Chitral Times

Jul 3, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

والد صاحب کے بغیر ایک سفر……گل عدن

شیئر کریں:


 تمہاری یاد میرے دل کا داغ ہے لیکن ‘
سفر کے وقت تو بےطرح یاد آتے ہو ۔۔!!


نجانے شاعر نے یہ شعر کس خیال میں لکھا ہو گا مگر میں جب سفر پر نکلتی ہوں تو مجھے میرے والد صاحب بے تحاشہ یاد آتے ہیں ۔شایداسلیئے بھی کے والد صاحب کے ہوتے ہو ئے ہم نے کبھی کوئی چھوٹے سے چھوٹا سفر بھی ان کے بغیر نہیں کیا تھا ۔بس ایک اتفاقیہ سفر انکی وفات سے چند دن پہلے انکے بنا کرنا پڑگیا جس نےمجھے آنے والے وقت کا نقشہ بھی دکھا دیا اور بہت کچھ بتا دیا ۔ویسے تو ہمیشہ کی طرح سفر کی تمام ضرورتیں پوری تھیں مگر نجانے کیوں کوئی بہت بڑی کمی مجھے اندر ہی اندر گھلا رہی تھی ۔وہ دس بارہ گھنٹے کا سفر مجھے دس صدیوں کےبرابر لگا ۔میں بیان نہیں کرسکتی کے وہ دشوار ترین سفر کیسے اختتام کو پہنچا ۔ذہن عجیب و غریب خیالات کا آماجگاہ بنا رہا ۔تمام راستے مجھے ان لوگوں پر بے تحاشہ ترس آیا جو زندگی کا طویل سفر اپنے والدین کے بغیر طے کر رہے ہیں ۔اور ان لوگوں میں پہلا چہرہ میرے اپنے والدین کا تھا۔مجھے اپنے ماں باپ سے بےحد ہمدردی محسوس ہو ئی ۔جو اپنے والدین کے بغیر نجانے کس دل سے جی رھے ہیں ۔اوور تھنکنگ میری سںب سے زیادہ بری عادت ہے اسی عادت کی وجہ سے میں اکثر ذہنی اذیت کا شکار رہتی ہوں ۔یہاں بھی میں خود کو باوجود کوشش کے ان تکلیف دہ خیالات سے باز نہیں رکھ سکی ۔پورا ہفتہ اسی خوف میں گزر گیا کہ اگر خدا نخواستہ ہمیں بھی آئندہ زندگی والد صاحب کے بغیر گزارنا پڑا تو زندگی کیسے کٹے گی۔میں ان اذیت ناک واہمات کو جھٹلا نے میں ناکام ہو گئی یوں اک شام والد صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ دیکتھے ہی دیکتھے اپنے آخری سفر پر اکیلے روانہ ہو گئے ۔میرے بدترین خدشات سچ ثابت ہو گئے ۔


کتنا فرق ہوتا ہے باپ کے ساتھ میں اور باپ کے بغیر ۔یہ تو اس اک دن کی سفر نے ہی بتادیا تھا ۔وہ اک دن کا اذیت ناک سفر اب میری پوری زندگی کا قصہ ہے ۔باپ کے سائے میں دشوار یاں ‘دشوار نہیں لگتی ۔کیونکہ وہ خود مشکلات سہہ کر ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرتا تھا ۔مجھے یاد ہے جب وہ ساتھ تھے تو راستے میں کوئی جگہ بے رونق نہیں لگتی تھی ۔خشک سنگلاخ پہاڑوں میں اور جنگلی جھاڑیوں میں بھی عجب حسن تھا ۔راستے کے پتھر بھی حسین لگتے تھے ۔مٹی سونا لگتی تھی مگر اب پتھر صرف پتھر نظر آتے ہیں ۔اور خاک خالصتاً خاک نظر آتی ہے ۔پہاڑ اپنی دلکشی کھو چکے ہیں ۔دریاؤں کا حسن ماند پڑ چکا ہے اب وہ صرف بہتا پانی ہیں ۔ماں باپ کے بغیر زندگی ایسے ہی ہو تی ہے ۔ان کے بعد ہزار اچھے دوست مل جائیں ۔بہن بھائی کا مضبوط سہارا مل جائے مگر ماں باپ کا وہ محبت بھرا لمس دوبارہ نہیں ملتا ۔دنیا کی ہر نعمت مل جاتی ہے مگر ماں باپ کی وہ شفیق آواز پھر سنائی نہیں دیتی ۔سگے بہن بھائی سے بھی وہ تحفظ بھرا احساس نہیں ملتا جو بوڑھے باپ سے ملتا تھا ۔دنیا کا کوئی دوسرا رشتہ کوئی ساتھ ماں باپ کا نعم البدل نہیں ہو سکتا ۔


اس تحریر کو لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کے اگر آپ کے سر پر ماں باپ کا سائہ سلامت ہے تو اپنی خوش قسمتی پر اللہ کا شکر ادا کر یں۔اگر آپکے والدین بوڑھے ہیں تو انہیں بوجھ مت سمجھیں ۔یقین جانیں وہ بوڑھا وجود آپ کے گھر کی سلامتی اور بقاء کا بنیادی سبب ھیں ۔اپنے والدین کی جتنی زیادہ ہو سکے خدمت اور قدر کریں کیونکہ ماں باپ تیری جنت بھی ہیں جہنم بھی ۔
ھما جنتک و نارک ( ابنِ ماجہ )۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
41882