس مُعامَلے میں ابو لہب  کی کارِستانیوں کے ساتھ ساتھ اس کی بیوی کی  اذیتناکیاں بھی بیان سے باہر ہیں۔ وہ بِلاناغہ کئی سال تک آپ ﷺ کے راستے میں غِلاظَت اور کانٹے جمع کرکے ڈالا کرتی تھی اور آنحضور کو روزانہ راستہ صاف کرنے کی دِقَّت اٹھانی پڑتی تھی۔  کبھی نماز کے دوران گلے میں چادر ڈال کر مروڑ نے کی کوشش کی گئی توکبھی  راہ چلتے  کسی شَقی نے سر پر مِٹی ڈال  کر ستانے  اور پَریشاں  کرنے پر اتر آیا ۔ایک دفعہ تو ابو جَہل کے مشورے پر عُقبہ  نے غَلاظت بھری اونٹ کی اوجھڑ ی لاکر دورانِ نماز عین سجدے کی حالت میں آپ ﷺ کے اوپر ڈال دی ، اور خود “جہالت کے باپ”  کارِندوں  کے ہمراہ قریب سے  قَہقَہوں کی مجلس گرم کر رکھی تھی ۔  جب یہ ساری کارستانیاں بے معنی معلوم ہوئیں ، تو ظالموں نے  بنو ہاشم کے ساتھ مُقاطَعَہ کا فیصلہ کیا،  جس کے سبب آپ ﷺ مع خاندان  کے  تین سال تک شِعب اَبی طالب میں پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔   اُس دوران کی  بِیتی سختیاں  اور سہَتے اَحوال  ایسے ہیں کہ سن کر پتھر دل بھی موم ہوجائے۔ مگر قریش تھے کہ یہ سارا منظر دیکھ کر  ٹَس سے مَس نہ ہوئے۔    پھر ایک واقعہ کے بعد   ہِشام بن عمرو کے دل میں انسانی جذبہ  نے اَنگڑائی لی، اور اُنہی کی تحریک سے بالآخر اس ظالمانہ نظری بندی کا خاتمہ ہوا۔

 

اہل مکہ کی طرف سے  جب مخالفتیں اور اِیذا رِسانیاں بامِ عروج کو پہنچیں تو  آپ ﷺ نے اللہ کے دین کی دعوت پہنچانے کے لیے طائف کا قَصد فرمایا۔ مگر یہاں  کے حالات مزیددرد انگیزی  لیَے منتظر تھے۔ آپ ﷺ حضرت زید بن حارثہ کو لیکر طائف پہنچ گئے اور بنو ثقیف کے سرداروں کے پاس جاکر بہ طریقِ اَحسن  انھیں اللہ کے دین کی طرف پکارنے لگے۔۔۔ مگر آگے سے جوابات آتے ہیں؟

ایک نے کہا: ۔ “اگرواقعی خدا نے ہی تم کو بھیجا ہے تو بس پھر وہ کعبہ کا غلاف نچوانا چاہتا ہے۔”

دوسرا گویا ہوا:۔ ” ارے! کیا خدا کو تمھارے علاوہ رسالت کے لیے کوئی اور مناسب آدمی نہ مل سکا۔”

تیسرا بولا:۔ “خدا کی قسم ! میں تجھ سے بات بھی نہیں کروں گا۔ کیونکہ اگر توا پنے قول کے مطابق واقعی اللہ کا رسول ہے، تو پھر تجھ ایسے آدمی کو جواب دینا سخت خلافِ ادب ہے۔ اور اگر تم نے خدا پر اِفتراء باندھا ہے تو اس قابل نہیں ہو، کہ تم سے بات کی جائے۔”

 

ان بدبختوں کی گفتگو  گویا زَہر میں بجھے ہوئے تیر تھے جو انسانیت کے محسنِ اعظم  کے سینے میں پے درپے پَیوَست ہوتے  جاتے تھے۔  پھر اسی پر صاد نہ کیا گیا، بلکہ طائف کے اَوباشوں کوپیچھے لگالیا گیا،  غُنڈوں کی  طرف سے سنگباری شروع  ہوئی آوازیں کَسی گئیں اور  ہنگامہ رچایا گیا۔۔۔۔۔آہ!  وہ   غرور کا رَوَیّہ ، وہ توہین آمیز سلوک، وہ پتھروں کی بارش، وہ زخم زخم بدن،  وہ نعلین مبارک کا  خون سے بھرنا اوروہ بے حال ہو کر رہنا۔۔۔   اللہ ، اللہ  رحمتُ العالَمین کے ساتھ یہ سلوک!   اس حالت میں  آپ ﷺ ربیعہ کے بیٹوں کے باغ میں پہنچ گئے، نماز دوگانہ ادا کی اور رب العالمین سے فریاد کناں ہوئے:

 

” الہٰی! اپنی قوت کی کمی، اپنی بے سروسامانی اور لوگوں کے مقابلے میں اپنی بے بسی کی فریاد تجھی سے کرتا ہوں۔ تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحیم ہے۔ درماندہ بیکسوں کا پروردگار تو ہی ہے۔ تو ہی میرا مالک ہے آخر تو مجھے کس کے حوالے کرنے والا ہے۔لیکن اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو پھر مجھے کسی بات کی  پروا نہیں ۔”

 

پھر آپ ﷺ اپنے مَحبوب ترین مَسکن کو الوداع کہتے ہوئے مدینہ کے نئے ماحول میں پہنچتے ہیں، وہاں اسلامی ریاست کے خَدوخَال  ترتیب دینے کے بعد اِقامت دین کی سَعی وجُہد میں درپیش مشکلات، منافقوں کی ہَرزَہ سَرائیوں اور یہود کی کارستانیوں کے ساتھ مسلسل نَبرد آزما رہتے ہیں۔ بیرونی حملہ آوروں سے نَوزائدہ اسلامی ریاست کی حفاظت، اور اس سلسلے میں بدر، احد، اَحزاب ، موتہ اور حُنین کے بڑے بڑے معرِکوں  اور جاں گُسِل لمحات کے علاوہ  چھوٹی موٹی لڑائیوں اور معرِکوں کی تکالیف مسلسل سَہہ لیتے ہیں۔  منافقین مدینہ کی کارستانیاں اور یہودِ یَثرب کی سازشیں   اپنی اذیتناکی میں مشرکین مکہ کے مظالم سے کچھ کم نہ تھیں۔  اُن کے مَظالم عَیاں اور اِن  کی شرارتیں نِہاں ہوتی تھیں، اُن کی غضبناکی برملا اور اِ ن کی سازشیں مخفی ہوتی تھیں۔ وہ اَجسام کو مجروح کرنے کے درپے رہتے تھے اوریہ اذہان کو ٹیس پہنچانے میں مصروف تھے۔  یعنی حضور ﷺ  اور ان کے جانثاروں کی مَدَنی زندگی  بھی کوئی عیش کوشی اور سہولت کی زندگی نہ تھی۔ یہاں ہر دَم تیار اور ہر لمحہ بیدار رہنا پڑتا تھا، ہر وقت ایمرجنسی کی سی کیفیت طاری رہتی تھی۔ کسی  وقت کچھ  بھی ہونے کا خطرہ و اندیشہ  یکساں جاری  و ساری ہی رہا۔   چاروں طرف کے دین دشمن عَناصِر  مُٹھی بھر اہل ایمان کو نگِلَنے پر تلُے ہوئے تھے۔  مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اہل ایمان کے پائے اِستِقامت کو ایسا استحکام بخشا کہ کوئی خطرۂ رُستاخیز ، کوئی طوفانِ شراَنگیز  اور کوئی آفت بلا   خیز  ایک منٹ کے لیے بھی انھیں ڈَگمگا سکا   اور نہ  لزرہ طاری کرسکا۔  اَحزاب کا مَعرِکہ ایک سخت مرحلہ تھا۔ گویا یہ  اَعدائے دین کا اَکھنڈ تھا،  کفر  اپنی پوری قوت سے فیصلہ کن حملہ کرنے آیا تھا، بنو قُرَیظہ  والے لشکرِ کفار  کی کثرت کو دیکھتے ہوئے سمجھ بیٹھے کہ    ہو نہ ہو ،اب مسلمانوں کا صَفایا ہوگا، اس لیے وہ   “میثاق  مدینہ ” کے عہد و پَیمان کو پامال کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف بیرونی حملہ آوروں کی اِعانت  پر کمر کَس لیے۔ اور پیچھے سے وار کرنے کا تہیہ کرلیا۔    مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ یہ  ساری تدبیریں رائیگان گئیں، تمام منصوبے خاک میں رَل مَل گئے، ساری کاوِشیں اپنی موت آپ مرگئیں۔  اللہ تعالی نے اس موقع پرنعیم بن مسعود کو ایمان کی دولت سے نواز کر یہود و مشرکین کے درمیاں غلط فہمی پیدا کرنےکا سبب بنایا۔اس طرح  اَعدائے دین  کا یہ اَنبوہ ِعظیم  ایک ماہ کی  بے مقصد  اور لا حاصل تگ و تاز کے بعد بے نِیل ِ مَرام واپس ہوا۔     پھر  صلح حدیبیہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو برگ و بار لانے اور پھلنے پھولنے کا زبردست موقع فراہم کیا۔ مُلوک و سَلاطین کو اسلام کا پیغام پہنچایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے پیام ِ آخرین  کی دعوت عرب سے  نکل کر عجم کی سرزمین میں  داخل ہوگئی ، مرکز اسلام (مکہ معظمہ)  کو مشرکین کی نَجاست  و خَباثت سے پاک اور کفر کے تسلط سے واگزار کردیا گیا۔ اور اس موقع پر  بحر ِرحمت کی لہریں جوبَن پر دکھائی دیں ۔اورسَفّاک  دشمنوں ،  رُفَقاء کے قاتلوں ، اور بے پناہ اذیت پہنچانے والوں سے دَرگزَر کا مُعامَلہ فرماکر آپ ﷺ نے  دنیا کے لیے وہ مثال  پیش کردی جس کی نظیر  چشم فلک نے پہلی دیکھی تھی نہ بعد میں اس کی مثل پیش کی جاسکتی ہے۔  جس عورت  نے ہر موقع پر سرگرمی سے مخالفت کی تھی، جنگ احد میں آپ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ  رضی اللہ عنہ کا  مُثلہ کیا تھا، بلکہ ان کا کلیجہ چَباگئی تھی۔ چہرہ چھپا کر حاضر خدمت ہوئی ۔ یہ خاتوں حالات سے مجبور ہو کر اسلام قبول کرنے آئی تھی۔ لیکن اس لمحے بھی اس کی زبان دراز ہی رہی اور عجیب ٹیڑھی باتیں شروع کردیں۔

کہنے لگی: اے خد کے رسول ﷺ ! آپ ہم سے کن باتوں کا اِقرار لیتے ہیں؟

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  “خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔”

گویا ہوئی:  یہ اقرار  آپ مَردوں سے تو نہیں لیا ، مگر خیر۔  ہمیں یہ بھی منظورہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: “چوری نہ کرو۔”

ہندہ نے کہا:  میں اپنے شوہر ابوسفیان کے مال میں سے دو چار درہم کبھی کَبھار نکال لیتی ہوں۔ معلوم نہیں کہ یہ بھی جائز ہے کہ نہیں؟

آپ ﷺ نے فرمایا: ” اولاد کو قتل نہ کرو”

ہندہ نے کہا: ہم نے بچپن میں ان کوپالا۔ بڑے ہوئے تو (جنگ بدر میں ) آپ نے  ان کو قتل کرڈالا۔ اب آپ جانیں اور وہ۔

خاتوں کے جوابات  دیکھیے!  یہ اِس وقت جان بخشی کے لیےحاضر ہوئی تھی۔یہ جیسا قبول اسلام  تھا،  وہ ظاہر ہے ۔ پھر گستاخانہ انداز کلام ، کوئی بھی دوسرا ہوتا تو ہر گز گوارا نہ کرتا۔ یہ حضورﷺ کا بے پایاں حلم تھا جس سے ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا تھا۔

 

یوں آپ ﷺ نے اللہ کے دین  کو عملی صورت میں زمین پر نافذ کرنے کے ساتھ اس کی باگ تھامنے والے پاک طِینَت افراد پر مشتمل  ایک زبردست جماعَت  تیار کرکے  اپنے رفیق اَعلیٰ سے ملنے کے سفر پر روانہ ہوگئے ۔آپ ﷺ  نےتییس سالہ جِدُّو جَہَد کے ذریعے انسانیت کو حیاتِ نو  سے مالا مال کیا،  زندگی کے قافلے کو رَہزنوں کے نرغے سے نکال کر صراط مستقیم پر لانے کے لیے خوفناک اذیتیں سہیں اورکشمکش کے سنگین مراحل پار کیے۔ مشکلات کے کوہ گراں کاٹے  اور اس کارنامے کو سرانجام دیکر اہل دنیا سے کوئی صِلہ طلب کیے بغیر اپنے رب کے پاس جاپہنچے۔  صلو ا علیہ وآلہ

یا صاحب الجمال و یاسید البشر

من وجہک المنیر لقد نُور القمر

لا یمکن الثناء کما کان حقہ

بعدا ز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
2503